خطاطی صدیوں پرانا سجاوٹی لکھائی کا فن ہے۔ بنیادی طور پر اس کا تعلق یونانی تہذیب سے ہے۔ انگریزی میں اس کا مترادف لفظ کیلی گرافی ہے۔ کیلی گرافی دو یونانی لفظوں کا مجموعہ ہے۔ کیلی کے معنی ہیں خوب صورت اور گرافی کے معنی ہیں لکھنا۔ اسلام کی آمد کے بعد سے اس کی کتابِ مقدس قرآنِ مجید خطاطی کے مختلف طریقوں سے لکھی جا رہی ہے۔ خطاط قرآنِ مجید کی کتابت کے لیے لکھائی کے بہت سے اُسلوب استعمال کرتے ہیں ۔یہ مخصوص فن روحانیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور عالمِ اسلام میں یہ مقبول ترین نفیس ڈیزائننگ کا فن ہے۔ تمام فنون میں شریف ترین فن کا مقام حاصل کرنے کے بعد مساجد، مزارات، مشہور عمارات اور مذہبی یادگاروں کی اندرونی چھتوں، اندرونی و بیرونی دیواروں اور گنبدوں کو اس فن سے آراستہ کیا گیا ہے۔
آغاز میں ڈیسک ٹاپ پبلشنگ سوفٹ وئر نے اس فن سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور حضرات سے روٹی کا نوالہ چھین لیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماہرین نے اسی طرح کے ڈیجی ٹل فونٹ بنانے کی کوشش کی اور آرٹ کے مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک کثیر تعداد گہری دل چسپی کے ساتھ یہ فن سیکھ رہے ہیں۔ حسنِ کارکردگی کا انعام پانے والے ملک کے نامور خطاط خورشید عالم ”گوہر قلم“ کا خیال ہے کہ خطاطی بذاتِ خود ایک روحانی امتحان ہے ۔ اس موضوع پر ”پاکستان ٹو ڈے“ کے ساتھ ایک بحث کے دوران میں انھوں نے کہا: یہ فن ایک رُوحانی سبق ہے اور اسے دولت کے ساتھ منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ ”اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس فن سے دولت کمانے کی اہلیت اس کے قیمتی ہونے کا ثبوت ہے تو آپ غلط ہیں۔ فن اور ضرورت دو مختلف چیزیں ہیں۔ ضرورت اور ہوس اس فن کو بری طرح نقصان پہنچا رہی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے طالب علم خطاطی سیکھنے آتے ہیں لیکن جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک مشکل کام ہے اور کمانے کے مواقع محدود ہیں تو وہ فوراً اسے ترک کر دیتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ایک عام آدمی ایک وقت کے کھانے کے لیے ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے، بہت کم خریدار ایسے باقی بچتے ہیں جو ہمارے جوش و جذبے سے تخلیق کی گئی چیزیں خرید سکیں۔ “
نمائش میں خطاطی کے نمونوں کے مہنگا ہونے کے سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا ”طلب محدود ہوتی ہے اور یہی حال رسد کا ہے۔ اپنے اخراجات پورے کرنے نیز گاہکوں اور عوام کی دل چسپی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا واحد ذریعہ نمائشیں ہی ہیں۔ آخر کار فن مفت کے لیے تو نہیں ہے لیکن اگر طلب میں اضافہ ہو تو مزید لوگ اس پیشے میں آئیں گے اور قیمتیں بتدریج نیچے آ جائیں گی۔ ذاتی طور پر میں نمائشوں کا شوقین نہیں ہوں کیوں کہ جو لوگ ان نمائشوں میں آتے ہیں وہ ہماری آبادی کا بمشکل ایک فی صد ہوتے ہیں۔ ایک عام آدمی خطاطی کے اچھے اور برے کام میں امتیاز نہیں کر سکتا۔ یوں اُن کے نزدیک ہمارے کام کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔“
عبدالمجید، عبدالرحمان، استاد اللہ بخش اور بہت سے دوسرے فن کاروں نے خطاطی کے شاہ کار تخلیق کیے ہیں۔ سید صادقین احمد نقوی کو تمغائے امتیاز، حسنِ کارکردگی اور ستارہ¿ امتیاز کے اعزازات ملے۔ اکثر حوالہ دیا جاتا ہے کہ صادقین نقاش ایک معروف پاکستانی فن کار تھے، ان کی شہرت کی وجہ اُن کی خطاطی اور مصوری ہے۔ اُنھیںپاکستان کے اب تک کے بہترین مصوروں اور خطاطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ہم دُنیا کے اُن ممالک میں سے ہیں جہاںنستعلیق رسم الخط میں تانبے پر خطاطی کی جاتی ہے ۔ فارسی اور عربی خطاطی میں نسخ، کوفی، رقا اور دیگر مقبول اُسلوبوں کے ساتھ یہ رسم الخط صدیوں سے چھایا ہوا ہے۔
برصغیر میں خطاطی کی تاریخ کو پانچ بڑے ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1۔ محمد بن قاسم سے محمود غزنوی تک (93-413 ہجری 712-1022 عیسوی)
2۔ محمود غزنوی سے ظہیرالدین بابر تک (413-932 ہجری1022-1526عیسوی)
3۔ مغل دور (932-1275ہجری1526-1857عیسوی)
4۔ برطانوی دور (1857-1947عیسوی)
5۔ پاکستان کی خودمختاری کے بعد سے تاحال (1947سے تا حال)
آزادی سے قبل بر صغیر نے اپنا زرّیں دور دیکھا۔ یہ فن برصغیر کی ثقافت میں اس قدر رچ بس گیا تھا کہ اُس عہد کی ہر نمایاں عمارت پر خطاطی نقش ہوتی تھی۔ خطاطی کے نمونوں سے آراستہ ان عمارتوں کے اندرونی وبیرونی حصے ہمیں ماضی میں اس فن کی شان کی داستان سناتے ہیں۔ شہزادوں، شہزادیوں اور امرا و رُوسا کے بچوں کے اولین اتالیق خطاط ہوتے تھے۔ خطاطوں کی اس طرح شاہی سرپرستی نے خطاطی کو ایک اعلیٰ فن بنا دیا اور عوام الناس کے دلوں میں خطاطوں کی قدرومنزلت بڑھا دی۔
لیکن جب انگریز آئے اور مغلیہ دور کا خاتمہ ہوا تو اس فن اور اس سے وابستہ فن کاروں کی سرپرستی بھی ختم ہو گئی۔ خطاط موجودہ دور کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس فن میں بہت سی تبدیلیاں لے آئے ہیں۔ اب خطاطی قلم ، کاغذ اور روشنائی تک محدود نہیں رہی۔ اب یہ مصوری، سنگ تراشی، دو جہتی اور سہ جہتی کاموں میں سمو دیے گئے ہیں۔جدید فن کار نئے واسطے اور اختراعات متعارف کرارہے ہیں۔ لیکن سب کاموں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے لکھے ہوئے الفاظ کی حرمت اور محبت۔
قومی معاملات پر وزیرِ اعظم کے مشیر عرفان صدیقی کا خیال ہے کہ پاکستان خطاطی کی اس مثلٹ کا حصہ ہے جو ایران اور سعودی عرب سے بھی باثروت ورثے کا حامل ہے۔ ”پاکستان ٹوڈے“ سے بات چیت کرتے ہوئے اُنھوں نے یقین دلایا کہ اس قدیم فن کے فروغ کے لیے وفاقی دارالحکومت میں ایک ادارہ قائم کیا جائے گا۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ اس عظیم الشان فن کے فروغ اور نسلِ نو کو اُس کے آباواجداد کے ورثے کے بارے میں تعلیم دینے کی غرض سے حکومت دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کرے گی ۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان خطاط واصل شاہدکا خیال ہے کہ اگر حکومت اس فن کی حمایت کرے تو ہم اپنے نظامِ تعلیم میں بھی معجزے دکھا سکتے ہیں۔ ”کیا آپ ہمارے سکول کے طلبہ کی خراب لکھائی دیکھ سکتی ہیں؟ ہمارے سکولوں نے اس فن کی تعلیم دینا چھوڑ دیا ہے کیوں کہ خود اساتذہ¿ کرام کو خطاطی پر عبور حاصل نہیں ہے۔نئی ذہانت شاذونادر ہی ملتی ہے کیوں کہ ہمارے طلبہ اس فن سے عہدہ برا ہونے کے قابل نہیں، اگرچہ خطاط ملک کے سرکاری اور نجی سکولوں کے اساتذہ¿ کرام کو رضاکارانہ طور پر لکھائی کی تربیت دینے کے لیے ورک شاپس کا انعقاد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری خود ایک خطاط ہیں۔ اُنھوں نے اس فن کی سرپرستی کے بارے میں کہا کہ اتھارٹی الحمرا آرٹ کونسل میں لاہور خطاطی کے تہوار2017ءکے انعقاد اور میزبانی کے لیے فنڈنگ کر رہی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ایسا پاکستان میں پہلی بار کیا گیا۔ اس تہوار کی خصوصیت خطاطی کی نمائش، مقابلہ، ورکشاپ، بک سٹال اور ناظرین کی موجودگی میں خطاطی کے فن کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اس میں مصوری ، خطاطی کے فیشن کے ڈیزائن، کندہ کاری، سرامکس، فرنیچر پر کندہ کاری ، مجسموں کے روایتی اور جدید انداز شامل ہیں۔
ڈاکٹر لبنیٰ امجد ملک کے معروف بصری فن کار ہیں۔ ایک مباحثے میں اُنھوں نے کہا کہ خطاطی حروفِ تہجی کی حیرتوں اور تحسین کے بارے میں ہے۔ کوئی ایسی نازک روح نہیں ہو گی جو جو حروف ِ تہجی کے سمندری لہروں جیسے اتار چڑھاﺅ والے قدرتی بہاﺅ کو نظر انداز کر سکے۔ پاکستان برطانوی راج سے 1947ءمیں آزاد ہو گیا ، لیکن جب ہم نے دُنیا کو زاویائی کوفی رسم الخط سے متعارف کرایا توہماری خطاطی کی جڑیں اسلام کی اولین صدیوں تک پہنچتی ہیں۔لیکن ہمیں خطاطی کو صرف اسلام تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔ سکھ حکمرانوں بشمول مہاراجا رنجیت سنگھ کا دربار اس فن کے فروغ کے لیے اہم تھا۔
کیا خطاطی کا فن اپنی شان اور عظمت واپس لے سکے گا؟ اُمیدیں اور آرزﺅئیں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن معجزے رُونما ہو سکتے ہیں۔