pin up casinomostbet1winpin up

یہ تاثر عام ہے کہ بر سر اقتدار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے مابین اعلیٰ ترین سطح پر ایک مفاہمت موجود ہے جس کی روشنی میں قومی معاملات پر دونوں سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق عوامی سطح پر ایک اور موقف اپناتی ہیں جبکہ پر دے کے پیچھے ہونے والے رابطوں کے نتیجے میں کیے گئے فیصلے متضاد سمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جسے عمران خان کی قیادت میں ‘پاکستان تحریک انصاف مک مکا کا نام دیتی ہے اور جس کی تصدیق اگلے روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی جانے انجانے میں اپنی ایک پریس کانفر نس میں کی ہے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کی سیاست سالہا سال سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے گرد گھوم رہی ہے ایک دوسرے کی مخالفت ہی دونوں جماعتوں کی سیاست کی بنیاد ہے پیپلز پارٹی کا ”ناراض“ کارکن عمران خان کو تو ووٹ دے سکتا ہے لیکن نواز شریف کو ووٹ نہیں دیتا، کچھ ایسی ہی کیفیت مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کی ہے دونوں جماعتیں ہزار ہا ”میثاق جمہوریت“ کر لیں ان کے کارکن ایک دوسرے کے”دوست“ نہیں ہو سکتے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکن کو جو نعرہ پیپلز پارٹی کے خلاف لگانے میں مزہ آتا ہے وہ اسے عمران خان کے خلاف نعرہ لگانے میں نہیں آتا یہی صورت حال پیپلز پارٹی کے کا رکنوں کی ہے۔
قبائلی پٹی میں جاری ضرب عضب اور بلوچستان میں ریاست کے سامنے سینہ سپر بعض گمراہ عناصر کے قلع قمع کے لیے افواج پاکستان کی قر بانیاں تاریخ کی ایک ایسی روشن مثال ہیں جو قوم کے لیے مستقبل کے سفر میں زاد راہ کا عنوان رکھتی ہیں کراچی جیسے منی پاکستان میں جرم اور سیاست کے گٹھ جوڑ سے پیدا ہو نے والی لا قانونیت ،خوف اور دہشت کے خاتمے کے لیے لڑی جانے والی جنگ‘ پاکستان کی بقاءکی حقیقی جنگ کہلاتی ہے جس نے ماضی کے روشنیوں کے اس شہر کو اندرون و بیرون ملک تاریکی کا عنوان دے دیا تھا تا ہم افواج پاکستان کی قیادت کی بصیرت کی روشنی میں رینجرز نے آزادی عمل حاصل ہو نے پر تھوڑے ہی عرصے میں کافی حد تک قانون کی بالا دستی کو یقینی بنا دیا ہے جس کے لیے ابتدائی مراحل میں سیاسی قوتوں کی بر وقت حمایت بھی کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے تا ہم جرائم پیشہ عناصر اور بعض سیاسی قوتوں کے باہمی رشتوں کو توڑنے کے لیے سکیورٹی اداروں نے متعدد افراد اور اداروں کو نشانے پر لیا تو سندھ میں عوامی مینڈیٹ کی حامل دونوںبڑی سیاسی جماعتیں تشویش میں مبتلا ہو گئیں ٹارگٹ کلر صولت مرزا کا مسئلہ ہو یا بعض صورتوں میں سہولت کار کے طور پر سامنے آنے والے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ،سندھ کی بر سر اقتدار سیاسی قوتیں‘ رینجرز کے لائحہ عمل کے متضاد سفر کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں جس کے مضراور تباہ کن اثرات کراچی آپریشن پر بھی مرتب ہو رہے ہیں حالیہ دنوں میں کراچی میںتمام اختیارات سمیت رینجرز کے قیام کی توسیع کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین اختلافات کی شدت پوری قوم کے سامنے آچکی ہے۔
1970ء کے عشرے میں پیپلز پارٹی مخا لف قوتوں کی قیادت سید ابوعلیٰ مودودی کے پاس تھی جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لئے بڑے بڑے سیاسی اتحاد قائم کئے لیکن سید مودودی کی وفات کے بعد جب جماعت اسلامی کی قیادت میاں طفیل کے ہاتھ آئی تو 1980ء کے عشرے میں میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کی مخالفت کی”علامت“ بن گئے انہوں نے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کی قیادت کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پیپلزپارٹی کی مخالفت نے انہیں ملک کا بڑا لیڈر بنا دیا اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ نواز شریف کی مقبولیت میں پیپلز پارٹی کی مخالفت کا بڑا عمل دخل رہا ہے، پیپلز پارٹی مخالف سیاست نے ہی انہیں تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھا یا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) وادی سیاست کی دو متحارب حقیقتیں ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کی لوٹ مار اور ناقص کارکردگی نے میدان سیاست میں تحریک انصاف کے لئے گنجائش پیدا کر دی اور عام انتخابات میں تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مخالف جماعت کی حیثیت تحریک انصاف نے لے لی گو کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے لئے پیپلز پارٹی کو کوئی خطرہ نہیں اس کا مقابلہ تحریک انصاف سے ہے لیکن مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کے درمیان روایتی مناقشت میں کمی نہیں آئی۔ جب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اچھے”ورکنگ ریلیشنز“ قائم ہو گئے پیپلز پارٹی نے عمران خان کے ”دھرنے“ کی سیاست کی بجائے جمہوری نظام کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں عمران خان حکومت گرانے میں کامیاب نہ ہوئے عمران خان پیپلز پارٹی کے اس طرز عمل پر”شاکی“ تھے اس لئے وہ پیپلز پارٹی پر ”مک مکا“ کی سیاست کرنے کا الزام عائد کر کے اپنے آپ کو”حقیقی اپوزیشن“ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن جب یہی بات وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قدرے مختلف انداز میں کہی تو ملک میں طوفان کھڑا ہو گیا۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ”تحریک انصاف مک مکا کی بات تو کرتی ہے لیکن ان کے پاس سیدخورشید شاہ کے حکومت سے فوائد اٹھانے کے ثبوت موجود ہیں“۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ(ن) کے اندر پیپلز پارٹی مخالف لابی کے”سرخیل“ ہیں وہ مسلم لیگ (ن) میںپیپلز پارٹی کے مخالفین میں اکیلے نہیں، انہیں راجہ محمد ظفر الحق،میاں شہباز شریف،احسن اقبال،مشاہد اللہ خان،خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر رہنماﺅں کی تائید حاصل ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف جن کی سیاست کی بنیاد ہی پیپلز پارٹی کی دشمنی پر ہے چوہدری نثار علی خان انہیں پیپلز پارٹی سے فاصلہ پر رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کی سوچ ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی مسلم لیگ (ن) کی خیر خواہ نہیں ہو سکتی۔کل ہی کی بات ہے جب عمران خان کی”دھرنے“ کی سیاست کے خلاف پارلیمنٹ نے ”مورچہ“ لگایا تو پیپلز پارٹی نے جہاں نواز شریف کے مورچہ میں کھڑا ہونے کا اعلان کیا وہاں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماﺅں نے چوہدری نثار علی خان کو جو رگڑا لگایا وہ پارلیمنٹ کے ریکارڈ پر موجود ہے یہ چوہدری نثار علی خان کا ہی حوصلہ تھا جنہوں نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی ذاتی درخواست پر چوہدری اعتزاز احسن کو ”معاف“ کر دیا انہوں نے زندگی میں کبھی کسی کے چڑھائے ہوئے ادھار کو نہ اتارنا سیکھا ہی نہیں لیکن پیپلز پارٹی نے چوہدری نثار علی خان کو کبھی ”معاف“ نہیں کیا اس کے لیڈران پر ”طنز وتنقید“ کے تیر چلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر کیے گئے مطالبے کے تناظر میں جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے پیدا ہونے والی بحث کے پیش نظر سپہ سالار تو با وقار انداز میں ایک طرف ہو گئے ہیں تا ہم پیپلز پارٹی کی مشکلات میںکمی کی بجائے مزید اضافے کے اشارے مل رہے ہیں اس سلسلے میں ماضی میں پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت سے انتہائی قر بت رکھنے والے عزیر بلوچ کی گزشتہ روز رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری ایک اہم ترین واقعہ ہے کیونکہ موصوف ایک عرصے سے قانون نافذ کر نے والے اداروں کو قتل ،ڈکیتی اوراس نوعیت کے کئی سنگین مقدمات میں مطلوب تھے اور ان کی گرفتاری پر انعا م کی رقم بھی مقرر تھی کہا جاتا ہے کہ عزیز بلوچ کچھ عرصے سے ایجنسیوں کی تحویل میں تھے تا ہم گزشتہ ہفتے کراچی کور ہیڈ کوارٹر میں ہو نے والے طویل ترین اجلاس میں ان کی گرفتاری ظاہر کر نے کا فیصلہ کیا گیاجسے کراچی آپریشن میں ابتک ہونے والی اہم ترین پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے اورجس کے پیپلز پارٹی کی قیادت پرسنگین اور زہر ناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کراچی میں رینجرز کو اختیارات دینے کا ایشو ہو، چوہدری نثار علی خان کی علالت ہو یا ملک دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیپلز پارٹی کی قیادت پورا ”لشکر“ لے کر چوہدری نثار علی خان پر ”حملہ آور“ ہو جاتی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو”نثار فوبیا“ ہو گیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان محض سینیٹ میں چوہدری اعتزاز احسن کے”معاندانہ طرز عمل“ کو نظر انداز کرنے کے لئے کم وبیش ایک سال تک سینیٹ ہی نہیں آئے اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ کسی شخصیت سے خوفزدہ تھے بلکہ وہ اپنی ذات پر تنقید کا جواب دے کر ماحو ل کو مکدر نہیں بنانا چاہتے تھے اب کی بار تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے حد ہی کر دی چوہدری نثار علی خان کو کمر کے درد کا عارضہ کیا لاحق ہوا طوفان کھڑا کر دیا ہے حتیٰ کہ یہاں تک کہہ دیا جب کوئی واقعہ ہوتا وہ بستر علالت پر چلے جاتے ہیں ان کی علالت”سیاسی نوعیت“ کی ہے،کبھی اسے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے اختلافات کا شاخسانہ قرار دیا گیا،کبھی یہ کہا گیا کہ انہوں نے سانحہءچارسدہ کی مذمت ہی نہیں کی،کبھی ان کو ”طالبان“ کا خیر خواہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے وزیر اعظم سے چوہدری نثار علی خان کو وزارت داخلہ کے منصب سے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا جس پر دفاعی پیداوار کے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے ان پر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو کر وزیر اعظم کو مشورہ دینے کی پھبتی کسی۔
پیپلز پارٹی کے قائدین نے مسلسل ”گولہ باری“ کر کے چوہدری نثار علی خان کو اس حد تک مشتعل کر دیا کہ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپوزیشن لیڈرکے حکومت سے فوائد اٹھانے کا پول کھول دیا ممکن ہے چوہدری نثار علی خان اس حد تک نہ جاتے لیکن پیپلز پارٹی کے بعض لیڈروں نے چوہدری نثار علی خان پر ”حملہ آور“ ہو کر ”آبیل مجھے مار“ کی کہاوت کو سچ کر دکھایا۔ جس کے بعد سید خورشید شاہ نے چوہدری نثار علی خان کے الزام پر وزیر اعظم محمد نواز شریف کو اپنا ”وکیل صفائی“ مقرر کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ چوہدری نثار علی خان کے الزامات کی توثیق کر دیں تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے سید خورشید شاہ کبھی وزیراعظم کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ ان کی”آستین“ میں سانپ چھپے ہوئے جو ڈستے کسی اور کو ہیں اور مرتا کوئی اورہے۔ کبھی پیپلز پارٹی کے لیڈر چوہدری نثار علی خان سے صحت یابی کے سرٹیفیکیٹ کا تقاضا کرتے ہیں کبھی انہیں ”وائسرائے“ کا خطاب دیتے ہیں حتیٰ کہ انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ ”وہ اپنے ارکان پارلیمنٹ کو بھی ڈانٹتے ہیں“۔ کبھی وہ انہیں انا پرستی کا طعنہ دیتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر نے ان پرآج تک کرپشن کا الزام عائدکیا اور نہ ہی ان کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے وہ وفاقی کابینہ کے ان چند وزراءمیں سے ایک ہیں جن کی ملک کے اندر اور باہر دیانت داری،حق گوئی اور کھری کھری بات کرنے کی وجہ سے بے پناہ عزت کی جاتی ہے کرپشن کے بارے میں ”زیرو ٹالرنس“ نے ہی پیپلز پارٹی کو ان پر حملہ آور ہونے پر مجبور کیا ہے انہوں نے کسی کی پروا کئے بغیر پیپلز پارٹی کے”بڑے بڑے“ رہنماﺅں کے خلاف پانچ میگا سکینڈلزکی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا،چوہدری نثار علی خان کرپشن میں ملوث کسی شخص کے بارے میں سفارش سننے کے لئے نہیں تیار نہیں ہوتے۔
”تنہائی پسند“ چوہدری نثار علی خان کے بارے میں ان کے مخالفین بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن سب ہی اس بات کے معترف ہیں کہ انہوں نے وزارت داخلہ کو ایک مثالی وزارت بنا دیا ہے پیپلز پارٹی کے لیڈروں سے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں کوئی بات بن نہیں پاتی تو وہ وزیر اعظم کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں چوہدری نثار علی خان کسی بھی وقت عمران خان سے مل سکتے ہیں،اسی طرح ایک دو وفاقی وزراءکی بھی سید خورشید شاہ سے گاڑھی چھنتی ہے وہ بھی اکثر ان کے چیمبر میں دیکھے گئے ہیں شنید ہے کہ اس”حملہ آوری“ میں ان کی آشیرباد بھی شامل ہے۔ جہاں تک چوہدری نثار علی خان کا تعلق ہے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتاہوں چوہدری نثار علی خان نواز شریف سے ”ناراض“ ہو کر گھر بیٹھ سکتے ہیں لیکن کیمپ تبدیل کر کے ان سے کبھی الگ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے جب عمران خان نے انہیں تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دی تو انہوں نے ایک لیڈر کی طرح یہ تو نہیں کہا کہ”وہ اتنی قیمت پر نواز شریف کی تصویر بھی فروخت نہیں کر سکتے“ لیکن یہ کہہ کرکہ ”نواز شریف کی 35سالہ دوستی پر اپنی سیاست قربان کر سکتا ہوں لیکن ساتھ نہیں چھوڑ سکتا“ یہ دعوت مسترد کر دی۔چوہدری نثار علی خان نواز شریف کابینہ کے شاید واحد وزیر ہیں جو ہر وقت اخبار ات کی شہ سرخیوں اور اینکر پرسنز کا ”موضوع گفتگو“ رہتے ہیںجن کی چوہدری نثار علی خان تک دور دور تک رسائی نہیں وہ ان کے بارے میں دورکی کوڑی لے آتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کہیں جا رہے ہیں اورنہ ہی ان کا وزیر اعظم سے کوئی اختلاف ہے تاہم پیپلز پارٹی ان پر”حملہ آور“ ہوئی تو وہ وزیر اعظم سمیت کسی کی پروا کئے بغیر اپنا جواب دینے کا حق استعمال کریں گے۔
جنرل راحیل شریف 2016ءکو دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دے چکے ہیں اتفاق سے دس ماہ بعدہی وہ اپنی شاندار ملازمت سے سبکدوش ہو نے جارہے ہیں جس کی ممکنہ توسیع میں انکار کر کے انہوں نے ایک طرف اپنے وقار میں اضافہ کیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ تما م مصلحتوں سے بالا تر ہو کر ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور قانون کی عملداری کو یقینی بنا نا چاہتے ہیں تا کہ ریٹائر منٹ کے بعد آنے والے سپہ سالار کےلئے اس محاذ پر آسانی کا سامان فراہم ہو سکے یہی وجہ ہے کہ وہ اب کراچی میں امن لانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا اعلا ن کر رہے ہیں اس لیے وہ حلقے جو ان کی توسیع کے حوالے سے دیے گئے آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد ابہام کا شکار تھے انہیں بھی اب اس میں کوئی شک نہیںہونا چاہیے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں کے دوران افواج پاکستان کی قیادت ملک سے خوف ،دہشت ،تعصب اور انتہا پسندی کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کے لیے یکسو ہے جس کے آثار وقت کے ساتھ ساتھ مزید نمایاں ہو رہے ہیں۔ 73ءکے متفقہ آئین کے بعد حال ہی میں معرض وجود میں آنے والا نیشنل ایکشن پلان ایک ایسی قومی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس پر اس کی رو ح کے مطابق عمل کر کے وطن عزیز میں قومی خواہشات کی ترجمان حقیقی تبدیلی رو شناس کی جا سکتی ہے جس کے لیے افواج پاکستان تو دل جمعی سے کام کر رہی ہیں جبکہ سیاسی جماعتیںناصرف کما حقہ ہو اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہیں بلکہ باہمی تصادم کا تاثر دیکرابتک بظاہر نظر آنے والی قومی یکجہتی کو بھی زوال پذیر کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کا کردار اس لئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہے اور ان ہی میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر وہ حکومت کا احتساب کرتی ہے اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کیلئے اپنا کردار ادا کرتی ہے اگر اپوزیشن لیڈر ذاتی اور انفرادی مراعات اور مفادات کے عوض اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کرتے تو وہ دوسرے لفظوں میں اپنا قومی اور جمہوری کردار ادا نہیں کرتے خورشید شاہ پر الزام اگر حکومت سے باہر کی کوئی جماعت عائد کرتی تو اسے محض پروپیگنڈے یا کردار کشی سے تعبیر کیا جا سکتا تھا لیکن یہ الزام حکومت کے ایک اہم وزیر نے عائد کیا ہے جسے نظر ا نداز نہیں کیا جا سکتا اور جس کی صداقت پر بھی شبہ نہیں ہو سکتا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر داخلہ اب اس معاملے کو تشنہ نہ رہنے دیں اور ان مراعات کی فہرست بھی قوم کے سامنے رکھیں۔ خدشہ ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی طرف سے ان الزامات کو محض پوائنٹ سکورنگ اور کردار کشی قرار دیا جائے گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *