pin up casinomostbet1winpin up

ء2016میں نیٹ استعمال کرنے والی عالمی آبادی 138ملین تک پہنچ جائے گی اوروہ صارفین جو موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں ، اُن کی تعداد میں 56فی صد اضافہ ہو جائے گا۔ 2010 میں یہ تعداد 14ملین تھی اور2016میں 917ملین ہو جائے گی۔
ہم دُنیا کے اُس حصے کی بات کر رہے ہیں، جہاں تقریباً نصف آبادی ڈھائی امریکی ڈالر یومیہ سے کم پر گزارا کر رہی ہے اور دُنیا کی مجموعی آبادی کا 80فی صد 10ڈالر یومیہ سے کم کما رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بیسویں سال گرہ سے پہلے موبائل کا استعمال شروع نہیں ہونا چاہیے۔ بچے کو موبائل فون کا اُس وقت تک مالک نہیں ہونا چاہیے جب تک اس کی واقعی ضرورت نہ ہو۔ موبائل خریدنے والا موبائل خریدتے وقت جن باتوں کا خیال کرتا ہے اُن میںموبائل کی ظاہری شکل و صورت، قیمت، چارج کرنے کی رفتار، بیٹری کا دورانیہ اور موبائل کی اشتہار بازی شامل ہیں۔ بھوکے پیٹ کو بھرنے ، بجلی ، گیس ، پانی کا بل ادا کرنے اور سکول کی فیس ادا کرنے کے بجائے ایزی لوڈ پر پیسے خرچ کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
CISCOنے ایک تحقیق کی، جس کے مطابق جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، سب سہارن افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور چالیس دیگر ممالک میں لوگوں کو بجلی سے زیادہ موبائل نیٹ ورک تک رسائی حاصل ہو گی۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل فونز کے اشتہارات سے موبائل فون مارکیٹ اِس قدر بھری پڑی ہے کہ گاہک جب مارکیٹ میں موبائل فون خریدنے جاتا ہے تو اُس کے ذہن میں اشتہارات پہلے سے گھر کیے ہوتے ہیں۔ فیس بک، ٹوٹر اور دیگر مقبول سوشل میڈیا اکاﺅنٹس رکھنے والوں میں پاکستانیوں کی بھرمار ہے۔ آن لائن فراڈ، سیکیورٹی کی خلاف ورزی اور انٹرنیٹ پر ہونے والے جرائم کے بارے میں آنے والی رپورٹیں محدود نہیں ہیں۔ پچیس ملین فیس بک صارفین میں سے دو تہائی 25 سال سے کم عمر کے ہیں۔ موبائل فون اور موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اس بے تحاشااضافے سے ہمارے ذہنوں میں کچھ سوالات ابھرتے ہیں۔ ان میں سے چند سوالات یہ ہو سکتے ہیں:
پہلی بار ایک نوعمر کو موبائل فون کب استعمال کرنا چاہیے؟
صارف پر مسلط غالب سوچیں کیا کیا ہو سکتی ہیں؟
موبائل کے استعمالات کیا کیا ہیں جیسے سوشل میڈیا، فیس بک وغیرہ؟
مختلف چیزوں جیسے انٹرنیٹ پر ہونے والے جرائم سے متعلقہ سرگرمیوں، سیکیورٹی، غلط استعمال، فراڈ اور دوسروں کو تنگ کرنے کے بارے میں آگاہی کی سطح کیا ہے؟
اس باب میں ہم دست یاب تحقیقی معلومات کی مدد سے ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
گزشتہ دہائی سے اب تک موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے والدین کا کام بہت زیادہ تبدیل ہو گیا ہے۔ کبھی والدین کے ذہن میں سب سے بڑا سوال یہ ہوتا تھا کہ میں اپنے بیٹے یا بیٹی کو گاڑی کی چابیاں کب تھماﺅں گاگی© ؟ اب یہ سوال تبدیل ہو کر ایک مشکل سوال بن گیا ہے کہ میرے بچوں کو موبائل فون کب لے کے دیا جائے۔
کار چلانے کے لیے قانون میں ایک عمر دی گئی ہے، لیکن موبائل کا مالک بننے اور اسے استعمال کرنے کے لیے کوئی قانونی عمر مقرر نہیں ہے۔ موبائل فون کی ملکیت کسی قانون یا معاشرتی معیار کے تحت نہیں آتی۔ ہمارے ملک میں موبائل فون کے مالکوں کی عمروں میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، یہ بات زیادہ تر والدین کی آمدنی اور سماجی پس منظر پر منحصر ہے۔
معاشرے کے بالائی طبقے اور متوسط طبقے کے بالائی حصے سے تعلق رکھنے والے خاندان آزادانہ پس منظر کے حامل ہیں۔ ایسے خاندانوں میں دس سال کی عمر ہی میں بچوں کو موبائل فون کا مالک بنا دیا جاتا ہے جب کہ بقیہ اکثریت کے بچوں کو پندرہ سال کی عمر میں موبائل فون لے کر دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل کے محفوظ استعمال پر لکھی گئی انعام یافتہ کتاب میں وین برگر لکھتا ہے ”پریشان کن شے وجود رکھتی ہے : اور یہ آپ کے بچے کی پتلون کی عقبی جیب میں ہے۔“وین برگر نے اپنی بات کی صحت کے ثبوت کے طور پر ستر ہزار طالب علموں کا سروے کیا۔ اُس کی تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ اوسطاً پانچویں جماعت کے طالب علم موبائل فون پر پیغام رسانی شروع کر دیتے ہیں۔ آٹھویں جماعت کے طالب علم فحش چیزوں تک رسائی پانے کی کوشش کرتے ہیں اورگیارھویں جماعت سے یہ چیز ایک لت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نورالہدیٰ کا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے میں موبائل فون بیسویں سال گرہ سے پہلے نہیں دیا جانا چاہیے۔ بچے کو اُس وقت تک موبائل فون نہ دیا جائے جب تک کہ اُسے اس کی شدید ضرورت نہ ہو بلکہ موبائل اُس وقت دیا جائے جب یہ اُس کی مجبوری بن جائے ۔
اپنے آپ سے مندرجہ¿ ذیل سولات کریں اور آپ کو موبائل فون دینے کی صحیح عمر کا تشفی آمیز اور مکمل جواب مل جائے گا۔
کیا میرے بچے خودمختار ہو گئے ہیں؟
کیا اُنھیںاپنے تحفظ اور کسی سماجی سبب کے باعث مجھ سے رابطہ رکھنے کی ضرورت ہے؟
وہ کتنے ذمہ دار ہیں؟
کیا میں اُن پر اعتماد کر سکتا ہوں کہ وہ کلاس میں بیٹھے ہوئے ، موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ، سفر کرتے ہوئے موبائل فون کے ذریعے پیغام نہیں بھیجیں گے؟ وہ پیغام، تصویر یا وڈیو کس کو بھیجیں گے؟
کیا واقعی اُنھیں فون کی ضرورت ہے، یہ فون موسیقی کا آلہ بھی ہے، وڈیو گیم کھیلنے والی مشین بھی ہے، کیمرا بھی اس کے اندر ہے اور انٹرنیٹ پورٹل بھی۔
کیا میرے پاس موبائل فون کے اخراجات کے لیے وافر رقم موجود ہے؟
موبائل فون استعمال کرنے والے کی غالب خواہشات کیا کیا ہیں؟
ان سوالوں کے درست جواب سے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ موبائل فون رکھنے کی صحیح عمر کیا ہے؟
جب ایک نیا خریدار موبائل فون خریدنے کا فیصلہ کر کے موبائل فون کی مارکیٹ میں جاتا ہے تو اُس کے ذہن میں پہلے سے موبائل فون استعمال کرنے کے بارے میں خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہونے والی بہت سی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ موبائل فون کی شکل و صورت اور بناوٹ خریدار کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
محمد ریاض الدین حیاتیاتی سائنس کے محقق ہیں۔ حال ہی میں اُنھوں نے ایک سروے کیا ہے۔ اس کے مطابق 37فی صد افراد موبائل خریدنے کا فیصلہ موبائل فون کی ظاہری شکل و صورت کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اس میں جو چیزیں شامل ہیں، اُن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ دیکھنے میں کیسا لگتا ہے، موبائل کا رنگ، وزن، جسامت، کیمرے کا معیار، بلیوٹوتھ کی رفتار اور دیگر مادی خصوصیات شامل ہیں۔ 10.49فی صد صارفین قیمت کو ذہن میں رکھ کر خریداری کرتے ہیں۔ 6.62فی صد خریدار یہ سوچ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ موبائل کے چارج کرنے کی رفتار کیا ہے نیز بیٹری کتنی دیر چلتی ہے۔ 8.40 اپنے رشتے داروں، دوست احباب اور رُفقا کی سفارش پر موبائل خریدتے ہیں۔ صرف 3.47فی صد اخبارات و رسائل، نیٹ اور ٹی۔وی اور سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی تشہیری مہم سے متاثر ہو کر موبائل فون خریدتے ہیں۔
سوشل میڈیاکے استعمال کا طریقِ کار کیا ہے؟
پاکستان میں 133ملین موبائل فون کے صارفین میں سے 3G/4G استعمال کرنے والوں کی تعداد35 ملین ہے۔ فیس بک آڈینس ان سائٹ ٹول کا یہ بتانا ہے کہ پاکستان میں 3G/4G صارفین کی تعداد 25ملین ہے۔ ان میں سے 75فی صد مرد اور25 فی صد خواتین ہیں۔ ان میں سے دو تہائی صارفین کی عمریں 25 سال سے کم ہیں اور وہ نسبتاً ملک کے امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان میں جو سوشل میڈیا مقبولیت کے لحاظ سے دُوسرے نمبر پر ہے، وہ ٹوٹر ہے۔
گیلپ پاکستان نے حال ہی میں ایک سروے کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں 92فی صد انٹر نیٹ صارفین دیگر سوشل میڈیا بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس سروے میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے مرد اور خواتین کا ایک قومی نمائندگی پر مشتمل نمونہ (سیمپل) لیا گیا۔
اگر جنس کے اعتبار سے دیکھا جائے تو 94.2فی صد مرد جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں، وہ دیگر سوشل میڈیا بھی استعمال کرتے ہیں جب کہ87.9فی صد خواتین دیگر سوشل میڈیا پر بھی ہیں۔ اُن کا سوشل میڈیا کے استعمال کا مخصوص انداز اسی تحقیق میں سامنے آیا ۔ اس کے مطابق لوگوں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے کے اسباب ترجیحاً مندرجہ¿ ذیل ہیں:
دوستوں سے رابطہ، خبریں پڑھنا، دوستوں کی سال گرہ کویاد رکھنا، تبصرہ کرنا جیسے ٹویٹ اور ری ٹویٹ، توجہ حاصل کرنا، لوگوں کو خفیہ طریقے سے دیکھنا، بوریت پر قابو پانا، کام اور کاروبار کو فروغ دینا، جب کہ سب سے کم استعمال کسی سماجی مقصد کے لیے ہوتا ہے۔ ان میں سے چند ایک نے اس بات کی نشان دہی کی کہ وہ سوشل میڈیا کی لت کے شکار ہوئے۔
مختلف مسائل جیسے سائبر جرائم سے متعلقہ سرگرمیوں، سیکیورٹی، غلط استعمال، فراڈ اور دُوسروں کو اذیت دینے وغیرہ کے بارے میں آگاہی کس سطح کی ہے؟چند ایک افراد ہیں جو پاکستان میں سوشل میڈیا پر سائبر جرائم سے متعلقہ سرگرمیوں ، سیکیورٹی کے نہ ہونے اور دُوسروں کو اذیت دینے سے بخوبی واقف ہیں۔ گزشتہ چند سال میں جنسی زیادتی سے متعلق آگاہی میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس کی وجہ جنسی زیادتی اور ہلاکتوں کے وہ معاملات ہیںجو فیس بک کے وسیلے سے رونما ہوئے۔ یہ واقعات قومی میڈیا پر بھی دکھائے گئے لیکن پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے لیے سائبر جرائم کے قوانین اور سائبر سیکیورٹی ایسے ہی ہیں جیسے وہ علاقے ہوں جہاں جانے کی اجازت نہ ہو۔ اس کی بڑی وجہ سماجی معیارات ہیں، کسی حد تک اس کا سبب نااہل نظامِ انصاف بھی ہے۔ اس طرح کے جرائم کا شکار بننے والے ایسے واقعات کو بیان نہیں کرتے۔ سزائیں ملنے کی شرح بہت کم ہے ۔
ایسوسی ایشن فار پروگریسو کمیونی کیشنزکے ہارون بلوچ کی ایک حالیہ تحقیق سے نتیجہ نکلا ہے کہ صرف پندرہ فی صد انٹرنیٹ صارفین سائبر جرائم ، انٹرنیٹ سیکیورٹی اور اس سے متعلقہ مسائل سے کسی حد تک واقف ہیں۔ اس صورتِ حال میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ آٹھویں جماعت اور اس سے اگلی جماعتوں کے نصاب میں سائبر جرائم اور انٹرنیٹ سیکیورٹی کے باب شامل کیے جائیں۔ اپنی نوجوان نسل کو ان جرائم کے خطرناک نتائج سے بچنے کے لیے یہ ایک موثر طریقہ ہے۔
یہ ڈیجی ٹل عدم تحفظ کا زمانہ ہے جب کہ دُنیا تیزی سے ڈیجی ٹل شکل اختیار کر رہی ہے۔ کوئی ملک سائبر جرائم سے جڑے ہوئے خطرات سے اپنے شہریوں کو باخبر کرنے کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ان خطرات میںسوشل میڈیا پر رقوم کا لین دین، نجی معلومات کا خفیہ نہ رہنا، معلومات کا لیک ہو جانا، ای۔ میل، دانش ورانہ ملکیتی حقوق، فراڈ اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی اس معاملے پر قانون سازی ہو چکی ہے اور متنازع سائبر کرائم قانون نافذ ہو چکاہے لیکن آگاہی کے بغیر یہ قوانین جرم نہیں روک سکتیں۔
یہ صدی دُنیا میں بنیادی تبدیلیاں لا رہی ہے۔ طبیعات دُنیا سے غائب ہو رہی ہے۔ جی ہاں، بلا شبہ طبیعات مگر کیسے؟ لوگوں سے لے کر دوستی تک، موبائل فون کہلائی جانے والی ایک چھوٹی سی ، ہتھیلی کے سائز جتنی مشین کی وجہ سے دیکھ بھال اور محبت کی رُوح مٹتی چلتی جا رہی ہے۔ ڈیجی ٹل کی شکل دینے سے فائلوںاور کاغذ کے انبارختم ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ نظر نہ آنے والے برقی ڈیٹا نے لے لی ہے۔ بغیر ذہن کے افریقی ناگ دیوتا نے بیس بال، ہاکی، فٹ بال، گلی ڈنڈا اور آنکھ مچولی کی جگہ لے لی ہے۔ حقیقت صفر اور ایک کے مابین اپنی قدر کھو رہی ہے۔ سیلو لائڈ فلمیں، کیتھوڈ رے اور موسیقی کے کیسٹ گزشتہ صدی کا حصہ بن چکے ہیں۔ انھیں کھونے پر کسی کو کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ وہ چند لوگ جو گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں، وہ ڈیجی ٹل شکل دینے کے خلاف رد عمل کا اظہار نہیں کرتے۔
جب چھوٹی سی غلطی سے ایک سو بیس کی رفتار سے چلنے والی کار یا موٹر سائیکل اپنے اندر بیٹھے سب کو ختم کر سکتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ زندگی دو اُنگلیاں چوڑے پہیوں کے توازن پر منحصر ہے۔ دس ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ پانے والے ملازم نے پانچ ماہ بچت کرکے اپنی اُس بیٹی کے لیے زیور نہیں خریدا جس کی شادی عنقریب ہونے والی تھی ، بلکہ اپنے بیٹے کے لیے موبائل فون خریدا۔اس فون کا کوئی فائدہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس کے ذریعے سے وہ سوشل میڈیا کے ساتھ جڑ جائے۔ غلط قسم کے خیالات ہمارے اعصاب پرسوار ہیں۔ اکیسویں صدی کی قیامت برپا ہونے کو ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *