جیسا کہ اس سیارے پر نیک لوگ رابطے اُستوار کرنے میں زیادہ اعتبار کے قابل بن گئے ہیں، ہم نے ٹیکنالوجی کے وسیلے سے حقیقت کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ خود کو مصروف رکھنے کا راستہ نہیں چنتے بلکہ ہم سمارٹ فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات کی وجہ سے پابندیوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں، ایسا ہم دُوسروں کی موجودگی میں بھی کرتے ہیں۔ ضرورت سے بڑھے ہوئے اِس استعمال اور ٹیکنالوجی پر انحصار نے ہمیں غیر انسان بنا دیا ہے اور ہماری شخصیت ہم سے بیگانہ ہو گئی ہے۔ ہماری ذاتی زندگیوں سے پیشہ ورانہ زندگیوں تک ہم اپنے حقیقی وجود کو گنواتے چلے جا رہے ہیں۔یہ ایک فریبِ نظر ہے۔
کیا اتنی تاخیر ہو چلی ہے کہ اب اصلاحِ احوال ممکن نہیں؟
Apple Inc.نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ بہت سے لوگ Siriکے خواہش مند ہیں، یہ مصنوعات کی Mac Os X line
کا ڈیجیٹل معاون ہے۔ یہ بہترین دوست جیسا ہو سکتا ہے۔ ایسا دوست جو اُس وقت بھی سن سکے گا ، جب کوئی دُوسرا نہیں سن سکے گا۔ یہ تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔
ہم سب کسی نہ کسی طرح پیچیدہ بنیادی تبدیلی کے ماحول میں رہتے ہوئے ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ واحد فرق میلانِ طبع کا ہو گا۔ روبرو بات کرنا باقی نہیں رہا۔ ذرائع ابلاغ سے متعلقہ ٹیکنالوجی اُسی وقت بک سکتی ہے جب یہ خوش نما متبادل پیش کرے۔
بد قسمتی سے ان میں سے زیادہ تر ہمارے حق میں نہیں ہیں۔ کاغذی نوٹوں کا پلاسٹک دولت میں بدلنا اتنا مہلک نہیں تھا، بامعنی گفت گو سے غیر انسانی رابطوں میں تبدیلی کو قبول کرنا مہلک ہو سکتا ہے۔ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کے ضرورت سے زائد استعمال سے لوگ اس غیر مادی دُنیا میں اس قدر غرق ہو چکے ہیں کہ وہ اس مادی دُنیا میں گوشت پوست کے وجود کے ساتھ موجود نہیں۔
اس سے مجھے ۴۰۰۲ءکی فلم ”آئی ۔روبوٹ“ یاد آ گئی جس میں روبوٹ پکتے ہوئے کیکوں کے گرد کھڑے ہو کر لڑکوں کی طرح بولتے ہیں۔ نقادوں نے اس فلم کی تحریر، بصری اثرات اور اداکاری پر ملی جلی تنقید کی۔ دیگر نے اس فلم کے پلاٹ پر اعتبار نہ کیا۔ کچھ نے کہا کہ اس فلم کے پیچھے مرکزی خیال یہ ہے کہ روبوٹ خاص نہیں تھے۔ ممکن ہے مصنف اور دائریکٹرنے 2016ءکے بعد کی پیشین گوئی کی ہو۔اُس وقت جو بات غیر متعلقہ تھی، اب وہ متعلقہ بن چکی ہے۔ ہم بے حسی کی اس منزل تک آن پہنچے ہیں کہ ایک ہی کمرے میں رہنے والے اپنے اپنے خیالات میں گم اشخاص بذریعہ متن (تحریری پیغام) کبھی کبھار ہی ایک دوسرے پر کھلتے ہیں۔ دفاتر میں یہ معمول ہوتا تھا، لیکن گھروں میں یہ صورت نہ تھی۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے امریکا کی ریاست میسےجوسیٹ کے ایک خاندان نے انٹر نیٹ کا یومِ سبت مقرر کیا یعنی ہفتے کے آخری دن سمارٹ فون، کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز کے استعمال پر پابندی ہو گی۔ ولیم پاور نامی والد نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کا ایک وجودی احساس ہوتا تھا کہ ”نامعلوم انٹرنیٹ کی وجہ سے میں کس کے ساتھ چلا گیا ہوں۔©©“ لیکن چند ماہ کے بعد یہ ایک پختہ عادت ہو گئی اور ہم سب کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ہم اس سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔
۳۱۰۲ءمیںامریکی جریدے ”فوربس“ کی ایک کہانی سے یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح لاس اینجلس کے کچھ ریستورانوں ٹیکنالوجی کے ضرورت سے زائد استعمال اور ربالمشافہ بات چیت پر اس سے پڑنے والے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ۔ اُنھوں نے ریستورانوں میں موبائل پر پابندی لگا دی تاکہ گاہک کھانوں کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھی کی صحبت سے لطف اندوز ہو سکیں ۔
اسی سال شمالی کیرولینا کی ایلن یونی ورسٹی کی پروفیسر ایملی ڈریگون نے اسی موضوع پر تحقیق کی۔ یہ شمالی کیرولینا کی ایک نجی، خودمختار، غیر منافع بخش، غیر فرقہ وار یونی ورسٹی ہے۔ اُس نے بتایا کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے روبرو بات چیت میں کمی واقع ہوئی ہے ، اس حقیقت سے ٹھیک ٹھاک طور پر آگاہ ہونے کے باوجود 62فی صد سے زائد افراد پھر بھی دُوسروں کی موجودگی میں موبائل استعمال کرتے ہیں۔
”انٹرنیٹ لایﺅ شماریات 2016“ کے مطابق پاکستان میںانٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 39ملین ہے۔ ایک قابلِ اعتماد ٹیلی کمیونی کیشن ”ہم سماجی ہیں“کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں جنوری 2014ءسے مارچ 2015ءکے دوران میں انٹرنیٹ کے صارفین میں 47فی صد اضافہ ہوا۔موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 149.2ملین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 79فی صد آبادی کم سے کم ایک موبائل استعمال کر رہی ہے۔ موبائل سب سکرپشن کی تعداد میں 15فی صد اضافہ ہوا۔ اس وقت موبائل فون کے فعال سماجی صارفین کی تعداد 16.2ملین ہے ۔ اس میں 113فی صد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گریپائیٹ موبائل اپپلی کیشن بنانے والی ایک فرم ہے۔ اس نے ایک گرافکس جاری کی ہے جس سے پاکستان میں سمارٹ فون کے استعمال کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں۔ اس کے مطابق 72فی صد انٹرنیٹ صارفین کے پاس سمارٹ فون ہیں جب کہ 68فی صد کے پاس اینڈرائیڈ استعمال کرتے ہیں۔ سمارٹ فون کے صارفین میں سے 77فی صد کی عمریں 21سے 30سال کے درمیان ہیں۔ 60فی صد پاکستانیوں کے پاس ایک سے زیادہ موبائل فون ہیں۔چوری یا گم ہونے کے خوف کے باعث سمارٹ فون صارفین میں 35فی صد کم قیمت والے فون استعمال کرتے ہیں اور52فی صد 3G/4G نیٹ ورک کے وسیلے سے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپلی کیشنز میں فیس بک(90%) ، گیمز(72%)، فوٹو اینڈ وڈیو(64%) ، موسیقی اور تفریح (55%)۔ 72فی صد افراد ان ایپلی کیشنزکو سمارٹ فون کے ذریعے گھرپر استعمال کرتے ہیں۔
اس سے خاندان کے افراد کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور ٹیکنالوجی کے ضرورت سے زیادہ استعمال کا اظہار ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے افرادِ خانہ کے ساتھ بات چیت کو ختم کر دیا ہے۔
سماجی میڈیا کے محققین مسرا، چینگ، جینیوا اور یوآن نے 2014میں بتایا کہ موبائل کی موجودگی میں تعلقات اور سماجی تعاملات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ معاشرے میں گھوم پھر کر کیے جانے والی اس فطری تجربے کے بعد ان محققین کو معلوم ہوا کہ موبائل ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی میں ہونے والی بات چیت کا معیار اس کی موجودگی میں کی جانے والی بات چیت سے کہیں اعلیٰ تھا۔ موبائل کی عدم موجودگی کی صورت میںبات چیت کرنے والے لوگوں میں ایک دُوسرے کا زیادہ احساس پایا جاتا تھا۔ موبائل کی موجودگی میں بات چیت کرنے والوں میں یہ احساس کم پایا جاتا ہے۔
یہ سیارہ ، جس پر ہم آباد ہیں، جس قدر الیکٹرانک کے آلات کی مدد سے آج رابطوں میں جڑا ہوا ہے، اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں تھا۔ ہم ای۔میل، ٹوٹر، فیس بک، مائی سپیس، یو ٹیوب، ڈیلیشی اس، ڈگ، لنکڈ اِن، بلاگز اور ایسی ہی دیگر ایپلی کیشنز کے ممنون ہیں لیکن ان سب کی ہمیں قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ LOL اور LMOA آن لائن مصنوعی قہقہے کا متبادل ہو سکتے ہیں مگر حروف اور الیکٹرانک پیغامات میں استعمال کی جانے والی کارٹون نما تصویریںکسی صورت جذبات کا حسی متبادل نہیں ہو سکتیں۔ بہت سے یہ دلیل دیں گے کہ ٹیکنالوجی تعلقات اُستوار کرنے کے لیے ہے ، چند لوگ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ یہی ٹیکنالوجی تعلقات کو کمزور کر رہی ہے اور اس سے نفسیاتی اور جسمانی زخم لگ رہے ہیں۔
ہر سال ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کے نتیجے میں زخمی ہوتے ہیں۔ ان کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ڈرائیور کی توجہ کسی اور طرف ہوتی ہے۔گاڑی چلاتے ہوئے توجہ کے ہٹنے کا بڑا سبب موبائل فون کا استعمال اور اس پر پیغام لکھنے کا عمل ہوتا ہے۔ موبائل پر آنے والے پیغام کو پڑھنے میں چند ہی سیکنڈ لگیں گے لیکن اس دوران میں اُس کی گاڑی ہزاروں فٹ آگے جا سکتی ہے۔ اس دوران میں ڈرائیور کا دھیان سڑک پر نہیں ہوتا۔ جرم کا مرتکب یاحادثے کا شکار ہونے والا اگلا شخص آپ یا آپ کا عزیز ہو سکتا ہے۔
دے پاﺅں آنے والی اس ڈیجیٹل تبدیلی سے اور سخت نتائج بھی بھگتنا پڑے ہیں۔آن لائن کالز کی وجہ سے کاروبار اور صنعت میںغلط فیصلے ہو تے ہیں۔ ملازمت دہندگان لنکڈ اِن پروفائل کی بنیاد پر بہت پر کشش تنخواہ والی ملازمت پیش کر دیتے ہیں۔ کسی انسان کی قابلیت کوویب سائٹس پر اُس کے رابطوں ، دیگر افراد کی حمایت اور سفارشات سے ماپا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جنھوں نے کبھی مل کرکوئی کاروبار کیا ہو۔ ان دنوں بہت سی کاروباری کمپنیاںغلط آدمی کا انتخاب کر رہی ہیں اور ایسا غلط انتخاب کوئی عیش وآرام والی بات نہیں ہے۔
ہمارے نوجوان آن لائن ہونے والی بحثوں اور شناسائی سے کچھ سنجیدہ قسم کی توقعات اور تعلقات کا خطرہ بھی مول لیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ نے حقیقی دوست کی تعریف کو محدود کر دیا ہے۔ پہلے ایک سچا رفیق ہوتا تھا جو اب پردہ¿ سکرین پر فقط ایک نام ہوتا ہے۔ چہرے کے حقیقی تاثرات کی جگہ کارٹون نما تصویروں نے لے لی ہے۔ جب پلیٹ فارم ایسا ہو جہاںدیانت داری کی نسبت جھوٹ اور فریب کا سکہ چلتا ہو اوراسی جھوٹ اور دھوکا دہی سے لوگوں کو تحریک اور فائدہ ملتا ہو تو لوگ آسانی سے خود کو وہ ظاہر کرتے ہیں ، جو وہ حقیقی زندگی میں نہیں ہوتے۔ یہی بات مخالفانہ اور عداوت پر مبنی کردار کی طرف لے جاتی ہے۔
ڈی۔ایچ۔اے کراچی کے رہائشی مصطفی ٰ نامی تیرہ سالہ لڑکے کو اُس کے سوشل میڈیا کے دوستوں نے تاوان کی خاطر اِغوا کر لیا۔ اُسے اغواکاروں نے اپنے قبضے میں رکھا تا وقتیکہ انٹی وائلینٹ کرائم سیل اور سٹی پولیس لائزون کمیٹی نے اغواکاروں کے ٹھکانے پر چھاپا مار کراُنھیں قتل کر دیا اور لڑکے کو رہائی دلائی۔ مصطفیٰ نے اپنے والدین، ہم جماعتوں، ساتھیوں، بہن بھائیوں اور رشتے داروں کی نسبت آن لائن دوستی کو زیادہ بھروسے کے لائق سمجھا۔
بحریہ یونی ورسٹی اسلام آبادکے ایک طالب علم کواغوا کیا گیا اور اُسے ایک وکیل، اُس کی بیوی، ایک پولیس کانسٹیبل اور ایک پولیس آفیسر کے بیٹے پر مشتمل مجرموں کے گروہ کے چنگل سے آزادی دلائی گئی۔
ایک نو عمر لڑکی اور اُس کا ہم جماعت اپنی جماعت کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ اُن کے پاس ہاتھ سے لکھا ہوئی ایک تحریر پڑی تھی۔یہ واقعہ پٹیل پاڑا کے نزدیک سولجر بازار کے علاقے میں واقع ایک نجی سکول میں پیش آیا۔ اساتذہ اور طلبہ نے گولیوں چلنے کی آواز سنی۔ دونوں نے فیس بک پر اپنا سٹیٹس لکھ کر خودکشی کا فیصلہ کیا۔ جب تک والدین کو اس کا پتا چلا تو اتنی تاخیر ہو چکی تھی کہ اس واقعہ کو ٹالا نہ جا سکتا تھا۔
چکوال کی رہائشی تہمینہ کو بھی اپنے ٹیکنالوجیکل رابطے کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ اُس نے عمیر کے ساتھ فیس بک پر دوستی کا رشتہ استوار کر لیا اور دونوں نے مقابلے کے امتحان کے لیے ایک ساتھ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ لڑکی راول پیڈی کی ایک کئی منزلہ عمارت کی تیسری منزل سے گر کر موت کے منھ میں چلی گئی۔ بعد ازاں عمیر نے اُس کے قتل کا اعتراف کر لیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ مقابلے کے امتحان کی تیاری نہیں کر رہا تھا اور یہ کہ اُس نے سوشل میڈیا کی وساطت سے جنسی خواہش کی تسکین کے لیے اُسے اپنے جال میں پھانسا۔
ان درد ناک اور ناخوش گوار یادوں کو دہرانے کی بجائے ان واقعات سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہییں کہ کس طرح ٹیکنالوجی نے انسانوں کو وحشی اور درندے بنا دیا ہے۔ ہاں، اس ٹیکنالوجی سے انسان نے بے تحاشا فائدے بھی اُٹھائے ہیں۔ جوں جوں ٹیکنالوجی اُوپر جا رہی ہے، توں توں ذاتی بات چیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
مینیجر اپنے ملازمین اور ماتحتوں سے ای۔ میل اور موبائل پر پیغامات کے وسیلے سے بالواسطہ رابطہ رکھتے ہیں۔جیسا کہ ہم سب کسی زمانے میں جانتے تھے، انسانی تعاملات میںتیزی سے تبدیلی آسکتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں تک بھی اپنی بات پہنچانے کے قابل نہیں رہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کہ ہم مستقل طور پر کسی نئی ٹیکنالوجی کے مقدس پیالے کی تلاش میں ہیں۔کیا ہمیں آلودہ پیالے سے پینا چاہیے؟
چوں کہ ٹیکنالوجی روشنی کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے، انسانی تعاملات اُس سے بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ پیشین گوئی کرنا ناممکن ہو گا کہ آنے والی دہائیوں میں زندگی کس انداز کی ہو گی۔
ہم تنہائی ، بگڑتی ہوئی سماجی مہارتوں، موٹاپے، ذہنی دباﺅ، سونے کی خراب عادتوں، غنڈہ گردی، نجی معلومات کی پوشیدگی کے فقدان، دھوکا دہی کی اونچے درجوں، تڑی مڑی ہوئی حقیقتوں، کھنچاﺅ، معاشرتی اور جنسی حدبندیوں کا فقدان، سماجی بندھنوں کا فقدان، بے سمتی اور بد حواسی، کمر اور سر درد، توجہ کے دورانیے میں کمی، نشے، ہم احساسی کی کمی، تشدد، توانائی کی کھپت میں اضافے، بچوں کی نشوونما کے مسائل ، اعصابی خلل اور سماعت و بصارت کھو دینے والے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔
افسوس! سادہ صداقتیں آپ کو یاد دلانے کا یہ تاخیری بلاوا ہے۔ بالمشافہ گفت گو اب نہیں ہوتی اوردوستی کی جگہ تنہائی نے لے لی ہے۔ چمک دار مسکراہٹیں اور بھرپور قہقہے آپ کے قلب و رُوح کو گرماتی ہیں۔ آپ کا خاندان پھر سے آپ کے بارے میں جاننا چاہے گا۔