ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پاکستان میں چلنے والی ایک سو پچاسی یونی ورسٹیوں کو جعلی قرار دیا ہے۔ ۳۱۰۲ءمیں یہ تعداد چوبیس تھی۔ اس سے اس اہم شعبے میں ہماری ”ترقی“ کا اظہار ہوتا ہے۔
اگرچہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پاکستان کی مختلف یونی ورسٹیوں میں اکتیس پی ایچ۔ڈی اور چھبیس ایم۔فل پروگرام بند کر دیے ہیں ، پھر بھی یہ بہت مشکل ہے کہ یہ ادارہ پی ایچ۔ڈی کی تھوک کے بھاﺅ فروخت کی رفتار کو کم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
پاکستان میں جعلی ڈگری یا ڈگری کوٹمپرنگ کر نے کے دن گزر چکے۔ متعدد غیر معیاری نجی یونی ورسٹیوں اور چند سرکاری یونی ورسٹیوں کی وجہ سے ڈگریوں کی فروخت کو قانونی درجہ مل گیا ہے۔ یونی ورسٹیوں میں نگران حضرات بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور کسی اسکالر کی نگرانی اور راہ نمائی ثانوی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔
ایسے طالب علم بہت کم ہیں جو پی ایچ۔ڈی کو کل وقتی کام کے طور پر لیتے ہیں ۔ وہ اس بات پر راضی نہیں کہ اپنی ملازمتوں اور دیگر امور کو ترک کر کے صرف تحقیق پر توجہ مرکوز کریں۔ اس کے بجائے اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ نگران اُن کا کام کر دے ۔ میانمار کے وزیرِ خزانہ یا وِن نے ہمیں اُس وقت عالمی شہرت بخشی جب ۶۱۰۲ءمیں یہ انکشاف ہوا کہ موصوف کے پاس جعلی ڈگری ہے جو پاکستان سے جاری کی گئی ہے۔ اس فہرست میں وہ تنہا نہیں ہیں۔
یہاں تک کہ پاکستان کی اعلیٰ پائے کی یونی ورسٹی ، قائدِ اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے ڈیفنس اور سٹریٹجک سٹڈیز کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اسسٹنٹ پروفیسر ”ڈاکٹر“ محمد نصراللہ مرزا کے بارے میں پتا چلا کہ اُن کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بھاری وظیفہ ، ترقی اور دیگر اضافی مفادات سے بہرہ ور ہو رہے تھے۔ اسی طرح کامسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا پی ایچ۔ڈی کا مقالہ 72فی صد سرقے پر مشتمل نکلا۔
یونی ورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسرڈاکٹر غلام عباس کی ایم۔ایس سی کی ڈگری کو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان جعلی قرار دے چکا ہے۔موصوف آرکی ٹیکچر اینڈ پلاننگ کے شعبے کے ڈین کی حیثیت سے بھی کام کر رہے تھے۔ فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی چئیر پرسن شاہین خان کو بھی جعلی قرار دیا جا چکا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ خاتون ہائر ایجوکیشن کمیشن میں کام کر رہی تھیں اور بعد ازاں انھیں فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی چئیر پرسن تعینات کیا گیا۔
حال ہی میںپنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ¿ اطلاقی نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ”ڈاکٹر“ شازیہ خالد کے رفقائے کار نے اُس کے اور یونی ورسٹی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں شازیہ خالد نے اپنے نام کے ساتھ ”ڈاکٹر“ لکھنا بند کر دیا۔ موصوفہ کو ایک آن لائن فراڈ یونی ورسٹی ست پی ایچ۔ڈی کرنے کی غرض سے پچاس لاکھ روپے دیے گئے تھے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک عام طالبِ علم کوپاکستانی یونی ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کرنے کے لیے صرف فیس کی حد تک وظیفہ حاصل کر نے کے لیے لاکھ تگ و دو کرنی پڑتی ہے، شازیہ صاحبہ کو کمال مہربانی کرتے ہوئے ”معیاری تحقیق“ کے لیے اپنے ہی ایک رفیقِ کار کو نگران ِ تحقیق رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔
آپ کی تفریحِ طبع کے لیے یہ عرض کرتا چلوں کہ ”پروفیسر“ صاحبہ نے ”ٹیکسلا امریکن یونی ورسٹی“ سے پی ایچ۔ڈی مکمل کی۔ اس یو نی ورسٹی کا کرہ¿ ارض پر کہیں وجود ہی نہیں۔
ہائر ایجو کیشن کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق نشہید محترمہ بے نظیر یونی ورسٹی لاڑکانہ سے جاوید احمد پھلپوٹو، شفیع محمد، ذوالفقار علی بھٹی، ابرار شیخ اور کوڑو مل گوربخشانی ؛سندھ زرعی یونی ورسٹی ٹنڈو جام سے میر سجاد حسین تالپور، حنا شفیع چانڈیو ، شیر محمد چانڈیو اور حرا سجاد تالپور ؛ پریسٹن یونی ورسٹی اسلام آباد سے محمد رشید اور عظمیٰ الٰہی ؛پیپلز یونی ورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسزفار ویمن بے نظیر آباد (نواب شاہ) سے حبیب اللہ شیخ، یاسمین شیخ، غلام سرور شیخ اور رسول بخش شیخ ؛شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کراچی کی فیکلٹی آف کمپیوٹر سائنس اینڈ سوفٹ وئر انجنئیرنگ سے محمد ندیم؛ یونی ورسٹی آف سندھ جام شورو کے ڈیپارٹمنٹ آف فریش واٹر بیالوجی اور فشریز سے جی؛اے سہیتو؛ بہاءالدین زکریا یونی ورسٹی ملتان سے جہاں زیب حیدر اور اکبر علی؛ کیپیٹل یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آبادسے حامد وقاص ، ناصر حسین اور عمیر انیس اُن پروفیسروں، اسسٹنٹ پروفیسروں اور اساتذہ میں شامل ہیں جنھیں اس وجہ سے بلیک لسٹ کیا گیا ہے کہ اُنھوں نے کسی اور کے تحقیقی کام کو نقل کر کے اپنے نام سے منسوب کر لیا تھا۔
اس سے پیشتر جعلی ڈگری کا ایک سکینڈل اُس وقت منظرِ عام پر آیا تھا جب یہ معلوم ہوا کہ آزاد جموں و کشمیر کی ایک یونی ورسٹی نے سیاسی ضروریات کی خاطر سیاست دانوں کو مختلف جعلی ڈگریاں جاری کی ہیں۔ بالکل حال ہی میںہائر ایجوکیشن کمیشن نے فیڈرل اُردُو یونی ورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آبادکے وائس چانسلر ”ڈاکٹر“ سلیمان ڈی ۔ محمد کے ری سرچ پیپرز اور پی ایچ۔ڈی کے مقالے میں سرقے کا سراغ لگایالیکن اس کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن میں سب اچھا نہیں ہے۔بلیک لسٹ کیے گئے مذکورہ بالا اساتذہ میں سے چارحضرات ستمبر ۶۱۰۲ءتک پی ایچ۔ڈی کے منظور شدہ نگرانوں کے پینل میں موجود تھے۔
اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بابر اعوان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے روبروایک سوال کے جواب میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان دیا تھا کہ وہ پی ایچ۔ڈی ڈاکٹر نہیں ہیں اور نہ ہی اُنھوں نے دُنیا کی کسی یونی ورسٹی سے ایسی تعلیم حاصل کی ہے تاہم وہ ابھی تک اپنے نام کے ساتھ ”ڈاکٹر“ کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے دیگر بیانات میں وہ اس بات کا دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اُن کے پاس سعودی عریبیہ یونی ورسٹیاور مانٹی سیلو یونی ورسٹی آف یونائیٹڈ اسٹیٹس سے حاصل کی گئی پی ایچ۔ڈی کی دو ڈگریاں ہیں۔اُن کا موجودہ ٹوٹر کا اکاﺅنٹ handle@DrBabarAwan ہماری سیاست میں اخلاقیات پر ایک سوالیہ نشان ہے، شاید سیاست میں اخلاقیات کا اب کوئی وجود نہیں ۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں باقاعدہ پارٹی ترجمان ”ڈاکٹر“ فرید اے ملک کے پاس بھی پی ایچ۔ڈی کی جعلی ڈگری ہے۔ اگرچہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُنھوں نے ۸۸۹۱ءمیں یونین انسٹی ٹیوٹ سن سناٹی ، اوہائیو ، ریاست ہائے متحدہ امریکا سے میٹریل انجنئیرنگ میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی، لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ یہ ”ادارہ“ انجنئیرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بالکل نہیں کراتا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی سینتیس ارکانِ پارلیمان کی ڈگریوں کو جعلی قرار دے چکا ہے۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران میں ہم نے ۶۳۵۵افراد کو پی ایچ۔ڈی کی ڈگری دی ہے۔ ایک لاکھ اسی ہزار طالب علم اس وقت ایم۔ایس ´پی ایچ۔ڈی کے طالب علم ہیں۔ ڈگری یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن بین الاقوامی تحقیق میں ہمارا نام و نشان سرے سے غائب ہے۔ ہم نے کسی شعبے بشمول میڈیکل سائنسز، میڈیسن، معاشیات یا تعلیمی جائزے کے پروگراموں میں کوئی نئی چیز ایجاد و اختراع نہیں کی۔ اچھی شہرت کی حامل بین الاقوامی یونی ورسٹیوں میں ملازمت کرنے والے پاکستانی پی ایچ۔ڈی ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے اور ہماری تحقیق میں انفرادیت کا باب بھی سیاہ ہے۔
یونی ورسٹیاں خود مختار ادارے ہیں اور وہ کوشش کرتی ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے دیے گئے کم سے کم معیارات پر پورا اُتر سکیں تاکہ اُن کے ادارے اور ڈگریاں کمیشن کی طرف سے منظور قرار پائیں۔ پاکستان میں ۹۷۱ چارٹرڈ یونی ورسٹیوں میں سے ایسی یونی ورسٹیوں کی تعداد قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہے جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کین سفارشات اور تحفظات پر توجہ سے کان دھرتی ہیں، ورنہ ان اداروں کو باقاعدہ کرنا بھینسے کا دودھ دوہنے سے کم نہیں ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونی ورسٹیوں کی نالائقی کی وجہ سے، کہ وہ ان خرابیوں کے آگے بند نہیں باندھ سکے، اعلیٰ سطح کے طلبہ نے سرقہ کا سراغ لگانے والے سوفٹ وئر کو دھوکا دینے کے وہ گُر سیکھ لیے ہیں ۔ یہ سوفٹ وئر نقل کرو اور چسپاں کرو (کاپی اینڈ پیسٹ) کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ بنے بنائے مقالوں اور ری سرچ پیپرز کا کاروبار اپنے عروج پر ہے اور کوئی بھی شخص اپنے مطلوبہ عنوان پر مقالہ یا ری سرچ پیپر بآسانی خرید سکتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ذہین افراد نے اس کو کمائی کا اہم ذریعہ جان لیا ہے۔ ایسے افراد اتنی مہارت سے گھر بیٹھے جعلی اعدادو شمار سے ری سرچ پیپرز اور مقالے تحریر کرتے ہیں کہ اُن کا یہ کام تمام پروفیسر صاحب کے دفتر اور یونی ورسٹی کی طے شدہ تمام رکاوٹوں کو پار کر لیتا ہے۔
وہ زمانہ گزر گیا جب لوگ جعلی ڈگری لے لیتے تھے یا ٹمپرنگ کر لیتے تھے۔ متعدد غیر معیاری نجی یونی ورسٹیوں اور چند ایک سرکاری یونی ورسٹیوں کی وجہ سے ڈگریوں کی فروخت کو قانونی درجہ دے دیا گیا ہے۔ مختلف شہروں حتیٰ کہ دیہات میں متعدد غیر قانونی سب کیمپس ہیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ یونی ورسٹیوں کی طرف سے طلبہ کوکلاسز لیے بغیر مطلوبہ ”فیس“ جمع کرانے کی صورت میں ان کی مطلوبہ ڈگریوں کی پیش کش کرتے ہیں۔ میزبان ادارہ طلبہ سے فیس کے معاملے میں سودا کرتا ہے۔
کیا آپ کو بی۔ ایس سی فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، ایل ایل بی، ایم۔ایس سی فزیکل ایجوکیشن ، بی۔ایڈ، ایم۔ایڈ ، ماسٹرز اور ایم فل کی ڈگری درکار ہے؟ پاکستان میں ایسا ممکن ہے کہ آپ تمام تدریسی دورانیے کے دوران میں ایک بار بھی یونی ورسٹی کیمپس میں نہ جائیں اور ان میں سے کوئی سی بھی ڈگری لے لیں۔ بحیثیتِ مجموعی اب پاکستان میں ڈگریاں فیس کی ادائی کی رسیدیں ہیں اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
مزید رقم بچانے کے لیے یہ یونی ورسٹیاں نا اہل ”محققین“ کو تحقیق کے نگران مقرر کرتی ہیں۔ پاکستان میںحقیقی اور تجربہ کار پروفیسر یونی ورسٹیوں میں معیاری تحقیق کرا رہے ہیں۔ ان سے ہٹ کر پرانے مگر بے فائدہ پروفیسروں کی کثرت ہے جو کسی نہ کسی طرح ایسے وقت میں اس شعبے میں داخل ہو گئے جب کافی مواقع موجود تھے۔ سوائے اس کے کہ اُنھوں نے بھلے وقتوں میں بیرونِ ملک سے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی، اُنھوں نے پوری پیشہ ورانہ زندگی گزاردی ہے اور کوئی ڈھنگ کا تحقیقی کام نہیں کیا۔ یوں اب وہ جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ یہی ہے کہ اپنے طلبہ کو جعلی تحقیق کا فن سکھا سکیں۔ اگر آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہو تو وہ آپ کے نمبر ضبط کر لیں گے۔ پھر آپ کچھ سیکھ نہیں سکتے۔ ایسے طالب علم کوجو سنجیدگی سے کچھ سیکھنے کا شوق رکھتا ہو، اپنے مفاد کی خاطر اس شیطانی دائرے کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔
ہماری یونی ورسٹیوں میںتحقیق کے نگران کام کے بوجھ تلے بھی دبے ہوئے ہیں۔ یونی ورسٹیاں اُنھیں صرف نگران کے طور پر رکھنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ دراصل ہماری یونی ورسٹیوں میں کسی ری سرچ اسکالر کے کام کی نگرانی کو ثانوی ذمہ داری تصور کیا جاتا ہے۔تحقیقی مقالوںکی نگرانی کے علاوہ انھیں متعدد کلاسیں لینی پڑتی ہیں، جوابی امتحانی پرچے جانچنے پڑتے ہیں ، نتائج جمع کرانا پڑتے ہیں، میٹنگوں میں شرکت کرنی پڑتی ہے اور یونی ورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تفویض کردہ خصوصی امور انجام دینا پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعدایک نگران کے پاس وقت نہیں بچتاکہ وہ اپنے نگرانی میں کام کرنے والے ری سرچ سکالروں سے مل سکے، اُن کے کیے گئے کام میں گہری دل چسپی لے سکے ، کام کو جانچ سکے، غلطیوں کی نشان دہی اور تصحیح کر سکے۔ اس وجہ سے ری سرچ سکالر انتظامی بلاک کی راہ داریوں میں چکر لگاتے اور کسی اور چیز پر کام کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ایسا کام جو اُن کی ملازمت بچانے کے لیے اہم تر ہو۔
ان اسباب کی بنا پر ری سرچ سکالر اپنی تحقیق کو جعلی بنانے کو زیادہ موزوں سمجھتا ہے۔ چوں کہ معیاری تحقیق وقت طلب ہے اور اس طرح کی سرگرمیوں میں مشغولیت کے بعد وقت نہیں بچتا ، یوں معیاری تحقیقی کام نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ری سرچ سکالربغیر نگرانِ تحقیق کی مرضی کے اکیلا جعلی کام کرے تو اُسے اس کے نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ مقالے کی تکمیل کے بعد ، اسے جمع کرانے کے مرحلے پر یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی تحقیق کا عنوان غیر متعلقہ ہے اور عنوان تبدیل کرنے یا کی فوری ضرورت ہے ۔ لیکن تمام یہاں نہیں پہنچ پاتے۔ اکثریت تحقیقی مقالے کی نسبت تحقیقی خاکہ بنا نا مشکل سمجھتے ہیں۔
ہمارے نظام میں جب ایک پی ایچ۔ڈی سکالر جامع امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے یا کورس ورک مکمل کر لیتا ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی دل چسپی اور پسند کے تین عنوانات (جن پر وہ پی ایچ۔ڈی کرنا چاہتا ہے)پر مشتمل فہرست جمع کرائے۔
جب یہ فہرست جمع کرا دی جاتی ہے تو پہلے سے بوجھ تلے دبے پروفیسروں کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ ان عنوانات کو دیکھ سکیں اور گہری دل چسپی لے کر یہ جانچ سکیں کہ آیا وہ پی ایچ۔ڈی کے معیار پر پورا بھی اُترتے ہیں ۔ بغیر کسی غورو خوض کے ، پسند کے عنوان پر کام کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے، نگران کا تقرر عمل میں آتا ہے اور جامع مواد کے جائزے کے بعد جب ری سرچ سکالر تحقیقی خاکہ مکمل کر لیتا ہے تو طالب علم کوانھی اساتذہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق کا عنوان بہت معمولی ہے اور پی ایچ۔ڈی کے لیے قابلِ قبول نہیں یا اس عنوان پر اس سے پیشتر کافی تحقیق کی جا چکی ہے اور اس پر نظر ثانی کی جانی چاہیے اور مزید کارروائی کے لیے تحقیقی خاکہ نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔
ہمارے طلبہ فرشتے بھی نہیں ہیں۔ اُن پر بھی کام کا ضرورت سے زیادہ بوجھ ہے۔ ایسے طلبہ کی تعداد بہت کم ہے جوکل وقتی طور پر پی ایچ۔ڈی کر رہے ہیں۔ طلبہ اس کو جز وقتی کام کے طور پر لیتے ہیں۔ وہ اپنے کام یا ملازمت چھوڑکر تحقیق پر توجہ مرکوز کرنے پر راضی نہیں ۔ اس کے بجائے اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ نگران ہی اُن کاکام کر دے۔اگر ایسا نہ ہو تو مقررہ وقت گزر جانے کا سارا الزام نگران کے سر تھوپا جاتا ہے ؛ حالاں کہ نگران کا کام مشکل کے وقت راہ نمائی فراہم کرنا ہوتا ہے۔