pin up casinomostbet1winpin up

ہم مختص فنڈز کے موزوں استعمال میںمسلسل ناکامی سے دوچار ہیں۔ فنڈز کے غیر موزوں استعمال سے پاکستان کے بے چارے اور مایوس عوام پریشان ہیں جب کہ بد عنوان نوکر شاہی اور چال باز ٹھیکے داروں کے گٹھ جوڑ کی خوشی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اعدادو شمار میں پڑنے کا تصور کرنا بھی مشکل ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس بات پر روشنی ڈالی جائے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کہاں کہاں بہتر ی کی ضرورت ہے۔
کیا ہم میڈیا کی دادو تحسیسن کے لیے مختص شدہ بجٹ کاستعمال روک سکتے ہیں؟کیاہم اس رقم کوطے شدہ مقاصد کے مطابق خرچ کرنے کا آغاز کر سکتے ہیں؟
دُنیا کے بہت ہی کم ممالک ایسے ہیں جو اپنے طالب علموں سے اتنی زبانیں سیکھنے کا تقاضا کرتے ہیں، جتنی ہم اپنے طالب علموں کو سکھانا چاہتے ہیں۔
ہمارا نظامِ تعلیم پہلے ہی قبل از پرائمری ( ڈھائی سے پانچ سال)، پرائمری (جماعت اوّل سے پنجم)، مڈل (جماعت ششم تا ہشتم)، ثانوی ( جماعت نہم تا دہم)، اعلیٰ ثانوی کالج (گیارھویں تا بارھویں جماعت) اور یونی ورسٹی( انڈر گریجوایٹ اور گریجوایٹ) میں بٹا ہوا ہے۔ پاکستانی نظامِ تعلیم کو مزید مدرسوں ( مذہبی تعلیم)، انگلش میڈیم ، اُردُو میڈیم، ایلیٹ، سرکاری اور نجی اداروں میں تقسیم کیا گیا ہے، یہ سب مقاصد کے اعتبار سے ایک دُوسرے سے ٹکراتے رہتے ہیں۔
پشاور میں پڑھنے والا طالب علم اپنی ماں سے پشتو سیکھتا ہے لیکن اُسے یہ زبان سکول میں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔اس طالب علم کواپنے سکول میں پاکستانی شہری کے تشخص کی خاطر اُردُو سیکھنا پڑتی ہے ۔ سلیبس کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ انگریزی سیکھے، اس لیے کہ اس ملک کے اکثر سکولوں میں انگریزی ذریعہ¿ تعلیم ہے۔ اگر طالب علمطالبہ ایسے ملازم یا کاروباری آدمی کا بیٹابیٹی ہو جو پنجاب یا سندھ میں کام کرتا ہو تو ماحول سے مطابقت کے لیے ”پنجابی“ یا ”سندھی“ ضروری ہے۔
پس منظری مقاصد کے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ابتدائی اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں شرح خواندگی چھیانوے فی صد ہے جب کہ کوہلو ضلع بلوچستان میں یہ شرح اٹھائیس فی صد ہے۔ ۰۰۰۲ءسے ۴۰۰۲ءکے درمیان پچپن سال سے چونسٹھ سال کی عمرکے گروپ کی شرح خواندگی تقریباً اڑتیس فی صد تھی۔ پنتالیس سال سے چون سال کی عمر کے گروپ کی شرح خواندگی تقریباً چھیالیس فی صد تھی۔ پچیس سے چونتیس سال کی عمر کے گروپ کی شرح خواندگی ستاون فی صدجب کہ پندرہ سال سے چوبیس سال کی عمروں کے گروپ کی شرح خواندگی بہتر فی صد تھی۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی 9.5 فی صد ہے۔ ہر سال ہمارے ملک میں 445,000 یونی ورسٹی گریجویٹ جب کہ دس ہزار کمپیوٹر سائنس گریجویٹ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میںسکول جانے کی عمر کے اکاون لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں۔ اس لحاظ سے نائیجیریا کے بعد پاکستان دُنیا میں دُوسرے نمبر پر ہے۔
یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مالی سال 2016-17کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعلیم کے نام پر مختص شدہ بجٹ پر ایک نظر ڈالی جائے۔ 84بلین روپے تعلیم کے شعبے کے لیے رکھے گئے ہیں ، یاد رہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبائی معاملہ بن چکا ہے۔صوبوں نے اپنے اپنے صوبائی بجٹ میں الگ رقوم مختص کیں۔ اس کی تفصیل یوں ہے:
63.59بلین روپے: اعلیٰ ثانوی تعلیمی معاملات اور خدمات
10بلین روپے: ثانوی تعلیمی معاملات اور خدمات
8.19بلین روپے: قبل از پرائمری اور پرائمری تعلیمی معاملات
1.16بلین روپے: انتظامیہ کے لیے
79.5بلین روپے: ہائر ایجوکیشن کے لیے مختص کیے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو نئے منصوبوں کے لیے 5.4بلین روپے دیے جائیں گے اور 16.05بلین روپے جاری منصوبوں کے لیے مختص کیے جائیں گے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن جو رقوم خرچ کرے گا، اُن کی تفصیل یہ ہے:
900ملین روپے: ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دُوسرے مرحلے کے لیے پانچ ہزار سکالرزاندرونِ ملک پی ایچ۔ڈی فیلو شپ کے لیے
500ملین روپے: ہائر ایجوکیشن کمیشن ۔ یو۔ایس۔ایڈ کے سپورٹ پروگرام کے دُوسرے مرحلے کے لیے فل برائٹ سکالر شپس کے لیے
350ملین روپے: یونی ورسٹی آف لورالائی کے قیام کے لیے
300ملین روپے: پاک۔ یو ۔ایس نالج کوری ڈور مرحلہ ایک کے لیے پی ایچ۔ڈی سکالر شپ کے لیے
297.81 ملین روپے: غیر ترقی یافتہ علاقوں میں یونی ورسٹیوں کو مستحکم کرنے اور درجہ بڑھانے کے لیے
250ملین روپے: فاٹا یونی ورسٹی کے قیام کے لیے
200ملین روپے: بلوچستان میں پشین اور خضدار کے مقام پر خواتین یونی ورسٹی کے لیے
105ملین روپے: فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے لیے
70ملین روپے: فیڈرل گورنمنٹ کالج برائے خواتین F-7/2کا درجہ بڑھا کر فیڈرل خواتین یونی ورسٹی بنانے کے لیے
50ملین روپے: یونی ورسٹی آف سبی کے قیام کے لیے
صوبوں نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ وہ تعلیم کے لیے ہر سال مناسب بجٹ مختص کیا کریں گے، لیکن کچھ اسباب کی بنا پرصوبہ¿ پنجاب نے تعلیم کے لیے مختص شدہ رقم کو کم کرنے کے اپنے منفی رُجحان کو قائم رکھا ہے ۔ اپنے مسلسل نویں بجٹ میں، پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی صوبائی حکومت نے 323بلین روپے مختص کیے ہیں۔ یہ رقم 1681بلین روپے کے بجٹ کا انیس فی صد حصہ ہے۔
رواں سال کے لیے تعلیمی بجٹ کل مختص سالانہ ترقیاتی پروگرام کا اٹھاون فی صد ہے جب کہ گزشتہ سال یہ اکہتر فی صد تھا۔
حکومت نے ہائر ایجوکیشن کے لیے 13 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کی تفصیل یوں ہے:
183ملین روپے: یونی ورسٹی آف ایجوکیشن کے لیے
127ملین روپے: لاہور کالج برائے خواتین یونی ورسٹی کے لیے
125ملین روپے: پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے
49ملین روپے: کنئیرڈ کالج برائے خواتین کے لیے
17 ملین روپے: انفارمیشن ٹیکنالوجی یونی ورسٹی کے لیے
2.4بلین روپے: کامرس کالجز کے لیے
اس سال ہائر ایجوکیشن کے لیے مختص رقم تین بلین روپے کا اضافہ ظاہر کرتی ہے ، لیکن گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی کے لیے کم ترین رقم یعنی صرف آٹھ ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
سکول ایجوکیشن کے لیے 47بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ تمام رقم جاتی کہاں ہے؟ سکول ایجوکیشن کے لیے مختص بجٹ کی تفصیل یوں ہے:
ایک بلین روپے: پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن کے لیے
ایک بلین روپے: ایلیمینٹری ٹیچرز ٹریننگ کالجز کے لیے
175ملین روپے: پنجاب ایجوکیشن اینڈ انگلش لینگوایج انیشی ایٹو (پیلی) منصوبے کے لیے
96ملین روپے: ایک ہزار پرائمری سکولوں میں اوائل بچپن کی تعلیم (ارلی چائلڈ ہُڈ ایجوکیشن ) کے لیے
73ملین روپے: چلڈرن لائبریری کمپلیکس کے لیے
37ملین روپے: مختلف سکولوں میں زیرِ تعلیم بلوچستان کے طلبہ کے لیے
15ملین روپے: دانش سکولوں میں زیرِ تعلیم بلوچستان کے طلبہ کے لیے
28ملین روپے: سرکاری سکولوں کے طلبہ کو ٹیبلٹ کی فراہمی کے لیے
50بلین روپے: سکولوں کی عمارتوں کا درجہ بڑھانے کے لیے
12بلین روپے: پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے لیے
4بلین روپے: پنجاب ایجوکیشن انڈاﺅمنٹ فنڈ کے لیے
4بلین روپے: لیپ ٹاپ کی فراہمی کے لیے
1.8بلین روپے: غیر رسمی تعلیم کے لیے
2.5بلین روپے: دانش سکولوں کے لیے
2بلین روپے: نالج پارک کے لیے
6.67ملین روپے: سپیشل ایجوکیشن کے لیے
گزشتہ سال سکول ایجوکیشن کے لیے 32.8بلین روپے مختص کیے گئے تھے ۔ اس کا مطلب ہے کہ رواں مالی سال حکومت نے 15بلین روپے کا اضافہ کیا ہے۔ کچھ ماہرین ان مختص کی گئی رقوم پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیو ٹ فار کوالٹی ایجوکیشن میں تعلیمی مالیات کی ماہر قندیل غیاث خان نے MOREسے بات کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حکومت ایک شعبے کے لیے رکھی گئی رقم کسی دُوسرے شعبے میں منتقل کرنے کی عادی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کیا گیا تھا۔ سکول ایجوکیشن کے لیے مختص شدہ 32بلین روپے میں سے صرف 13بلین خرچ کیے گئے۔مجھے شک ہے کہ اس معاملے میں اربابِ اختیار سنجیدہ نہیں ہیں۔ کیا ہم میڈیا پر اپنی تعریف و تحسین کے لیے بجٹ کے استعمال کو روک سکتے ہیں؟ کیا ہم مقرر کیے گئے اہداف پر رقم خرچ کرنے کا آغاز کر سکتے ہیں؟
دُوسری طرف حکومتِ سندھ نے تعلیم کے شعبے میں بجٹ مختص کرنے کے حوالے سے تمام گزشتہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔ اُنھوں نے صوبے کے مجموعی بجٹ 869بلین روپے کا 28فی صد یعنی 160.7بلین روپے تعلیم کے لیے مختص کیا ہے۔ اُنھوں نے تعلیم کے چار بڑے شعبوں ( ہائر ایجوکیشن، ٹیکنیکل ایجوکیشن، سپیشل ایجوکیشن اور میڈیکل ایجوکیشن ) کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں دوسوپچیس سکیموں کے لیے 17.2بلین روپے رکھے ہیں۔
اس سال مختص کی گئی رقم گزشتہ سال مختص کی گئی رقم کے مقابلے میں 11.2فی صد زیادہ ہے۔ تنخواہ کی مد میں رکھی گئی رقم سالِ گزشتہ کے مقابلے میں 7.4فی صد زیادہ ہے جب کہ تنخواہ کے علاوہ دیگر اخراجات کے لیے مخصوص کی گئی رقم 23.8فی صد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔
2015-16مین سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 13.2بلین روپے مختص کیے گئے تھے۔ ان کی چار حصوں میں تقسیم یوں کی گئی تھی:
دس بلین روپے: شعبہ¿ تعلیم و خواندگی (ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ ) کے لیے
دو بلین روپے: یونی ورسٹیوں اور بورڈز کے لیے
ایک بلین روپے: سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کے لیے
دو سو ملین روپے: سپیشل ایجوکیشن کے لیے
باوجود اس حقیقت کے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران میں ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ نے اپنے لیے مختص کیے گئے بجٹ کا 57فی صد استعمال کیا، اس سال پنجاب کی طرح اس شعبے میں مختص شدہ بجٹ میں تین بلین روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔جام شورو یونی ورسٹی کے شعبہ¿ معاشیات کے پروفیسر امداد علی بغیو نےMOREسے بات چیت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ گزشتہ مالی سال کے دوران میں سندھ میں سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی نے اپنے لیے مختص شدہ بجٹ کا 52فی صد حصہ استعمال کیا۔ یونی ورسٹیوں اور بورڈز نے 37فی صد استعمال کیا جب کہ سپیشل ایجوکیشن نے سرے سے کوئی بجٹ استعمال ہی نہیں کیا۔
خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں ترقیاتی وغیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 125بلین روپے مختص
کیے۔ مجموعی بجٹ کا 24.8فی صد حصہ یعنی 21.7بلین روپے ترقیاتی کاموں کے لیے رکھے گئے ہیں ۔ ترقیاتی بجٹ میں ایلیمنٹری اور سیکنڈری تعلیم کا حصہ78فی صد ہے، اس میں سے 19.07بلین روپے صوبائی حکومت جب کہ9.8بلین روپے ضلعی حکومتوں کو دیے جائیں گے۔ تعلیم تک آسان رسائی کے لیے 16,960مزید اسامیاں پیدا کی جائیں گی ۔ اس مقصد کے لیے تقریباً 6 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بقیہ بجٹ صوبہ بھر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایک سو نئے پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کے قیام، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکولوں میں پانچ سو کمپیوٹر لیبارٹریز قائم کرنے نیز سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ تعلیمی اداروں پر خرچ کیا جائے گا۔
وظیفے کا پروگرام ( ستوری دا پختون خوا) جاری رہے گا۔ اس پروگرام کے تحت چار لاکھ طلبہ کو دو سو روپے فی طالب علم کو وظیفہ دیا جائے گا۔چوں کہ امن ِ عامہ بہت اہم چیز ہے، اس لیے پشاور یونی ورسٹی میںنئے بجٹ سے جرمیات اور سائنس کا ایک نیا شعبہ قائم کیا جائے گا۔ لکی مروت میں بنوں یونی ورسٹی کا سب کیمپس قائم کیا جائے گا۔ صوابی میں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا اکیڈمک بلاک تعمیر کیا جائے گا۔ اپر دیر میںیونی ورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کا اکیڈمک بلاک اور سب کیمپس تعمیر کیا جائے گا، لیکن گزشتہ سال کے دوران میں دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی مختص شدہ بجٹ خرچ نہ ہو سکا۔
احمد نواز خان ترین نامی ایک سرگرم سماجی کارکن اور پشاور میںایک فعال غیر سرکاری تنظیم کے ڈائریکٹر نے MOREکو بتایا کہ مالی سال 2015-16میں محکمہ¿ داخلہ اور قبائلی امور(ہوم اینڈ ٹرائبل افئیرز ڈیپارٹمنٹ) نے مختص شدہ بجٹ 6.37بلین روپے میں سے صرف 960.95ملین روپے خرچ کیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مختص کیے گئے بجٹ کا بیس فی صد حصہ استعمال ہوا۔ محکمہ داخلہ (ہوم ڈیپارٹمنٹ) میں 82تعمیراتی منصوبوں پر ایک پائی بھی خرچ نہ کی گئی۔محفوظ شہر منصوبہ (سیف سٹی پراجیکٹ) کے تحت پشاور کومحفوظ بنانے کے لیے 2015-16کے بجٹ میں دو سو پچاس ملین روپے مختص کیے گئے۔ اس کے باوجود کہ 100.61ملین روپے جاری بھی کر دیے گئے، اس منصوبے پر ایک بھی پائی خرچ نہ ہوئی۔ اسی طرح پشاور جیل کے لیے ایک سو ملین روپے مختص کیے گئے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اتنے اہم منصوبے کے لیے کوئی رقم جاری نہ کی گئی۔
صوبے کی سات شدید خطرے والی جیلوں میں حفاظتی اقدامات کو فروغ دینے کی خاطر پچاس ملین روپے مختص کیے گئے۔ اگرچہ 10.25ملین روپے جاری بھی کیے گئے،لیکن جیلوں میں حفاظتی چوکیوں کی تعمیر پر کوئی رقم خرچ نہ کی گئی۔اسی طرح یورپین یونین فنڈڈ ایکسیس ٹو جسٹس پروگرام کے لیے 387.6ملین روپے مختص کیے گئے، 2015-16 میں اس پروگرام کے لیے ایک بھی پائی جاری نہ کی گئی۔ دس ملین روپے مختص کیے جانے کے باوجود تفتیشی اور انٹیلی جنس سکول کی تعمیر کے لیے کوئی رقم جاری نہ کی گئی۔
