pin up casinomostbet1winpin up

Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

قائد اعظم کا تصورآئین

تحریر و تحقیق ۔ وقاص احمد خان


بیسویں صدی میں عالمی سیاست کے فلک پر نامور رہنماو¿ں کی ایک کہکشاں جگمگارہی تھی اتاترک،چرچل،مہاتما گاندھی،گوربچوف،نیلسن مینڈیلا ،جمال عبدالناصر،روزویلٹ،ماو¿زے تنگ نامی گرامی رہنما تھے۔مگر ان سب میں ہمارے قائد اعظمؒ ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔سٹینلے ولپرٹ ’ جناح ان پاکستان‘ میں رقمطراز ہیں ۔ ”چندنمایاں شخصیات نے تاریخ کا دھارا بدلا۔چند نے دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں کیں۔
معدودے چند نے قومی ریاست تشکیل دی جبکہ محمد علی جناح ؒنے تینوں کام سرانجام دئیے۔“
قائد اعظم کی کامیابی کا رازان کی سچائی اور اخلاص میں پنہاں تھا قائد اعظم کی زندگی کے کسی پہلو سے بھی ان کے منافقانہ کردار کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔وہ نظریہ ضرورت کے تحت اپنے نظریات اور عقیدے کونہیں بدلا کرتے تھے انکی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں انکے شدید مخالفین بھی کوئی واقعہ پیش نہیں کرسکتے جہاں انہوں نے مصلحت کی آڑ میں اصولوں سے انحراف کیا ہو۔یہی ایک سچے راسخ العقیدہ مسلمان کی شناخت ہے۔قائد اعظمؒ کاایمان پختہ اور عشق رسول ﷺمسلمہ تھا۔ ان کی تقاریر پاکستان کے آئین کے بارے میں ان کے نظریات کی بھرپور عکاس ہیں انہوں نے واضح الفاظ میں مسلمان قوم کے متعلق کہا ہے
”ہم اپنی نمایاں تہذیب،ثقافت،زبان،ادب،فنون،اخلاقی اقدار،ضابطہ و قانون،عادات غرضیکہ ہر بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے مطابق ایک جدا قوم ہیں“۔
ایک دفعہ جب ان سے پاکستان کے قانون کے متعلق سوال کیا گیاتو انہوں نے نہائت برملا انداز میں قرآن کو پاکستان کا قانون کہا جسکے قوانین کو کوئی شخص جھٹلا نہیں سکتا۔ دسمبر1947 میں کراچی میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس کے اجلاس میں جب مولانا جمال میاں فرنگی محل نے سوال کیا کہ کیا پاکستان ایک مسلم ریاست کہلائے گا تو قائد اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا
”یہ بات واضح ہو جانی چاہئیے کہ پاکستان ایک اسلامی اصولوں پر قائم ایک مسلم ریاست کہلائے گا“
پاکستان کی تمام عوام ایک ایسے نظام کی خواہش رکھتی ہے جس میں بنیادی حقوق انھیں دےئے جائیں، معاشی طور پر انھیں پر یشانی کا سامنا نہ ہو، امن و سکون کی زندگی ہر پاکستانی کا دیرینہ خواب ہے۔ کیونکہ بلا امتیاز، رنگ و نسل و مذہب ہر ایک انسان چاہتا ہے کہ اس کی مرضی کی زندگی کسی کے بیرونی مداخلت کے بغیر گذرے۔ نظریہ چاہے کوئی بھی ہو، جبر کے ذریعے کسی پر مسلط کرنے کی اجازت دنیا کا کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو نہیں دےتا۔ اسلام توخود امن و سلامتی کا نام اورمکمل نظام حیات ہے اور دین میں جبر کا ازخود سب سے بڑا مخالف ہے لہذا کسی بھی قومیت کا شہری اس حوالے سے متضاد رائے نہیں رکھتا کہ اسلام کے نام لیوا کبھی بھی اصلاح کے نام پر فساد کے پھیلاﺅ کا سبب نہیں بنیں گے۔
اسلامی تشخص میں اس بات میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ اسلام محبت، خلوص اور تدبر کے ساتھ عملیت پسندی کی تعلیم دینے والا آفاقی دین الہی ہے۔ جس میں تحریف کےلئے خود اس کے ماننے والوں نے اپنے درمیان تفرقے کی دیوار اونچی کی اور تفریق کے ذریعے اللہ کی رسی کو تھامنے کے بجائے مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ اب ان تفرقوں میں بٹ جانے والوں نے اپنے نظریات کو اسلام کا لبادہ دے کر دوسرے مسلک پر زبردستی حاوی کرنے کی کوشش کی ہے تو ایسے کوئی باشعور درست نہیں سمجھے گا۔ جب ہم قومیتوں کی بات کرتے ہیں تومیں ایسے اس طرح لیتا ہوں جیسے ایک پختون قوم ہے، اور اس میں پشتو زبان دوسروں کےلئے ایک زبان ہے لیکن سب اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کسی بھی خطے کی زبان ایک جیسی نہیں ہے بلکہ ہر تھوڑے فاصلے کے بعد اس میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے اور بولنے والا ایسے جب اپنے علاقائی لب و لہجے میں بیان کرے گا تو بادی النظر یہی لگے گا کہ پٹھان بات کر رہا ہے۔ لیکن نسلی طور پر پٹھان، پختون، پشتون، افغان ایک ہی ہیں اور اس میں بھی مختلف قبیلے ہیں۔ اسی طرح سندھ، پنجاب، بلوچ، اردو سمیت کسی بھی زبان کو لے لیں اس کی بنیادی ادائیگی زمینی فاصلوں کی وجہ سے تقسیم ہوکر تبدیل ہوجائے گی لیکن با حیثیت قوم اس کی نسل افغان، پنجابی، بلوچی، بروہی یا کوئی بھی ہو وہی قومیت کہلا ئے گی۔ پاکستان کی سلامتی بقا ءکا کوئی بھی دشمن جس لبادے میں بھی ہو ایسے پاکستان سے زیادہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کےلئے ایسے عناصر کی ضرورت ہوتی ہے جن کے ذریعے بین الاقوامی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ اسی لیے سیاسی طور پر پاکستان کی صورتحال معلق و غیر یقینی رہتی ہے۔ دفاعی طور پر مختلف طریقہ کار اختیار کرکے پورے پاکستان میں ایسی فضا پیدا کردی گئی ہے کہ مقاصد پاکستان کا حصول جن نظریات کے تحت کیا گیا تھا وہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی دریائے بنگال میں ڈوبو دینے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کی بنیاد صرف دو قومی نظرےے پر رکھی گئی تھی اور نظریہ کبھی بھی ایک دو سال کی پیداوار نہیں ہوتا کہ متحدہ ہندوستان کے حامی یکدم پاکستان کے بانی بن گئے بلکہ تاریخ میں پسنے والی قوموںمیں انقلاب مختلف ادوار میں پیدا ہوتے ہوئے آتش فشاں بن جاتے ہیں اور ایک دن وہ لاوا پھوٹ کر تباہی مچا دیتا ہے۔
قائد اعظم کی 11اگست1947کو قانون ساز اسمبلی سے کی گئی کی تقریر بھی اسی نظرےے کے متن کے تحت تھی۔ قائد اعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان بننے کے بعد فلاں فرقے یا مسلک کی حکمرانی پر مبنی آئین بنایا جائے گا اور اگر کوئی نہیں مانے گا تو اس پر جبر سے نافذ کیا جائے گا۔قصور صرف ا±ن مورخوں کا ہے جنھوں نے دو قومی نظرےے کو متشدد بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا۔شدت پسند طبقہ جسے ہم باہمی نفاق کے باوجود ایک سمجھتے ہیں وہ بھی دو قومی نظرےے کے تحت اپنے اپنے مسلک کی اجارہ داری اس طرح چاہتا ہے کہ اس کے مسلک والے مسلم، باقی دوسرے غیر مسلم ہیں۔ پاکستان میں جو لہر شدت پسندی کی ابھری ہے وہ بھی چند مہینوں کی پیدوار نہیں ہے بلکہ غلط ملکی و خارجہ پالیسوں نے آج قائد اعظمؒکے گھر میں آگ لگا دی ہے۔
جناحؒ نے جب پاکستان کی کابینہ تشکیل دی تو اس میں بھی غیر مسلم شامل تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان کسی خاص شارح کے مطابق بنایا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو علمائے دیو بند پاکستان بننے کی مخالفت کیوں کرتے۔ انہیں تو ایک مسلم حکومت کےلئے بھرپور ساتھ دینا چاہیے تھا۔ پاکستان مذہبی آزادی کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ جس میں تمام مذاہب اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکےں۔ ا±س وقت حالات و وقعات اس طرح رونما ہوچکے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد فرقہ وارانہ مذہبی تشدد کی بنا ءپر مذہبی آزادی ختم ہوجاتی اس لئے مذہبی آزادی کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان کو ہی ہر پاکستانی اپنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی بنیاد مذہبی آزادی، احترام انسانیت، بھائی چارے، امن و سکون پر رکھی جائے۔ کیونکہ یہی عوام چاہتے ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک “پاکستان” بنانے کے لئے دو قومی نظریہ کی اساس کو تسلیم کرنا ہوگا۔ دو قومی نظریہ سے مراد کسی مذہب کے پیروکاروں پر جبری اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا نہیں بلکہ امن و سلامتی کے تصور سے دلوں کو مسخر کرنا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد بحیثیت گورنر جنرل، فروری ۸۴۹۱ءمیں اہل امریکہ کے نام براڈ کاسٹ پیغام میں واضح طور پر کہا کہ” پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کاآئین مرتب کرنا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخری شکل کیا ہوگی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار جمہوری انداز کا ہوگا۔ اسلام کے یہ اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی پر منطبق ہوسکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *