pin up casinomostbet1winpin up

بھاری بھرکم ترقی کے باوجود جنوبی ایشیا تا حال ایسا خطہ¿ زمین ہے جہاں افراد کی سب سے زیادہ تعداد قریباً ۳۵۹ ملین لوگوں کو صحت و صفائی کی سہولتیں دست یاب نہیں ہیں ۔ واٹر ایڈ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم حال ہی میں اپنی تحقیقات سے پردہ اُٹھایا ہے ۔ اس کے مطابق وطنِ عزیز پاکستان اُن دس اقوام میں سے ہے جہاں شہری آبادی کو محفوظ اور نجی بیت الخلا درکار ہیں۔ہمارے علاوہ نو دیگر ممالک میں ہندوستان، چین، نائےجیریا، انڈونیشیا، رُوس، بنگلا دیش، عوامی جمہوریہ کانگو، برازیل اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ مذکورہ ممالک میں ہندوستان سرِ فہرست ہے جہاںکھلے مقامات کو رفعِ حاجت کے لیے استعمال کرنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان کے اِن افراد کی تعداد چار سو نوے ملین ہے اور یہ ہندوستان کی آبادی کا ۳۳ فی صد حصہ ہے۔دیہاتی آبادی کا باون فی صد اورشہری آبادی کے ایک سو ستاون ملین افراد کھلے عام رفع حاجت کرتے ہیں۔
عالمی طور پر سات سو ملین افراد جانوروں کی طرح رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیںاور مزید چھ سو ملین گندی اور مکھیوں سے بھرے ہوئے سرکاری بیت الخلایا گڑھے یا طہارت خانے استعمال کرتے ہیں۔کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ اس طرح خارج کیے جانے والے فضلے کاحجم کیا ہے؟
اُس کھاد سے جو ہندوستان کے اکتالیس ملین شہری آباد جو فضلہ کھلے مقامات پر خارج کرتے ہیں، اُس سے اولمپک سائز کے آٹھ تیراکی کے تالاب ہر روز بھرے جا سکتے ہیں (۷۵۱ ملین کل آبادی کا ایک تہائی)۔ دس اقوام میں سب سے کم تعداد میں شہری علاقوں میں ڈھکے ہوئے(چھت والے) اور نجی بیت الخلا فی کس سب کے سب افریقہ میں واقع ہیں۔ اس صورتِ حال کو بہتر کرنے کے لیے جو ممالک کام کر رہے ہیں ، اُن میں جنوبی سوڈان، مدگاسکر، جمہوریہ کانگو، سیرا کیون، ٹوگو، ایتھوپیا، لیبیریا، عوامی جمہوریہ کانگو اور یوگنڈا شامل ہیں۔
پاکستان میں چالیس ملین سے زائد افراد کی رسائی جائے ضروریہ( لیٹرین) تک نہیں ہے۔ اُنھیں کھلے مقامات پر رفعِ حاجت کے لیے جانا پڑتا ہے ۔۵۱۰۲ءمیں یونیسف کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق قوم میں قبض کا قابلِ ذکر سبب یہی ہے۔ ہندوستان اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان اس لحاظ سے تیسرا ملک ہے جس کے افراد کو رفعِ حاجت کے لیے کھلی جگہ پر جانا پڑتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحت و صفائی کے حوالے سے ہزاریے کے ترقیاتی اہداف (ملینئیم ڈویلپمنٹ گول) کا حصول ۷۲۰۲ءتک ممکن نہیں۔
کھلے عام رفعِ حاجت افراد کا ایک ایسا عمل ہے جس میں وہ کسی مخصوص جائے ضروریہ (لیٹرین) کے بجائے کسی کھلی جگہ پر جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام میں اس اصطلاح کو پانی، صحت وصفائی اور حفظانِ صحت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کھلے عام رفعِ حاجت ان علاقوں میں طبی مسائل کا سبب بنتا ہے جہاں رہائشی علاقوں کے قریب افرادکھیتوں، شہری پارکوں، آبی گزرگاہوں اور کھلی خندقوں میں رفعِ حاجت کرتے ہیں۔ دُنیا بھر میں صحت و صفائی کی بہتری کے لیے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کھلے عام رفعِ حاجت کا خاتمہ کیا جائے اور یہ ترقی کے قابلِ انتظام مقاصد کا ایک مجوزہ اشاریہ ہے۔
بیت الخلا کے قابلِ رسائی ہونے کے امکان سے قطع نظر،افراد کو بیت الخلا کے استعمال اورکھلے مقامات پر رفعِ حاجت سے اجتناب کرنے کی تر غیب دینی چاہیے ۔ اس لیے بیت الخلاﺅں کا انتظام کرنے کے باوجود کرداری تبدیلی بنیادی چیز ہے۔ کھلے عام رفع حاجت کرنے کے رُجحان کی وجہ روایتی سماجی عادت ہو سکتی ہے یا پھر بیت الخلاﺅں تک رسائی نہ ہونا اس کا سبب ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے مذکورہ بالا دونوں عوامل اس کا سبب ہوں۔
غیر معمولی غربت اور صحت و صفائی کا فقدان آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کھلے عام رفعِ حاجت کا سرے سے خاتمہ بہتری کی کوششوں کا اہم حصہ ہے۔ کسی قوم میں کھلے عام رفعِ حاجت کا کثرت سے ہونا نوعمرلوگوں کی کثرت سے وفات سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ غذائیت کی کمی، مفلسوں کی تعداد میں اضافے اور امیر و غریب کے مابین وسیع فرق بھی اس سے منسلک ہیں۔ قریب قریب ایک بلین افراد یا دُوسرے لفظوں میںدُنیا کی کل آبادی کا پندرہ فی صد کھلے مقامات پر رفعِ حاجت کرتا ہے۔ ۵۱۰۲ میں یونیسف کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کے ۴۵ ملین، نائیجیریا کے ۹۳ فی صد، ایتھوپیا کے ۴۳ ملین اور سوڈان کے ۷۱ ملین کھلے مقامات پر رفعِ حاجت کرتے ہیں۔
۹۱ نومبر کو عالمی سطح پر بیت الخلا کا دِن منایا جاتا ہے۔ (ہم نے کبھی اس کا سوچا تک نہیں تھا)۔ گزشتہ سال اس دن کے موقع پرمختلف غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے قومی حفظانِ صحت کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ پاکستان کی کم ازکم ۴۴ فی صد آبادی محفوظ بیت الخلا تک پہنچ نہیں رکھتی جب کہ یہاں کی ۳۵ فی صد خواتین کے پاس صحت و صفائی کے لیے الگ سے کوئی انتظام و انتخاب نہیں ہے۔
پاکستان میں خواتین کی آبادی کا ایک کثیر حصہ بے توقیری اور ذلت، بیماری اور اذیت کی زندگی گزار نے پر مجبور ہے ، کیوں کہ اُن کے پاس رفعِ حاجت کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں ہے۔ لگاتاریہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں تیس ہزار سے زائد خواتین اور لڑکیاںصحت و صفائی اور پانی تک عدم رسائی سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے باعث مٹی چاٹتی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے مطابق پانچ سال سے کم عمرکے مرنے والے اور مردہ پیدا ہونے والے بچوں کی ساٹھ فی صد اموات کا ذمے دار پانی اور صفائی کی عدم دست یابی سے منسلک بیماریاں ہیں۔
اگرچہ دُوسرے شہروں کے اعدادو شمار دست یاب نہیں ہیں تاہم لاہور جیسے شہر میں، جہاں کثیر تعداد میں لوگ رہتے ہیں،صرف اکیس طہارت گاہیں (واش روم) ہیں۔ ان میں سے قابلِ ذکر تعداد میں وہ طہارت گاہیں ہیں جو ناقص حالت میں ہیں اور کبھی ختم نہ ہونے والی سڑاند نظر آتی ہیں۔
بد قسمتی سے ایک ایسا ملک جو ہر سال امداد کے نام پر بہت سے ڈالر وصول کرتا ہے، ہم ایک لازمی ضرورت فراہم کرنے کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہمارے بچوں کے لیے صاف ستھرے بیت الخلا نہیں ہیں۔سفر کرنے والے افراد کو رفعِ حاجت کے لیے کوئی جگہ دست یاب نہیں ہوتی۔ یوں بالآخر وہ قبض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مرض میں ہماری قوم کے ۴۷ فی صد افراد مبتلا ہیں۔ اس سے ہمارے نوعمر افراد میں پہلے سے موجود بے چینی مزید بڑھ گئی ہے، جو اِس سماجی نفسیاتی سختی اور جبر (یہ کہ وہ پوشیدہ طور پر اطمینان سے رفع حاجت کر سکیں) ، ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ اُنھیں حاجت محسوس ہوتی ہے، مگر وہ رفع نہیں کر سکتے ۔
بڑی آنت باقاعدگی کے ساتھ فضلے سے پانی خارج کرتی ہے، تاہم فضلہ اگر آنت میں زیادہ دیر کھڑا رہے تو اس سے رکاوٹ پیدا ہو جائے گی۔ یوں فضلہ اس قدر سخت ہو جاتا ہے کہ اس کا نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ اس احساس کو ختم کردیتا ہے جو معمول کے رفعِ حاجت سے وابستہ ہوتا ہے۔ یوں فضلہ اس رکاوٹ کے گرد گرتا رہتا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی بیماری کا باعث بنتا ہے۔ کوئی بھی شخص تصور کرسکتا ہے ، اس سے انسان کی صفائی کا معیار متا¿ثر ہوتا ہے۔ ہاتھوں ، کپڑوں اور دیگر ملبوسات کی آلودگی ایسی بیماریوں کا سبب بنتی ہے جن کے سامنے کوئی مزاحمت نہیں کی جا سکتی اور پھر یہ آگے پھیلتی جاتی ہیں۔
قبض کے نتائج بہت خطرناک ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اکثر اوقات انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہماری بڑی آنت بیکٹیریا کی نمو کا گھر ہے ، یہ ہماری آنت کے درست رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ رکاوٹ سے بیکٹیریا کی افزائش میں ناہمواری پیدا ہوتی ہے ، اس سے خردبینی اجسام پر ناگوار دباﺅ پڑتا ہے۔ یہ رکاوٹ معدے کی سخت تکلیف کا باعث بنتی ہے اور کھانے کی خواہش بھی کم ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں کہ جب رکاوٹ دُور نہ کی جائے ، شدید دباﺅ اور پاخانہ خارج کرنے کی کوششوں سے آنسو نکل آتے ہیں اور مقعد کے ڈھکنے کے گرد رِسنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
کھلے عام رفعِ حاجت کی وجہ سے نو عمر افراد خود کو صحیح طریقے سے صاف نہیں کر سکتے اور نتیجةًپانی کی بیکٹیریائی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ اس سے نو عمر افراد پتلے پاخانے اور اِسہال میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ صحت مند ماحول اور کھانے کی دائمی کمی سے ذہنی ناہمواریاں جنم لیتی ہیں۔ یوں ذہنی صحت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
صحت وصفائی کو بہتر بنانا اور بیت الخلا تعمیر کرنا پاکستان کی ضرورت ہے لیکن ہماری ترجیحات مجرمانہ طور پر مختلف ہیں۔ پنجاب کا ترقیاتی بجٹ صوبے کے صرف ایک حصے میں چلا گیا ہے، یعنی لاہور میں۔ صوبائی بجٹ برائے مالی سال ۷۱۔۶۱۰۲ءکی دو جلدوں کا آڈٹ ”گرانٹس کی درخواست“ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ترقیاتی بجٹ کا قریباً ۸۵ فی صدصرف صوبائی دارالحکومت کے لیے روک لیا گیا ہے جب کہ کوئی بھی اور علاقہ ترقیاتی کاموں کے لیے تین فی صد سے زائد نہیں لے سکا۔
جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے دو سو انتیس بلین روپے میں سے ایک سو چونتیس بلین روپے لاہور کے چار سو پنتالیس منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد سب سے زیادہ رقم یعنی ۲.۸ بلین جنوبی پنجاب میں ملتان کو ملی، یہ کل مختص رقم کا تین فی صد بنتا ہے۔
ترقیاتی کاموں کے لیے دُوسری بڑی رقم جنوبی پنجاب میں ملتان کے حصے میں آئی۔ اسے تین فی صد حصہ دیا گیا اور یہ رقم 8.2بلین روپے بنتی ہے۔ فیصل آباد کو 6.2 ملین روپے دیے گئے اور یہ 2.7فی صد حصہ بنتا ہے جب کہ راول پنڈی کو 2.97فی صد حصہ ملا اور یہ رقم6.8بلین روپے بنتی ہے۔ جیسا کہ پرانے ریکارڈ سے ظاہر ہے اٹک کا حصہ 1.03فی صد روپے ، بہاول پور کا 1.09فی صد، بھکر کا 0.5فی صد، ڈیرہ غازی خان کا 1.49فی صد، لیہ کا 0,83فی صد، مظفر گڑھ کا 1.47فی صد، ٹوبہ ٹیک سنگھ کا 0.21فی صد، وہاڑی کا 1.01فی صد، راجن پور کا 0.72فی صد اور رحیم یار خان کا 1.01فی صدحصہ تھا۔ ”لاہور کے بجٹ“ میں سے 85بلین روپے صرف ایک ہی منصوبے یعنی گرین لائن میٹرو پروجیکٹ کو دے دِیے گئے۔
اس کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہ داری کا منصوبہ بھی ہے۔ یہ بنیادی ڈھانچوں(انفراسٹرکچر) کے مجموعے پر مشتمل ایک منصوبہ ہے۔ اس کا مقصد تیز رفتار کے ساتھ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط ، مستحکم اور بہتر بنانا ہے۔ آغاز میں اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 46بلین ڈالر لگایا گیا تھا جو اب بڑھ کر 62بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے منصوبے سے توقع ہے کہ پاکستان کا بنیادی ڈھانچا تیزی سے جدید ہو جائے گا اور جدید ذرائع آمدورفت کی سہولتوں ، توانائی کے مختلف منصوبوں اور غیر معمولی مالیاتی زونز سے اقتصادیات کو تقویت ملے گی، لیکن ”لاہور کا بجٹ“ اور چین پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے سے عوام کو معیاری بیت الخلا فراہم کرنے کا سیاسی ارادہ پورا نہیں ہو سکا۔ پاکستان کے شہروں میں رہنے والے لوگوں کو معیاری عوامی بیت الخلا درکار ہیں۔ اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو نجی شعبے کو اس شعبے میں آگے آنا چاہیے۔ لوگ خدمات کے استعمال کے لیے معاوضہ ادا کرنے پر تیار ہیں۔ نجی شعبے کی طرف سے ایسی ہی ایک کوشش لاہور۔اسلام آباد موٹر وے (M2) کے ساتھ ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔خدمات کے علاقوں میں ہیسکول پمپنگ اسٹیشنوں پر کمپنی نے پر آسائش اور آرام دہ بیت الخلا تعمیر کرنے پر رقم خرچ کی ہے۔ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اعلیٰ ترین قسم کے بیت الخلا میں داخل ہونے کے لیے ہاتھ نہیں لگانا پڑتے بلکہ ایک مقناطیسی چپ کے ذریعے اس کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ تمام تنصیبات کو سینسرز سے جوڑا گیا ہے۔ یہ مکمل طور پر ائر کنڈیشنڈ بیت الخلا پاکستان میں نئے کاروبار کا نقطہ¿ آغاز بن سکتے ہیں۔ اگر اس سہولت کے استعمال کرنے کے معاوضے (پچاس روپے)کااس کے معیار سے موازنہ کیاجائے تو یہ اتنا زیادہ نہیں۔ اس بات کی سفارش کی جاتی ہے کہ کاروباری افراد کو اس نئے کام میں قسمت آزمائی کرنی چاہیے اور ملک کے بالائی، درمیانی اور کم آمدنی والے طبقات کے لیے اس مسئلے کا حل پیش کرنا چاہیے۔ میٹرو اور چین پاکستانی راہ داری منصوبے کی موجودگی لیکن سیاسی ارادوں کی تکمیل کی عدم موجودگی میں صرف یہی حل باقی رہ گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *