pin up casinomostbet1winpin up

پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت ایک طویل عرصے سے موجود ہے اور ملکی برآمدات میں یہ شعبہ ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت نے سال ۲۰۰۰ میں صرف ۲ کروڑ ڈالر کی برآمدات کیں جب کہ یہ شعبہ ۳۰ سے ۴۰ فیصد سالانہ ترقی کے ساتھ ۲ ارب ڈالر کی برآمدات کر رہا ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے ٹیکس کی شرح میں واضح اضافہ اس شعبے کی ترقی کے لیے منفی ثابت ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی شعبے پر لگائے جانے والے ٹیکسز کی وجہ سے کئی کمپنیاں پاکستان سے منتقل ہو کر غیر ممالک سے اپنے انتظاماات چلا رہی ہیں۔
سے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ ٹیکس کی ادائیگی کے حوالے سے دھوکہ اور فراڈ میں بھی ملوث ہیں۔ حال ہی میں میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چھ لاکھ کے قریب ٹیکس ادا کرنے والے لوگ ٹیک نیٹ سے غائب ہو چکے ہیں۔ تاہم ایف بی آر یہ بات خوشی سے بتاتی ہے کہ سالانہ ۱۴ لاکھ لوگ باقاعدگی کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس فائل (ٹیکس ریٹرن) بھی داخل کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایف بی آر بمشکل ۸ لاکھ چھپن ہزار، نو سو ستاسی افراد کو ان کے گھروں یا دفتری پتے سے تصدیق کر پائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی ماندہ ۵ لاکھ تراسی ہزار اور ترہ پراسرار لوگ کون ہیں اور کہاں غائب ہیں؟
فعال ٹیکس دہندگان وہ لوگ ہیں جو باقاعدگی سے ایف بی آر کے پاس اپنی ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں۔
‘ٹیکس ایڈمنسٹریٹر’کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں فعال ٹیکس دہندگان کے حوالے سے پاکستان ۶۴نمبر پر ہے جو کہ اس علاقے میں کم تریں ہے۔‘ٹیکس ایڈمنسٹریٹر’کے مطابق بھارت میں ٹیکس دہندگان کا حصہ ۵۳۷، سری لنکا کا ۲۳۲، امریکا کا ۱۹۹۰ اور سوئٹزرلینڈ کا ۳۱۸۲ ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ پاکستان میں ۰۔۶ فی صد، بھارت میں ۴۔۷ فی صد، فرانس میں ۵۸ فی صد اور کینیڈا میں ۸۰فی صد آبادی باقاعدگی سے ٹیکس ادا کر رہی ہے۔ لہذٰا حکومت نے انفارمیشن ٹٹیکنالوجی ک شعبہ کر اصافی ۸ فی صد ٹیکس لگایا مگر ایک غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق اس شعبہ سے منسلک ۴۰ فیصد کے لگ بھگ کمپنیاں پاکستان سے متحدہ عرب امارات منتقل ہو چکی ہیں جہاں سے وہ اپنے انتظامی امور چلا رہی ہیں۔
ایکسیلنس ڈیلیورڈ (ExD)پرائیویٹ لیمٹڈ ٹیکس سے متاثرہ کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ان کے چیف آپریٹنگ آفیسر سجاد سید نے اس باات کی تصدیق کی ہے۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ اب وہ زیادہ تر کام دیگر افراد یا کمپنیوں سے کروا لیتے ہیں اور اپنی کمپنی کو صرف کنسلٹنٹس تک محدود کر لیا ہے۔ ہمارا کام انفارمیشن ٹٰیکنالوجی سے منسلک کاروبار میں بہتری لانا ہے۔ دبئی چوں کہ پاکستان سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہوجود ہے اور یہاں ان جیسے کاروبار پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا لہذٰا ان کی طرح بہت سی چھوٹی کمپنیاں پاکستان سے دبئی منتقل ہو چکی ہیں۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ٹی کے شعبہ کو ٹیکس سے مثتثنیٰ قرار دیا جائےبلکل ایسے جیسے سینما اور تفریحی صنعت پرکوئی ٹیکس لاگو نہیں۔ اکثر ماہرین کی رائے اور حقیقتاً یہ بات درست ہے کہ پڑھے لکھے اور پیشہ ور لوگ ٹیکس حکام کو جان بوجھ کر دھوکہ دیتے ہیں اور ان لوگوں کی وجہ سے ملک میں ٹیکس میں کمی ممکن نہیں رہتی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت جو عالمی سطح پر اربوں روپے کے معاہدے کرتی ہے لیکن اکستانی معیشت کی پائیداری کے حوالے سے کوئی بہتر صورت حال دکھائی نہیں دیتی۔ فری لانسرز (گھر میں رہتے ہوئے یا کسی دفتر کے بغیر کام کرنےوالے لوگ) کی عالمی رینکنگ میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جن کہ upwork.com ہر کام کرنے والے پاکستانی تعداد کے حوالے سےےپانچویں نمبر پر موجود ہیں۔
ان پیشہ ور افراد کے پاس اربوں روپے کے معاہدے اور کام موجود ہیں جب کہ ان میں سے کوئی بھی اپنی آمدن پر ٹیکس دینے کے لیےتیار نہیں۔ دراصل ان معاہدوں اور ان سے حاصل ہونے والی رقم کا ریکارڈ کسی سرکاری دفتر میں موجود ہوتا ہے اور نہ ہی ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کے پاس۔
وہاج السراج، جو کہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی ایسوسی ایشن آف پاکستان (ISPAK) سے وابستہ ہیں، نی MOREسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سافٹ وئیر بنانے والی کمپنیوں اور فری لانسرز پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں جب کہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیاں بہت زیادہ ٹیکس ادا کر رہی ہیں۔ سراج نے مزید کہا کہ ”انجینئرز، ڈاکٹر، پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازم، اپنی معمولی تنخواہ پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں جب کہ سافت وئیر بنانے والی کمپنیاں‘گرے چینل’کا استعمال کرتے ہیں اور فری لانسرز سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہی نہ ہیں۔”
اویس ریاض طاہر، جو کہ ٹیکس اور ٹیکس کے حوالے سے پالیسی میں اصلاحات کے ماہر ہیں۔ ان کے خیال میں آئی ٹی سے وابستہ اکثر کمپنیاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے کاروبارکو نقد رقم پر مبنی نظام کے تحت چلا رہی ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو حکومت کی جانب سے ٹیکس کےاہداف کا حصول ممکن نہ رہے گا۔ آئی۔ ٹی کے شعبہ سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شعبہ پاکستان میں ابھی چھوٹا ہے اور وہ یہ بات سمھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی بھر مار کیوں ہے جب کہ ٹیکسوں کی بجائے اس شعبہ کو حکومتی مدد کی ضرورت ہے۔
ٹیکنالوجی کی صنعت میں پاکستان، ہندوستان سے بہت پیچھے ہے۔ ہندوستانی آئی ٹی خدمات جیسا کہ بزنس پروسیسنگ مینجمنٹ (بی پی ایم)، ہارڈویئر اور سافٹ ویئر، انجینئرنگ کے شعبہ میں تحقیق اور اسے صنعت بنانے تک، انٹرنیٹ کی صارفین تک رسائی کے حوالے سے ہماری صنعت ترقی نہ کر سکی ہے۔ پاکستان کی سالانہ 2 ارب ڈالر کی بیرونی تجارت کے مقابلے میں ہنداستان میں آئی۔ ٹی (بزنس پروسیسنگ مینجمنٹ) کا شعبہ 143 ارب ڈالرمالیت رکھتا ہے۔
سال 2015-16 میں ہندوستان کی کل ملکی پیداوار میں آئی۔ٹی کے شعبے کا کردار 9.5 فی صد رہا جب کہ کل برآمدات کا ۴۵ فی صد حصہ آئی۔ ٹی کے شعبہ سے حاصل ہوا۔
یہ بات یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں زراعت اور ہندوستان میں آئی۔ٹی کے شعبے سے حاصل ہونے والی کل ملکی پیداوای برابر ہے۔
وفاقی حکومت کی جاانب سے پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے کو سہارا دینے اور ترقی کے لئے بہت اہم اقدامات کئے ہیں.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *