pin up casinomostbet1winpin up

مجھے بیجنگ میں منعقدہ تقابلی تعلیمی معاشروںکی سولھویں عالمی کانگریس میں شرکت کا اعزاز ملا۔ یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف ماہرِ تعلیم اور تحقیقی نگران ڈاکٹر عبدالحمید میرے ہم راہ تھے۔ ہم دونوں نے مل کر ایک تحقیقی مقالہ لکھا ۔ اس کا موضوع سرکاری اور نجی سکولوں میں جائزے کے طریقوں کا موازنہ تھا۔اس کا مقصد کامیابی کے فرق کو کم

Image result for بیجنگ کی یاترا"

کرنا تھا۔
پاکستان ایک تعلیمی بحران سے گزر رہا ہے جس کی پہلے سے کوئی مثال نہیں ملتی۔سکول جانے کی عمر کے تقریباً آدھے بچے سکول سے باہر ہیں۔ اگرچہ اس مسئلے پر سب کا اتفاق ہے ، تاہم یہ تعداد پچیس ملین تک جا پہنچی ہے۔
ہم نے اپنی تحقیق میںصوبہ¿ پنجاب کے دو اضلاع لاہور اور قصور کے سرکاری اور نجی سیکنڈری سکولوں کے جائزے کے طریقے کو پرکھا۔ بیاسی ممالک سے تشریف لائے ہوئے عالمی شہرت یافتہ عالموں اور پروفیسروں نے ہماری تحقیق کو سراہا اور اس پر بحث کی۔ اس تحقیق میں ایک سو سکولوں کے ریاضی کے اساتذہ کو ایک سوال نامہ دیا گیا۔ ان میں سے پچاس اساتذہ کا تعلق سرکاری سکولوں سے تھا جب کہ باقی نصف نجی سکولوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وضاحتی شماریات (Descriptive Statistics) اور Crosstabs استعمال کرتے ہوئے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا گیا۔ پہلے حصے میں ہر اُستاد کے بارے میں پس منظری معلومات جمع کی گئیں۔ دوسرے حصے میں ہم نے اساتذہ کی کلاس ٹیسٹنگ پر زور دیا۔ تیسرے حصے میں ہم نے ایسی ٹیسٹنگ کی فریکوئنسی یا تعداد کا موازنہ کیا۔ چوتھے حصے میں اُن کے استعمال کا رٹے بازی کے ساتھ موازنہ کیا جب کہ پانچواں حصہ اُن کے استعمال کا سوالات کے اطلاق کے ساتھ موازنے پر مشتمل تھا۔ جمع شدہ اعدادوشمار کا ایک الگ حصہ تفہیمی نمونوں اور مختلف تصورات کے مابین رشتے سے متعلق تھا۔ سوال نامے کے آخری حصے میں ایسے سوالات کے استعمال کا موازنہ کیا گیا جو وضاحت یا جواز طلب تھے۔
اس مقالے سے جو اہم باتیں سامنے آئیں، اُن سے انکشاف ہوا کہ سرکاری شعبے کے سکولوں میں 36فی صد اساتذہ کلاس میں ٹیسٹ پر بہت زور دے رہے ہیں، اس کے مقابلے میں نجی سکولوں کے صد فی صد اساتذہ باقاعدگی کے ساتھ یہ ٹیسٹ لے رہے ہیں۔ جائزے کے چھہ حصوں کے طریقوں کے نتائج سے کامیابی کے فرق کے اسباب کا پتا چلا۔ نتائج مفروضاتی ٹیسٹنگ پر مبنی تھے اور اُنھیں علاحدہ سے رپورٹ کیا گیا۔ یہ معلوم ہو ا کہ اگرچہ سرکاری سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کے حالاتِ کار اُن اساتذہ سے کہیں بہتر ہیں جو نجی سکولوں میں کام کرتے ہیں، لیکن نجی سکولوں کے اساتذہ تما م حصوں میں آگے ہیں۔ ایسی کارگزاری کو مسلسل دباﺅ اور ملازمت سے نکالے جانے کے خوف سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور اہم سبب نجی شعبے میں کام کرنے والے اساتذہ کی کارگزاری پر مبنی اعلیٰ ترغیباتی اور تحریکی سطح ہو سکتی ہے۔
بیجنگ میں عالمی کانگریس میں ہم نے اپنی تحقیق کے جو نتائج پیش کیے، وہ مندرجہ¿ ذیل ہیں:
۱۔ نجی سکولوں کے اساتذہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی نسبت کلاس روم ٹیسٹ پر زیادہ زور دیتے ہیں۔
۲۔ نجی سکولوں کے اساتذہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے مقابلے میں یہ ٹیسٹ زیادہ باقاعدگی سے لیتے ہیں۔
۳۔ سرکاری سکولوں کے اُستاد اُن سوالوں پر انحصار کرتے ہیں جن کے جوابات کے لیے درسی کتابوں میں دیے گئے مواد کو پھر سے لکھنا ہوتا ہے جب کہ نجی سکولوں کے اساتذہ ایسے سوالات کبھی کبھار دیتے ہیں۔
۴۔ سرکاری شعبے میں چلنے والے سکولوں میںایسے سوالات نہیں دیے جاتے ،جن کے ذریعے سے سیکھے گئے تصورات کا اطلاق مقصود ہو ۔ نجی سکولوں میں سیکھے ہوئے تصورات کے اطلاق پر مبنی سوالات دیے جاتے ہیں۔
۵۔ نجی سکولوں کے اساتذہ ٹیسٹوں میں ایسے سوالات شامل کرتے ہیں جن میں مختلف تصورات کے مابین تعلق تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرکاری سکولوں میں ایسا نہ ہونے کے برابر ہے۔
۶۔ نجی سکولوں میں درسی کتابوں میں دیے گئے سوالات کے علاوہ بھی سوالات دیے جاتے ہیں، ایسے سوالات جن کے لیے کوئی وضاحت، تشریح یا جواز دینا پڑے۔ سرکاری سکولوں کے بہت ہی کم اساتذہ اس طرح کے سوالات دیتے ہیں۔
ہم ایسے ماہرین سے رابطے میں تھے جو جانتے ہیں کہ پاکستان کے تعلیمی نظام کی بہتری، پیش رفت اور پائیداری کے راستے میں کون سی رکاوٹیں حائل ہیں، خصوصاً سکول نہ آنے والے بچوں کے حوالے سے۔ ہم ان ماہرین سے معلومات کا تبادلہ کر رہے تھے ۔ اس مسئلے سے متعلقہ امور پرقابلِ ذکر افراد کے ساتھ بحث کی گئی۔ ان میں یونی ورسٹی آف فلپائن کی پروفیسر الینیتا کیو اور ویسٹرن منڈیانو سٹیٹ یونی ورسٹی لاﺅرڈ بی۔ فلاٹو شامل تھے۔ فلپائن کی حکومت نے سکول سے باہر بچوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے منفرد اقدامات کیے ہیں۔ ان میں سے پہلا جز وقتی تدریس ہے۔ نوجوان مگر غریب طلبہ جو سکول آنے کے متحمل نہیں، اُنھیں ہر سہ پہر دو گھنٹے کے لیے سکول بلایا جاتا ہے۔ چھہ ماہ کے لیے اساتذہ اُنھیں لکھنے اور پڑھنے کی بنیادی مہارتیں ذہن نشین کراتے ہیں۔ اس مرحلے پر انھیں آزاد کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ بچے جو سکول سے باہر تھے، کسی نہ کسی حد تک ناخواندگی کے چکر سے باہر نکل آتے ہیں ۔ ایسے طالب علموں کو جنھیں سکول سے باہر رکھا گیا تھا، روایتی تعلیم نہیں دی جا سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خاندانوں کے بنیادی کفیل ہوتے ہیں۔ ان کے لیے فنی تربیت کے ادارے قائم کیے جاتے ہیں اور اُنھیں فنی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں تاکہ وہ معاشرے کے مفید رکن بن سکیں۔ پروفیسر حمید نے ان تصورات کی تائید کی اور اُنھوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے بھی قابلِ عمل ہیں۔ اُنھوں نے قابلِ عمل حل کی بھی پیش کش کی۔
پاکستان میں دُوسرا بڑا مسئلہ نجی شعبے کے تعلیمی اداروں کی تعداد میں ہونے والا غیر یکساں اضافہ ہے۔
حال ہی میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح سرکاری سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ بچے نجی تعلیمی اداروں کا رُخ کر رہے ہیں۔ میں نے اس رُجحان کے بارے میں برمنگھم ینگ یونی ورسٹی، یو۔ایس۔اے کے پروفیسر ڈاکٹر ای۔ وینس رنڈال سے اس رُجحان کے بارے میں بحث کی۔ پروفیسر حمید اور پروفیسر رنڈال کی رائے یہ تھی کہ پاکستان میں سرکاری شعبے میں کام کرنے والے اساتذہ کو بہت کم تحریک دی جاتی ہے کہ وہ معمول سے ہٹ کر کوئی کام کریں، نجی تعلیمی اداروں میں ایسی بات نہیں۔ اُنھوں نے سرکاری شعبے میں ایسے نظام کی ضرورت پر زور دیا جہاں اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اُنھیں انعامات سے نوازا جائے۔ وسائل کا مسئلہ بھی سامنے لایا گیااور پروفیسر حمید نے بتایا کہ پاکستان میں نجی سکولوں میں دست یاب سہولتوں کا سرکاری سکولوں میں میسر سہولتوں کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات عوام کو اپنے بچے سرکاری سکولوں میں داخل کروانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حالیہ سالوں میں پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن نے پنجاب کے 3,230 نجی سکولوں سے اشتراک کر کے دو ملین بچے ”اپنائے“ ہیں۔ اس طرح حکومت معیاری تعلیم کے لیے سرکاری شعبے سے وابستہ امیدیں ختم کر کے نجی سکولوں کو فنڈز مہیا کر رہی ہے۔ ان سکولوں کے لیے پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کی فنڈنگ کا بڑا وسیلہ غیر ملکی عطیہ دہندگان جیسے ”یو کے ایڈ“ اور “یو ایس ایڈ “ہیں۔ اس معاملے پر یونی ورسٹی آف سسیکس ، یو کے کے پروفیسر ڈاکٹر کیتھ ایم۔لیون اور پروفیسر حمید کے مابین جامع بحث ہوئی۔ اُن کی بحث کا موضوع تھا ” کیا پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن شراکتی سکول پروگرام ایک پائیدار اور مستقل طریقہ ہے؟“۔ دونوں معزز ماہرین کی نظر میں یہ پائیدار طریقہ نہیں ہے۔ اُنھوںنے سرکاری شعبے میں چلنے والے سکولوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اُنھوں نے سرکاری شعبے کے سکولوں کی قیمت پر نجی سکولوں سے لاڈ پیار کرنے کی موجودہ روش کو مسترد کر دیا۔ اُنھوں نے طویل مدت کے لیے فاﺅنڈیشن کی طرف سے فنڈ دینے پر انحصار کرنے پر متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر غیر ملکی عطیہ دہندگان فنڈز کی فراہمی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں تو اس صورت میں کیا ہو گا۔ یاد رکھیے، عطیات کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتے نیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملکوںکے مفادات بدلتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں ایک اور مروجہ رُجحان سائنس میں داخلہ لینے کی دوڑ ہے۔ قابلیت سے قطع نظر، ہر طالب علم طالبہ میٹرک اور اس سے اگلی سطح کی تعلیم کے لیے سائنس کے مضامین پڑھنا چاہتا چاہتی ہے۔ یہ رُجحان دیگر شعبوں کے آفاق کو بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان اور دُنیا میں بھی سماجی علوم میں داخلہ کم ہو رہا ہے۔ جو نوجوان داخلہ لے بھی رہے ہیں ، وہ کم علمی لیاقت و استعداد کے مالک ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بہت سے روشن ماغ سائنس اور انجنیئرنگ کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔
ضروری نہیں کہسائنس دان اور انجنئیر قومیں چلائیں۔ حکما (فلسفہ دان)، ماہرین تعلیم اور سماجیات سے بہرہ ور دیگر افراد بھی معاشرتی تفہیم اورمعاشرے کو بہتر بنانے اور مستقبل کی صورت گری کے لیے اتنے ہی ضروری ہیں۔
جب میں نے اس مسئلے پر یونی ورسٹی آف کینٹر بری میں قائم سکول آف اجوکیشنل سٹڈیز اینڈ لیڈرشپ کے نائب سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ڈیوڈ سمال اور ڈاکٹر حمید کے ساتھ بحث کی تودونوں نے سفارش کی کہ سماجی علوم کے حوالے سے ہم منڈی کے اصول یعنی طلب و رسد پر انحصار نہیں کر سکتے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ قومیں اپنے ذہین طالب علموں کو سماجی علوم کی طرف لائیں تاکہ بلند بالا اہداف متعین کرنے کے بجائے معاشروں کو اعلیٰ قسم کی مہارتوں سے لیس کرنے میں مدد ملے۔
اس عالمی کانگریس کا انعقاد چینی حکومت، دی ورلڈ کونسل فار کمپیریٹو ایجوکیشن سوسائٹیز، چائنا کمپیریٹو ایجوکیشن سوسائٹی اور بیجنگ نارمل یونی ورسٹی کے مالی تعاون سے کیا گیا تھا۔ بیجنگ نارمل یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر وانگ ژن جی اور پروفیسر لیو باﺅکن خصوصی شکریے کے مستحق ہیں جنھوں نے اس عالمی سطح کے علمی تبادلے کی تقریب کو اس میں شامل لوگوں کے لیے شان دار تجربہ بنا دیا۔ اگلی کانگریس ۹۱۰۲ءمیں میکسیکو میں ہو گی۔ واپسی پر چین پاکستان اقتصادی راہ داری بورڈ کے رکن اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے مشیر سلمان اقبال نے ہمیں چین پاکستان اقتصادی راہ داری پرہونے والی موجودہ پیش رفت سے آگاہ کیا۔ ہم نئے عہد اور نئی نظر کے ساتھ لوٹے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان اور چین کے تعلقات مضبوط تر، صحت مند تر اور خوش حال تر ہوتے جائیں گے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونی ورسٹیوں کی خود مختاری: ہماری قومی پارلیمان کا غیر مکمل ایجنڈا
ہائر ایجوکیشن اور یونی ورسٹیوں کی خود مختاری ہمارے ملک کے سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے امور ہیں۔ ۰۱۰۲ءمیں پارلیمان نے متفقہ طور پر اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کی۔ اس ترمیم سے آئینِ پاکستان ۳۷۹۱ءکے 36فی صد حصے میں تبدیلی آئی۔ آئین کے 280آرٹیکلز میں سے 102میں ترمیم و اضافہ کیا گیا۔ بعض کو تبدیل کیا گیایا حذف کیا گیا۔
اس ترمیم نے ریاست کے ڈھانچے کے حلیے کی دوبارہ وضاحت کی۔ مرکزیت سے عدم مرکزیت وفاق کی صورت میں ایک بنیادی تبدیلی آئی۔ لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاقیت کوبنیادی طور پر اس لیے وضع کیا گیا تھا کہ اختیار اورحاکمیت کو قومی اور علاقائی سطحوں کی حکومتوں میں تقسیم کرنے کے لیے ادارہ جاتی طریقِ کار اپنایا جائے تاکہ آمرانہ طرزِ حکومت یا ضرورت سے زیادہ مرکزیت پر مبنی حکومت کے امکان کو کم کیا جا سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے ایک کمیشن کے سپرد وفاقی سطح پر امور ، وظائف اور وزارتوں کے ڈھانچے کی تعمیرِ نوکا کام کیا گیا جس نے معینہ مدت میں یہ کام مکمل کرنا تھا۔
کمیشن نے ایک سال سے زائد عرصے میں اپنے ذمے لگایا گیا کام مکمل کیا ۔ تیرہ ماہ سے زائد عرصے میںاڑسٹھ اجلاسوں اور کئی بین الحکومتی مشاورتوں کے بعد کمیشن نے منتقلی کے مالی، انتظامی، قانونی اور بین الاقوامی پہلوﺅں کا جائزہ لیا، بعض دُوررس فیصلے کیے جنھوں نے بین الحکومتی تعلقات کا نیا ڈھانچا متعارف کرایا۔
کمیشن نے یقین دلایا کہ کوئی قانون سازی ، سرگرمی یا فنکشن جسے وفاقی قانون سازی کی فہرست یا آئین کے آرٹیکل میں ایک مماثل اندارج کی حمایت حاصل ہوگی، اُس کو وفاقی حکومت اپنے پاس رکھے گی اور اُن معاملات پر تجاوز نہیں کرے گی جو خالصتاً صوبائی ہیں۔ آگے چل کر سترہ وفاقی وزارتیں یا ڈویژن ختم کر دیے گئے۔ لیکن ابھی تک کچھ کلیدی مسائل پالیسی سازوں کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ ان میں یہ مسائل شامل ہیں:
تیل اورقدرتی گیس کی مشترکہ ملکیت سے متعلقہ آپریشنز
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نچلی سطح تک منتقلی
بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے قرض لینے کا صوبائی اختیار
وفاقی ملازمین کی آبادکاری
متروکہ وقف املاک بورڈ کی نچلی سطح تک منتقلی
ایمپلائمنٹ اینڈ اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کی نچلی سطح تک منتقلی
ورکرز ویلفیئر فنڈ کی نچلی سطح تک منتقلی
وزارتِ خارجہ کی طرف سے شکاری علاقوں کا مختص کیا جانا
پاکستان سپورٹس بورڈ میں صوبوں کی نمائندگی
ایوانِ اقبال کی پنجاب میں منتقلی
پاکستان بیت المال کی نچلی سطح تک منتقلی
نیشنل کالج آف آرٹس کی پنجاب میں منتقلی
خیبر پختون خوا میںپاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے زیرِ انتظام موٹلزاور ہوٹلز کی منتقلی
گوادر اور کراچی بندرگاہ کے اداروں میں متعلقہ صوبوں کی پچاس فی صد نمائندگی
جب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بات کی جائے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے نچلی سطح تک منتقلی کے راستے میں حائل ضابطے کے تاخیری حربوں کے باعث صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے۔ اٹھارویں ترمیم کی رُوح کے مطابق وفاقی صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے یونی ورسٹیوںکو خود مختاری اور کیمپسز کو تعلیمی آزادی دینے کے وعدے کا احترام نہیں کیا جا رہا۔ اٹھارویں ترمیم کے وقت صوبے تیار نہیں تھے۔ ابھی تک صوبے نچلی سطح تک منتقلی کے منصوبے کو قبول کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی وفاقی شاخ ابھی تک ایک ایسے ادارے کے طور پر کام کر رہی ہے جو سرکاری اور نجی یونی ورسٹیوں کے معیار کی درجہ بندی کرتی ہے، حالاں کہ یہ کام کسی خودمختار ادارے سے لیا جانا تھا۔ بہت سی یونی ورسٹیوں نے طلبہ کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے درجہ بندی کومارکیٹنگ کے آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ان یونی ورسٹیوں میں دست یاب سہولیات، تعلیمی و تحقیقی معیار اُس درجے سے مطابقت نہیں رکھتے جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے انھیں دیا گیا ہے۔ جب ہم بین الاقوامی معیارات کی بات کرتے ہیں تو بین الاقوامی برادری کو پہلے ہی ان یونی ورسٹیوں پربہت کم اعتماد تھا، اب اس رہے سہے اعتماد میں مزید کمی آ گئی ہے۔اٹھارویں ترمیم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور تحقیق، سائنسی اور فنی اداروں کے معیارات کو وفاقی قانون سازی کی دوسری فہرست میں رکھا، لیکن اس نے وفاقی قانون سازی کی پہلی فہرست کی دو اہم باتوں کا ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ تحقیقی مقصد کے لیے قائم کیے گئے وفاقی ادارے ، پیشہ ورانہ اور فنی تربیت کے لیے، یا خصوصی تعلیم کے فروغ کے لیے، پاکستانی طلبہ کے بیرونی ممالک میں تعلیم اور غیر ملکی طالب علموں کی پاکستان میں تعلیم۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کام صوبوں کو منتقل نہیں کیے گئے کیوں کہ ان میں سے کچھ پانچ الگ الگ وفاقی سطح کی وزارتوں کے حوالے کر دیے گئے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کے پاس چند ایک معاملات رہ گئے۔ وفاقی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو پیشہ ورانہ اور فنی تربیت کی وزارت کے سپرد کر دیا۔ اٹھارویں ترمیم سے قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن براہِ راست وزیرِ اعظم کے ماتحت تھااورہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ اٹھارویں ترمیم کے نفاذ کا جامع تجزیہ کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہے۔ اس کی نسبت ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نچلی سطح تک منتقلی کا منصوبہ ، یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو خودمختاری دینے کے کام کی طرف فوری توجہ درکار ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اصطلاحات اور نچلی سطح تک منتقلی کے ماہر محمد مرتضیٰ نور نے تجویز پیش کی کہ وفاقی حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق ہائر ایجوکیشن کے معیارات طے کرنے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے ۔ یہ کمیشن پہلے سے طے شدہ معیارات منسوخ کردے۔ اگلے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کو حتمی شکل دی جائے اور اس کا فوری اعلان کیا جائے تاکہ ہر صوبہ تعلیم اور صحت کے لیے مناسب وسائل کا مالک ہو۔ طلبہ یونین پر عائد پابندی فوری طور پر اُٹھائی جائے۔ یہ موزوں وقت ہے کہ صوبے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس کریں۔ صوبائی حکومتوں کو ایسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں جن سے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مناسب مالی وسائل حاصل ہوں اور یہ ادارے مستحکم ہوں تاکہ پاکستانی یونی ورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو زیادہ موثر انداز میں پورا کیا جا سکے۔
یونیسکو کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق تعلیم کے مجموعی بجٹ کا 25فی صد ہائر ایجوکیشن کے لیے مختص ہونا چاہیے نیز اس کے مناسب خرچ کرنے کو یقینی بنایاجائے۔ صوبائی حکومتوں کو مناسب مالی وسائل کی فراہمی سے اپنے اپنے ہائر ایجوکیشن کمیشن مستحکم کرنے چاہییں تاکہ پاکستانی یونی ورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔اسی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن۔۔۔کامسیٹ دہری ڈگری کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ تقریباً2700متاثرہ طلبہ کی ڈگریاں منظور کی جائیں۔
یونی ورسٹی کے انتظامی شعبے کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید کا خیال ہے کہ غیر معمولی اور اہم مسائل کے حل کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنایا جائے۔ اُنھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ یونی ورسٹیوں کی خود مختاری کا تحفظ کرنے کے لیے وائس چانسلرز کا فورم ایک مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرے ۔ اُنھوں نے پروفیسروں کی روش پر افسوس کا اظہار کیا جو وائس چانسلر کی سیٹ پکی کرنے کے لیے بھاگم بھاگ سیاسی انٹرویوز دینے جاتے ہیں۔ یوں وہ یونی ورسٹیوں کی خود مختاری پر سمجھوتا کرتے ہیں۔ معیاری سیاسی قیادت کی کم یابی کو دیکھتے ہوئے یہ آئینی ضرورت ہے کہ طلبہ یونئینز پر عائد پابندی ختم کی جائے ۔ طلبہ یونئینز قیادت کی فراہمی کے لیے نرسریوں کاکام کرتی تھیں۔ صرف خودمختار یونی ورسٹیاں ہی داخلوں اور ملازمتوں میںحقیقی میرٹ کی ضمانت دے سکتی ہیں۔ یونی ورسٹیوں میں سیاست کے در آنے کی بڑی وجہ یونی ورسٹی سنڈیکیٹ میں سیاست دانوں کی شمولیت ہے۔ ایک حقیقی کثیر الجماعتی نفاذ کمیشن تشکیل دیا جائے ، جس کا مشن مسائل کو حل کرنا ہو، ان مسائل کو شہرت اور ہوس کے نام پر وحشیانہ انداز میں اغوا کر لیا گیا ہے۔ اس کمیشن کو یہ تصور دینا چاہیے کہ پاکستان اور اس کے شہریوں کے لیے کیا ٹھیک ہے اور یہ بھی کہ دُنیا ہمارے بارے میں کیا رائے رکھے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *