”قربانی“ ایک ایسا مذہبی فریضہ ہے جس میں انسان کسی ”جاندار یا چیز“ کو قدرت کے حوالے کرتا ہے تاکہ اس کا قدرت کے ساتھ اس کا تعلق قائم ، مضبوط اور توانا رہ سکے۔

یہ پیچیدہ عمل عبادت کی قدیم ترین تاریخ میں موجود ہے۔ یہ مضمون قربانی کی اقسام، روایات، اجزا، وقت ، جگہ اور مقاصد کا تاریخی احاطہ کرتا ہے۔ اس مضمون کا ایک مقصد عید قربان کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس بات کو ثابت کرنا بھی ہے کہ قربانی دراصل دنیا بھر کے مذاہب کا ہمیشہ سے ایک جزو لاینفیک رہی ہے۔قربانی ”Sacrifice“ یونانی زبان کے لفظ “Sacrificium” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کسی قیمتی چیز کو زیادہ قیمتی چیز کے بدلے میں قربان کرنا۔ مثال کے طور پر والدین کا اولاد کے لیے قربانی دینا۔ کسی شخص کا اپنے ملک کے لیے جان قربان کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس عمل اور لفظ کا سب سے پہلا استعمال کلی طور پر مذہبی تھا۔ لہذا فلسفہ قربانی کو سمجھنے کے لیے ہمیں مذہب کا سہارا لینا ہو گا۔
ہر قسم کی قربانی میں جو چیز ایک یا دوسری صورت میں قربان کی جاتی ہے وہ خود زندگی ہے۔ قربانی اس طرح سے زندگی کی ایک ایسی خوشی ہے جو زندگی کے کبھی ختم نہ ہونے کا اعلان ہے۔ گویا روح کو جسم سے رضا کارانہ طور پر قدرت کی رضا کے لیے آزاد کر دینے سے قربانی دینے اور لینے والے میںمحبت و انسیت کا لازوال رشتہ وجود میں آتا ہے۔ قربانی سے زندگی کو زندگی دینے والے کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔ گویا زندگی کو زندگی سے زندگی عطا کی جاتی ہے۔ اس میں فائدہ ہمیشہ قربانی دینے والے کا ہوتا ہے کیونکہ قربانی لینے والا زندگی دینے والا ہوتا ہے ۔ رد عمل کے طور پر قدرت قربانی دینے والے کو ہمیشگی کی ایسی زندگی عطا کرتی ہے جو نوازشات و انعامات سے بھرپور ہوتی ہے اور اس کی دنیا و آخرت کو جنت بنا دیتی ہے۔
قربانی کا عمل چاہے جس بھی طریقہ سے انجام دیا جائے یہ عمل بذات خود قربانی نہیں۔کسی جانور یا انسان کا خون بہا دینا قربانی نہیں۔ قربانی تو در اصل ان جذبات اور خلوص میں پوشیدہ ہے جو قربانی دینے والا اس عمل کے ذریعے خالق کو پیش کرتا ہے۔ انہی جذبات کی اصلیت اور پاکیزگی قربانی کے اصل انعام اور نتائج کا فیصلہ بھی کرتی ہے۔ انسانوں کے درمیان جب قربانی دی جائے جیسے والدین کی اولاد کے لیے تو اس کا صلہ اولاد کی فرمانبرداری و خدمت کی صورت میں توقع کیا جاتا ہے۔ مگر جب یہ قربانی خود خالق کے لیے دی جائے تو صلہ کی توقع اور لالچ کے بغیر دی جاتی ہے اس ایقان کے ساتھ کہ جس کے لیے قربانی دی جا رہی ہے وہ صلہ کس انداز میں ، کب، کس وقت اور کیا دے گا انسانی فہم و شعور سے ماورا ہے۔ صلہ ملے گا یہ یقین بھی موجود رہتا ہے اور ساتھ یہ دھڑکا بھی کہ اگر صلے کا لالچ دل میں آیا تو قربانی رد کر دی جائے گی۔ والدین نافرمان اولاد کو اپنی قربانیاں یاد دلا کر ان سے صلہ کی تمنا کرتے ہیں۔ مخلوق خالق کو قربانی یاد دلانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی کیونکہ خالق کی عظمت کے سامنے قربانی کی حقیقت کچھ نہیں اگر یہ کسی لالچ ، دکھاوے یا فائدے کے لیے دی گئی ہے۔ اس کا واحد مقصد خالق کی خوشنودی ہے۔ اور خوشنودی کی شرط قربانی کے جذبے کا خالص پن ہے۔
1871میں برطانوی اینتھروپالوجسٹ ”ایڈورڈبرنٹ ٹیلر“ نے دنیا کے مذاہب کے تقابلی جائزے کے بعد لکھا کہ ابتدا میں انسان خدا کو نہیں جانتا تھا لہذا اس نے قربانی کے عمل آفات و بلیات سے نجات پانے اور قدرت کے غضب سے چھٹکارا پانے کے لیے کیا۔ لیکن جیسے جیسے انسان خدا کو پہچانتا گیا اس عمل سے ”کے لیے“ کالفظ ختم ہوتا گیا۔ یہیں سے قربانی میں خلوص وارد ہوا۔ انسان یہ سمجھا کہ قربانی جو خالق سے کوئی فائدہ یا صلہ حاصل کرنے کے لیے دی جائے بے معنی اور حقیر ہے۔ اسی سوچ نے مذہب اور انسان کا تعلق استوار کیا۔ اسے عشق حقیقی اور محبت ازلی کی منزل کا پتہ چلا۔ لیکن اسی محبت میں یہ انسان بہک گیا اور اس نے قربانی کے لیے پیش کیے جانے والے جانوروں کو خدا کا پرتو جانتے ہوئے ان کی پوجا شروع کر دی۔ تبھی عذاب الہٰی نازل ہوا جس نے قوموں کی قومیں اور بستیوں کی بستیاں الٹ دیں۔ قدرت انسان کی اس جہالت و جسارت پر غضبناک ہو گئی اور انسانیت نیست و نابود ہوتی چلی گئی۔
جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے انسان نے پھر جانوروں کو چھوڑ کر پتھروں سے بنائے ہوئے مجسموں کو خدا قرار دے ڈالا۔ ان بتوں اور مورتوں کے سامنے اس نے انہی جانوروں کو قربان کرنا شروع کیا جن کی وہ کبھی پوجا کیا کرتا تھا ۔ قدرت جو ہمیشہ مخفی رہی ہے اور اپنی نشانیوں سے جلوہ افروز ہوتی رہی ہے کو مجسم نہ پا کر اس نے اپنے محدود تخیل سے قدرت کو تخلیق کر ڈالا۔ کبھی پتھروں میں ، کبھی چاند، سورج اور ستاروں میں۔ کبھی آگ اور پانی اور کبھی پہاڑ۔ وہ ان سب کی پوجا کرتا رہا۔ ان کے سامنے اپنے پرانے پسندیدہ ترین ”خدا“ قربان کرتا رہا۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ قدرت اس سے راضی ہو جائے مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ قدرت کا جو تصور اس نے تراشا ہے وہ اتنا حقیر ہے کہ سوائے غضب کے اسے کچھ نہیں ملے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ انسان گمراہی اور جہالت کی اتھاہ گہرایوں میں گرتا چلا گیا۔ اس کا ہر عمل قدرت کی ناپسندیدگی کا باعث بنتا رہا۔ اس کی عبادت اور پرستش فرشتوں کے لیے حیرانی و پشیمانی کا باعث رہی۔ خود قدرت جس نے فرشتوں کے سامنے اس کی ذہانت و علم کا چرچا کیا تھا جلال سے یہ سب دیکھتا رہا۔ قریب تھا کہ قدرت انسان کا سفر دنیا ختم کر دیتی کہ اس نے انسان کا آخری امتحان اور آگہی و نفس کشی کا کمال منظر دیکھنے کا تہیا کیا۔ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے ذریعے ۔ فرشتوں کو انسان کا ایک ایسا روپ دکھا دیا کہ وہ خود بخود ایک بار پھر روح آدم کے سامنے سر بسجود ہو گئے۔
اسلامی روایات کے مطابق آج سے تقریباً 4ہزار سال قبل وادیِ مکہ ایک خشک، پتھریلی اور بے آب و گیاہ جگہ تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی حاجرہ ؑ اور اکلوتے بیٹے اسماعیل ؑ کو کنعان سے مکہ میں لا کر چھوڑ دیں۔ اسماعیل ؑ کو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بڑھاپے میں رقت آمیز دعاﺅں اور گریہ زاری کے بعد حاصل کیا تھا۔ پروردگار کے حکم کو بجا لاتے ہوئے ابراہیم ؑ نے ایسا ہی کیا۔ اور جب وہ اپنے اکلوتے بیٹے اور بیوی کو چھوڑ کر کنعان واپس جانے لگے تو حاجرہ ؑ نے پوچھا ”کیا آپ کو ایسا کرنے کا حکم خدا نے دیا ہے یا آ پ ہمیں مرنے کے لیے چھوڑے جا رہے ہیں؟“ ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس خیال سے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا کہ کہیں اولاد اور خاندان کی محبت غالب نہ آجائے اور واپس آگئے۔ جاتے وقت وہ کافی مقدار میں خوراک اور پانی حاجرہؑ اور اسماعیل ؑ کے پاس چھوڑ گئے لیکن چند ہی دنوں میں یہ سٹاک ختم ہو گیا کبھی کبھار گزرنے والے قافلوں سے تھواڑا بہت پانی اور خوارک لے کر گزارہ چل رہا تھا لیکن ایک بار کافی دنوں تک کوئی قافلہ نہ گزرا۔ اور دونوں شدید بھوک اورپیاس سے بلبلانے لگے۔
اپنے اکلوتے بیٹے کو مرتا دیکھ کرپانی کی تلاش میں حاجرہ ؑ نے قریبی پہاڑیوں ”صفا“ اور ”مروہ“ میں دوڑتے ہوئے سات چکر لگائے۔جب وہ تھک کر چور ہو گئیں تو اپنے جاں بلب بیٹے کے سرھانے بیٹھ کر اﷲ پاک سے مدد کی درخواست کی۔ معجزانہ طور پر اسماعیل کے پیروں کے قریب ایک چشمہ (زم زم )نمودا ر ہو گیا ۔ اسسے نہ صرف دونوں کی پیاس بجھی بلکہ وہ بے آب جگہ سے گزرنے والے
قافلوں سے پانی کے بدلے خوارک حاصل کرنے لگے۔ کئی سال بعد ابراہیم ؑ کو حکم دیا گیا کہ وہ دوبارہ مکہ جا کر حاجرہ کے کنویں کے پاس اﷲ کے گھر (خانہ کعبہ) کی تعمیر کریں۔ اس کے بعد ایک دن اﷲ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل ؑ کو اﷲ کی راہ میں قربان کر دیں۔ اﷲ کے اس حکم کی بجا آوری کی تیاری کے دوران شیطان نے کئی بار ابراہیم ؑ و اسماعیل کو ورغلانے کی کوشش کی جس پر حضرت ابراہیم ؑ نے کنکریاں مار کر شیطان کو اپنے سے دور بھگایا۔
گو کہ ابراہیم ؑ اﷲ کے حکم کی بجا آوری کے لیے تیار تھے لیکن وہ اسماعیل ؑ کی منشا کے بغیر انہیں قربان نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذاجب حضرت ابراہیم نے اسماعیلؑ کو یہ بتایا کہ اﷲ پاک ان کی قربانی چاہتا ہے تو انہوں نے فوراً جواب دیا کہ ابا جان آپ اﷲ کے حکم کے عین مطابق مجھے اﷲ کی راہ میں قربان کر دیں۔ انہوں نے اپنے والد کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے کا بھی مشورہ دیا ۔ مبادا ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری اﷲ کی رضا پر غالب آجائے۔ جب ابراہیم ؑ نے اسماعیل کی گردن پر چھری چلائی تو عین اس وقت اﷲ پاک نے جبرائیل ؑکے ذریعے اسماعیل ؑ کی جگہ پر ایک دنبہ لیٹا دیا۔ اس دنبے کی قربانی دراصل عیدالاضحی کا نقطہ آغاز ہے۔ عیدالاضحی عام لوگوں کی نظر میں محض سنت ابراہیمیؑ کی یادگار کے طور پر جانی جاتی ہے۔ لیکن دراصل یہ ابراہیم ؑکے اسوہ حسنہ کی تائید و تجدید ہے۔ خداوند ذوالجلال کو اسلام کی جس حقیقت سے دنیا کو روشناس کروانا مقصود تھا وہ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی ہی ہو سکتی تھی۔ کیونکہ وہ اسلام کے پہلے داعی تھے اور ان کا ہر عمل حقیقی اسلام کا عملی نمونہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ پاک نے ان کی زندگی کے تمام اعمال ابد الآباد تک صفحہ گیتی میں محفوظ کر دیے۔
عید الاضحی عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی میں عید کا مطلب خوشی یا تہوار اور الاضحی کا مطلب قربانی ہے۔ اسے عید کبیر یا ”بڑی عید “ بھی کہا جاتا ہے۔ ذی الحج کی نویں تاریخ سے ہی دنیا کے سامنے اسوہ ابراہیمی کی لازوال پیروی کا بے مثال منظر ہوتا ہے۔ تاریخ ہزاروں برس کا سفرطے کرنے کے بعد اپنے آپ کو دہراتی ہے تاکہ روحِ ابراہیمی پھونک کر مسلمانوں کے تنوں میں ایک بار پھر وفااور تسلیم و رضا کی ایک نئی جان ڈال دے۔ ہر جانب لبیک اللہم لبیک کی صدائیں دراصل اسی لبیک کا تسلسل ہوتی ہیں جو اپنے مالک حقیقی کی صدائے ”یا عبدی “کے جواب میں ابراہیمی لبیک میں پوشیدہ تھیں۔ دور جدیدمیں چند حلقوں کی جانب سے قربانی کو پیسے کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ دراصل قربانی کے فلسفے سے نابلد لوگ ہی ایسی دلیلیں تراشتے ہیں۔
اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر کل کو حج بھی اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ اس پر بہت پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ قربانی کا ایک تہائی گوشت غربا و مساکین میں تقسیم کرنے کا حکم دراصل ان لوگوں کو اپنے رزق میں شامل کرنے کا ایکذریعہہے جو خود گوشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ حج اور قربانی کا حکم صرف انہی مسلمانوں کو دیا گیا ہے جو مالی طور پر مستحکم اور اس کی سکت رکھتے ہیں۔ آئے روز زرعی اجناس کی قلت دیکھنے کے باوجوداورہزاروں سال سے جانوروں کی قربانی کا عمل دہرائے جانے کے باوجود دنیا میں کبھی جانوروں اور گوشت کی قلت پیدا نہیں ہوئی۔ ایک اعتراض جانوروں کی قربانی کے اسلامی طریقے پر بھی کیا جاتا ہے۔ سائنسی حوالوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اسلامی طریقہ قربانی دراصل سب سے کم تکلیف دہ طریقہ ہے۔ اس طریقے میں جانور کے جسم سے تمام خون بہہ جاتا ہے کیونکہ شہہ رگ کٹنے کے باوجود جانور کا دل کام کرتا رہتا ہے اور وہ تمام خون کٹے ہوئے حصے سے اس کے جسم کے باہر دھکیل دیتا ہے۔ اس طرح سے خون کی آلودگی اور جراثیم انسانی جسم میں نہیں جاتے او رگوشت ہر قسم کی آلائش سے پاک ہو جاتا ہے۔ جانور کا تڑپنا جسم سے نکلتے ہوئے خون کے باعث خون کی کمی سے ہوتا ہے نہ کہ تکلیف سے۔
بوقت قربانی حضرت خلیل ؑ تنہا نہیں تھے بلکہ اپنے وجود کے اندر پوری امت رکھتے تھے۔ ان کی ہر بات اسلام تھی اور معرفت اسلامی میں ان کا وجود اس طرح سے فنا ہو چکا تھا کہ ان کی ہستی باقی نہیں بچی تھی۔ وجود کے فنا فی اﷲ ہو جانے کا یہی احساس ہے جسے آدمؑ کی روح میں پھونکا گیا۔ یہی انسان کی فطرت اصلی ہے جسے قرآن کریم نے ”قلب سلیم “ کے نام سے پکارا ہے۔ اس قلب سلیم میں جو کچھ ہے وہ اسلام ہے۔ اسی قلب سلیم نے آزمائش کے وقت ابراہیم ؑ کے ہاتھ میں چھری دی تا کہ وہ اس سے محبت ماسوی اﷲ کو ذبح کر دیں۔ اسی حقیقت نے اسماعیل ؑ کی گردن جھکا دی تاکہ وہ جسم و جان سے محبت کو راہ خدا میں قربان کر دیں۔ بیٹے کو طاقت سے زمین پر لٹانے اور اسماعیل ؑ کے تڑپ کر چھری کو اپنی گردن سے قریب کر لینے میں عشق الہٰی کا غلبہ کار فرما تھا۔ محبوب حقیقی کے کاروبار محبت کی بوقلمونی کا مشاہدہ کریں تو جان جائیں گے کہحریم محبت کی ساری آرائش دوستوں کے خون کے چھینٹوں اور مضطرب لاشوں پرہی قائم ہے۔ اسمعیلؑ سے حسین ؓ تک تاریخ اسلام ایسی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جان دینا کمال نہیں بلکہ جان دینے کو روز عیش و نشاط سمجھنا قربانی کی اصل روح ہے۔ اسی جذبے سے اسلاف نے اپنی گردنیں اﷲ کی راہ میں کٹوائیں اور یہی وہ جذبہ ہے جو ایک مجاہد کے لیے شہادت کو سب سے بڑا اعزاز و آرزو بنا دیتا ہے۔
فلسفہ عیدالاضحی کو سمجھنے کے لیےقرآن کریم کی ایک آئت کا مفہوم ملاحظہ ہو۔اﷲتک تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا کہ تم اپنی تمام توجہ قربانی کے ظاہر پر مرکوز کر لو۔بلکہ اصل شے تمہارے دلوں میں اﷲ کا ڈر، اس کی ناراضی کا خوف اور اس کی حیثیت ہے۔ یہی چیز اﷲ کو پہنچے گی۔ جانور کی قربانی اس بات کے تہیے کا اظہار ہے کہ جس طرح میں یہ جانور اﷲ کی راہ میں ذبح کر رہا ہوں اسی طرح میں اﷲ کے ہر فیصلے کے سامنے اپنے نفس، اپنی خواہشات اور اپنی انا کو بھی قربان کروں گا ۔ ضرورت پڑی تو اپنی جان بھی سنت اسماعیل ؑ کی پیروی میں راہ خدا میں نچھاور کروں گا ۔ یہی قربانی کی اصل روح ہے اور یہی وہ تربیت ہے جو عیدالاضحی کے ذریعے ہر سال مسلمانوں کو دینا مقصود ہے۔ وہ لوگ جو قربانی کے ظاہری منظر پر نظر رکھتے ہیں کبھی قربانی کے فلسفہ اصل سے آشنا نہیں ہو سکتے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے سینے بند کر دیے گئے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ نہیں سکتے۔ اگر قربانی سے اس کی روح کو ختم کر دیا جائے اور یہ محض ایک تہوارکی صورت اختیار کر جائے تو یقینا اس قسم کے اعتراضات کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔
نہ صرف اسلام بلکہ دوسرے مذاہب میں بھی جانوروں کی قربانی کا تصور ملتا ہے۔ دنیا پر موجود مذاہب میں سے یہودیت دنیا کا سب سے پرانا مذہب ہے۔یہودی مذہب میں قربانی کو ”قوربانوت“ کہا جاتا ہے جس میں کسی مرغی یا بکری کو یہودی عبادت گاہ کے سامنے انسانوں کے گناہوں کے کفارے کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے۔ اور یہ اس بات کا مکمل علم رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے کہ جس انسان نے گناہ کیا ہے دراصل ذبح اسے ہونا ہے مگر اس کے کفارے کے طور پر جانور کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ قدیم عیسائیت میں بھی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس مذہب میں حضرت عیسیٰ کو محاورتاً ”Lamb of God©©“ کہا جاتا ہے۔ گویا حضرت عیسیٰنے صلیب پر انسانوں کے گناہوں کے کفارے کے طور پر چڑھنا قبول کیا۔ ہندوازم میں یہ تصور بھیانک ترین ہے جس میں ”بلی“ کے طور پر ”درگا اور کالی دیوی“ کے چرنوں میں معصوم عورتوں کو ذبح کیا جاتا ہے تاکہ ان کی خونی پیاس بھجائی جا سکے اور انسانوں کو آفات سے بچایا جائے ۔ اسلام میں قربانی کا عمل سب سے حسین ہے۔ قدیم عیسائی کتابوں ”Old Testament“میں قربانی کے طریقہ کار پر کافی تفصیل موجود ہے۔ یہودیت کی قدیم کتاب ”جینیسز8:21“میں درج ہے کہ جب نوح خشک جگہ پر پہنچے تو انہوں سے سب سے پہلا کام خدا کی کچھ مخلوق کو اس کی راہ میں قربان کرنے کا کیا۔ جس سے خدا بہت خوش ہوا۔ مسلمانوں کی طرح یہودی مذہب میں بھی جانور کو اس طریقے سے ذبح کرنا شرط ہے کہ اس کا تمام خون نکل جائے۔ قدرتی طریقے سے مرنے والے جانور کا گوشت یہودی مذہب میںبھی حرام ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں ”حلال “ گوشت کو یہودی بڑے شوق سے کھاتے ہیں کیونکہ یہ ان کی مذہبی روایات کے بھی عین مطابق ہے۔
عشق حقیقی کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ مکان محبت میں کوئی دوسرا مکین ہو ۔ سلطان محبت کی عدالت میں دل کی تقسیم ناقابل معافی جرم ہے۔ پھر جب معشوق بے مثال ہو تو ماسوا کی طرف نگاہ
کیوں؟ اسلام لفظ سلیم سے نکلا ہے۔ جس کے معنی کسی چیز کے سونپ دینے اور اطاعت میں اپنی گردن جھکا دینے کے ہیں۔ اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنے پاس جو کچھ رکھتا ہے خدا کے حوالے کر دے۔ اس کی تمام قوتیں ، اس کی تمام خواہشیں ایک لینے والے کے سپرد ہو جائیں۔ وہ اپنے تمام قوائے جسمانی و دماغی کے ساتھ اﷲ کے سامنے جھک جائے۔ یہی وہ پیغام ہے جو اسلام اپنے پیروکاروں کو دیتا ہے۔ عید قربان اس پیغام پر عمل کی ایک جھلک ہے۔ یہ وہ قربانی ہے جس کی ابتدا حضرت ابراہیم ؑ نے کی اور جس کی انتہا حضرت امام حسین ؑ نے کربلا میں کی۔ عید قرباں یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم ہر شے کو خدا کی آنکھ سے دیکھیں۔ ہمارا کوئی وجود اور کوئی صدا اپنی نہ ہو۔
سائیڈ سٹوریز
سائیڈ سٹوری 1۔ دنیا میں ہر سال 56ارب پالتو جانوروں کو خوراک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر سیکنڈ میں قریباً 3000جانور انسان کی خواراک بنتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں مچھلیاں اور خوراک کے لیے استعمال ہونے والے دوسرے سمندری جاندار شامل نہیں۔
سائیڈ سٹوری 2۔ دنیا میں بکریوں کی 210اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت 450ملین بکریاں موجود ہیں اور ان کی تعداد 2.1فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔
سائیڈ سٹوری 3۔ دنیا میںاس وقت 1.5ارب گائے موجود ہیں۔اقوام متحدہ کے خوراک و کاشتکاری کے عالمی ادارے کی 2006کی رپورٹ کے مطابق ان کے جسم سے خارج ہونے والی میتھین گیس کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ وہ دنیا بھر کی ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر (18%)ہے۔ جس سے ماحول میں گلوبل وارمنگ اور گرین ہاﺅس ایفیکٹ جیسے خطرات سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قربانی کا عمل ماحول کو کن نظر نہ آنے والے نقصانات سے بچاتا ہے ۔ میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں سورج کی گرمی کو 21فیصد زیادہ محفوظ کرتی ہے اور سورج کی شعاﺅں کو زمین سے واپس نہیں جانے دیتی۔ جس کے نتیجے میں زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھتا، گلیشئیرپگھلتے اور سیلاب ، طوفان اور زلزلے آتے ہیں۔