مزید براں صوبے کی جیلوں میں خواتین اور نابالغوں کے حصوں میں سہولتیں بہتر بنانے کے لیے تیس ملین روپے کا بجٹ مختص کیے جانے کے باوجود ایک بھی پائی نہ دی گئی۔
بد عنوانی کے بہت بڑے سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد صوبہ¿ بلوچستان کے بجٹ کی تیاری کاعمل رُک گیا۔ سیکرٹری مالیات کی گرفتاری اور محکمہ خزانہ میں کلیدی عہدوں پر فائز افرادکے تبادلے کے بعدمحکمے میں نوواردان کے لیے ایک موثر بجٹ کی تیاری ناممکن نظر آتی تھی ۔کسی نہ کسی طرح صوبے نے 277.56بلین روپے کا بجٹ تیار اور پیش کیا گیا۔
اس بجٹ میں تعلیم کا حصہ 42.67بلین ہے۔ یہ مجموعی بجٹ کا چودہ فی صد ہے۔ سب سے کم شرح خواندگی رکھنے والے اس صوبے نے تعلیم کے شعبے کے لیے زیادہ فنڈ جاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔بلوچستان میں سات ہزار سے زیادہ ایسے سکول ہیں جہاں پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے لیے صرف ایک اُستاد تعینات ہے، یوں اُسے کثیرالجماعتی تدریس کرنی پڑتی ہے۔ یہ سکول بغیر چار دیواری کے ہیں اور اِن میں انفرادی توجہ یا تحفظ نام کی کوئی چیزنہیں ہے۔
بلوچستان حکومت خضدار، لورالائی اور تربت کے مقامات پر تین میڈیکل کالجوں کے قیام کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اگرچہ کوئی نیا سکول نہیں بنایا جائے گا، تاہم صوبے کے مختلف علاقوں میں ستر مڈل سکولوں کا درجہ بڑھا کراُنھیں ہائی سکول بنا دیا جائے گا۔ اسّی پرائمری سکولوں کا درجہ بڑھا کر اُنھیں مڈل سکول بنا دیا جائے گا۔
حکومت طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے۔ لیپ ٹاپ کی تقسیم کے لیے پانچ سو ملین روپے مختص کیے گئے۔ صوبے میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے چودہ ہزار طلبہ کو ملکی اور بین الاقوامی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظائف دیے جائیں گے۔
گزشتہ سال بجٹ کا 75فی صد سے زائدحصہ تنخواہوں کی مد میں خرچ کیا گیا جب کہ تعلیم کی بہتری کے لیے صرف 25فی صد خرچ کیا گیا۔ اگرچہ گزشتہ سال حکومت نے آئین کے آرٹیکل 25-Aکے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا، تاہم اس وقت بھی1.7 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
اصل مسئلہ سکول سے باہر بچوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ وہ بچے ہیں جو سکولوں کے اندرہیں۔ بلوچستان کے سکولوں میں سلسلہ¿ تعلیم منقطع کرنے والے بچوں کی شرح بہت زیادہ ہے اور 1.3ملین میں سے صرف پچاس ہزار کے لگ بھگ طالب علم ہر سال میٹرک کے امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔مجموعی طور پر تصویر تاریک ہے اور اسے مختص کیے گئے بجٹ اور اس کے موجودہ استعمال سے روشن نہیں بنایا جا سکتا۔
ہم مختص کیے گئے فنڈز کے مناسب استعمال میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے بے چارے عوام مایوسی کی حد تک پریشان ہیں جب کہ بد عنوان نوکر شاہی اور چال باز ٹھیکے داروں کے گٹھ جوڑ کی خوشی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ جب مالی سال کے اختتام سے پیشتر بقیہ فنڈ عجلت میں خرچ کیے جاتے ہیں تو وہ خوب کمیشن کماتے ہیں۔جب تک ہم اپنی رقم اپنی سب سے عزیز متاع یعنی افرادی وسائل پر دانش مندی سے استعمال نہیں کرتے، ہم تاریک ادوار میں رہتے رہیں گے۔ ہم نہ خرگوش ہیں اور نہ ہی کچھوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *