pin up casinomostbet1winpin up

ملاوٹ کرنے والے اس لیے ملازم رکھے جاتے ہیں کہ وہ نقلی طریقوں سے دودھ کی مقدار بڑھا کر اس کے معیار پر اثر انداز ہوں۔ عالمی آبادی میں اچانک اور غیر مساویانہ اضافے خصوصاً ترقی پذیر اور تیسری دُنیا کے ممالک میں اشیائے خورونوش کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ طلب اور رسد کے مابین وسیع خلیج ہے۔
پاکستان میں بیچے جانے والے مجموعی دودھ کا 80فی صدملاوٹ شدہ ہوتا ہے ، یہ دودھ چاہے پیکیجز میں ہو چاہے پیکیجز کے بغیر وسیع مقدار میں۔ سستا اور گھٹیا مواد بشمول خشک دودھ، چینی، میلامین، فارملین، کاسٹک سوڈا، کپڑے دھونے والے پاﺅڈر، بناسپتی گھی، امونیم سلفیٹ، نمک، ہائیڈروجن پر آسائیڈ اور دیگر انسانی زندگی کے لیے خطرناک اشیا مصنوعی دودھ کی تیاری میں استعمال کی جاتی ہیں۔ دودھ پیدا کرنے والے دودھ میں ساٹھ فی صد پانی استعمال کرتے ہیں، دودھ جمع کرنے والے 53.5فی صد، گھر گھر جا کر دودھ تقسیم کرنے والے 62.7فی صد جب کہ ڈیری کی دکانوں والے 56.9فی صد پانی ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں عام طور پر کی جانے والی ملاوٹ پانی (73%) ہے، اس کے بعد کپڑے دھونے والے پاﺅڈر(32%)، شکر(22%)، کاسٹک سوڈا (20%)اور چاول کا آٹا (17%) آتا ہے۔
مصنوعی دودھ یا دودھ میں ملاوٹ کا مطلب ہے غیر معیاری اشیا کی آمیزش سے یا دودھ سے قابلِ قدر اجزا نکال کر دودھ کی کوالٹی کو بگاڑنا۔ یہ زیادہ تر اشیا کا ارادی اضافہ، متبادل یا تفریق ہوتی ہے جس سے دودھ کی نوعیت اور کوالٹی پر برا اثر پڑتا ہے لیکن بعض اوقات دودھ دوہنے، ذخیرہ کرنے، پراسیسنگ، نقل و حمل اور تقسیم کے دوران اتفاقی طور پر آلودہ بھی ہو جاتا ہے۔ یوں دودھ کی کوالٹی کم ہو جاتی ہے اور سستی یا گھٹیا اشیا کے ذریعے ، اصلی دودھ کی جگہ کوئی متبادل استعمال کر کے، دودھ کے قابلِ قدر اور ضروری اجزا کو جزوی یا کلی طور پر نکال کر ، تیل میں ملائے جانے والے مادوں سے دودھ کی کوالٹی خطرناک طریقے سے متاثر ہوتی ہے۔ ان سب سے دودھ کی ظاہری حالت اصلی دودھ کی طرح لگتی ہے۔
خالص دودھ انتہائی اہم خوراک ہے کیوں کہ اس میں ایسے غذائی اجزا ہوتے ہیں جو متوازن نشوونما اور جسم کی توانائی قائم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ بعض بے ایمان دودھ پیدا کرنے والوں نے خود کو ملاوٹ شدہ دودھ کے فراڈ میں ملوث کر لیا ہے۔اس فراڈ کے مجرموں میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ نہ صرف یہ کہ تحفظِ خوراک کے اربابِ اختیار کو اس لعنت کے کچلنے میں کوئی دل چسپی نہیںبلکہ یہ بھی ہے کہ باوسیلہ حکام کے مقابلے میں فراڈ کرنے والے افرادٹیکنالوجی کے اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
غلط دھندا کرنے والوں کو ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اُن کا گاہک جو عام آدمی ہے، اُسے پرکھنے کے طریقے کا کوئی علم نہیں کہ وہ انھیں چیلنج کر سکے۔
ماضی میںلوگوں کو صرف یہ معلوم تھا کہ دودھ میں پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آج بھی ہم میں سے اکثریت پانی سے آگے کچھ سوچنے سے قاصر ہے لیکن وہ جو دودھ میں صاف پانی ملاتے ہیں، وہ انتہائی دیانت دار ہیں۔ پانی کو دودھ میں ملانے کو اب ملاوٹ نہیں سمجھا جاتا ۔ آلودہ پانی ترجیحاً نکاسیِ آب سے لیا گیا پانی دودھ کو گاڑھا کرنے کے لیے ترجیحی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دودھ کو دودھ جیسا بنانے کے لیے کئی مرض پیدا کرنے والی اشیا یا کیمیکل بھی اس میں ملائے جاتے ہیں جو ناقابلِ علاج امراض کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور صارفین کے لیے صحت کے حوالے سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
بہت سی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کے بعد پاکستان دُنیا بھر میں دُوسرے نمبر پر ہے جہاں 70فی صد آلودہ دودھ ملتا ہے۔ (حوالہ: زیو اینڈ کلین 2010، فراز اور دیگر 2014، سنگلوری اینڈ سوکوماران 2014)
بعض عوامل کی بناپرپاکستان میں دودھ کی طلب روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جا رہی ہے۔ ان عوامل میں شہروں میں لوگوں کی آمد، آبادی میں اضافہ ، لحمیات والی غذاﺅں کے فائدے کے بارے میں عوام کے علم میں اضافہ، پرچون فروشوں کے ہاں دودھ اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات کی زیادہ مقدار میں دست یابی، عوام الناس کی بہتر مالی حالت۔
ہندوستان کے فوڈ ٹیکنالوجی کے ماہر برہام نے 2014ءمیں لاہور کا دورہ کیا اور اپنی تحقیق کے لیے نمونے اکٹھے کیے۔ بعد میں یہ تحقیق مکمل ہوئی، شائع ہوئی اور بہت سے لوگوں نے اسے رپورٹ کیا۔ اس کے مطابق سب سے زیادہ ملاوٹ پانی (73%) کی دیکھی گئی، اس کے بعد کپڑے دھونے والے پاﺅڈر(32%)، شکر(22%)، کاسٹک سوڈا (20%)اور چاول کا آٹا (17%) آتا ہے۔ دودھ پیدا کرنے والوں اور پراسیس کرنے والے جو ملاوٹ کرتے ہیں، اُس سے کہیں زیادہ ملاوٹ ڈیری کے دکان دار، دودھ اکٹھا کرنے والے اور آڑھتی کرتے ہیں۔
اس کے برعکس سندھ سے ایک محقق عبدالحمید سومرو نےMOREسے بات چیت کرتے ہوئے اس سے مختلف نتائج بتائے۔ اس کی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ دودھ پیدا کرنے والے دودھ میں ساٹھ فی صد پانی استعمال کرتے ہیں، دودھ جمع کرنے والے 53.5فی صد، گھر گھر جا کر دودھ تقسیم کرنے والے 62.7فی صد جب کہ ڈیری کی دکانوں والے 56.9فی صد پانی ڈالتے ہیں۔
لیکن سب سے چونکا دینے والے نتائج زرعی یونی ورسٹی فیصل آباد کے اینیمل ہسبینڈری کے شعبے کے سکالر احمد فراز کی تحقیق سے 2013ءمیں سامنے آئے، جب اُس نے MOREکے ساتھ اپنے نتائج شئیر کیے۔ اُس نے تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات کی کینٹینوں سے بغیر پراسیس کیے گئے دودھ کے ساٹھ نمونے لیے۔ان میں سے 67فی صد نمونوں میں مٹی کی موجودگی کی رپورٹ آئی۔ مزید براں حاصل کیے گئے دودھ کے نمونوں میں بالترتیب 97فی صد(تعلیمی اداروں کی کینٹینیں) اور 93فی صد(عوامی مقامات کی کینٹینیں) میں پانی کی ملاوٹ تھی۔ یوریا کی ملاوٹ بالترتیب63فی صد اور87فی صد رپورٹ کی گئی۔ فارملین کی ملاوٹ بالترتیب 23فی صداور 27فی صد نکلی جب کہ شکر کی ملاوٹ بالترتیب 87فی صد اور97فی صد تھی۔ یہاں تک کہ عوامی مقامات سے لیے گئے دودھ کے نمونوں میں 3فی صد ہائیڈروجن پر آکسائیڈ بھی پائی گئی۔ یہ نتائج پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد کے دو مقامات سے اکٹھے کیے گئے ہیں۔
ڈاکتڑ سعید اختر خوراک کے ایک معروف سائنس دان اور محقق ہیں۔ اُنھوں نے اپنی گزشتہ سال کی تحقیقی رپورٹ میں بیان کیا کہ پاکستان میں مجموعی دودھ کا 80فی صد جو پیکیجز میں فروخت ہوتا ہے، اس میں ارادی طور پر ملاوٹ کی جاتی ہے۔ اُنھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ملاوٹ کے لیے ٹونٹی سے صاف پانی لینے کے بجائے مٹی ملا پانی (گدلا) ہوتا ہے۔وہ جو دودھ کا کاروبار کرتے ہیں، ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ دودھ کی کثافت بڑھ جائے اور اس کا گاڑھا پن قائم رکھا جائے۔ اس لیے یہ انسانی صحت اور جان کے لیے شدید خطرہ ہے۔
ڈاکٹر شبیر علی ایک مقامی شفا خانہ حیوانات میں ویٹرنری ڈاکٹر ہیں۔ اُنھوں نےMOREسے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جانوروں سے زیادہ دودھ حاصل کرنے کے لیے مختلف دواﺅں کا استعمال بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ کسان انھیں اس کثرت سے استعمال کرتے ہیں کہ خالص دودھ بھی ان خطرناک دواﺅں سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ صارفین میں دواﺅں کی مزاحمت، بچوں میں دودھ سے الرجی کے رد عمل، قے، پیچش اور آنتوں کا ورم ہو رہا ہے۔ لیکن دیکھیے ہم لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں اور دودھ کے حفاظتی ٹیسٹوں میں ان کی دل چسپی بڑھا رہے ہیں۔ دودھ میں کی گئی مختلف ملاوٹوں کے ٹیسٹ کا ٹریٹ منٹ نیچے دیا گیا ہے:
ملاوٹ کا ٹیسٹ ٹریٹ منٹ:
پانی:
دودھ میں پانی کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے اس کا ایک قطرہ پالش کی ہوئی ترچھی سطح پر رکھیں۔ خالص دودھ کا قطرہ آہستہ آہستہ بہتا ہے اور اپنے پیچھے ایک سفید لکیر چھوٹرتا جاتا ہے جب کہ پانی ملا دودھ بغیر کوئی نشان چھوڑے تیزی سے بہے گا۔
سٹارچ:
اگر ہم چند قطرے لوڈین ٹنکچر یا لوڈین سلوشن کے ملائیں تو دودھ کا نمونہ نیلا ہو جائے گا۔
یوریا:
لوڈڈ ٹیسٹ ٹیوب میں چائے کا آدھا چمچ سویا بین پاﺅڈر ملائیںاور اسے خوب ہلائیں۔ اسے پانچ منٹ کے لیے رہنے دہں۔ پھر سرخ لٹمس پیپر اس میں ڈبوئیں، تیس سیکنڈ میں اس کا رنگ نیلا ہو جائے گا۔ اس ٹیسٹ کے لیے یوریا ٹیسٹ سٹرپ بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔
کپڑے دھونے والا پاﺅڈر:
جب پانچ سے دس ملی لٹر دودھ کے سیمپل کو اتنی ہی مقدار میں پانی ملا کر ہلایا جائے تو صابن کا جھاگ نمودار ہو گا۔
مصنوعی یا کیمیائی ترکیب سے بنا ہوا:
چکھنے پر کڑوا محسوس ہوتا ہے۔جب انگلیوں کے درمیان ملا جائے تو صابن کی طرح کا احساس ہوتا ہے اور گرم کرنے پر زرد ہو جاتا ہے۔
گلوکوز :
گلوکوز یا چینی کی ملاوٹ دودھ کو ذائقہ بڑھانے کے لیے ڈالی جاتی ہے۔ اسے چیک کرنے کے لیے تیس سیکنڈ سے ایک منٹ کے لیے ڈایاسیٹک سٹرپ دودھ میں ڈبوئیں۔ اگر سٹرپ کا رنگ بدل جائے تو یہ گلوکوز کی موجودگی کی نشانی ہوتی ہے۔
بناسپتی گھی:
ایک ٹیسٹ ٹیوب میں تین ملی لٹر دودھ لیں۔ اس میں دس قطرے ہائیڈروکلورک ایسڈ اور ایک چائے کا چمچ چینی ڈالیں۔ اگر اس کا رنگ سرخ ہو جائے تو اس کا مطلب ہے اس میں بناسپتی گھی موجود ہے۔
فارملین:
ایک سیمپل ٹیسٹ ٹیوب میں دس ملی لٹر دودھ میں پانچ ملی لٹر خالص گندھک کا تیزاب ڈالیں۔ اگر بنفشی یا نیلے رنگ کا دائرہ بن جائے تو جان لیں اس می فارملین موجود ہے۔
امونیم سلفیٹ:
لیکٹومیٹر سے درست نتائج حاصل کرنے کے لیے امونیم سلفیٹ دودھ میں ملایا جاتا ہے۔اسے چیک کرنے کے لیے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں پانچ ملی لٹر گرم دودھ لیں اور اس میں سرکے کا تیزاب ملائیں۔ پھٹے ہوئے دودھ کے پانی جیسی چیز حاصل ہو گی جسے ایک الگ ٹیٹ ٹیوب میں ڈال لیا جائے گا۔ اس ٹیسٹ ٹیوب میںپانچ ملی لٹر سیمپل میں پانچ فی صد بیریم کلورائیڈ ملائیں۔اگر تلچھٹ نظر آئے تو اس کا مطلب ہے امونیم سلفیٹ موجود ہے۔
نمک:
ایک ملی لٹر دودھ میں پانچ ملی لٹر سلور نائٹریٹ اور دو سے تین قطرے پوٹاشیم ڈائی کرومیٹ ریجنٹ کے ڈالیں۔ اگر رنگ زرد ہو جائے تو یہ نمک ملائے جانے کی نشانی ہو گی۔
ہائیڈروجن پر آکسائید:
دس ملی لٹر دودھ کے سیمپل میں دس سے پندرہ قطرے وینیڈیم پینٹ آکسائیڈ ریجنٹ کے ملائیں۔ گلابی یا سرخ رنگ ہو جائے تو اس کا مطلب ہائیڈروجن پر آکسائیڈ کی موجودگی ہوگی۔
صرف یہی اشیا ملاوٹ کے لیے استعمال نہیں کی جاتیں۔ مصنوعی دودھ چینی، سوڈیم بائی کاربونیٹ ، بورک ایسڈ، چربی کا عرق، بلاٹنگ پیپر اور کول تار ڈائز وغیرہ کے ملانے سے بنایا جاتا ہے۔
مصنوعی دودھ عام طور پر کوالٹی کے سارے ٹیسٹ اور لیکٹومیٹر ٹیسٹ بھی پاس کر لیتا ہے اور ملاوٹ کا پتا لگانا یا مصنوعی اور خالص دودھ میں فرق کرنا قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نورالامین مینگل نے MOREسے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اتھارٹی اُن لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی جو اللہ کی طرف سے بھیجے گئے تحفے یعنی دودھ میں ملاوٹ کرتے ہیں اور اس میں ایسے کیمیکل ملاتے ہیں جو زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور اسے فوراً حل نہیں کیا جاسکتا۔ وقت لگے گا۔ ان دنوں ہم لاہور میں دودھ کی دکانوں کی رجسٹریشن کر رہے ہیں۔تین ہزار دکانیں پہلے ہی رجسٹر کی جا چکی ہیں۔ جب اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اتھارٹی کو یقین ہے کہ ان دکانوں کا دودھ خالص ہے تو اُنھوں نے جواب دیا ہم بار بار ٹیسٹ کرتے رہتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہمارے دائرہ¿ اختیار میں جو علاقے آتے ہیں ، اُن میں محفوظ دودھ بیچا جائے۔
کیا ان اقدامات سے دودھ خالص ہو جائے گا؟ کسی کو یقین نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *