برے طریقے سے بنائے گئے قوانین چوٹی پر ہیں اور دیگر قوانین پیشگی آگاہی کے بغیر کمزور انداز میں تخلیق کیے گئے ہیں۔ جب امریکا کے شعبہ¿ انصاف نے کیلی فورنیا میںدسمبر میں دہشت گردی کے حملے میں ملوث گن مین کے ملکیتی آئی۔فون کا ڈیٹا دیکھنے کے لیے عدالتی دادرسی چاہی تو ایپل ان کارپوریشن (جو کیلی فورنیامیں ہے)کے وکیلوں نے دلیل دی کہ” مقاصد کے حصول کے ایسے طریقے قانون کی عمل داری، جمہوری عمل اور امریکی عوام کے حقوق کے خلاف ہیں۔“
ہمارے ملک میں پاکستان سائبر کرائم بل 2015 کا سیکشن29 حکم دیتاہے کہ سروس فراہم کرنے والا کم سے کم ایک سال کے لیے ٹریفک ڈیٹا کو برقرار رکھے گا۔ یہ 2002ءکے الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس کی توثیق کرتا ہے۔ ایسی برقراری کم از کم ایک سال کے لیے ہو گی۔اس سے پہلے ایک عبوری ڈرافٹ میں یہ مدت نوے دن تھی۔ باریکیاں غیر یقینی کی طرف لے جاتی ہیں ۔ اس کا مطلب ہے سروس مہیا کرنے والوں کو غیر معینہ مدت کے لیے ڈیٹا محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو گی۔
کوئی ورژن بھی فرد کی نجی زندگی کی پوشیدگی کی ہلکی سی بھی توثیق نہیں کرتا۔ پاکستان میں عوام کی مرضی کے احترام کے بغیر اُن کے دیگرحقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ چیک مارکس جس کی بنیاد تل ابیب ، اسرائیل سے باہر ہے، ایک سرکردہ معلوماتی سیکیورٹی پبلی کیشن ہے۔ اس نے ایک نوجوان پاکستانی رافع بلوچ کودُنیا کے چوٹی کے پانچ اخلاقی ہیکرز میں سے ایک کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن اُس کے اپنے ملک میںرافع بلوچ کو قید ہو سکتی تھی کیوں کہ سائبر کرائم کا سیکشن تین بتاتا ہے کہ ”جو کوئی دانستہ طور پر کسی انفارمیشن سسٹم یا ڈیٹا تک ناجائز اور غیر قانونی رسائی حاصل کرتا ہے، اُسے تین ماہ تک قید یا پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ “
لیکن رسائی کا کیا مطلب ہے؟
”رسائی“ کی تعریف سیکشن تین میں ملتی ہے۔ اس کے مطابق رسائی سے مراد ہے ’کنٹرول حاصل کرنا یا کسی انفارمیشن سسٹم کو کلی یا جزوی طور پر استعمال کرنے کی اہلیت خواہ کسی حفاظتی اقدام کی خلاف ورزی ہو یا نہ ہو۔“
سیکشن 9کے اندر ”کسی جرم کی تعریف و ستائش اور نفرت انگیز تقریر“ خاص طور پر تکلیف دہ اور ناگوار ہیں۔یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اب اگر کسی بھی شخص پر کسی جرم کا الزام ہو تو اُسے مجرم قرار دیا جا سکتا ہے ، یہ اس اُصول کے بر عکس ہے کہ جب تک کسی شخص کا قصور ثابت نہ ہو جائے اُسے بے گناہ تصور کیا جائے گا۔
فیصلوں پر تنقید کرنے والوں کو اب مجرم سمجھا جائے گا، کیوں کہ وہ انصاف کی عدم فراہمی کے خلاف آوازیں اُٹھاتے رہتے ہیں۔ اب ان کی بات کا غلط مطلب لے کر انھیں کسی ملزم یا سزا یافتہ شخص کی ”تعریف وستائش“ سمجھا جا سکتا ہے۔
کسی الزام یافتہ شخص یا کسی جرم میں غلط طور پر سزا یافتہ شخص کی حمایت کرنا نہ صرف غیر قانونی ہو گا بلکہ قابلِ سزا بھی ہو گا۔ یہ سزا پانچ سال قید یا دس ملین روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے۔
مذکورہ بالا پامالیِ حقوق کی مزید گواہی سیکشن1 ”سم کارڈ کا ناجائز اجرا“ اور سیکشن 1 ” کمیونی کیشن کے آلے کی ٹمپرنگ وغیرہ“ سے مل جائے گی۔ یہ زیادہ تر پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ 1966کی ہو بہو نقل ہے ۔ اُنھوں نے ٹیلی کام اپریٹرز کو مجرمانہ طورپر ذمہ دار قرار دیا ہے۔
اس سیکشن کی پی۔ای۔سی۔بی میں اضافہ کرنے اور اپریٹرز کو ڈرانے دھمکانے کی ضرورت نہیں تھی جو لاکھوں ڈالر کمانے کے لیے پہلے ہی حکومت کی سِم ویری فکیشن پالیسی کے نفاذ کا کہا گیا ہے۔
ٹیلی کام ایکٹ کے تحت پی۔ٹی۔اے کو پہلے ہی لائسنس کی کسی شرط کی عدم تعمیل پر ٹیلی کام اپریٹروں کو سزا دینے کے زبردست اختیارات حاصل ہیں ۔ پی۔ٹی۔اے ، ایف۔آئی۔اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے داروں کو ٹیلی کام اپریٹرز کو ہراساں کرنے کے لیے مزید اختیارات کا دینا ناقابلِ فہم ہے۔ اس سے مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔ موجودہ دہری تقریرکے بوجھ تلے دبائے بغیر آئیے گہرائی میں جا کر دیکھتے ہیں۔
سیکشن 18کسی شخص کے وقار کے منافی جرائم پر مشتمل ہے۔ یہ سیکشن دراصل ہتک عزت آرڈی ننس2002 اور ہتک عزت (ترمیمی) ایکٹ 2004کی ایک بھدی نقل ہے۔ اس جرم پر پہلے ہی پی۔سی۔پی کے سیکشن 500 اور 501 کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں۔
سیکشن22”سپیمنگ“ سے نمٹتا ہے۔ اس کو ای۔میل ان باکس میں فلٹر لگا کر، موبائل فون میں نمبر بلاک کر کے آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ کوئی چیز جو زیادہ تر جھلاہٹ کا باعث ہو ، اُسے جرم قرار دیے جانے کی ضرورت نہیں۔
اس غل غپاڑے سے پالیسی کو پالیسی کے راہ نما اُصولوں اور ریگولیٹری فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے نمٹنا چاہیے۔حدود کا تعین کرنے کے لیے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے قوانین متعارف کرائے جانے چاہییں تاکہ نمبروں کی فہرستیں نہ تو اتنی تیزی سے شئیر کی جا سکیں اور نہ ہی اس انداز میں ان کا غلط استعمال کیا جا سکے۔ کال سینٹرز کے اس دور میں آن لائن مارکیٹنگ اور ایس۔ایم۔ایس کے ذریعے کاروبار کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ ہیں۔ ایسی ”سپیمنگ“ چھوٹے کاروباری افراد کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے گاہکوں تک پہنچنے کے لیے اس نسبتاً سستے وسیلے کا سہارا لیتے ہیں۔ کس قانون کے تحت اُن مجرموں سے نمٹا جائے گا جو بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے طلبہ کو کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے نمبر ”بیچتے“ ہیں؟
سیکشن 34 ”انٹیلی جنس کو مینیج کرنے اور کسی انفارمیشن سسٹم کے تحت کسی انٹیلی جنس ایجنسی کو رسائی کو ختم کرنے یا بلاک کرنے کے لیے ہدایات کے اجرا سے نمٹتا ہے۔ یہ شق حکومت پی۔ٹی۔اے کو نہ صرف انٹرنیٹ پر بلکہ کسی بھی ڈیوائس کے ذریعے رسائی بلاک کرنے یا ختم کرنے کے بلامواخذہ اختیارات دیتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور میڈیا کی آزادی سلب ہوتی ہے بلکہ نجی اور ذاتی معلومات کی پوشیدگی کے حوالے سے اس کے شدید مضمرات ہیں۔
سیکشن 43”الیکٹرانک جرائم کی روک تھام“کی طرف توجہ دیتا ہے۔
یہ حکومت کو وقتاً فوقتاً راہ نما اصول جاری کرنے کی اجازت دیتا ہے اور تعمیل میں کمی کو قابلِ سزا جرم قرار دیتا ہے۔ ایسے ”راہ نما اُصول“ جو ٹیکنیکل مہارت یا علم کے بغیر جاری کیے جائیں ، وہ سروس مہیا کرنے والوں پر غیر حقیقی بوجھ ڈال سکتے ہیں کہ وہ اس انداز میں کام کریں کہ جو عملی نہ ہو یا ممکن نہ ہو۔ مزید یہ کہ سیکشن 35کے اندر سروس مہیا کرنے والوں کو جو وسطی ذمہ داری کا تحفظ دیا گیا ہے، یہ شق اُس کی نفی کرتی ہے۔
سائبر کرائم بل کا گہرا تجزیہ کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے لیکن اب جب کہ بل منظوری کے لیے ایوانِ بالا (سینیٹ) کے سامنے ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس بل میں مندرجہ¿ ذیل ترامیم کی سفارش کرتے ہیں تاکہ اس کی توجہ حقیقی جرم سے لڑنے کی طرف رہے نہ کہ سادہ مزاج اور پہلے سے بوجھ تلے دبے عوام کو الجھانے کی طرف۔
جب اس بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا تو قابلِ قدر اور اچھی شہرت رکھنے والوں نے اس کے خلاف شدومد سے آواز اُٹھائی، ان میں شامل تھے:
انٹرنیٹ سروس پووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان
پاکستان سوفٹ وئر ہاوزز ایسوسی ایشن
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس
رپورٹرز وِدآﺅٹ بارڈرز
بولو بھی
ڈیجی ٹل رائٹس فاﺅنڈیشن
بائیٹس فار آل
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی
انسٹی ٹیوٹ آف ری سرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (ارادہ)
ان سب نے کمیٹی سے کہا کہ وہ اس قانون کو خلافِ قانون قرار دے کر نظر انداز کر دیں یا اس میں مطلوبہ تبدیلیاں کریں تاکہ قانونی طور پر کاروبار کرنے والوں اور مجرمانہ سرگرمیوں کے مابین امتیاز کرنے میں مدد ملے۔ بد قسمتی سے ان کی کان کے پردے پھاڑ دینے والی سفارشات بہرے کانوں کے لیے بے کار ثابت ہوئیں اور ایک ہو بہو نقل شدہ قانون ناقابلِ فہم انداز میں منظور ہو گیا۔
اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے ، جب کہ بل پہلے ہی سے حتمی منظوری کے لیے سینیٹ میں موجود ہے، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے کنوینر وہاج السراج ، ڈائریکٹر بولو بھائی فریحہ عزیز، ایگزیکٹو دائریکٹر سینٹر فار ڈس کشنز اینڈ سلوشنز آصف لقمان قاضی اور نائب صدر آئی۔ایس۔پی۔اے۔کے خواجہ سعد سلیم نے بل میں مندرجہ¿ ذیل ترامیم کی سفارش کی:
کری ٹیکل انفراسٹرکچر کی تعریف میں صرف حکومتی انفراسٹرکچر ہی نہیں ، نجی کاروبار بھی شامل کیے جائیں۔
سروس پرووائیڈرز کی تعریف میں ترمیم کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ انتہائی مبہم ہے۔
سیکشن 10میں: سائبردہشت گردی، ایک شق کا حوالہ ”جو کوئی جرم کرنے کی دھمکی دیتا ہے“ ۔ اس سیکشن میں چودہ سال کی سزا کا ذکر ہے۔ جب کہ کسی جرم کا ارتکاب یقیناً قابلِ سزا ہونا چاہیے ، تقریباً ہر بات کو غلط طور پر دھمکی سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ سیکشن اخلاقی ہیکنگ وھائیٹ ہیٹ ہیکرز ، مشغلہ پسند وں کے لیے ایک شرط کا تقاضا کرتا ہے جو ایسی سرگرمیاں کرتے ہیں جن سے سسٹم میں سیکیورٹی کی کمزوری کی شناخت ہو سکے۔ اسے تیرہ سال تا انیس سال کے نوعمر وں کو سائبر دہشت گردی میں ملوث کرنے اور چودہ سال کی سزا سے محفوظ رکھنا چاہیے کیوں کہ ہو سکتا ہے اُنھوں نے جو سرگرمیاں کی ہوں وہ بوریت کی وجہ سے ہوں۔ انھیں ڈانٹنا ڈپٹنا چاہیے لیکن کبھی سختی سے پیش نہیں آنا چاہیے۔
سیکشن اٹھارہ، انیس اور اکیس میں شق 2 پی۔ٹی۔اے کوجرم کے تعین کے ذریعے بے تحاشا اختیار دے دیتی ہے اور مطلوبہ اس کے صوابدیدی اختیارات کی وجہ سے غائب ہو گیا ہے۔ اسے عدالتی عمل سے مشروط ہونا چاہیے۔
سیکشن 21: سائبر سٹاکنگ، سب سیکشن اے تا سی میں مبہم اصطلاحات شامل ہیں جیسے فحش، بیہودہ، حقارت آمیز ، نازیبا اور غیر اخلاقی۔ ان سب سیکشنوں کو حذف کر دینا چاہیے۔ سب سیکشن ڈی کی ڈھیلی ڈھالی زبان کو سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے زیادہ وسیع انداز میں عوامی واقعات (جنھیں میڈیا اور سیاسی جماعتیں کور کرتی ہیں) پر لاگو کیا جا سکے۔
سیکشن28: ”ڈیٹا کا تیز ی سے محفوظ کرنا اور حاصل کرنا“، یہ چیز مجاز افسر کو یک طرفہ طور پر اور بے روک ٹوک اختیار دیتی ہے کہ جب افسر کو یقین ہو کہ ڈیٹا کی مجرمانہ تفتیش کے مقاصد کے لیے واقعی ضرورت ہے ، وہ ڈیٹا مہیا کرنے اور اسے محفوظ کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ اس خطرے کے پیشِ نظر کہ کہیں ڈیٹا ناقابلِ رسائی نہ بن جائے، مجاز افسر ایسی درخواست کو عدالت کے علم میں لانا چاہیے۔
سیکشن35: سروس پرووائیڈرز سے اس بات کا تقاضا نہ کیا جائے کہ وہ رئیل ٹائم کلیکشن اور ڈیٹا ریکارڈنگ رکھیں۔
سیکشن 38: اس وقت جیسا کہ سیکشن دس اور انیس میں دیا گیا ہے، ضمانت کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ موخرالذکر کو اس کیٹیگری میں نہیں ہونا چاہیے۔سیکشن 10حذف کر دینا چاہیے۔
سیکشن42 اپیل کے حق کی بات کرتا ہے۔ لیکن اپیل عدالت کے حتمی فیصلے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ ہائی کورٹ کے سامنے قانونی اپیل کرنے کا حق بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان سوفٹ وئر ہاﺅزز ایسوسی ایشن کے ترجمان سید احمدنے MOREسے بات چیت کرتے ہوئے کچھ دیگر اہم خامیاں بھی نمایاں کیں ۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ اگر منظور کر لیے جائیں تو مندرجہ¿ ذیل اضافے اس بل کو بامقصد اور پسندیدہ بنانے کے لیے کام آئیں گے۔
”غیر قانونی اور ناجائز رسائی“ کی تعریف وضاحت طلب ہے خصوصاً جب اسے سسٹم یا ڈیٹا اور نقل کرنے یا آگے ترسیل کرنے کے سیکشن تین اور چار کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے ۔ کس صورت میں اجازت یا اختیار درکار ہوگا، اسے واضح نہیں کیا گیا۔ غور فرمائیے: اگر کوئی زبانی طور پر کسی دُوسرے شخص کو اپنا لیپ ٹاپ استعمال کرنے کا مجاز بنا دیتا ہے جیسا کہ رفقائے کار اور ہم جولیوں میں یہ عام روش ہے، تو اس صورت میں مجاز ہونے کا ثبوت کہاں ہے؟ کیا سزا کسی ممکنہ غلط فہمی کا ارادی نتیجہ ہے؟
سیکشن 11 الیکٹرانک جعل سازی اور سیکشن12الیکٹرانک دھوکا دہی : ان جرائم کی ٹیکنیکل نوعیت دی ہو تو ان سیکشنوں کو ماقبل وضاحتیں سمجھنی چاہییں، یا اگر کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اسے ثابت کرنے کے لیے کچھ وضاحتیں ایسی ہوں جو عدالت کی معاونت کر سکیں ۔ایک جائزے کا عمل بھی ہونا چاہیے تاکہ نقصان کے درجے کا تعین کیا جا سکے، اس لیے کہ جرم کے تناسب سے سزا دی جا سکے۔
سیکشن 20، بد نیتی والا کوڈ: اس شق کے لیے ایک شرط استثنا تخلیق کرنا ضروری ہے۔جو ”بد نیتی والے کوڈ“ یا ”وائرس“ سمجھے جاتے ہوں، اکثر پڑھائے جانے والے یا لکھے جانے والے تعلیمی موضوعات ہوں۔
سیکشن 27: مجاز افسر کے اپنے اختیار میں کوئی وارنٹ ہو گا ، نہ تلاشی ، نہ گرفتاری۔ افسر کو عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا اور وہاںتفصیلاً تحریری صورت میں معقول وجوہات بتا کر عدالت سے تلاشی یا گرفتاری کے لیے وارنٹ حاصل کرنا ہوں گے
سیکشن 33، قبضے میں کیے گئے ڈیٹا سے نمٹنا: یہ بات وفاقی حکومت کی صوابدید اور اس کی قانون سازی کے اختیارات رہ گئی ہے۔ اس کے بجائے طریقِ کار واضح طور پر موجود ہونا چاہیے۔ اکثر اوقات ڈیٹا حساس معلومات پر مشتمل ہوتا ہے ، اسے کس طرح قبضے میں لیا جائے، اس سے کیسے نمٹا جائے اور کیسے اسے محفوظ رکھا جائے، یہ تمام باتیں واضح راہ نما اصولوں کا تقاضا کرتی ہیں۔
سیکشن37، بین الاقوامی تعاون: یہ ایکٹ وفاقی حکومت کو بے ضابطہ اور خودمختار اختیار دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی فروگزاشت کے بین الاقوامی حکومتوں ایجنسیوں کے ساتھ معلومات شئیر کرے ۔ سب سیکشن 3میں ایکٹ بین الاقوامی حکومتوں کو معلومات خفیہ رکھنے کو کہتا ہے یا اسے چند شرائط کے ساتھ مشروط کر کے استعمال کرنے کو کہتا ہے۔ بین الاقوامی حکومتیں اس ایکٹ کی پابند ہیں نہ ان شرائط کی جو پاکستانی حکومت اس معلومات کے لیے عائد کرتی ہے۔
واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس قانون کو جس طرح بنایا گیا ہے وہ ٹیکنیکل اعتبار سے ٹھیک نہیں۔ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے فلٹر نہیں کیا گیا، یہ ناجائز بلکہ ظالمانہ قانون ہے۔ موجودہ قانون پاکستان کی نرم و نازک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کو مزید عدم استحکام کی طرف لے جائے گا۔
یہ عام آدمی کی نجی زندگی کی رازداری اور سیکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہو گا۔ یہ موجودہ بین الاقوامی گاہکوں کو بھی ہم سے الگ کر دے گا۔ اسے بغیر کسی روک ٹوک کے چھوڑ دیا گیا تو اس سے ٹیلی کام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں تباہی و بربادی آ جائے گی۔ اس کی یقین دہانی کرائی جانی چاہیے۔
آئیے ہم ایسے قوانین بنانے کے لیے (اگر واقعی ضروری ہوں تو) اچھی شہرت کے حامل مختلف ٹیکنالوجی کمیونٹی کے لوگوں سے مشاورت کریں تاکہ بنیادی ضروریات اور زمینی حقائق ذہن میں موجود رہیں۔ لیکن گزشتہ روش اتنی خوف ناک تھی کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بل پر نظر ثانی کی ۔ یہ بل پاکستان سوفٹ وئر ہاﺅزز ایسوسی ایشن نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آئی۔ٹی۔ایز، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوی ایشن آف پاکستان اور کچھ دیگر حصے داروں کے لیے تیار کیا تھا۔ اُنھوں نے اس بل کو غیرشفاف اور غیر مشاورتی بنا دیا۔
ایسی اصلاحات کے بغیر جن کا کوئی امکان نہیں ہے ، ہم سفر پر چل نکلتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ خراب طرح سے بنائے گئے قوانین کو پرکھنا اور اُن کا جائزہ لینا بہت دور کی بات ہے۔ ہمارے حقوق کی وسیع پامالی کو روکنے کا واحد راستہ اس قانون کی فوری طور پر منسوخی اور خاتمہ ہے۔
قبل اس کے کہ بہت زیادہ تاخیر ہو اجئے، کیا سینیٹ صنعت کو ذہن میں رکھے گی؟
یہ سوال تشنہ¿ جواب ہے؟