pin up casinomostbet1winpin up

17جون 1973ءکو اپالو 17اور اِس کے چاند پر اُترنے والے خلاباز یوگین سرمن (کمانڈر)، رونالڈ ای ایوینز (کمانڈماڈیول پائلٹ) اور ہیری سن ایچ شمٹ (لیونر ماڈیول پائلٹ) کراچی کی گلیوں میں گاڑیوں کے ایک جلوس کی شکل میںگھوم رہے تھے۔ لاہور میں مشہور و معروف نیل آرم سٹرانگ اور اُس کی بیوی خلائی ٹیکنالوجی سے وابستہ فخر کے ساتھ پاکستانی عظیم قوم کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک سوال کیا جا سکتا ہے: پاکستان جیسے ملک کے لیے خلائی ٹیکنالوجی کی کیا ضرورت ہے؟
اس سوال کا جواب فوجی تناظر میں ہے، یہ خلائی ٹیکنالوجی ہی ہے جو ملک کو میزائل داغنے، ایٹمی اور روایتی وار ہیڈ کو بالکل ٹھیک نشانے تک لے جاتی ہے۔ مزید براں دشمن کی فوجی تنصیبات اور فوج کی تعیناتی کے بارے میں معلومات رکھنے کی ضرورت محتاجِ وضاحت نہیں ہے۔ یہی ٹیکنالوجی سیٹلائیٹ ٹی ۔وی چینل نشر کرنے اور جنگ کے زمانے میں مسلح افواج تک معلومات کی ترسیل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے سے زمین کے بہتر انتظام کے لیے ریموٹ سینسنگ سیٹلائیٹ کی ضرورت، شہری منصوبہ بندی، خوراک کی سیکیورٹی، قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے اور پانی کے بندوبست کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح موسم کے محاذ پر دیکھا جائے تو پاکستان کو موسم کی پیشین گوئی کرنے کے لیے قابلِ اعتبار معلومات درکار ہیں کیوں کہ ہمارے ملک میں اچانک آنے والے سیلابوں اور پانی کی قلت کے باعث اربوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے اس کی بہت زیادہ ضرورت اس لیے بھی ہے کہ گلوبل نیوی گیشن سیٹلائیٹ سسٹم قابلِ اعتماد جہاز رانی، پوزیشننگ، ٹائمنگ، ٹریکنگ، نگرانی ، آفات اور زلزلے کی صورت میں ہنگامی خدمات کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔
جب روسی ڈنیپر راکٹ 2014ءمیں خلا میں 37سیٹلائیٹ کھینچ کر لے گیا تو اسی ایک سال میں عالمی ریکارڈ تین بار ٹوٹ چکا تھا لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ امریکہ کے سوا کوئی دُوسرا ملک اسے توڑنے کی جرات کر سکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں عالمی بنک کے مطابق 270,000,000 افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہوں، صرف21فی صد کو بیت الخلا تک رسائی حاصل ہو، 61فی صد کو بجلی اورصرف 6 فی صد کو ٹونٹی کا پانی میسر ہو۔ اقوامِ متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ دُنیا کے سب سے زیادہ تعداد میں بھوکے لوگوں کا ملک ہے کیوں کہ اس کی 194.6ملین آبادی بمشکل ایک وقت کا کھانا کھاتی ہے۔ ہندوستان نے فروری2017ءمیں روس کا ریکارڈ توڑا۔
یہ متاثر کن عالمی ریکارڈ ہندوستانی خلائی تحقیقاتی ادارے نے سری ہیری کوٹا کے خلائی سٹیشن سے اُس وقت بنایا جب اُس کے اپنے ملک کے تیار کیے گئے راکٹ نے 1,377کلوگرام (104سیٹلائیٹ)اڑان بھری۔ اس حقیقت نے اس کوشش کو مزید اعزاز بخشا کہ 104میں سے 96نینو سیٹلائیٹ”پلینٹ“ نامی ایک امریکی خلائی فرم کے تھے جب کہ بقیہ بشمول ہندوستان کے714کلوگرام زمینی مشاہدے والے سیٹلائیٹ کارٹو سیٹ ۔2(پی ایس ایل وی۔37) نیدر لینڈ، قازقستان، اسرائیل، سوئٹرزلینڈ اور متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھتے تھے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
سوویٹ یونین نے 1961ءمیں اپنا پہلا آدمی خلا میں بھیج کر ریاست ہائے متحدہ امریکا پر برتری حاصل کر لی تھی۔ اسی سال ایسا ہی انتہائی اہم واقعہ پاکستان میں رونما ہو رہا تھا ، جب پاکستان کے فراموش شدہ نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے صدر ایوب خان کو برصغیر کے پہلے خلائی ادارے سپارکو (خلائی اور بالائی فضا کا تحقیقاتی کمیشن) کے ڈھانچے کا قائل کر لیا تھا ۔ اس کے آٹھ سال بعد ہندوستان نے انڈین خلائی تحقیقاتی ادارہ (آئی ایس آر او) قائم کیا۔ امریکا کے ساتھ خوش گوار تعلقات کی بنا پر اسی سال پاکستان نے اپنے چوٹی کے چار سائنس دان خلائی ٹیکنالوجی کے مطالعے کے لیے ناسا بھیجے۔ پاکستانیوں نے اس شعبے کی پیچیدگی اتنی تیزی سے سیکھی کہ ایک سال بعد وہ کراچی سے پہلا پاکستانی راکٹ رہبر 1چھوڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسرائیل اور جاپان کے بعد راکٹ چھوڑنے والا یہ ایشیا کا تیسرا اور جنوبی ایشیا کا پہلا ملک بن گیا۔ ہندوستان نے بھی فوراً بعد اس کی تقلید کی اور 1963ءمیں پہلاراکٹ چھوڑا۔
تب سے آئی۔ایس۔آر۔او سپارکو پر سبقت لے گیا ہے کہ یہ مشنوں کی تکمیل اور ٹیکنالوجی میں برتری کے لحاظ سے آج سپارکو سے کئی دہائیاں آگے ہے۔
ہندوستان نے پولر سیٹلائیٹ لانچ وہیکل ، اس کی جانشین جیو سنکرونس سٹلائیٹ لانچ وہیکل ، انڈین ریموٹ سینسنگ، انڈین نیشنل سیٹلائیٹ اور اب زمین کے مشاہدے والا سیٹلائیٹ بنا کر خود کو عالمی خلائی اداروں میں چوٹی کے پانچ اداروں میں شامل ہو گیا ہے۔
دُنیا کے چوٹی کے خلائی ادارے بمطابق ٹیکی موس درجہ بندی یہ ہیں:
ناسا ۔ نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا
راس کوسموس۔ رُوس
سی۔این۔ایس۔اے۔ چائنا نیشنل سپیس ایڈمنسٹریشن
ای۔ایس۔اے۔ یورپین سپیس ایجنسی
آئی۔ایس۔آر۔او انڈین سپیس ری سرچ آرگنائزیشن
جے۔اے۔ایکس۔اے جاپان ایروسپیس ایکس پلوریشن ایجنسی
سی۔ایس۔اے کینیڈین سپیس ایجنسی
آئی۔ایس ۔اے ایران سپیس ایجنسی
ہمارا اپنا ادارہ سپارکو کہیں کھڑا نہیں۔
سپارکو نے 1991ءمیں بدر1 چھوڑا۔ یہ ایک تجرباتی زمین کے گرد نچلا گھومنے والا سیٹلائیٹ تھا۔ جنھوں نے وعدہ کیا تھا ، اُنھوں نے اسے چھوڑنے کے بعد انکار کر دیا اور فنڈنگ رُک گئی۔گیارہ سال کی تاخیر کے بعدبیکونر قازقستان سے 2001ءمیں ہمارا دُوسرا سیٹلائیٹ بدر۔2چھوڑا گیا۔ یہ ایک ”تجرباتی“ سیٹلائیٹ بھی تھا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب ہے کہ پاکستان کے لیے مختص دو مدار جو 38ای طول بلد اور41ای طول بلد پر واقع تھے، 1994ءمیں ختم ہو گئے تھے کیوں کہ پاکستان مقررہ وقت میں پاک سیٹ سیٹلائیٹ چھوڑنے میں ناکام رہا تھا۔ بعد ازاں ملک نے پانچ مدار (38ای، 41ای، 30ای، 88ای اور101 ای ) مختص کیے جانے کی درخواست دی جسے اس شرط پر منظور کر لیا گیا کہ اگر پاکستان نے 2003ءتک پاک سیٹ نہ چھوڑا تو ترجیحی سلاٹ یعنی38 ای ختم ہو جائے گی کیوں کہ اس سلاٹ کی بہت مانگ ہے۔
جب جنرل ضیا ءالحق نے1984ءمیں سپارکوکے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا تو اُنھوں نے فنڈز کی کمی کا حوالہ دے کر اس کا کام روک دیا کہ پاکستان پاک سیٹ منصوبے کو مزید برداشت نہیں کر سکتا ۔ سائنس دانوں کی اکثریت نے سپارکو کو خدا حافظ کہہ دیا اور انتیس سال لگ گئے تب جا کے پاکستان اپنا پہلا فنکشنل سیٹلائیٹ پاک سیٹ۔ ون آر چھوڑ سکا۔ اگرچہ ضیا کے دورے کے سترہ سال بعد ملک نے پاک سیٹ ون خلا میں چھوڑ دیا تھا لیکن در حقیقت یہ سیٹلائیٹ پانچ ملین ڈالر دے کر بوئنگ کمپنی نے چھوڑا تھا۔ بنیادی طور پر اسے پالاپا سی ون کے نام سے 1996ءمیں انڈونیشیا کے لیے بنایا اور چھوڑا گیا تھا لیکن اسے فنی خرابیوں کے بعد نئے نام ”پاک سیٹ“ کے ساتھ پاکستان کو دے دیا گیا۔ اس سیٹلائیٹ پر کی گئی سرمایہ کاری سودمند ثابت نہ ہوئی کیوں کہ سیٹلائیٹ پہلے ہی غیر فعال تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ اُس وقت جنرل پرویز مشرف نے صحافیوں سے کہا ”مبارک باد! ہمارا خلائی پروگرام ہندوستان سے کہیں آگے ہے۔“
اس کی جیب میں واحد کارنامہ پاک سیٹ ۔ ون آر کو کامیابی سے چھوڑنا ہے لیکن اسے بھی ملک میں تیار نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا ڈیزائنر ، بنانے والا اور چھوڑنے والا چین ہے۔ حتیٰ کہ اس منصوبے کو فنڈنگ بھی چین نے دی۔ ہاں، ہمارے انجنئیئروں نے صرف چند حصے بنائے۔ اس کے برعکس ہندوستان اس وقت تک ساٹھ سیٹلائیٹ چھوڑ چکا ہے۔ اس میں لیونر مشن چندرایان ون بھی شامل ہے۔ ٹیکنالوجی کی برتری سے ہٹ کر سپارکو اور آئی ۔ایس۔آر۔او کی انتظامیہ کا فرق ساری کہانی بیان کر دیتا ہے۔ اول الذکر کو ریٹائرڈ فوجی جرنیل چلا رہے ہیں جب کہ موخرالذکر کو پیشہ ور سائنس دان۔
ایک اور مظہر ہمارامشن20140ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پر اس مشن کو سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے منظور کیا تھا۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ” ہم 20140ءتک اپنے سیٹلائیٹ بنانے اور چھوڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔ “ اس عظیم مشن سے ایک عام پاکستانی پر امید ہے کہ ہم اُس ہندوستان کو پیچھے چھوڑ دیں گے جو2040ءتک جی۔ایس۔اے۔ٹی ۔9 ، جی۔اے۔ایس۔ٹی۔11، این۔آئی۔ ایس۔اے۔آر(ناسا اور آئی۔ایس۔ آر۔او کا مشترکہ منصوبہ، چندریان ۔2، منگالیان۔2، ایدیتیہ۔1، ایک شمسی تسخیر کے پروگرام ، وینس کی دریافت کے پروگرام اور لانچ وہیکل کے دوبارہ استعمال کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
سپارکو کے چئیرمین میجر جنرل (ریٹائرڈ) احمد بلال کے مطابق ہمارے ملک کے سائنس دان” آموزش کی ایک خم دار لکیر“پر ہیں۔ ایک عام پاکستانی کے لیے
یوں لگتا ہے کہ آموزش یا سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔احمد بلال کا خیال ہے کہ پاکستان کو پاک سیٹ ۔ون آر کے بعد2021ءتک ایک اور مواصلاتی سیارہ چھوڑنے کی ضرورت ہے۔
ایک ایسا ملک جس نے ایٹم بم بنا لیا، وہ ابھی تک اس قابل نہیں کہ اپنا سیٹلائیٹ بنا سکے اور اسے کامیابی سے خلا میں چھوڑ سکے۔ اسے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ملکی دفاع کو محفوظ ہاتھوں میں دینے کے لیے ملکی سطح پر اپنا خلائی پروگرام ترتیب دے کیوں کہ خلائی ٹیکنالوجی آج کی جنگ کی چوتھی جہت ہے۔ اگرچہ بہت سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اقتصادی چیلنج، دل چسپی کے فقدان، بد انتظامی اور پاکستان پر عالمی پابندیوں نے ہمیں کچھوے کی رفتار سے رینگنے پر مجبور کیے رکھا لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ان سب کی موجودگی میں ہم پہلی اسلامی اور دُنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنے۔
واحد رکاوٹ جو ہمیں خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے جانے سے روک رہی ہے وہ ترجیحات کی فہرست ہے۔ ہندوستان کا مریخ کے مدار والا مشن ”منگالیان“ کامیابی سے مریخ کے مدار سے معلومات بھیج رہا ہے۔ہمارے ملک میں اہلیت کی کوئی کمی نہیں اور چین جیسے ملک کا تعاون ہماری دہلیز پر ہے۔ اس بات کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت خلائی ٹیکنالوجی پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔ سپارکو کی انتظامیہ کو پیشہ ور سائنس دانوں کو جگہ دینی چاہیے نیز ادارے اور ملک کی ضروریات کے مطابق اس کے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے ۔ ہم نے ماضی میں ثابت کیا ہے کہ اگر مواقع دیے جائیں تو یہ ملک معجزے کر کے دکھا سکتا ہے۔ ہم اب بھی خلائی ٹیکنالوجی کی خطے کی جنگ میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
آج پاکستان تعلیم میں کہیں نظر نہیں آتا۔
پاکستان پولیو کے خاتمے میں کہیں نظر نہیں آتا۔
پاکستان خلائی دوڑ میں کہیں نظر نہیں آتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *