pin up casinomostbet1winpin up

پاکستان کے علاوہ تمام ممالک کی حکومتوں کا ایکا ہے کہ اجارہ داری سے قومی معیشتوں کے لیے نقصان پہنچتا ہے۔ کسی ایک کی اجارہ داری قائم ہونے سے لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکلوا کر جمع کیا جاتا ہے۔
ٹیلی کام پالیسی (2015) کے بعد مسابقتی کمیشن کے راستے میں ایک رکاوٹ کھڑیٰ کر دی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں اتصالات کو لینڈ لائن میں، پاکستان موبائل کمیونیکیشن لیمیٹڈ (موبی لنک) کے لیے‘وارد’کو خرید لینا اور چائینہ موبائل کو‘یوفون’خریدنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس کی وجہ صرف اور صرف کمپیٹیشن کمیشن کے متوازی ایک ٹیلی کام پالیسی (2015) کا بنایا جانا ہے جس کے نتیجے میں
کمپیٹیشن کمیشن کے کام میں رکاوٹ پیدا کر دی گئی اور اس کے کام کو محدود کر دیا گیا۔عالمی اقتصادی فورم (WEF) کی جانب سے 138ممالک کی مقابلہ جاتی فہرست میں پاکستان 122 ویں نمبر پر ہے۔
تانگ چین (618-907 عیسوی) کے دوران نمک پر قائم کیے جانے والے کمیشن کی اجارہ داری سب سے بڑھ کر تھی۔ سن 758میں کسانوں کی جانب سے بغاوت اور مالیہ میں کمی کی وجہ سے نمک کمیشن بنایا گیا۔ تانگ دور حکومت میں بادشاہ نمک کی غذائی اور اشیاءکو محفوظ بنانے سے بخوبی واقف تھا۔ اس دور میں نمک کی تمام پیداوار کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور نمک کی تجارت پر واضح اجارہ داری قائم رکھی۔ سن 1300تک نمک سے حاصل ہونے والا محصول اس حد تک بڑھ گیا کہ کل محصول کا 80فی صد صرف نمک سے تھا۔ تاہم تانگ دور حکومت کے خاتمے سے نمک پرقائم کمیشن ختم ہو گیا۔ تاریخ میں سب سے دیرپا اجارہ داری چائینہ میں نمک پر ریاستی اجارہ داری تھی جو قبل مسیح سے بیسویں صدی تک قائم رہی۔
سن 1870 میں امریکہ کی تیل کی منڈی پر جان ڈی۔ راکفیلر (John D. Rockefeller) نے سٹینڈرڈ آئل کمپنی کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب عرب شیخوں کا تیل سے واستہ نہ تھا اور یہ شخص اپنی اجارہداری کی وجہ سے تاریخ کا امیر ترین شخص تھا۔۔ سٹینڈرڈ آئل کمپنی امریکہ میں تیل کی فروخت میں 88فی صد کا قابض تھی۔ چوں کہ بیسویں صدی میں ترقی تیل سے مشروط تھی لہذٰا کانگریس نے کمپنیوں کی اجارہداری ختم کرنے ک لیے تاریخ کا پہلا قانون پاس کیا جسے شرمن انٹی ٹرسٹ ایکٹ (Sherman Antitrust Act)کا نام دیا گیا۔ اس قانون سے سٹینڈرڈ آئل کمپنی کی اجارہ داری ختم کرتے ہوئے اسے کئی چھوٹی چھوٹی کمپنیوں میں تقسیم کر دیا۔ اُن کمپنیوں میں سے کئی کمپنیاں موجودہ دور میں بھی مشہور ہیں جن میں اموکو (Amoco)، ٹیکسکو(Texco)، ایگزن(Exxon) اور شیوران (Chevron)شامل ہیں۔ چوں کہ راکفیلر ان نئی بننے والی کمپنیوں کو کنٹرول کر رہا تھا لہذٰا اس کی اجارہ داری مکمل طور پر ختم نہ ہو پائی۔ راکفیلر کی وفات کے بعد اس کے وارثان نے ملنے والے حصص فروخت کر دئیے، تب مکمل طور پر اجارہ داری ختم ہوئی اور کمپنیوں میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوا۔
راکفیلر کی اجارہ داری سے حکومتوں نے سبق حاصل کیا کہ اجارہ داری سے معیشت کے لیے مہلک ہیں۔ اجارہ داری سے صرف اور صرف لوگوں کی ضرورت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اجارہ داری سے مقابلہ جاتی رجحان ختم ہو جاتا ہے اور کم تر خدمات، غیر معیاری سامان، مہنگی اشیاءاور صارفین کا حق ختم ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں ٹیلی کام کا شعبہ اب بھی ”نمک” اورحکومت پاکستان ”تانگ دور حکمرانی” سے مختلف نہ ہے۔ مقابلہ جاتی رجحان کے برعکس حکومت پاکستان نے اس شعبے میں اجارہ داری کو قائم کرنا بہتر سمجھ رکھا ہے۔ کچھ شعبوں میں حکومت کی جانب سے حکمت عملی قائم رکھی جاتی ہے اور منافع کسی اور شعبے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار حکومتوں کو خزانہ ایک خاص سطح پر رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ مگراتصالات نے لینڈ لائن میں اجارہ داری قائم کر کے، پاکستان موبائل کمیونیکیشن لیمیٹڈ (موبی لنک) کا‘وارد’کو خرید لینا اور چائینہ موبائل کے مالکان کی‘یوفون’کو خریدنے کی خواہش یہاں موجود‘راکفیلرز’کا مظہر ہے۔ان تمام عوامل سے پاکستان کے ٹیلی کام کے شعبے میں باقی ماندہ مقابلہ جاتی رجحان بھی ختم ہو گیا۔
پاکستان میں موبائل ٹیلی کام کے شعبے میں پانچ کمپنیوں تھیں جب کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے پانچ کی بجائے صرف تین 3Gکے لائسنس کی فروخت اس شعبہ میں اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں کو فروغ دینے کے مترادف تھی۔ اس حکمت عملی سے حکومت نے 3G لائسنس مہنگے داموں فروخت کر لیے جو ایک حکومتی کامیابی تھی مگر اس عمل سے یوفون کو شدید نقصان پہنچایا گیا کہ وہ اب انضمام یا کسی دوسری کمپنی کو بیچنے کا سوچ رہے ہیں۔ اسی طرح‘وارد’3Gکے لائسنس کی قیمت کی وجہ سے زیادہ سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی کم آمدن کا جواز پیش نہ کر پائی اور موبی لنک میں انضمام کو ہی بہتر جانا۔ اس سے عوام الناس کو کس قسم کا فائدہ حاصل نہ ہو سکے گا۔
حال ہی میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے‘گھر تک براہ راست’(DTH)کے تین عدد حقوق کی فروخت میں بھی یہی عمل دہرایا ہے۔ پیمرا نے میگ انٹرٹینمنٹ کو 4.91، شہزاد سکائے کو 4.90 اور سٹار ٹائم کو 4.89ارب میں یہ حقوق بیچے۔
ان تمام عوامل کی موجودگی میں ٹیلی کام پالیسی 2015بذات خود شدید خطرہ ہے جس کے بعد کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (مقابہ جاتی رجحان کے فروغ کا ادارہ)کو معاملات میں دخل اندازی اور مقابلے کا رجحان قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ٹیلی کام پالیسی 2015 کا اعلان 12 دسمبر 2015کو کیا گیا جس میں یہ ذمہ داری لی گئی کہ مقابہ جاتی رجحان کے حوالے سے قوانین مرتب کیے جائیں گے جو کسی ایک کمپنی کی ممکنہ اجارہ داری قائم نہ ہونے دیں گے۔ تب اسحاق ڈار جو کہ وزیرِ خزانہ اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ چوں کہ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان جو قانونی ادارہ ہونے کی حیثیت سے کام کر رہا تھا اور اس کی موجودگی میں ایک اور متوازی قانون کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ تاہم کسی نی کسی طرح نیا بننے والا قانون منظورہو گیا اور یوں قانون فعال ہو گیا۔
ٹیلی کام کی پالیسی کے سیکشن 5 کے تحت وزارت انفارمنیش و ٹیکنالوجی کی ذمہ داری تھی کہ وہ ٹیلی کام کے شعبہ میں موجودہ مقابلہ جاتی رجحان کو قائم رکھے گی تاہم 2015میں کیا گیا یہ وعدہ2016میں موبی لنک اور وارد کے انضمام سے ٹوٹ گیا۔ متوازی قوانین کی موجودگی اور اختیار وزارت انفارمنیش و ٹیکنالوجی کی منتقلی کے باعث کہ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان کسی کارروائی سے باز رہا۔ ٹیلی کام پالیسی میں یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ اس شعبہ کو استحکام اور دوام بخشے گی اور مقابلے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے کوشش کرے گی۔ وزارت نے مزید یہ ذمہ داری بھی لی کہ وہ ٹیلی مواصلات کے شعبے سے متعلقہ قوانین اور دیگر معاملات بھی دیکھے گی۔
اس کے علاوہ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ نئے قوانین کی مدد سے اس شعبے کو از سرِ نو جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں پروڈکٹ مارکیٹوں کی شناخت، ہر مارکیٹ کے اندر خدمات کی فراہمی کو تعین کیا جا سکے گا اور اس بات کا تعین بھی ممکن ہو سکے گا کہ کہیں اجارہ داری تو قائم نہیں ہو رہی اور اس سلسلے میں پہلے اور بعد میں کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن اب کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت پاکستان کو اصولی طور پر لکھ بھیجا ہے کہ چوں کہ مسابقتی قانون 2010 کے تحت صرف مسابقتی کمیشن آف پاکستان اختیار رکھتا ہے لہذٰا ٹیلی کال پالیسی 2015کا جائزہ لیا جائے جس کے تحت ٹیلی کام کے شعبے میں مقابلے کے حوالےسے اختیار تفویص کیے گئے۔
مسابقتی کمیشن کے مشاہدہ میں یہ بات آئی ہے کہ وزارت انفارمیشن وو ٹیکنالوجی کی طرف سے بنائی جانے والی کام پالیسی 2015 کی شق 5.1 ادارے کے اختیارات سے متصادم ہے۔ پاکستان کے 1973کے آئین کے شق نمبر(a) 18کے تحت لائسنس کے نظام کے ذریعے کسی تجارت اور پیشہ کے قوانین کے درمیان فرق واضح کرتی ہے اور ٹیلی کام کا شعبہ پی ٹی اے کو دیا گیا ہے۔ دوسرے جانب آ¾ین کی شق (b) 18کے تحت ملک میں آزاد مقابلہ کے حوالے سے تجارت، کامرس اور صنعتوں کے حوالے سے ضابطہ موجود ہے اور اس کے تمام حقوق مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے پاس آغاز (2007) سے ہیں۔ مبابقتی کمیشن کو بنیادی طور پر تجارت اور صنعت میں آزادانہ مقابلہ کی فضا کو پروان چڑھایا جا سکے جس کے نتیجےمیں تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور اجارہ داری کی روایت کو ختم کرتے یوئے صارفین کے حقوق کی حفاظت ممکن ہو پائے گی۔
اگر ٹیلی کام پالیسی 2015 درست ہے تو پھروزات پانی و پجلی، خواراک کی فراہمی، پیٹرولیم، سائنس و ٹیکلنالوجی اور باقی سب وزارتیں بھی ایسی طریقہ کار (پالیسی) مرتب کر لیں گی جس سے مسابقتی کمیشن کا کردار کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وزارت نفارمیشن و ٹیکنالوجی کی اپنی کاکردگی اس شعبے میں موجود بڑی کمپنیوں سے وابستہ ہے۔ لہذٰا اسیسی صورت حال میں صرف مسابقتی کمیشن ہی آزادانہ کام کرتے ہوئے اجارہ داری کی فضا کو روک سکتا ہے۔
وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی نے سال 2015میں منفی کاموں کے سوا کوئی ایسا ٹھوس ثبوت موجود نہیں کہ اپنی بنائی ہوئی مسابقتی پالیسی کو کیسے عمل میں لایا گیا۔ اس کے بر عکس مسابقی کمیشن نے اپنے مارکیٹ میں موجود بہت سی اجارہ داری کی روایت کو پروان چڑھنے سے روکا۔ اس کی زندہ مثال حال ہی میں پاکستان انجینئیرنگ کونسل کی طرف سے انجئیرنگکی شعبے میں کام کو بیمہ کے حوالے سے مداخلت کرنے پر ۳ کروڑ کا جرمانہ کیا گیا۔
29 نومبر، 2016کو پاکستان اسٹیٹ آئل کو گمراہ کن اشتہار بازی کے حوالے سے وضاحت بیان کرنے کو کہا گیا۔ اس سے قبل پاکستان موبائل کمیونیکیشن لیمیٹڈ (موبی لنک) اور‘وارد’کو انضمام کی وجہ بیان کرنے کو ایک خط لکھا گیا۔ چوں کہ وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام پالیسی 2015 کی وجہ سے محفوظ تھے لہذٰا ان دونوں کمپنیوں نے مسابقتی کمیشن کو وضاحت دینا بھی گوارہ نہ کیا۔
مسابقتی کمیشن نے 150سے زیادہ مواقع پر اجارہ داری اور گٹھ گوڑ قائم ہونے سے روکے اورمداخلت بھی کی۔ ان میں پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن، کراچی لاہور اور اسلام آباد کی سٹاک ایکسچیج کے اںضمام اور پاکستان آٹوموبائل مینوفیکچررزکے مجاز ڈیلرز کی ایسوسی ایشن کے اقدامات میں مداخلت کے اقدام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ادارہ مقابلہ جاتی رجحان کو قائم کرسکتا ہے۔ اسی طرح ٹیلی کام کے شعبہ میں بھی یہ ادادہ بہتر اور موثر طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان عالمی معیشت فورم (WEF) کی جانب سے 138 ممالک کی مقابلہ جاتی فہرست میں پاکستان 122ویں نمبر پر موجود ہے۔ اس رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ پچھلے ایک سال میں کچھ بڑے اقتصادی اشارے بہتری کی طرف گامزن ہیں لیکن سویٹزرلینڈ سے کوسوں دور ہیں۔ سویٹزرلینڈ مسلسل آٹھ سال سے دنیا کا سب سے مسابقتی ملک ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں کاروبار کی راہ میں مشکلاات کے حوالے سے بھی روشنی ڈالی گئی اور کرپشن کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ جرام اور چوری، محصول کی شرح، کاروبار کے لیے سرمایہ کی فراہمی، حکومتی عدم استحکام اور بغاوتیں بھی یہاں کاروبار کے ھوالے سے مشکلات کی فہرست میں شامل ہیں۔
گزشتہ سال کی نسبت پاکستان نے 114عالمی مسابقتی اشاروں میں سے صرف 54اشاروں میں بہتری جب کہ 50اشاروں میں تنزلی دکھائی ہے۔ باقی ماندہ 10اشاروں میں کوئی بہتری ہو سکی۔ ٹیلی کام کے شعبے کی بہتری کے لیے ٹیلی کام پالیسی2015 کی شق نمبر 5کو ختم کرکے مسابقتی کمیشن کا کردار بحال کیا جا سکتا ہے۔ نئی زیرِ سمندر تاریں بچھانے سے پی۔ٹی۔سی۔ایل (PTCL) کی اجارہ داری ختم کی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں ملٹی نیٹ پاکستان اور اومان ٹیل نے ایک نئی 20ٹیرا بٹ فی سیکنڈ (TBs) زیرِ سمندر تار بچھانے کا اعلان کیاہے۔ اس کا نام سلک روٹ گیٹ وے ۱(Silk Route Gateway 1)کا نام دیا گیا ہے۔
یہ تار کراچی کو برکہ (اومان) سے ملائے گی اور مستقبل کی حکمت عملی کے دیکھتے ہوئے گوادر کو بھی منسلک کر سکے گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ مسابقتی کمیشن اور ملٹی نیٹ (سلک روٹ گیٹ وے کا حصہ ہونے کی وجہ سے) کی مداخلت سے پی۔ٹی۔سی۔ایل اور ٹرانس ورلڈ (جو 1.28ٹیرا بٹ فی سیکنڈ کا نیٹ ورک چلاتی ہے) کی دوجاری ختم ہو پائے گی۔
ٹیلی کام کے شعبے میں اجارہ داری نہیں ہو نی چاہیے۔ سوال یہ کہ کیا ہم اس شعبے میں مزید سرمایہ کاری لا سکتے ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *