چودہ سال اسرار احمدبینک روڈ پر واقع لاہور کے ایک سرکردہ کمپیوٹر درآمد کنندہ الیکٹرانک کاٹھ کباڑکے وئر ہاﺅس میں دہاڑی دار مزدور ہے ۔ میں نے اُسے لکشمی چوک میں خوش خوش گاہکوں کو کھلونے بیچتے دیکھا اور شام کے وقت لاہور کے اس مشہور کھانے کے مقام پر پہنچا۔ اعتماد سے بھرپور اس لڑکے نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ بیٹھ سکتا ہے اور میرے فارغ پڑے موبائل فون پر سب وے سرفرکھیل سکتا ہے۔ میں نے اُس کی بات مان لی۔ بات چیت کے دوران یہ معلوم ہوا کہ اس کم عمری میں وہ اُسے تپ دق کا مرض لاحق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کاکام راوی کے کنارے پر کباڑ کو جلانا ہے۔ وہ یتیم ہے اور اپنی بیوہ ماں اور تین بہنوں کے لیے دال روٹی کما رہا ہے۔ اس مہلک بیماری کے باوجود وہ ڈیڑھ سو روپے کے علاج کی استطاعت نہیں رکھتا۔ یہ رقم اگرچہ معمولی ہے لیکن اسے اس کی اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
پاکستان میں اسرار کی طرح کے بہت سے بچے ہیں جو الیکٹرانک کاٹھ کباڑ سے چیزیں چنتے ہیں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان بیماریوں کا شکار صرف بچے نہیں ہیں بلکہ بہت سے بالغ افراد جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں، اس باعثِ شعم تجارتی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مزدوروں کی بین الاقوامی تنظیم (آئی۔ایل۔او) کا خیال ہے کہ سیسہ، پارہ، کیڈمیم اور دُوسری بھاری دھاتوں سے ہلکی سطح کا سامنا کرنے سے بھی بچوں اور حاملہ خواتین کو شدید اعصابی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان نے خطرناک کاٹھ کباڑ اور اُن کو ٹھکانے لگانے کے کنٹرول آف ٹرانس باﺅنڈری موومنٹ کے بیسل کنونشن پر دست خط کیے ہیں۔ اس کے علاوہ خطرناک کیمیکلز کے راٹرڈم کنونشن پر ، مسلسل نامیاتی آلودکنندگان کے سٹاک ہوم کنونشن پر ، ویانا کنونشن اور مانٹریال پروٹوکول پر دست خط کیے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی مئی 2015ءمیں جاری شدہ رپورٹ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اوزون ڈپلیٹنگ سب سٹینس ٹھکانے لگانے کی ایسی جگہ ہے جس کی قدروقیمت 9بلین امریکی ڈالر ہے ، اس کوڑے کرکٹ کو قابلِ استعمال کا رُوپ دے کرہر سال قانونی یا غیر قانونی تجارت کے ذریعے اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے ۔
الیٹرانک کاٹھ کباڑ (ای۔ ویسٹ) سے مراد ہے ردی الیکٹریکل یا الیکٹرانکس کے آلات یا استعمال شدہ ایسی الیکٹرانکس ہیں جنھیں دوبارہ استعمال کرنا، دوبارہ فروخت کرنا ، بازیافت، ری سائیکلنگ یا ٹھکانے لگانا مقدر ہو چکا ہو۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اس الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کو پھر سے استعمال کرنے سے انسانی صحت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں الیکٹرانک کی بڑی بِکری (کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ان پٹ اور آﺅٹ پٹ ڈیوایسز اور سمارٹ فونز) الیکٹرانک کوڑا کرکٹ کی فروخت سے ہوتی ہے۔ الیکٹرانک کے ردی اجزا جیسے سی۔پی۔یو کے اندر خطرناک اجزا جیسے سیسہ، کیڈمیم، بیریلئیم یا برومی نیٹڈ شعلے کو روکنے والا شامل ہوتے ہیں۔
دُنیا میں الیکٹرانک کی صنعت سب سے بڑی اور تیز ترین پھلنے پھولنے والی صنعت ہے۔ یہ صنعت کمپیوٹر اور سمارٹ فون جیسی چیزوں سے اکتالیس ملین ٹن الیکٹرانک کاٹھ کباڑ پیدا کرتی ہے۔ پیشین گوئیاں بتاتی ہیں کہ 2017ءتک یہ مقدار پچاس ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔پاکستان میں کمپیوٹر ، لوازمات اور موبائلسمارٹ فون کی بڑی مارکیٹ حفیظ سینٹر ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدارتی امیدوار ملک کلیم احمد کے مطابق پاکستان میں ہر سال 0.5ملین سیکنڈ ہینڈ (الیکٹرانک کاٹھ کباڑ) کیتھوڈ رے ٹیوبز اور ایل۔سی۔ڈیایل۔ای۔ڈی درآمد کی جاتی ہیں۔ ان کیتھوڈ ریز میں نسبتاًزیادہ ارتکاز شدہ سیسہ اور فاسفورس(Phorphors)[فاسفورس (Phorphors)کو فاسفورس (Phosphorus)کے ساتھ خلط ملط نہ کیا جائے]، ان میں سے دونوں سکرین پر تصویر دکھانے کے لیے ضروری ہیں اور انھیں ری سائیکل کرنا قریب قریب ناممکن ہے۔
امریکہ میں گزشتہ مہینےالیکٹرانک ویسٹ مینجمنٹ پر ایک عالمی کانفرنس ویسٹ کون 2016 منعقد ہوئی۔ اس کے مشترکہ اعلامیے میںاس بات پر زور دیا گیا کہ جب الیکٹرانک مصنوعات اپنی عمر پوری کر لیں تو تیار کنندگان اپنی بنائی گئی مصنوعات کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری قبول کریں۔ الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا دُنیا بھر کے ممالک کے لیے دردِ سر اور مالی نکاس کا خطرہ ہے کیوں کہ ایسا کرنے کے لیے عوام سے بہت زیادہ فنڈز درکار ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک تیار کنندگان اپنی صحیح ذمہ داری قبول نہیں کرتے، حکومتیں اس مواد کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگائے جانے کی عالمی توقعات کو پورا نہیں کر سکتیں۔ تاہم تیار کنندگان صرف مصنوعات بنارہی ہیں، اُنھیں بیچ رہی ہیں ، منافع کما رہی ہیں اور جب یہ مصنوعات ردی ہو جائیں تو انھیں ترقی پذیر ممالک میں بھیج دیتے ہیں۔ دُنیا بھرسے تمام بڑے تیار کنندگان پرانے ٹیلی وژن ، کمپیوٹر اور دیگر الیکٹرانک آلات کو ری سائیکلنگ کرنے سے منحرف ہو گئے ہیں۔ مقامی ری سائیکلنگ پروگرام اسے ٹھکانے لگانا مشکل اور مہنگا سمجھ رہے ہیں ۔
چوں کہ نئے کمپیوٹر مہنگے ہیں، اس لیے اکثر پاکستانی مارکیٹ سے استعمال شدہ کمپیوٹر خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ کمپیوٹر الیکٹرانک کاٹھ کباڑٹھکانے لگائے جانے والی جگہوں سے چنے جاتے ہیں۔ ان کمپیوٹروں کی قیمتیں لوگوں کی استطاعت کے مطابق ہوتی ہیں اور لوگ سخت معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر کم خرچ کو ترجیح دیتے ہیں۔زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں الیکٹرانک کاٹھ کباڑکی درآمد غیر قانونی طریقے سے کی جاتی ہے ، درآمد کنندہ عام طور پر حکومتی اداروں کے اندر کوئی شخص ہوتا ہے جو ملک میں الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کے کنٹینر سمگل کرتا ہے۔ لیکن اس بچت کے معاشیات اور صحت پر سخت اثرات پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ مصنوعات تیار کرنے کے شعبے میںبراہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے بلکہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دی جاتی ہیں۔
الیکٹرانک ری سائیکلرز انٹرنیشنل ، امریکا کی ایک سرکردہ الیکٹرانک کاٹھ کباڑ ری سائیکلرہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور چئیرمین جان شیگرین نے الیکٹرانکس کو بیرونی ممالک میں برآمد کیے جانے کی روش کو ایک سنجیدہ ماحولیاتی خطرہ اور ایک غیر ذمہ دار شارٹ کٹ قرار دیا جو بہت سے بڑے مسائل کی طرف لے جاتا ہے ،ان میں ماحولیاتی خطرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے لے کر ڈیجی ٹل سیکیورٹی ٹوٹنا شامل ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ حال ہی میں ای۔آر۔آئی نے 205پرانے پرنٹرزاور مانیٹرز میں جی۔پی۔ایس ٹریکر نصب کر دیے اور پھر اُنھیں امریکی خیراتی اداروں اور ری سائیکلرز کے حوالے کر دیا۔انکشاف یہ ہوا کہ جو پرنٹر اور مانیٹر امریکی الیکٹرانکس ری سائیکلرز کے حوالے کیے گئے تھے، اُن میں سے چالیس فی صد امریکا میں ری سائیکل نہ ہوئے بلکہ اُنھیںانتہائی آلودہ ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں برآمد کر دیا گیا جو انتہائی آلودہ ملک ہیں۔
انوائرمینٹل سروسز ایسوسی ایشن ایجوکیشن ٹرسٹ نے 2015میں ایک رپورٹ بعنوان ” ویسٹ کرائم: برطانوی گندگی کے راز سے نمٹنا “ جاری کی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ایک سال میں برطانیہ نے 0.6ملین ٹن الیکٹرانک کاٹھ کباڑ برآمد کیا اور اس میں سے زیادہ تر پاکستان، ہانگ کانگ، ہندوستان، بنگلا دیش اور ویت نام میں گیا۔
اس کے علاوہ یورپی یونین نو ملین ٹن الیکٹرانک کاٹھ کباڑپیدا کر رہی ہے جو ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کو برآمد کر دیا جاتا ہے۔ الیکٹرانک کاٹھ کباڑکی مقدار کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ صرف امریکا میں ہر روز ایک لاکھ انیس ہزار لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر ضائع کیے جاتے ہیں۔
بندرگاہ والے شہر کراچی کے علاقے شیر شاہ میں الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کی ملک بھر کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہ مارکیٹ سمگل شدہ اور قانونی طور پر درآمد کیے گئے الیکٹرانک کاٹھ کباڑ مرکز ہے جہاں سے ملک کے دیگر شہروں کو فروخت کے لیے یہ کاٹھ کباڑ بھیجا جاتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک جانتے ہیں کہ الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کو ٹھکانے لگانے اور ری سائیکل کرنے سے کارکنوں اور معاشرے کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ، اس لیے وہ اس کو ترقی پذیر ممالک میں بھیج دیتے ہیں۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ ٹھکانے لگانے اور ری سائیکل کرنے کے لیے درکار ضروری بنیادی ڈھانچا اور ٹیکنالوجیکل سسٹم کا بھی فقدان ہے۔
حکومتِ پاکستان کی وزارتِ ماحولیات میں تعینات ٹیکنیکل آفیسر ضیغم عباس نے MOREسے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے درآمد کو کنٹرول کرنے اورپاکستان میں موجودہ کاٹھ کباڑ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ آئینی طور پر پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن کونسل نامی ادارہ بنایا گیا ہے، اس کے سربراہ وزیرِ اعظم پاکستان ہیں۔ یہ سب سے اعلیٰ فورم ہے جو ماحولیات اور پائیدار ترقی کے سٹریٹجک پالیسی کے فیصلوں کا ذمہ دار ہے۔ پاکستان کی وزارتِ ماحولیات نے وفاقی اور صوبائی ماحولیاتی تحفظ کے ادارے بھی بنائے ہیں، پاکستان تحفظِ ماحولیات ایکٹ 1997ءبنایا گیا ہے، صنعتی اور دیگر ماحولیاتی آلودگی کی مانیٹرنگ کے لیے قومی ماحولیاتی کوالٹی سٹینڈرڈز بنائے گئے ہیں اور ان کا نفاذ کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ 29جون2005ءکو پاکستان کی ماحولیاتی پالیسی کی منظوری دی گئی۔ قومی ماحولیاتی پالیسی قومی سطح پر ماحولیات کے تمام شعبوں کے حل کے لیے نہایت اہم فریم ورک ہے ۔یہ کراس سیکٹوریل مسائل حل کرنے کے لیے نیزماحولیاتی پستی کے بنیادی اسباب کو سمجھنے اوربین الاقومی ذمہ داریوںکو پورا کرنے کے لیے ہدایات فراہم کرتا ہے ۔ پھر ایک اور پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 1997بھی ہے۔ یہ ایکٹ ماحول کے تحفظ، بحالی اور بہتری کے ساتھ ساتھ آلودگی کی روک تھام اور اس کے کنٹرول کرنے نیز پائیدار ترقی کے فروغ کا دعویٰ کرتا ہے۔
پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 1997کاسیکشن 13خطرناک کاٹھ کباڑ کو درآمد کرنے کی ممانعت کرتا ہے اور سیکشن14خطرناک عناصر کی ہینڈلنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ جب وزارت کے اہل کار کو اسرار احمد کے بارے میں بتایا گیا کہ کس طرح وہ تپ دق میں مبتلا ہے کیوں کہ الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کی درآمد اور اس کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے بکثرت شان دار قوانین کے نفاذ میں انتہائی نااہلی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ حیران کن طور پر عباس نے زور دے کر کہا کہ بے روزگاری کی وجہ سے سیکڑوں کارکن ،جن میں تیرہ سال سے انیس سال تک کی عمر کے بچے بھی شامل ہیں، الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کو ختم کر کے اور قیمتی حصے اُن سے الگ کر کے روزی کماتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ مستقبل قریب میں ان کارکنوںکے لیے یہ روزگار کتنا صحت مند ہوسکتا ہے اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے کس قدر مہلک۔ تاہم اُس نے یہ تسلیم کیا کیا کہ پاکستان میں الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کو ری سائیکل کرنے یا ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ اُنھوں نے اسے ایک سنجیدہ مسئلہ قرار دیا۔
پاکستان میں الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کے سرکٹ بورڈ ،سیکنڈ ہینڈ مٹیریل کے طور پردُنیا بھر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں امریکا، کویت، آسٹریلیا، جاپان اور انگلستان شامل ہیں۔ وزارت کے اہل کار نے دعویٰ کیا کہ ان کمپیوٹروں میں سے صرف دو فی صد دوبارہ استعمال کیے جا سکتے ہیں ، باقی کمپیوٹروں میں موجود تمام دھات اور پلاسٹک نکال کر بیچ دی جاتی ہے اور یہ سارا کام دستی طور پر ہوتا ہے اور کوئی حفاظتی آلہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ وئر ہاﺅس میں حالاتِ کار خوف ناک ہیں اور کارکن جلنے والے ہارڈوئر کے زہریلے دھوئیںسے اثر قبول کرتے ہیں۔ الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کی درآمد سے ہٹ کر پاکستان میں موبائل استعما ل کرنے والے 133ملین فعال افراد ہیں۔ ان کے لیے اس مسئلے کا ایک اور پہلو سامنے آیا ہے۔ یہ ہے ملک کے اندر پیدا ہونے والا الیکٹرانک کاٹھ کباڑ۔ گزشتہ ایک سال میںپاکستان میں مقامی موبائل فون جوڑنے والے اور کیو موبائل درآمد کرنے والے ادارے نے 864,000موبائل فون فروخت کیے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں دیگر بڑی موبائل فون بیچنے والی کمپنیوں میں سےم سنگ، ہواوے، ایپل، نوکیا، ایچ۔ٹی۔سی، لینووو، سونی، ایل۔جی اور ہائر شامل ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ چالیس لاکھ موبائل فون بکتے ہیں۔ اس سے اس بات کو دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک کے اندر الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کی کتنی مقدار پیدا ہوتی ہے۔
نئے لیپ ٹاپ، مانیٹرز، ٹی۔وی، کیتھوڈ رے ٹیوبز، ان پٹ۔آﺅٹ پٹ ڈیوائسز اور ایل۔ای۔ڈیزسی۔ڈی۔ایز اس ملکی کاٹھ کباڑ میں بہت زیادہ اضافہ کرتے ہیں۔
یونی ورسٹی آف نیو ساﺅتھ ویلزکے محقق پروفیسر وینا سہاج والا نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ ایک ٹن موبائل فون (تقریباً چھ ہزار ہینڈ سیٹ) میں 130کلوگرام تانبا، 3.5کلو چاندی، 340گرام سونا، 140گرام پلاڈئیم ہوتا ہے۔ اس کی مالیت ہزاروں ڈالر ہے۔ وہ ایک میٹرئل سائنس دان ہے جو بنیادی طور پر الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کے بارے میں ہمارے ادراک کو تبدیل کرنا چاہتی ہے کہ یہ ردّی نہیں بلکہ خزانہ ہے۔ عالمی سطح پر الیکٹرانک کاٹھ کباڑ ایک شدید مسئلہ ہے۔ 2009اور2014,کے درمیان عالمی سطح پر الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کی پیدا ہونے والی مقدار دوگنا ہو گئی ، یہ مقدار 42سالانہ ملین میٹرک ٹن تک جا پہنچی۔ اقوامِ متحدہ یونی ورسٹی کی رپورٹ کے مطابق اس کاٹھ کباڑ کی مجموعی قدروقیمت کا تخمینہ 52بلین امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔
پروفیسر وینا سہاج والا نے ایک بیان میں کہا کہ ”ہم پہلے ہی سورج سے حاصل ہونے والی سبز توانائی کی قدروقیمت کے بارے میں جانتے ہیں ، اسی طرح ہم اپنے کاٹھ کباڑ سے قیمتی سبز مواد حاصل کر سکتے ہیں۔ہمارے کاٹھ کباڑ کے ڈھیروں کی ”کان کنی“ سے معیشت اور ماحول دوونوں کے لیے معنی رکھتی ہے۔ “ اب تک محفوظ الیکٹرانک کاٹھ کباڑ کی پراسیسنگ کا عمل انتہائی قیمتی صنعتی پیمانے پر بنائی گئی بڑی بڑی بھٹیوں تک محدود ہے ، دُنیا بھر کے بہت سے ممالک کے پاس اس کا کوئی قابلِ عمل حل موجود نہیں۔ کلین اپ آسٹریلیا نے تخمینہ لگایا ہے کہ آسٹریلوی ہر سال چار ملین ٹیلی وژن اور تین ملین کمپیوٹر ہر سال خریدتے ہیں، ان کا تقریباً نوے فی صد ملبے کی صورت میں ختم ہو جائے گا۔
وہ اس وقت صنعتی پیمانے پر پگھلانے کے کم لاگت متبادل کے لیے مونوٹائپ بنانے پر کام کر رہی ہے۔ یہ یو۔این۔ایس ۔ڈبلیو پر مبنی ہو گا۔ یہ تصور سادہ مگر جدّت والا ہے۔ یہ تقریباً ایک شپنگ کنٹینر کے سائز کا ہوتا ہے، اسے مضافات میں جمع کیے جانے والے مقامات، دُوردراز معاشروں اور ترقی پذیر دُنیا میں رکھا جاسکتا ہے۔ سہاج والا اِس منصوبے پر صنعت کے ساتھ اشتراک کر رہی ہے۔
یہ مصغر فیکٹڑیاںنہایت قیمتی بھرتوں، سرامکس، کمپوزٹس اور نینو میٹریل کو بلوئیں گی جب کہ ساتھ ہی ساتھ اگر کوئی مضر اثر ہو تو اُسے ختم کر دیا جائے گا۔ چوں کہ یہ مواد پہلے ہی مارکیٹ میں قدروقیمت رکھتا ہے، وہ مخصوص تیار کنندگان کو فائدہ دے سکتے ہیں جو زیورات سے لے کر بحری ہارڈ وئر تیار کر سکتے ہیں۔ یہ بات سہاج والا نے کہی ہے۔
جاپان بھی اس امکان کو بروئے کار لانے پر سوچ بچار کر رہا ہے کہ اولمپک 2010میڈل الیکٹرانک کاٹھ کباڑ سے نکالی گئی قیمتی دھاتوں سے بنائے جائیں۔ جاپان کی اولمپک کی منتظمہ کمیٹی کے ارکان نے اس سال کے اوائل میں یہ تصور حکومتی اہل کاروں اور کمپنیوں کو پیش کیا۔تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ میڈل اولمپک کی میزبانی کرنے والے شہر کان کنی کرنے والی فرموں سے دھات حاصل کر کے بناتے ہیں لیکن جاپان جہاں دھاتی وسائل کی کمی ہے، وہ ایک پائیدار مستقبل کو ایک قدم اور آگے لے جانا چاہتا ہے۔ دی انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی دُنیا کے سب سے بڑے کھیلوں کے اس مقابلے کے لیے سخت معیار مقرر کیا ہے اور اس معیار میں یہ بھی شامل ہے کہ میڈل کیسے تیار کیے جائیں۔ مثال کے طور پر ریو اولمپکس نے وہ سونا استعمال کیا جو مرکری کے استعمال کے بغیر حاصل کیا گیا تھا اور چاندی اور کانسی کو ری سائیکلنگ کے ذریعے سے حاصل کیا گیا تھا۔
یہ مناسب وقت ہے کہ بجائے ماحول اور دُنیا کو خوب صورت قوانین سے دھوکا دینے کے ہماری حکومت ان قوانین کو پورے جذبے کے ساتھ نافذ کرنا شروع کر دے۔ دُنیا کی تباہ شدہ باقیات کا مقام بننا ہمارا مقدر نہیں ہے۔
کیا یہ ہمارا مقدر ہے؟