pin up casinomostbet1winpin up

مذہب کی جبراً تبدیلی سے مراد کسی متبادل مذہب یا لادینیت کا دباﺅ اور جبر کے تحت انتخاب ہے۔مذہب کو جبراً ترک کرنے کو ”وجودیت پرستی یا مادہ پرستی کی طرف تبدیلی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وہ افراد جو مذہب تبدیل کرتے ہیں، وہ نیا مذہب یا لادینییت کو برضا و رغبت اپنا سکتے ہیں یا پھر خفیہ طریقے سے اپنے پرانے عقائد اور افعال پر کاربند رہتے ہیں جب کہ بظاہر وہ نئے مذہب کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ مو¿خرالذکر کی تاریخی مثالیں خفیہ یہودی، خفیہ عیسائی، خفیہ مسلمان اور خفیہ کافر ہیں۔ طویل عرصے سے کسی بھی مذہب کے طاقت ور پیروکار کمزور تر افراد کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے اُن کے پاس اپنے ”خدائی“ دلائل ہےں۔ مثال کے طور پر سب سے زیادہ عام دلیلیںمندرجہ¿ ذیل ہیں:

اسلام:


”مومنو! تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔“(3:110)
ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں لوگوں کے لیے بہترین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لاﺅ حتیٰ کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ (صحیح بخاری6:60:80)

عیسائیت:


” جب تمھارا خدا تمھیں زمین میں لاتا ہے ۔۔۔ اور تم اُنھیں شکست دے دیتے ہو تو پھر تمھیں چاہیے کہ اُنھیں مکمل طور پر نیست و نابود کر دو۔اُن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرو اور اُن پر کوئی ترس نہ کھاﺅ۔ اُن کے ساتھ آپس میں بیاہ شادی بھی نہ کرو۔۔۔“
(ڈیوٹیرو نمی 7:1-3)
”لیکن میرے وہ دشمن جو نھیں چاہتے کہ میں اُن کا بادشاہ بنوں ،اُنھیں یہاں لاﺅ اور انھیں میرے سامنے قتل کر دو۔“ ّلیوک 19:27)

یہودیت:


۹۰۰۲ءمیں بی۔ بی۔سی نے دعویٰ کیا کہ 524CE میں یمنی یہودی حمیار قبیلے نے جن پر شاہ دھو نوشاد حکومت کرتا تھا، سعودی عرب کے ایک قصبے کے عیسائی باشندوں کو یہ فیصلہ سنایا کہ یا تووہ یہودیت یا موت دونوں میں سے کسی ایک کو قبول کر لیں اور یوں بیس ہزار عیسائیوں کو ذبح کر دیا گیا۔ ظفر اور نجران میں جہاں ان بائیس ہزار عیسائیوں کو ذبح کیا گیا، بادشاہ نے اس پر زبردست فخر کیا اور اس واقعہ کی یادگار کے طور پر کندہ کاری کرائی گئی ۔ اس دعوے کو کبھی مسترد کیا گیا نہ چیلنج کیا گیا۔

ہندو مت:


ہندوﺅں کے ایک مختلف الرائے اجتماع نے جس کا نام دھرم جگارن سمتی (مذہبی مشاورتی گروہ) ہے، ہندو ﺅں کے ایک عسکری گروہ راشٹریہ سویم سیوک سنگ (آر۔ایس۔ایس) اور اس تنظیم کے ایک حصے سنگ پری وار سے اشتراک کیا ۔سنگ پری وار ایک پروگرام چلاتا ہے جس کو ”گھر واپسی“ کہتے ہیں۔ اس کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کوپھر سے ہندو بنانا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے بارے میں اس تنظیم کا خیال ہے کہ یہ سب آغاز میں ہندو تھے جن کے اسلاف نے اپنا مذہب تبدیل کر کے مختلف مذاہب اختیار کر لیے۔یوں ان کی ہندو مت قبول کرنے کو ان کی ”گھر واپسی“ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ رپورٹ کیا جاتا ہے کہ ۳۱۰۲ءسے اب تک ہندوستان میں ۰۰۰۹ مسلمانوں اور عیسائیوں نے اپنا مذہب تبدیل کر کے ہندومذہب قبول کر لیا ہے۔
اتر پردیش کی ایک نوجوان خاتون نے جسے زبردستی ہندو بنایا گیا تھا۔ اس خاتون کے اروند نامی ہندو خاوند نے اس خاتون کو امیشا ٹھاکر کا نام دیا۔ اس خاتون کے والدین نے بتایا کہ کس طرح ان کی بیٹی کو اغوا کر کے اس کا مذہب تبدیل کیا گیا اور ایک ہندو سے اُس کی شادی کر دی گئی۔ راستے کی دُوسری جانب امیشا کا ننھیالی گھر ہے جہاں اس کے خاندان کو اس کی حقیقت کا علم نہیں۔ تین سال قبل جب وہ تیرہ برس کی تھی اور اب اسے ایک ہندو سے بیاہ دیا گیا ہے ۔ اب وہ اُن کی ننھی زبیدہ خاتون نہیں ہے، لیکن بدقسمتی سے ایسے واقعات (اگرچہ یہ برابر کے قابلِ مذمت ہیں) اُس وقت تک شہرت نہیں پاتے جب تک وہ پاکستان میں رونما نہیں ہوتے۔
پاکستان میں جبراً مذہب تبدیل کرنے کا کام بہت نئی بات نہیں ہے، اس کے آثار ۷۴۹۱ءمیں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ آزادی کا سال تھا۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے بڑھتے ہوئے تعصب کی توثیق بڑھتی ہوئی خباثت ، قتل اور مذہبی اقلیتوں کو دبانے سے ہوتی ہے۔ یہ ایک بپھرے ہوئے نظام کے طور پر دباﺅ کے زیرِ اثر تبدیلیوں کی نشان دہی کرتی ہے۔
اس مقصد کے لیے مختلف طرح کی تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں، ان میں جبر اور خوف کا استعمال، بربریت اور اسی قسم کے دیگر استحصالی ہتھ کنڈوں کااستعمال شامل ہیں۔ان تکنیکوں میں سے ایک جبری طور پر شادی کرنا بھی ہے یعنی غیر مسلم نوجوان خواتین کو مسلمان نوجوانوں سے شادی کرنے اوپر پھر شادی کی وجہ سے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عورت فاﺅنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ایک ہزار نوجوان خواتین کو اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام میں داخل کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک واضح اکثریت کا تعلق ہندو اور عیسائی اقلیتوں سے ہے۔ ایسے معاملات بھی ہیں جن میں غیر مسلم لڑکیاں اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی نہیں ہوتی۔بہت سی رپورٹوں سے اس دباﺅ اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے ایسے واقعات کے ناقابلِ تردید شواہد کے ثبوت ملے ہیں۔ ۶۱ جون ۷۱۰۲ءکو تھرپارکر کی ایک نابالغ ہندو لڑکی کے خاندان نے زور دے کر یہ بات کہی کہ اُن کی بیٹی کو اغوا کیا گیا اور زبردستی مسلمان بنا یا گیا اور اسے مسلمان مرد پیش کیا گیا۔ نوجوان لڑکی اور اُس کے ”شوہر“ نے سندھ کی عدالتِ عالیہ میں انشورنس، اعلانِ تبدیلی اور رضامندانہ شادی کی درخواست کی ہے۔ روِتا میگھ وادھ نامی اس نوعمر لڑکی نے ۶ جون کو تبدیلیِ مذہب کر کے اسلام قبول کیا، اُس کا نام گلناز رکھا گیا اورعمر کوٹ کی یونین کونسل سیمرو میں موجود شادیوں کے ریکارڈ کے مطابق اسی روز اس کی شادی سید نواز علی شاہ سے ہوئی۔ روِتا کا خاندان اس بات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور وہ نواز شاہ پر اپنی بیٹی کو اغوا کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
اگرچہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی جبری طور پر مذہبی تبدیلی کے واقعات موجود ہیں تاہم جبراً مذہب تبدیل کرنے کے واقعات کی اکثریت پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ سے تعلق رکھتی ہے۔
حقائق اور رواج مندرجہ¿ ذیل ہیں:
۱۔ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی نوجوان خواتین کو اُٹھا لیا جاتا ہے یا اغوا کر لیا جاتا ہے۔ اُنھیں اسلام قبول کرایا جاتا ہے اور اُنھیں اُن کی مرضی کے بر خلاف اغوا کار کی گرفت میں دے دیا جاتا ہے۔
۲۔ اکثر اوقات یہ لڑکیاں نو عمر ہوتی ہیں یعنی اٹھارہ سال سے کم عمر ۔
۳۔ تبدیلیِ مذہب کے خلاف مظلوم کا خاندان تھانے میں پرچہ درج کراتا ہے۔
۴۔ بعض اوقات اغواکار بھی جوابی پرچہ درج کراتا ہے اور نوجوان لڑکی کے والدین پر الزام لگاتا ہے کہ وہ اُس پر جبر کر رہے ہیں حالاں کہ اُس نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے۔
۵۔ نوجوان لڑکی کو جج کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اُس نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے۔
۶۔ اکثر اوقات نوجوان لڑکی اغوا کار کے حکم کے تابع ہوتی ہے۔
۷۔ نوجوان لڑکی اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ وہ تبدیلیِ مذہب پر سختی سے کاربند ہے اور اُس نے مرضی سے شادی کی ہے۔ یوں مقدمہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
۸۔ ایک بار جب نوجوان خاتون اس بات کا اظہار کر دے کہ اس نے اپنی آزادانہ مرضی سے شادی کی ہے تو مزید کوئی تفتیش نہیں ہوتی۔جب ایسی نوجوان خواتین کو ان حالات سے باہر نکال کر کہیں اور لے جایا گیا تو اُن کے بیان اور وضاحتیں کچھ اس طرح کی تھیں:
الف۔ پولیس کی طرف سے غلط کاروں کے نام درج کرنے اور تفتیش میں ہچکچاہٹ، اندراج کے ریکارڈ میں مسایل، انقلابی اسلامی گروپوں کی جانب سے اغوا کاروں کی مدد کے لیے پولیس پر دباﺅ، کافی اثاثوں ، انشورنس اور کام کرنے کی اہلیت کی عدم موجودگی۔
ب۔ مظلوم اور اس کے خاندان پر تشدد کیا جاتا ہے ۔ اس طرح استحصال کرتے ہوئے اُنھیںبے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یوں وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے کیوں کہ اس طرح ان کے ساتھ مزید بد سلوکی ہو گی۔
ج۔ سابقہ مذہب میں تبدیلی کی صورت میں موت کا خطرہ۔
اس رواج پر قابو پانے کے لیے بہت سے قوانین ہیں۔ ان میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹینٹ ایکٹ 2013، جبری شادی کے خلاف مجموعہ تعزیراتِ پاکستان 1860کی دفعہ 498B ، زنا کے خلاف تعزیراتِ پاکستان1860 کی دفعہ 375اور376، تعزیراتِ پاکستان1860کی سولہ اے، کسی خاتون کو پکڑنے، چھیننے یا شادی پر مجبور کرنے کے خلاف تعزیراتِ پاکستان1860 کی دفعہ365B ، کسی کو پکڑ کر قانونی سرپرستی سے محروم کرنے کے خلاف تعزیراتِ پاکستان1860کی دفعہ 361A اور چودہ سال سے کم عمر شخص کو پکڑنے یا اغوا کرنے کے خلاف تعزیراتِ پاکستان1860کی دفعہ364A۔
نومبر ۶۱۰۲ءمیں سندھ اسمبلی نے سندھ کریمینل لا بل ۵۱۰۲ (اقلیتوں کا تحفظ) متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس بل کے تحت جبراً مذہب تبدیل کرانے کے قصور وار شخص کو کم سے کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ جرمانہ کی رقم بھی ہو گی جو مظلوم کو ادا کی جائے گی لیکن کراچی میں مذہبی جماعتوں نے اس بل کے خلاف محاذِ جنگ شروع کر دیا اور سندھ حکومت پر اس بل کی تنسیخ کے لیے دباﺅ ڈالا۔ اس کے نتیجے میں مرحومہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بھی لڑکھڑا گئی اور اُنھوں نے بل کو تبدیل کرنے کا راستہ چنا خصوصاً مذہب تبدیل کرانے کا معاملہ کرنے کے لیے عمر کی کم سے کم حد اٹھارہ سال ۔
۶ فروری ۷۱۰۲ءکو پاکستان کی قومی اسمبلی نے کریمینل لا (ترمیمی) بل منظور کیا۔اس بل کے مطابق اگر کوئی بچی جیسا کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ میں وضاحت کی گئی ہے، یا کسی غیر مسلم خاتون کو شادی پر مجبور کیا جائے تو ایسا کرنے والا دس سال قید کی سزا کا مستوجب ہو گا۔ یہ سزا پانچ سال سے کم نہ ہو گی اور اسی طرح دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا، لیکن ان سب قوانین کے باوجودصورتِ حال میں ذرّہ برابر بہتری نہیں آئی اور جبراً مذہب کی تبدیلی بدستور جاری ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبائی اور قومی حکومتیں کسی نہ کسی طرح مذہبی جماعتوں کی مخالف ہیں۔ ان مذہبی جماعتوں کے لیے صرف ایک ہی قانون قابلِ قبول ہے اور وہ قرآنِ مجید ہے۔ قرآن ِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
”دینِ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے ، اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سب کچھ سنتا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔
(البقرہ 2:256)
اور سورہ¿ الزمر میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
”ہم نے تم پر یہ کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو جو شخص ہدایت پاتا ہے تو وہ اپنے بھلے کے لیے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور اے پیغمبر! تم ان کے ذمہ دار نہیں ہو۔ “(سورہ¿ الزمر39:41)
پاکستانی ہندو اور سکھ سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کسی اور چیز پر یقین رکھتے ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *