جنوبی ایشیا میں رہنے والا کوئی ایساشخص نہیں جو مشہور دیہاتی کھیل”گلی ڈنڈا“ سے واقف نہ ہو۔ بچپن کے خوش گوار دنوں میں ہم میں سے ہر ایک نے شہروں اور دیہات کی گلیوں میں کھیلا جانے والا یہ کھیل کھیلا ہو گا یا دُوسروں کو کھیلتے ہوئے دیکھا ہوگا۔روایتی طور پر اس کھیل میں ایک ڈنڈا اور ایک گلی استعمال ہوتی ہے۔ ڈنڈا ایک چھڑی ہوتی ہے جب کہ گلی لکڑی کی چھوٹی سی بیضوی شکل کی ہوتی ہے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے ہم پتھر پر گلی کو کیسے متوازن رکھنے کے لیے ٹکاتے تھے، اس کا ایک سرا زمین کو چھوتا تھا جب کہ دوسرا سرا ڈنڈے سے ہٹ لگانے کے لیے اُوپر اُٹھا ہوتا تھا۔ ایک بار جب گلی کو ہٹ لگتی تھی اور وہ فضا میں تیر رہی ہوتی تھی تو دائرے کی شکل میں کھڑے مخالف کھلاڑی اس کے پیچھے بھاگتے۔ ہٹ لگانے والا گلی کے واپس آنے تک دائرے کے باہر پہلے سے طے شدہ مقام تک دوڑتا۔ اگر مخالف کھلاڑی فضا میں تیرتی گلی پکڑ لیتا تو ہٹ لگانے والا آﺅٹ ہو جاتا یعنی اس کی باری ختم ہو جاتی۔ بصورتِ دیگرفیلڈر داائرے میں مقررہ جگہ پر رکھے گئے ڈنڈے کا نشانہ باندھ کر گلی کو ڈنڈے پر پھینکتا۔ اگر گلی ، ڈنڈے سے جا ٹکراتی تو ہٹ لگانے والا آﺅٹ ہو جاتا۔ اگر گلی ، ڈنڈے سے نہ ٹکراتی تو ہٹ مارنے والے کو ایک پوائنٹ مل جاتا اور اُسے گلی کو ہٹ مارنے کا ایک اور موقع مل جاتا۔ اگر ہٹ مارنے والا آﺅٹ ہو جاتا تو اُس کے ٹیم کے اگلے رکن کی باری آ جاتی۔ جب دونوں ٹیموں کے ہٹ مارنے والوں کی باریاں ختم ہو جاتیں تو جس ٹیم کے پوائنٹ زیادہ ہوتے، وہ فاتح قرار پاتی۔ جنوب ایشیا کے اس دیہاتی کھیل سے ارتقا پا کر دو مشہور کھیل بنے؛ کرکٹ اور بیس بال؛
ہمارے خطے میں کرکٹ کو اعصاب کا کھیل تصور کیا جاتا ہے۔ جنوب ایشیائی ممالک بشمول پاکستان، بھارت، سری لنکا، افغانستان اور بنگلہ دیش کرکٹ کے دیوانے کھلاڑی ہیں۔ جب کبھی ان ممالک کے مابین میچ ہوتا ہے، خصوصاً پاکستان اور بھارت کے مابین تو یوں لگتا ہے جیسے جنگ لڑی جا رہی ہو۔ سڑکیں خالی ہو جاتی ہیں اور دفاتر ویران۔جیتنے والے ملک کا صدر یا وزیرِ اعظم اور دیگر سیاست دان اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ کا کھیل بہت پرانا نہیں ہے۔ اس خطے میں کرکٹ کا اولین میچ پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل 22نومبر 1935ءکو کھیلا گیا۔ یہ میچ سندھی اور آسٹریلوی ٹیموں کے مابین کھیلا گیا۔ میدان میں تقریباً پانچ ہزار تماشائی تھے۔ جنوب ایشیا میں آبادیاتی راج کے دوران میں انگریزوں نے متعارف کرایا۔ موجودہ پاکستان بھی برطانوی راج کا حصہ تھا۔ لیکن جہاں تک کرکٹ سے دیوانگی کی حد تک لگاﺅ کا تعلق ہے تو یہ پہلی بار1954ءمیں دیکھنے میں آیا، پاکستان کی ٹیم نے انگلستان کی ٹیم کو اُن کے اپنے میدان میں اُن کے اپنے پرستاروں کے سامنے شکست سے دوچار کیا۔ وہ کھیل جو انگریزوں نے ایجاد کیا تھا، اُس میں پاکستان نے اُنھیں شکست دی۔ یہ پاکستان میں مندرجہ¿ ذیل کرکٹ کا نقطہ¿ آغاز تھا۔
پاکستان نے1992ءمیں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا۔ اس کے بعد آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹونٹی اورکرکٹ کے دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں بہت سی کامیابیاں پاکستان کے حصے میں آئیںلیکن کرکٹ کے اس جنون نے ہمارے اتھلیٹس کے مفاد اور ترقی کو پس پشت ڈال دیا جو کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں میں حصہ لیتے تھے۔
دولت کا بہاﺅ، سپانسرشپ اور حکومتی دل چسپی یہ سب چیزیں کرکٹ کی حمایت کرتی ہیں۔ پاکستان بیس کروڑ افراد کا ملک ہے لیکن ریو ڈی جینیرو میں منعقدہ سمر اولمپک گیمز میں پاکستان کے صرف سات اتھلیٹس نے شرکت کی۔ گویا ہماری تعداد دہرے ہندسے والے عدد میں بھی داخل نہ ہو سکی۔ اس سے پیشتر 2008 ءمیں بیجنگ اور2012ءمیں لندن میں ہونے والے مقابلوں میں ہمارے اکیس اتھلیٹس نے حصہ لیا تھا۔ یہ تعداد سابقہ مقابلوں میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کی تعداد سے بہت کم ہے۔ 1956ءمیں میلبرن میں ہونے والی سمر گیمز میں62کھلاڑیوں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ روم میں 1960ءمیں ہونے والے مقابلوں میں ہمارے انچاس اتھلیٹ شامل تھے۔
امریکا کے تیراک مائیکل نے گزشتہ سال اپنا بیسواں اور اکیسواں اولمپک طلائی تمغا جیتا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے اولمپک مقابلوں میں انیس بار حصہ لے کر مجموعی طور پر صرف دس طلائی تمغے جیتے ہیں۔ ہماری ہاکی ٹیم نے تین طلائی تمغے جیتے ہیں ،ہاکی میں آخری کامیابی 1984ءمیں لاس اینجلس گیمز میں ملی۔ 1948ءمیں لندن گیمز میں پاکستان نے حصہ لے کر اپنے سفر کا آغاز کیا۔اس کے بعد اب تک مجموعی طور پر پاکستان نے ہاکی میں آٹھ تمغے جیتے۔ ان میں سے تین طلائی، تین چاندی کے اور دو کانسی کے تمغے تھے۔ دو کانسی کے تمغے ریسلنگ اور باکسنگ میں بھی جیتے گئے۔ لیکن ہماری ہاکی کی ٹیم گزشتہ سال کے اولمپکس مقابلوں کے لیے کوالی فائی تک نہ کر سکی۔ اس سے کھیلوں میں ہمارے مجموعی زوال کا اظہار ہوتا ہے ، ساتھ ہی کرکٹ کے لیے ہمارے جنون کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے جو بیس بال جیسے دیگر کھیلوں میں ہماری ترقی کا گلا گھونٹ رہا ہے۔
جب میں جیکسن وائل ، فلوریڈا میں”فلوریڈا ٹائمز یونین“ کے ساتھ کام کر رہا تھا تو ایڈیٹر کینیتھ اموس نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تمھیں بیس بال پسند ہے؟“ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا ، اُس نے جو اگلی بات کی ، اُس سے مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ ”تم ”دی جکسن وائل جگوارز“ نامی ہماری قومی فٹ بال لیگ کے مالک کو جانتے ہو؟ وہ شاہد خان نامی ایک پاکستانی امریکی ارب پتی ہے ۔“ اُس کا کھیلوں سے عشق نے مجھ میں فوری دل چسپی کی ایک چنگاری جلا دی۔میںلیگ کا بیس بال میچ جیکسن وائل بیس بال گراﺅنڈز میں گیا ۔چھوٹا سا سٹیڈیم بھرا ہوا تھا اور پاکستان میں کرکٹ سٹیڈیم جیسا منظر پیش کر رہا تھا۔یہ کرکٹ سے ملتا جلتا کھیل تھا جسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ ہم کرکٹ کے بجائے بیس بال میں کیوں سبقت نہیں لے جاتے؟ مجھے حیرت بھی ہے اور خوشی بھی کہ مجھے حال ہی میں اس سوال اک جواب مل گیا ہے۔
لیکن پہلے یہ جان لیجیے کہ خاور شاہ بیس بال کو 1992ءمیں پاکستان لے کر آئے۔پنجاب کے سپورٹس بورڈ کے سیکرٹری کو علم ہو گیا تھا کہ 1992ءکے سمر گیمز (بارسلونا) میں بیس بال اولمپک سپورٹ ہو گااور وہ چاہتے تھے کہ پاکستانی اتھلیٹ اس سے آشنا ہو جائیں۔ تمام ٹیموں میں سے جنھوں نے 2017میں عالمی بیس بال کلاسک میں مقابلہ کیا، آخر میں جو چار ٹیمیں ایک دوسرے کے مقابل رہ گئیں، اُن میں برطانیہ، برازیل ، اسرائیل اور پاکستان شامل تھے۔ بروک لن ، نیویارک میں پاکستانی ٹیم کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ اگرچہ برازیل نے ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کو ڈبل سے باہر نکال دیا ، ہمارے کچھ کھلاڑی پہلی بار لکڑی کے بیٹ، ڈوننگ بیئٹنگ گلوز اور کیچنگ گئیر کے ساتھ لیس ہو کر کھیل رہے تھے۔ برازیل کے خلاف کھیلتے ہوئے ہماری ٹیم نے سات میں سے تین اننگز میں برازیل کی ٹیم کو کوئی سکور نہ کرنے دیا۔ برازیل کی ٹیم میجر لیگ بیس بال کے سلسلوں سے لدی پڑی ہے۔ برازیل کے خلاف پہلی گیم میں یو ایس بیس بال کا گولڈ سٹینڈرڈ پاکستانی سینٹر فیلڈر سمیر زوار کے حصے میں آیا، اُس کی ٹیم کے ارکان نے اُسے دل کھول کر داد دی۔
اس کے باوجود کہ ہمارے ملک میں نچلی سطح تک اس کھیل کی کوئی مدد موجود نہیں، اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی موجودگی ایک بڑی خبر ہے ۔ جہاں بیس بال کے لیے درکار ترشی ہوئی گھاس والے میدان بھی نہیں۔پاکستان میں زیادہ تر لوگ اس کھیل کے قواعد سے واقف نہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی زوار، عمیر امداد بھٹی، ارسلان جمشید یا فضل الرحمان کے ناموں سے واقف نہیں۔ یہ کھلاڑی پاکستان کی قومی بیس بال ٹیم کا حصہ ہیں۔
اس سے پہلے پاکستانی ٹیم نے ایشیائی کھیلوں میں 2014ءمیں شرکت کی تھی اور ڈبلیو۔بی۔سی ٹورنامنٹ کے لیے کوالی فائی کیا تھا۔ اُنھوں نے ہانگ کانگ کو دس صفر سے ہرا کر ایشیائی بیس بال چیمپئین شپ (سی لیول) 2010ءمیں جیتی۔گزشتہ نو مقابلوں میں ہر بار دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ایشیائی بیس بال کپ میں ہماری ٹیم چوٹی کی تین ٹیموں میں ہمیشہ رہی ہے۔ریجنل چیمپئین شپ کے نتائج کی بنیاد پر اب مجموعی طورپر ایشیا میں یہ پانچویں نمبر پر اور دُنیا میںتئیسویں نمبر پرہے۔ بیس بال کا چالیس سالہ تجربہ رکھنے والے امریکی ہائی سکول کے کوچ جان گاﺅلڈنگ نے ہمارے جذبہ¿ شوق سے سرشار کھلاڑیوں کو بیس بال کے گر سکھانے کی غرض سے اگست اور ستمبر میںلاہور میں دو ہفتے گزارے ۔ پاکستان میں اپنے مختصر قیام کی بنیاد پر اُنھوں نے پیش کش کی کہ اگر پاکستان کے پاس پیشہ ور پچنگ کوچ ہوں
تو مائنر لیگ کے مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑی جلد ہی اعلیٰ سطح پر ہوں گے۔ چوں کہ بہت سے کھلاڑیوں کو کرکٹ کا وسیع تجربہ حاصل ہے، اس لیے یہ کوئی ایسا خواب نہیں جو پورا نہ ہو سکے۔ جب کہ پاکستانی میڈیا کرکٹ کھیلنے والوں کو عزت و تکریم دیتا رہتا ہے اور اُن کی شان میں قصیدے پڑھتا رہتا ہے، بیس بال کھیلنے والے لڑکوں کی محنت کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ اُن کے لیے یقیناً کوئی بریکنگ نیوز الرٹ نہیں چلتا کہ اُنھوں نے عالمی بیس بال کلاسک کے لیے کوالی فائی کر لیا ہے، لیکن بیس بال سے عشق کرنے والی امریکی قوم کا ردِ عمل حد سے زیادہ تھا۔ مقامی اور غیر ملکی صحافیوں نے ہمارے قومی کھلاڑیوں کے انٹرویو کیے، پاک۔امریکی کمیونٹی کے ارکان اور امریکی میڈیا ای ۔ایس۔پی۔این نے ہمارے کھلاڑیوں کی کامیابی کو دکھایا۔ بیس بال کے امریکی پرستاروں نے اُن کے آٹوگراف لیے، اس سے ہمارے اتھلیٹس نے خوش گورا فارغ وقت گزارا۔
ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کی دعوتیں کی گئیں، ہمارے کھلاڑی جو ابھی اس کھیل کو سیکھنے کے مرحلے میں تھے، ان کی کوششوں اور لگن کو تحسین اور احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
بعض ماہرین کو یقین ہے کہ بیس بال بالآخر اس قابل ہو جائے گی کہ پاکستانی کھیلوں میں اپنے حصے کا دعویٰ کر سکے۔ لیکن پہلے پاکستانی ٹیم کو ایشیا کی چوٹی کی چار ٹیموں میں آنا ہو گا تاکہ وہ اولمپکس کے لیے کوالی فائی کر سکے جب ٹوکیو میں ہونے والی 2020سمر گیمز میں بیس بال کی واپسی ہو گی۔
اس حوصلہ افزائی اور امکانات کے ساتھ یہ مناسب وقت ہے کہ ہم اپنے محبوب کرکٹ کے علاوہ بھی اپنے کھیلوں کے پر پھیلانا شروع کریں۔ آئیے ہم بیس کروڑ کی قوم میں سے اُن کی حوصلہ افزائی کریں جنھیں بیس بال میں دل چسپی ہے۔ آئیے ہم اپنے کھلاڑیوں کو تیار کرنا شروع کریںتاکہ کھیلوں میں ہمیں پھر سے عظمت مل سکے جو کبھی ہمیں ہاکی میں حاصل تھی۔ جمناسٹک، آبی کھیلوں۔ والی بال، باسکٹ بال، فٹ بال، ویٹ لفٹنگ، سائیکلنگ، تیر اندازی، غوطہ خوری، جوڈو، بیڈ منٹن وغیرہ میں نئی آرزوﺅں کے ساتھ کام کریں۔ آئیے ہم کھیلوں کے لیے اپنی نظر کونمایاں طور پر وسعت دیں۔
دیکھیں کون جیتتا ہے؟