pin up casinomostbet1winpin up

جائزہ نہ تو کوئی کھیل ہے اور نہ ہی نوکر شاہی والا کام ہے۔ جائزے اور بچے کی موصولہ تعلیم کے معیار کے مابین رشتہ ابدی اور قطعی ہے۔ پرائمری اور ایلیمینٹری سطح پرتعلم کو بہتر بنانے کے لیے اعدادو شمار (ڈیٹا) کی جمع آوری، اس کا جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کا منظم طریقِ کار انتہائی اہم ہے ۔ بہت سے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مو¿ثر پرائمری تعلیم بچوں کی علمی ترقی پر کسی بھی چیز سے نمایاں اور اہم اثر ڈالتی ہے۔
۵۱۰۲ءمیں یونی ورسٹی کالج لندن میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ علمی لحاظ سے مو¿ثر پرائمری سکول میں کی جانے والی بہترین معیاری تدریس نے بچوں کی نشوونما کو نمایاں طور پر فروغ دیا، لیکن پاکستان میں۵۱۰۲ءمیں جاری ہونے والی تعلیمی رپورٹ کا سالانہ درجہ (ASER سے یہ انکشاف ہوا کہ پرائمری سطح پر دولت اور سکول میں بچوں کے داخلے کے مابین ایک مضبوط رشتہ قائم ہے۔ ASERشہریوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور اس پہلے قدم کی بنیاد گھریلو زندگی پر ہے۔اس نے نہ صرف سرکاری اور نجی سکولوں میں داخلے کے رُجحانات کو کریدا بلکہ بالواسطہ طور پر پرائمری اور سیکنڈری سطح پر معیاری جائزے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اثر (ASER) کی ۵۱۰۲ءکی رپورٹ کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ سکول جانے کی عمر کے بچوں میں سے سب سے کمزور چوتھائیہ (Quartile)جو سرکاری سکولوں میں داخل ہوئے، ۷۸ فی صد ہے، جب کہ بقیہ ۹ فی صد نجی سکولوں میں داخل ہوئے۔ سب سے مضبوط چوتھائیہ (Quartile)نجی سکولوں میں داخل بچے ۸۳ فی صد تھے جب کہ سرکاری سکولوں میں جن بچوں کا اندراج ہوا، وہ ۱۶ فی صد تھے۔ یہ اعدادوشمار ایک تاریک تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن ہمیں اس حقئیقت کو قبول کرنا ہو گا۔
یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کہ یہاں آمدنی کی عدم مساوات ہے، اس کے باوجود طالب علموں کی اکثریت اب بھی سرکاری سکولوں میں پڑھتی ہے۔ نہ صرف غریب ترین لوگوں کے ۷۸ فی صد بچے بلکہ امیر ترین آبادی کے بھی ۱۶ فی صد بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ پرائمری اور ایلیمنٹری سطح کی تعلیم کے لیے سرکار پر انحصار کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سطح کی تعلیم کے لیے جائزے کا ایک ٹھوس نظام موجود ہو، لیکن یہی سروے یہ بتاتا ہے کہ اُردُو بشمول دیگر علاقائی زبانیں پڑھنے، انگریزی اور بنیادی سطح کی ریاضی میں بچوں کی اکتسابی صلاحیتیں تشویش ناک حد تک کمزور ہیں۔ تیسری جماعت کے قریباً ۹۶ فی صد طالب علم اس قابل نہیں کہ وہ دُوسری جماعت کی اُردُو یا دیگر علاقائی زبانوں مثلاً سندھی اور پشتو کی کہانیوں کی کتاب پڑھ سکیںجب کہ ۳۴ فی صد بچے دُوسری جماعت کی کتاب کے جملے نہیں پڑھ سکتے۔ تیسری جماعت کے ۳۷ فی صد بچے اور پانچویں جماعت کے ۹۳ فی صد بچے دُوسری جماعت کی انگریزی کی کتاب سے جملے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح پانچویں جماعت کے ۴۴ فی صد ، چھٹی جماعت کے ۲۳ فی صد اور ساتویں جماعت کے ۴۲ فی صد طالب علم تیسری جماعت کی تین ہندسی تقسیم کے سوال حل نہیں کر سکتے۔
۵۱۰۲ءمیں ایک خودمختار ادارے کی حیثیت سے پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC)کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا مقصدہمہ پہلو جائزے، تجزیے، تحقیق، مشاہدات اور مصاحبات (انٹرویوز) کے ذریعے سے سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور طلبہ کی کارگزاری کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ تاہم گیارہ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جب ان مسائل کے حل کی بات آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادارہ اپنے مقصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) پانچویں اور آٹھویں جماعت کے جو پرچے لیتا ہے، اُن کا انتظام و انصرام کمزور ہے۔ امتحانی مراکز میں پرچوں کا موضوعی حصہ خاصی دیر سے پہنچا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ معروضی پرچے کا وقت ۲ بجے سہ پہر سے ساڑھے چار بجے سہ پہر تھا، جب کہ امتحانی مراکز میں یہ پرچہ ساڑھے تین بجے سہ پہر پہنچا۔ ستم بالائے ستم ،بہت سے طالب علموں کی رول نمبر سلپس غائب تھیں۔ ان کی سلپس پر اُن کے کوائف درست نہیں۔ پنجاب بھر کے مراکز بشمول قصور، گوجراں والا، شیخوپورہ، رحیم یار خان اور ملتان میں مراکز پر پرچے موصول ہونے سے پیشتر معروضی طرز کے سوالات کے جوابات موبائل فون پر سندیسچوں (SMS)کی صورت میں پہنچ چکے تھے۔ بجائے اس کے کہ ان معاملات پر گرفت کی جاتی، ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے غیر واضح اور بظاہر ناقابلِ قبول عذر پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ فرائض سے غفلت برتنے کی ایسی تفصیلات شکوک و شبہات کو ہوا دیتی ہیںکہ آخر یہ جائزے کی آزمائشیں لے کون رہا ہے۔ جب اس طرح کے ”امتحانات“ کے نتائج کی بات آتی ہے تو کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی۔
گزشتہ سال مخبروں نے یہ خبر دی کہ بعض خوش قسمت ایسے بھی تھے جو امتحان میں شرکت کیے بغیر معجزانہ طور پر امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ جوابی کاپیوں کی غیر معیاری جانچ کے علاوہ غلط نام اور رول نمبر درج کیے جانے کی شکایات بھی تھیں۔ جب یہ شکایات کی گئیں تو پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) نے فوری طور پرتمام طلبہ کی کامیابی کا اعلان کر دیا اور محکمہ¿ تعلیم کو یہ ہدایت جاری کی گئی کہ ہر طالب علم کو اگلی جماعت میں بٹھایا جائے۔ ۶۱۰۲ءمیں پانچویںجماعت میں 1.2ملین (بارہ لاکھ) اور آٹھویں جماعت میں 1.6ملین (سولہ لاکھ) طالب علم امتحان میں شریک ہوئے، لیکن پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) نے پرچوں کی چھپائی اور ترسیل کے عمل کو ٹھیکے پر دے دیا۔ پرچوں کی رازداری باقی نہ رہی اور ترسیل میں بھی تاخیر ہوئی۔ یہ زبردست ناکامی تھی خصوصاً طالب علموں کے لیے۔
پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) کو ایک بہت اہم کردار ادا کرنا تھا، سالانہ خطیر رقم اسے دی جاتی ہے لیکن یہ ادارہ پانچویں اور آٹھویں کے امتحانات کو پیشہ ورانہ انداز میں منعقد کرانے میں ناکام رہا ہے۔ اس سے اس ادارے کی اہلیت مشکوک ہو کر رہ گئی ہے کہ کیا یہ ادارہ کبھی اپنی اہلیت ظاہر کر بھی سکے گا۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) کے پاس ماہرینِ جائزہ کی ایک مرکزی ٹیم ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جائزے کی ٹیم میں کوئی بھی پی ایچ۔ڈی موجود نہیں۔ مرکزیت کو توڑ کر ضلعی سطح پر عدم مرکزی نظامِ امتحان کی ضرورت ہے یا پرائمری اور مڈل سٹینڈرڈ کے امتحانات کو شفاف تر بنانے کے لیے ایلیمنٹری بورڈز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ امتحانات کے انعقاد میں شامل افراد میں سے زیادہ تر اس کام کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور ناقابلِ معافی غلطیاں کرتے ہیں۔ جائزے کے نظاموں کو اس لیے نہیں بنایا جاتا کہ تمام طلبہ کو کامیاب قرار دے کر اگلی جماعت میں بٹھا دیا جائے، بلکہ ان کا مقصد تعلم اور تدریسی طریقوں کی فروگزاشتوں کی شناخت ہوتا ہے۔
اساتذہ کو تربیت دینے اور طلبہ خصوصاً جماعت ششم اور ہشتم کے طالب علموں کے تعلم کی کامیابیوں کا جائزہ لینے کے لیے پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) کے منشور میںاس ادارے کا جو دائرہ¿ کار اور افعال دیے گئے تھے، اُنھیں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس ادارے کو ہر سال سکول کے طلبہ کی کمزوریوں کو واضح کرنے کے لیے یونین کونسل کی سطح پر رپورٹ مرتب کرنا تھی۔ پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) کو مخصوص مضمون میں استاد کو تربیت دے کر اس کا کسی سکول میں تقرر کرنا تھا، لیکن بد قسمتی سے گیارہ سال گزر جانے کے بعد بھی کمیشن نے نہ تو کوئی رپورٹ مقرر کی ہے اور نہ ہی اساتذہ کو تربیت دی ہے۔
پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) کے امتحانات کے دوران میں، میں نے اس بات کا بذاتِ خودمشاہدہ کیا ہے کہ اساتذہ اپنے طلبہ کو نقل کرانے کی غرض سے ہر ممکن ذریعہ کام میں لاتے ہیں۔ خراب نتائج آنے کی صورت میں اساتذہ کو اظہارِ وجوہ کے نوٹس اور محکمانہ سزائیں بھگتنا پڑتی ہیں۔ ان سے بچنے کے لیے اساتذہ نتائج کو اپنے حق میں تبدیل کرتے ہیں۔ یوں پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) نے جو اعدادوشمار جمع کیے ہیں، ان کی کوئی صداقت یا قانونی حیثیت نہیں اور یقیناً صوبائی اظہاریے (Indicators)قائم کرنے کے لیے اُنھیں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مطالبات کیے جائیں۔ ہمیں پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (DMG)سے تعلق رکھنے والی نوکر شاہی سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ اس ادارے کو حقیقی معنوں میں قابلِ اعتبار اور مو¿ثر بنانے کے لیے اہل انتظامیہ اور جائزے کے پیشہ ور ماہرین کی خدمات لینی چاہیے۔ ہمیں سیکنڈری بورڈز کی طرز پر ایلیمنٹری بورڈز قائم کرنے چاہییں تاکہ ہمارا نیا نظام زیادہ سے زیادہ استعداد اور اہلیت دکھا سکے۔
پنجاب میں پرائمری اور ایلیمنٹری سطح پر جائزے پر سات سو ملین روپے سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں مگر یہ کس قدر شرم ناک بات ہے کہ اس کے بدلے میں سالہا سال سے مذکورہ بالا برے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس ادارے کو اب تک قابلِ اعتماد اور قابلِ توثیق نظامِ قدرپیمائی (Evaluation)بن جانا چاہیے تھا۔ بتایا گیا ہے کہ سالِ گزشتہ کے دوران میں پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن (PEC) نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہرکسی کو امتحان میں کامیاب قرار دیا جائے۔
ہمارے ملک کا مستقبل داﺅ پر لگا ہوا ہے۔ ہم ایسے طالب علموں کو اگلی جماعتوں میں نہیں بٹھا سکتے جو اس کی اہلیت نہ رکھتے ہوں اور ہمیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ ایسے طالب علموں کو اگلی جماعتوں میں بٹھا دینا اُنھیں ناخواندگی اور تاریکی کی دُنیا میں گرا دینے کے مترادف ہے۔
آپ کا کیا جائزہ ہے؟ کیا ہم اس سے بہتر نہیں کر سکتے؟ ہمیں کرنا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *