pin up casinomostbet1winpin up

15فروری 2014ء”دی اکانومسٹ“ میں ایک کہانی شائع ہوئی۔ اس کا عنوان تھا : اُردُو: بڑھوتری کی شرح۔ اس کہانی کا دائرہ کار پاکستان کی قومی زبان نہیں تھا۔ تاہم اُس وقت کے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں بڑھوتری کی کمزور حالت کی تصویر کشی کرنے کے لیے
اُردُو کا نام بطورِ استعارہ استعمال کیا گیا تھا۔پاکستان کے دو سو ملین عوام مجموعی طور پر 72صوبائی اور علاقائی زبانیں بولتے ہیں۔ ان میں اُردُو بھی شامل ہے۔ ایک پارلیمانی دستاویز کے مطابق ان میں سے دس زبانیں یا تو مشکل میں ہیں یا پھر معدوم ہونے کے قریب ہیں۔
بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح سے لے کر جسٹس جواد ایس۔ خواجہ تک جو کوئی بھی اُردُو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانا چاہتا ہے، بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اُوپر بیٹھے ہیں، اُنھیں اس بات میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ اکیسویں صدی میں کمپیوٹراور سائنس کی زبان کی طرف اس کی رفتار ڈانوا ڈول اور غیر مستحکم ہے۔ اُردُو کو ایک ڈیجی ٹل زبان بنانے کی بحث اور تلاش ایک اور متوازی بحث کے نیچے دب کر رہ گئی ہے۔ یہ بحث انگریزی کے مقابلے میں اُردُو کی افادیت سے متعلق ہے۔ دونوں فریقوں نے اصولی بات یعنی اُردُو کو ڈیجی ٹل کرنے کی ضرورت کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ایک انتہا پر محبانِ انگریزی قومی دوڑ میں اُردُو کو اس کا مقام دینے سے انکار کرتے ہیں اور دُوسری جانب محبانِ اُردُو ، انگریزی کو سوتیلی زبان سمجھ کر اس سے نفرت کرتے ہیں۔
قومیں اپنی زبانوں پر فخر کرتی ہیں اور قوموں کی شناخت اُن کی قومی زبان سے ہوتی ہے۔ اہلِ عرب، چینی اور جرمنوں نے اپنی زبانوں پر اس حد تک فخر کیا ہے کہ اُن کی قومی اور لسانی شناخت باہم ایک ہو گئے ہیں۔ تاہم، ہم تذبذب کا شکار رہے ہیں۔ آغاز ہی سے پاکستان میں اُردُو کی حیثیت متنازع رہی ہے۔
اسے ایک طرح سے کثیراللسانی معاشرے کی طرف دھکیل دیا گیا کہ اس نے محبان کی نسبت دشمن زیادہ پیدا کیے۔ پہلی محاذآرائی مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کی طرف سے سامنے آئی جہاں اکثریت کے لیے اُردُو انجانی زبان تھی اور اُن کی سرکاری زبان بنگالی تھی۔ لیکن قائدِ اعظم نے ایک قوم بنانے کی جستجو میں اُنھیں یہ بتانے اک فیصلہ کیا کہ بغیر اُردُو کے وہ پاکستانی نہیں ہیں۔ 1948ءمیں ڈھاکا یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے اپنی صاف ستھری انگریزی میں کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردُو ہو گی اور اس کے علاوہ کوئی دُوسری زبان نہ ہو گی اور جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے۔
بنگلہ دیش کی علاحدگی کے بعد یہ محاذ آرائی پھر سے شروع ہوئی لیکن اُردُو جو ہماری قومی زبان ہے، اب تک دفتری زبان نہیں بن سکی ہے۔ ہم اُردُو انگریزی میڈیم کے مابین آوارہ گردی کر رہے ہیں اور ہمارے ساٹھ فی صد بچے توازن قائم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں ۔ اس کی وجہ اُن کا انگریزی زبان کے پرچے میں مسلسل ناکام رہنا ہے۔ نہ انگریزی اور نہ ہی اُردُو پاکستان کی شناختی بولی بن سکی ہے۔ ہمارے دفاتر میں اُردُو کی اجازت نہیں ہے جب کہ گلی کوچوں میں انگریزی کی اجازت نہیں ہے۔
یہ بحث اُس وقت دوبارہ شروع ہوئی جب ستمبر 2015ءمیں عدالتِ عظمیٰ کے جسٹس جواد ایس۔خواجہ نے اُردُو کو دفتری زبان بنانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 5کو آرٹیکل251کی لائن میں نافذ کرنے کے لیے نواز شریف کو تین ماہ کا وقت دیا ، لیکن دی گئی مہلت ختم ہو گئی اور اُردُودوڑ ہار گئی۔
بہت سی عالمی زبانیں مردہ ہو گئی ہیں۔ جب قومیں اپنی زبانوں پر فخر کرنا ختم کر دیتی ہیں ، تو وہ اس حالت کا شکار ہوتی ہیں۔ زبان کے قتل کے جرم میں ملوث تسلیم شدہ مجرموں میں عالم گیریت،صنعت کاری، جدّت اور آبادی کا دباﺅ شامل ہیں۔ دُنیا کے معاشی نمونے فرسودہ معاشروں کو کسی اور ثقافت اور زبان کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اُن کی اپنی زبان عالمی ضروریات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ۔ اس لیے وہ اقوام دانستہ طور پر کسی اور زبان کو اپنی زبان کی جگہ غالب آنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اسے ”لسانی انجذاب“ کہا جاتا ہے۔ یہ انجذاب کئی مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
پہلے پہل کمزور زبان کے بولنے والے غالب زبان بولنے میں شدید دباﺅ محسوس کرتے ہیں ۔ یہ دباﺅ کئی طرح کا ہوتا ہے، مثلاً دفتری ابلاغ ، سکول کی زبان ، ساتھیوں اور حکومتی قوانین کا دباﺅ۔دُوسرے مرحلے پر جسے ذولسانیت کا نام دیا جاسکتا ہے، لوگ دو زبانیں اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک زبان ضرورت کے تحت اور دُوسری اس زبان سے محبت کی وجہ سے۔ ہمارے ہاں دیکھا جائے تو اُردُو اور انگریزی اس کی مثالیں ہیں۔
تیسرے مرحلے پر اُن کی نسلِ نو جو اُن کی اپنی زبان سے اس قدر محبت نہیں رکھتی، وہ خود کو غالب زبان سے زیادہ شناسا سمجھتے ہیں ، یوں وہ اُن کا اپنی قومی زبان سے رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے ( ہمارے ہاں اس کی مثال اُردُو ہے،)
آخری مرحلے پر ظہور میں آنے والے سب سے زیادہ مجبور کرنے والے عوامل میں اپنے والدین اور باپ دادا کی زبان بولنے میں شرمندگی اور کمتری کا احساس شامل ہے۔ اسی مرحلے پر ”زبان کا قتل“ ہوتا ہے۔ بظاہر اُردُو دُوسرے مرحلے کے آخری دور سے گزر رہی ہے۔ اگر بروقت ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ تیسرے مرحلے یعنی قتل کی طرف بڑھ جائے گی۔
اس صدی میں زبان کو بچانے کے لیے زبان کی علم اور جدت سے مطابقت ضروری ہے۔ اُردُو کے معاملے میں ہم نے اس بنیادی اُصول کو فراموش کر دیا ہے۔ اگرچہ پیش رفت ہوئی ہے تاہم اس قدر تاخیر ہو چکی ہے کہ ہم اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی زبان نہیں کہہ سکتے۔ ترقی پسند قوموں نے اس ضرورت کو بر وقت محسوس کر لیا ۔ مثال کے طور پر جرمنی کی عدالتِ عالیہ کے 1985کے فیصلے نے اُس وقت تک کمپیوٹر کی ترسیل کو روک دیا جب تک کہ اس میں جرمن زبان میں کمپیوٹر چلانے کی ہدایات موجود نہ ہوں۔
چینی، یورپی، روسی اور عرب اقوام نے بھی اپنی قومی مقامی زبانوں کے نفاذ کے لیے ایسے ہی اقدامات کیے۔ ہم فخر کے ساتھ سب کے لیے انگریزی زبان کو قبول کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے آج دُنیا کی کوئی الیکٹرانک، کمپیوٹر ہارڈ وئراور سوفٹ وئر کمپنی اپنی مصنوعات کو استعمال کرنے کے طریقِ کار پر مشتمل کتابچوں کو اُردُو زبان میں بھی تیار کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج دُنیا جس مشینیت سے مستفید ہو رہی ہے، ہماری آبادی کا 80فی صد سے زائد اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا پاتا۔ چیک بک سے لے کر ریل گاڑی کے ٹکٹ تک ایک عام شخص ڈیجیٹل شکل دینے کے معنی کا فہم نہیں رکھتا۔
1970اور 1980کی دہائی کے اوائل میں اُردُو سوفٹ وئر بنانے کا کام شروع ہوا۔ تب سے آج تک بہت سی ایپلی کیشنز بنائی گئی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی مشہور ایپلی کیشنز جیسے کورل ڈرا، ایڈوب فوٹو شاپ، السٹریٹر اور ایسی ہی دیگر ایپلی کیشنز کو بے جوڑ ڈیٹا فراہم کرنے میں
کامیاب نہیں ہو سکی۔ اب بھی اگر اُردُو کی کوئی چیز کہیں بھیجنی ہو تو اُسے تصویر بنا کر بھیجا جاتا ہے اور کوئی بھی اعلیٰ قسم کا ڈیزائن سوفٹ وئر اُردُو کو بطورِ زبان قبول نہیں کرتا۔ اُردُو متن کو کورل ڈرا میں تبدیل کرنا ممکن نہیں، یہاں تک کہ اُردُو ٹائپنگ کا موجودہ سوفٹ وئر ،جس میں مشہورِ زمانہ ”اِن پیج“ شامل ہے، کے بے شمار ورژن ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کمپیوٹنگ معیار کے بغیر بنایا گیا ہے اور ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں اور کوڈ پیج ہیں۔ حتیٰ کہ ان سوفٹ وئرز کے مابین ڈیٹا کا تبادلہ بھی نہیں ہو سکتا۔ انگریزی کے سوفٹ وئرز کے برعکس اُردُو سوفٹ وئر کے کی۔بورڈ کی اپنی سیٹنگ ہے۔ اُردُو سوفٹ وئر استعمال کرنے والے نئے صارف کے لیے یہ ایک چیلنج ہے۔
اُردُو پر فخر کرنے کے لیے ہمیں اس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا کرنا چاہیے۔ عام آدمی کے فائدے کے لیے ای گورننس اور ای کامرس کو اُردُو میں پیش کرنا چاہیے۔ اس شعبے میں ضروری تحقیقی کام نہیں ہوا۔ اس کی وجہ ناکافی کاپی رائٹ اور ان کا کمزور نفاذ ہے۔ اس سلسلے میں واحد سنجیدہ کوشش بھی برباد ہو گئی ہے کیوں کہ ہر لمحے نیوبی اپنا کوڈ تبدیل کر تا ہے، حتیٰ کہ سوفٹ وئر کا نام بھی تبدیل کر سکتا ہے۔
تاہم ہم لغوی معنوں کی پیش رفت اور آن لائن اُردُو لغات کی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں لیکن اس آن لائن لغات میں قواعد کے امور تا حال موجود نہیں۔ جس طرح انگریزی کے سوفٹ وئر اپنے صارفین کو قواعد کی غلطیوں کی نشان دہی کرنے اور ہجوں کی درستی کی سہولت بہم پہنچاتے ہیں، اس طرح کا کوئی سوفٹ وئر اُردُو میں موجود نہیں۔
انگریزی میں سہولت حاصل ہے کہ آپ بولتے جائیں اور سوفٹ وئر آپ کے الفاظ کو تحریری صورت دیتا جائے اور آپ کی سکین کی ہوئی فائل کو ورڈ میں تبدیل کر دے، اس طرح کی سہولت کا اُردُو میں دست یاب ہونا بہت دُور کی بات ہے۔ ہم JPG الیکٹرانک کتابیں تخلیق کر سکتے ہیں۔ اس میں صارف زومنگ کی مدد سے متن کو چھوٹا بڑا کر سکتا ہے، اس کے علاوہ اور کسی بات کی اجازت نہیں ہوتی۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ہمارے نام نہاد ماہرین ابھی تک اُردُو صوتیوں جیسے لھ، مھ، نھ، رھ وغیرہ کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ صوتیاتی اُصول ابھی تک مرتب نہیں کیے جا سکے اور ان کی عدم موجودگی میں اُردُو کی شناخت والی ایپلی کیشن کبھی وجود میں نہیں آ سکتی۔
اسی طرح حروف کی اشکال ، نحو اور علم المعانی بھی محدود ہے۔ یہی نہیں کہ اس سے اُردُو کے فروغ میں مشکل پیش آ رہی ہے بلکہ علاقائی زبانیں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، براہوی، ہند کو اور دیگر کے فروغ میں بھی رکاوٹ ہے، اس لیے کہ یہ علاقائی زبانیں بڑی حد تک اُردُو سوفٹ وئر بننے پر انحصار کرتی ہیں۔ لکھنے کے انداز(سٹائل) پر بھی اختلاف ہے، اس کے علاوہ اس بات پر بھی اتفاق نہیں کہ اُردُو کے کل حروفِ تہجی کتنے ہیں۔ صدیقی اور امروہوی (1977)کی تحقیق کے مطابق اُردُو حروف کی تعداد 53ہے جب کہ پلیٹس (1911)کی رائے میں ان کی تعداد 38ہے۔ کفایت (1993)، سراج(1999)، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ (2000)، بی۔ یو۔کیو (1999)، کے۔یو۔ کیو (1999) کے مطابق اُردُو حروفِ تہجی کی تعداد بالترتیب چھتیس، اکاون، ترپن، سینتالیس اور سینتیس ہے۔
اُردُو سوفٹ وئر کی تشکیل میں بہت سی مشکلات ہیں۔ مستقبل کی زبان کی حیثیت سے اُردُو صرف ایک خواب ہو سکتی ہے۔ ہمارے حروف کی ترتیب نامکمل ہے اور انڈیکسنگ اُس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک کسی زبان کی مطابقت کی ترتیب کی معیار بندی نہ کی جائے۔ یہاں تک کہ کی بورڈ اور فانٹ کے معیارات موجود نہیں ہیں۔
اُردُو میں ایک اور مسئلہ اعراب (زیر، زبر، پیش، جزم وغیرہ) کا ہے۔ جب ان سب کو شامل کیا جائے تو مجموعی طور پر ایک سو اٹھائیس coding slots بنتے ہیں اور سبھی خالی جگہیں پہلے ہی بھری جا چکی ہیں۔ حکومتی سطح پر اُردُو کو آج کی زبان بنانے کے لیے تسلیم شدہ تنظیموں ای ۔اے۔سی۔ایل، آئی۔ایس۔سی۔اے، ای۔اے۔اے، ای۔ ایل۔آر۔اے، ای۔ایل۔ایس۔این۔ای۔ ٹی سے مدد طلب نہیں کر رہا۔
اُردُو اس دوڑ میں مات کھا رہی ہے۔ کیا آپ اسے بچانے کے لیے آگے آئیں گے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *