ٹیکنالوجی کی نعمت سے کارفرما حکومتی پالیسیاں اور صارفین کو سہولیات اور نت نئی ایجادات کے حوالے سے قواعد و ضوابط کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان کوشش کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی سالانہ رپورٹ 2016میں ٹیکنالوجی میں جدت کے حوالے سے حوصلہ افزا اعداد و شمار موجود ہیں تاہم پیو کے عالمی سروے 2014 میں اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی۔ سروے کی نتائج کے مطابق صرف 8فیصد آبادی کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے جب کہ بنگلہ دیش میں 11فی صد اور یوگینڈا کی 15فی صد تھی۔ سروے میں شامل کیے جانے والے ترقی پذیر32ممالک میں پاکستان کے نتائج سب سے برے تھے۔ پاکستان کی ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 12فی صد لوگوں کی پاس گھر میں کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی سالانہ رپورٹ 2016اورمارچ 2016کے تازہ ترین اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کرتے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 13کروڑ 10لاکھ ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق 91فی صد آبادی موبائل فون استعمال کرتی ہے۔ اگر پاکستان کی آبادی جو کہ 18کروڑ 20 لاکھ کا 91فی صد 16کروڑ50لاکھ بنتے ہیں، جو کہ درست نہ ہیں۔ مارچ 2016کی رپورٹ کے مطابق موبائل فون استعمال کرنے وولوں کی تعداد میں ماہانہ 0.9فی صد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اسی شرح کو بنیاد بنا لیا جائے تو ماہانہ تعداد 11لاکھ70ہزار نئے لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ91فی صد کے حساب سے یہ تعداد 56 لاکھ ماہانہ ہونی چاہیے۔
اگر سالانہ رپورٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کو درست تصور کر بھی لیا جائے تب بھی یہ بات موبائل فون کی فروخت کے اعداد و شمار سے تصدیق نہیں ہوتی۔ حقیقت میں گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی اور اور اس سے پچھلے مالی سال کے اسی عرصے کے اعداد و شمار کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ موبائل فون کی درآمد میں 15فی صد کمی آئی ہے۔ ادارہ اعداد و شماریات کے مطابق 2016-17 کی پہلی سہ ماہی کے دوران 1لاکھ46ہزار ڈالر جب کہ اس سے قبل اسی عرصہ کے دوران 1لاکھ72ہزار ڈالر کی مالیت کے موبائل فون درآمد کیے گئے۔ یہ اعداد و شمار بھی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ موبائل فون کی فورخت میں کمی واقع ہوئی ہے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے دعوے کی نفی کرتے ہیں۔
اسی رپورٹ کے مطابق جون 2016تک پاکستان میں ٹیلی کام کی سرائیت کی شرح 70.9فی صد تھی۔ یہ شرح پی۔ٹی۔اے کے 91فی صد کے دعوے کے متضاد ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق جون 2014 میں یہ شرح 78 فی صد تھی۔ اسی طرح پی۔ٹی۔سی۔ایل نے 2015کے اعداد و شمار میں دعویٰ کیا تھا کہ لینڈ لائن صارفین کی تعداد 2کروڑ60لاکھ ہے جب کہ پی۔ٹی۔اے کی 2016کی رپورٹ کے مطابق لینڈ لائن استعمال کرنے والوں کی تعداد ٹیلی کام کے کل صارفین کی تعداد کا صرف 1.5فی صد ہے۔
ٹیلی کام کے شعبے کے لیے مالی سال 2013-14بہترین رہا جب 3Gاور4Gسپیکٹرم کے لائسنس کی نیلامی ہوئی جس سے ٹیلی کام کے شعبے کو 463ارب کی آمن حاصل ہوئی۔ جب کہ 2015میں آمدن کم ہو کر 446ارب ہو گئی جب کہ پی۔ٹی۔اے کے مطابق حاصل ہونے والی حوصلہ افزا آمدن 452ارب تھی جس کے مطابق ٹیلی کام سیکٹر تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر نے سال 2014 کے دوران قومی خزانے میں جنزل سیلز ٹٰیکس کی مد میں 60ارب، پی۔ٹی۔اے کو 104.6ارب اور دیگر مد میں 79ارب روپے جمر کروائے۔ اس کے علاوہ دیگر ٹیکسوں کی مد میں بالترتیب 41.65، 34.1 اور 82 ارب روپے جمع کروائے۔
پچھلےدو سال سے اس شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 2013-14 کے دوران ٹیلی کام کے شعبے میں 178کروڑ ڈالرز جب کہ سال2015کے دوران سرمایہ کاری گھٹ کر صرف 97کروڑ ڈالرز ہو گئی تھی۔ جو کہ مزید کم ہو کر 65کروڑ ڈالرز ہو چکی ہے۔ماہرین کے مطابق سرمایہ کاری میں کمی کی بڑی وجہ ٹیکسوں کی بھر مار ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی متاثر ہوئی ہے۔پی۔ٹی۔اے کی جانب سے ٹیلی کام کے شعبے کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹیکسوں کی اصل مالیت ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے بھی شدید تنققید کی گئی۔ ٹیلی کام کےشعبے کی جانب سے مالی سال 2016 میں ٹیکسوں اور دیگر مد میں حکومت کو 105.9ارب روپے جمع کروائے گئے جب کہ پی۔ٹی۔اے کی جانب سے داری کی گئی سالانہ رپورٹ میں اس میں کچھ رقم کو‘دیگر آمدن ’کی مد میں ظاہرکرکے دھوکے دیا گیا ہے۔
عمر ثاقب جو کہ یوفون میں ملکی سطح پر ٹرانسمیشن کی منصوبہ بندی کے مینیجر ہیں۔ ان کی رائے میں اگر حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی بھرمار اسی رفتار سے جاری رہی تو مستقبل میں ہونے والی ممکنہ سرمایہ کاری رک سکتی ہے۔
پی۔ٹی۔اے کی رپورٹ میں اس شعبے کے کارکردگی کے حوالے سے تمام امور کا پچھلے برسوں سے موازنہ کیا گیا ہے لیکن جان بوجھ کر غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری کے حوالے سے موازنہ پیش نہ کیا گیا۔ تاہم موازنے کے صورت میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری جوکہ سال 2014میں 42کروڑ ڈالرز تھی وہ کم ہو کر سال 2015 میں 12 کروڑ ڈالرز رہ گئی اور فی الحال 21کروڑ ڈالز ہے۔ موبی لنک اور وارد کے انضمام کے بعد پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی 37فی صد تعداد پاکستان موبائل کمیونیکیشن لیمیٹڈ کے پاس ہیں۔ جب کہ 29فی صد صارفین ٹیلی نار، 19فی صد زانگ اور 15فی صد صارفین یوفون استعمال کرتے ہیں۔
3Gاور 4Gکے ذریعے انٹرنیٹ اور تیزی سے تمام علاقوں میں اس کی فراہمی سے موبائل براڈبینڈ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ سال 2013-14کے دوران موبائل کمپنی کے فراہم کردہ انٹرنیٹ سروس استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد صرف 3.8فی صد تھی جو سال2015میں بڑھ کر 16.89 فی صد ہو گئی۔ مالی سال2016 میں اس تعداد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2016 تک بڑھ کر 30فی صد تک پہنچ چکی تھی۔ لیکن یہ تعداد 3کروڑ بنتی ہے جو کہ موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی کل تعداد کا 15.32فی صد بنتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ موبائل براڈبینڈ کے شعبے میں ترقی کی خاصی صلاحیت موجود ہے۔
موبائل براڈبینڈ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کا براہِ راست تعلق اسمارٹ فونز سے منسلک ہے۔ پی۔ٹی۔اے کی جانب سے حالیہ رپورٹ میں اسمارٹ فون ستعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کو چھپایا گیا ہے۔ حالاں کہ اس سے قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں اس کا ذکر موجود ہے۔ قبل ازیں، پی۔ٹی۔اے کی طرف سے کہا گیا تھا کہ 2016کے اختتام تک پاکستان میں اسمارٹ فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 4کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں اسمارٹ فون استعمال کرنے والے صارفین کی شرح 25فی صد ہو گی اور کل صارفین کی تعداد تقریبا 16کروڑ ہو گی۔ تاہم 15فی صد اسمارٹ فون صارفین کی تعداد کے ساتھ اس شعبے کو 92.8ارب روپے کی آمدن حاصل کرنے میں کامیاب ملی۔
اس رپورٹ میں سماجی رابطے (سوشل میڈیا) کے حوالے سے بھی مکمل آگاہی فراہم کرتا ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ فیس بک استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 25لاکھ ہے، جب کہ انسٹا گرام 2لاکھ،ٹویٹر 70ہزار، واٹس ایپ ساڑھے4لاکھ، وائیبر2لاکھ 30ہزار، اسکائپ 2لاکھ، یوٹیوب5 لاکھ70ہزار، فیس بک ویڈیو4لاکھ 40ہزار، ڈیلی موشن ویڈیو 80ہزار، کینڈی کرش10ہزار، ایکس۔باکس10ہزار اور پلے اسٹیشن استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 3ہزار تھی۔
اں تک سروس کی کوالٹی کا تعلق ہے وہ اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ صارفین کی جانب سے 38ہزار741شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 99.6فی صد حل کر دی گئیں۔ ان شکایات کا 23فی صد زونگ کے بارے میں تھیں جب کہ زونگ کے پاس کل موبائل صارفین کا 19فی صد ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ موبی لنک جس کے پاس موبائلاستعمال کرنے والے صارفین کا 37فی صد ہے، اس کے صارفین کی جانب سے جمع کرائی گئی شکایات زونگ کے برار تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف سروس کی بہتری نہ ہونے کی وجہ سے زونگ کو مزید صارفین حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ شکایات کا 27فی صد ٹیلی نار، 19فی صد یوفون اور 8فی صد وارد کے بارے میں تھیں۔
صارفین کو نیٹ ورک پر برقرار رکھنے یا دوسرے نیٹ ورک پر منتقلی کی وجوہات میں فراہم کی جانے والی سہولیات کی قیمت اور اس کا معیار، برانڈ، پروموشن میں دی جانے والی سہولیات شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے ٹیلی کام کے شعبہ پر ٹیکسوں کی بھر مار بلاواسطہ طور پر اس شعبے کی جان کے در پے ہے۔ مابائل فون استعمال کرنے والے صارفین غیر قانونی طور پر 40ارب روپے ود ہولڈنگ ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹیکس ٹیلی کام کے شعبے کی توسیع اور صارفین کی جانب سے سروسز کے حصول میں رکاوٹ ہے۔
حکومت کی جانب سے ٹیکس کی پالیسی یکساں نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ٹیکس کی شرح اس شعبے کی ترقی کی رفتار کے لحاظ سے بدلتی ہے۔ لینڈ لائن صارفین کے لیے سروس کے آغاز میں ایک ہزار روپے ٹیکس وصول کیا جاتا یے جب کہ بعد میں کوئی ٹیکس لاگو نہیں۔ اس کے بر عکس موبائل فون کے 100روپے کا بیلنس ڈلوانے ہر بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ وفاقی ادارہ برائے ریونیو (ایف۔بی۔آر) کے پاس موجود اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں پرٹیکس عائد نہیں کرنا چاہیے جو ٹیکس کی اس خاص حد میں آتے۔ دیگر تمام شعبوں میں جنرل سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 16فی صد اور 10فی صد ہے جب کہ ٹیلی کام کے شعبے پر یہی ٹیکس بالترتیب 19.5فی صد اور 14فی صد ہیں۔
اگرچہ ایف۔بی۔آر اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ موبائل کمپنیوں کی جانب سے سالانہ ٹیکس کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے لیکن 98.78فی صد پاکستانی چوں کہ سالانہ ٹیکس داخل نہیں کرتے لہذٰا ان کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان کی 55 فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے جب کہ 27 فی صد کی آمدن اس حد تک کم ہے کہ وہ انتہائی مشکل سے گزارہ کر پاتے ہیں۔ چوں کہ یہ صارفین کبھی بھی ایف۔بی۔آر یا حکومت سے اپنا ادا کیا ہوا ٹیکس واپس نہیں لے پائیں گے لہذٰا ان صارفین سے ودہولڈنگ ٹیکس نا انصافی سے کم نہیں۔ اگر ایک شخص اوسطاً 1000روپے موبائل پر استعمال کرتا ہے تو حکومت اس رقم میں سے 442روپے ٹیکس کی مد میں وصول کر لیتی ہے۔
سال 2010 میں ٹیلی کام کےشعبے پر برآمد کی جانے والے سامان پرٹیکس صفر فی صد تھا جو اب بڑھ کر 15 فیصد ہو چکا ہے۔ جب کسی شعبے میں جدید ساز و سامان کی درآمد سے پاکستان میں موجود سہولیات اور بینادی ڈھانچے کی بہتری مقصود ہو تو ایسی صورت حال میں درآمدی سامان پر ٹٰیکس لگانے سے اس شعبے میں ترقی ممکن نہیں۔
کیا ہم اس سونے کے انڈرےے دینے والی مرغی کو مارنے کی طرف گامزن ہیں؟ اس سوال کا جواب حاصل نہیں ہو سکا۔