آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک، دنیا کی پانچویں بڑی فوج، ساتویں ایٹمی طاقت، چین ،روس، افغانستان اور وسط ایشیا کا دروازہ، دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان، دوسرے بڑے کوئلے کے ذخائر، تیسرے بڑے گیس ذخائر، چوتھی بڑی روئی کی پیداوار، پانچویں بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر، پانچویں بڑی دودھ کی پیداوار اور گندم اور چاول کی پیداوار میں بالترتیب گیارہویں اور بارہویں نمبر پر براجمان وطن عزیز پاکستان کے دور حاضر کی سپر پاور امریکہ سے تعلقات ابتدا قیام پاکستان سے قبل ہی ہو چکی تھی۔ مگر گذشتہ 68سالوں میں یہ تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے۔ انیس سو چون (1954)میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روسی دعوت کو ٹھکرا کر روس کے مقابلے میں امریکہ سے اس نئی مملکت کے تعلقات کے قیام کا فیصلہ کیا۔ ان کے امریکی دورے اور اس دوران کیے گئے سیکیورٹی معاہدوں سے فروغ پانے والے پاک امریکہ تعلقات اس وقت شدید سردمہری کا شکار ہو گئے جب 1965کی پاک بھارت جنگ میں یہ تعلقات امریکی مفادات کے تابع ہو گئے۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ہر قسم کے اسلحے کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ بھارت کو تو روس سے اسلحہ جنگ کے دوران بھی ملتا رہا لیکن پاکستان جو امریکی اسلحے اور مدد کا انتظار کر رہا تھا مایوس رہا۔ اگر ایران اور ترکی مدد نہ کرتے تو پاکستان 1965کی جنگ میں بری طرح شکست کھا جاتا۔ حالانکہ امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت داری کے تحت پاکستان 1961میں اپنا ایک فوجی اڈہ خفیہ طور پر امریکہ کے حوالے کر چکا تھا۔ یہی صورتحال 1971میں پیش آئی جب پاکستانی فوج اورر عوام پچھلی امریکی بے وفائی کو بھول کر ایک بار پھر دوران جنگ امریکی بحری بیڑے کی آمد کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ پاکستان دو لخت ہو گیا اور امریکہ ان پہلے ملکوں میں شامل تھا جس نے بنگلہ دیش کو ایک علیحدہ مملکت کے طور پر تسلیم کیا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ 1974میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ایٹمی پروگرام ترک نہ کرنے کی صورت میں نشان عبرت بنانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ 1977میں امریکہ نے مختلف الزامات لگاتے ہوئے پاکستان کی ہر قسم کی فوجی اور غیر فوجی امداد مکمل طور پر روک دی۔
لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور روس نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ 25 دسمبر 1979کو روسی فوج کابل میں داخل ہوگئی۔ امریکی پالیسی سازوں کو ایک بار پھر پاکستان کی یاد ستانے لگی اور اس نے روس کے مقابلے کے لیے پاکستان کی مدد چاہی۔ پاکستان نے تیسری بار امریکی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے دنیا بھر سے مسلمان جنگجو ”مجاہدین“ بھرتی کرنے شروع کر دیے۔ان مجاہدین نے افغانستان میںروس کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ امریکہ نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی ۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کیا۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے اتنے قریب آئے کہ ایک ہی ادارے کے دو شعبے لگنے لگے۔ پاکستان میںامریکی ڈالروں اور اسلحے کی بارش ہونے لگی۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو 1989 میں مکمل طور پر افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی ۔ اب جب امریکہ کو ان کی اور پاکستان کی ضرورت نہ رہی تو وہ فوری طور پر خطے سے نکل گیا اور افغانستان میں ایک پر امن اور پائیدار حکومت کے قیام میں مدد دینے کی بجائے لاکھوں افغان مہاجرین اور جنگجو پاکستان میں چھوڑ گیا جس سے نہ صرف پاکستان کا معاشی دیوالیہ نکل گیا بلکہ دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی اور منشیات فروشی نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔تعلقات تیزی سے ابتری کی جانب جانے لگے ۔ ان تعلقات میں سرد مہری کی سب سے بڑی وجہ جنرل ضیا الحق کی Strategic Depthحاصل کرنے کے لیے کابل پر پاکستانی اثر و رسوخ کی مضبوطی کی کوشش جبکہ امریکہ کی جانب سے جنیوا معاہدے پر اصرار تھا۔ جنرل ضیا الحقکی موت اسی دوران ایک طیارہ دھماکے کی وجہ سے ہوئی جس میں امریکی سفیر اور چوٹی کے دیگر جرنیل بھی ان کے ہمراہ تھے۔
ایک دھائی تک سرد مہری کا شکار رہنے والے یہ تعلقات بد تر اس وقت ہوئے جب پاکستان نے مئی 1998میں ایٹمی دھماکے کر کے دنیا بھر میں ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کو ”انواع اقسام “ کی پابندیوں میں جکڑ دیا گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے امریکہ اب کبھی پاکستان کی جانب رخ نہیں کرے گا مگر تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دھرایا۔ اورمحض تین سال بعد جب امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے طیارے ٹکرائے تو اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے پاکستانی صدر مشرف کو ایک ناراض دوست کی طرح فون کر کے پوچھا کہ کیا پاکستان امریکہ کے ساتھ ہے یا نہیں؟ جواب مثبت ملنے پر ایک بار پھر پاکستان کو گلے لگایا اور مشرف سے خصوصی طور پر کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی۔ پاکستان نے نیٹو سپلائی کے لیے اپنے زمینی اور فضائی راستے مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کو القاعدہ اور طالبان پر حملے کے لیے اپنے فضائی اڈے بھی مہیا کیے۔ مگر اسی دوران امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ پاکستان طالبان کے خلاف کاروائی میں تامل سے کام لے رہا ہے اور پاکستان مخالف طالبان پر حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان نواز طالبان کی حفا ظت کر رہا ہے۔ تعلقات کا بدترین مرحلہ 2011 میں اس وقت شروع ہوا جب لاہور میں سی آئی اے کی ایک ٹھیکے دار کمپنی کے ملازم ریمنڈ ڈیوس نے ایک پاکستانی خفیہ ایجنسی کے دو اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ سلالہ چوکی پر نیٹو افواج کا حملہ، اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں پکڑے جانا، نیٹو رسد کی معطلی اور شمسی ایئر بیس خالی کرایا جانا سب ایک دوسرے پر کیے گئے واروں کی کڑیاں ہیں۔ اور پھر ایک معاملہ میمو گیٹ کا بھی سامنے آیا۔ ۔ اس تمام عرصے میں جہاں پاک امریکہ تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے وہیں بھارت سے امریکی تعلقات مسلسل بہتر ہوتے چلے گئے۔ یہیں سے پاکستان کی تشویش کا آغاز ہوا۔
لیکن جلد ہی دونوں ممالک کو احساس ہوا کہ تعلقات کی یہ سرد مہری زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ سکتی ۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان پر قابو پانے کی امریکی کوششوں میں ناکامی کے بعد ان سے مذاکرات میں پاکستان کے کلیدی کردار کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ قریب آئے۔ یہ بات بھی زیر غور آئی کہ کیا وجہ ہے کہ اربوں ڈالر کی امداد اور بیش قیمت اسلحے کی فراہمی کے باوجود پاکستان میں امریکہ کے لیے شدید نفرت پائی جاتی تھی۔ امریکی پالیسی سازوں نے محسوس کیا کہ دراصل اس کی وجہ ان تمام دہائیوں میں امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان تعلقات ہی ہیں کیونکہ یہ تعلقات کبھی بھی عوامی سطح تک منتقل نہیں ہوئے لہذا امریکی اور پاکستانی عوام میں رابطے کا فقدان ہی دراصل اس نفرت اور غلط فہمیوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔24ستمبر 2012کو امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان اور امریکہ میں عوامی رابطوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مختلف نوعیت کے عوامی ایکسچینج پروگرامز کا آغاز کرنے کا اعلان کیا۔ پچھلے چند سالوں میںہزاروں پاکستانیوں نے امریکی اور سینکڑوں امریکیوں نے پاکستانی دورے کیے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں پر قابو پانے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ اسی دوران جون 2014میں پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں اور فوج کے ساتھ مشاورت سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کا اعلان کیا۔پنجاب ، خیبر پختونخواہ، فاٹا، کشمیر، گلگت، بلوچستان اورسندھ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش اور پکڑے جانے والے دہشت گردوں اور اسلحہ سے اس بات کے ناقابل تردید ثبوت حاصل ہوئے کہ دراصل پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ان تمام تر کوششوں میں بھارت کی بد نام زمانہ خفیہ ایجنسی ”را“ اور انتہا پسند جنونی ”مودی “ حکومت کا ہاتھ ہے۔ پاکستان نے اس مسلئے کو عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا اور وزیر اعظم نواز شریف نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70ویں اجلاس سے خطاب میں لائن آف کنڑول کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم خطے میں کشیدگی نہیں چاہتے۔ انہوں نے پاکستان میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کے ذریعے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کر نے کے لیے چار نکاتی ایجنڈ ا بھی پیش کیا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ چار نکات یہ ہیں: ‘کشمیر میں مکمل فائربندی کی جائے، کوئی ملک طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ دے، کشمیر کو مکمل طور پر مسلح افواج سے پاک کیا جائے اور سیاچن سے افواج واپس بلائی جائیں’ اسی خطاب میں انھوں نے کہا کہ ‘کشمیریوں کی تین نسلوں کو سوائے وعدوں کے کچھ نہیں ملا۔ انھیں ان کا حق خود ارادیت دیا جائے، جنوبی ایشیا کے اس اہم ترین مسئلے کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی ناکامی ہے’۔
حسب روایت دورہ اقوام متحدہ کے اختتام پر امریکی صدر بارک اوباما نے انہیں دورہ امریکہ کی باضابطہ دعوت دی جسے قبول کرتے ہوئے وزیر اعظم 21سے 23اکتوبر 2015تک تین روزہ سرکاری دورے پر امریکہ میں رہے۔ ان کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئےامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ ’مجموعی طور پر، پاکستان کے ساتھ ہمارے مضبوط اور فروغ پاتے ہوئے تعلقات کا آئینہ دار ہے، جس سے وسیع تر معاملات پر تعاون کو مضبوط کرنے کا موقع میسر آیا‘۔ ا±نھوں نے بتایا کہ ’سب سے پہلا اور اولیت کا حامل معاملہ سکیورٹی کا تھا۔ پاکستا ن بری طرح سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے، اور ماضی قریب میں ملک میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں۔ تاہم، باہمی مفاد کے بہت سے معاملات تھے جن میں معاشی افزائش، تجارت، سرمایہ کاری، شفاف توانائی، نیوکلیئر سکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی اور علاقائی استحکام کے امور شامل ہیں۔ ہم اس بارے میں صاف گوئی سے کہتے آئے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کو مکالمے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ (دونوں ملک) اپنی تشویش کے بارے میں ایک دوسرے سے گفتگو کریں۔۔ سکیورٹی کے بارے میں دونوں ہی کو تشویش ہے، اس لیے ا±نھیں زیادہ رابطہ رکھنے کی ضرورت ہے۔۔ کیونکہ، تمام خطے کی سلامتی کے لیے دونوں ملکوں کے مابین بہتر مکالمہ، بہتر ڈائلاگ، زیادہ تعاون اہمیت کا حامل ہے‘۔
دوسری طرف اسی دورے کے دوران بھارت میں انتہا پسند ہندﺅوں کی جانب سے نہ صرف مسلمانوںبلکہ سکھوں اور نچلی ذات کی ہندوﺅں پربھی عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ گائے کا گوشت (بیف) کھانے پر مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور انہیں پاکستان جانے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی آرٹسٹ اور فنکاروں کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا اور پاکستان کے ایلیٹ امپائر علیم ڈار کو ایمپائرنگ سے روک دیا گیا۔ اسی طرح وسیم اکرم اور شعیب اختر کو کمنٹری سے روک دیا گیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر شہر یار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی بھی بھارت یاترا سے نامراد لوٹ آئے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ کی بے حرمتی نے پر تشدد مظاہروں کو اس حد تک بڑھاوا دیا کہ بھارت کو اس ماہ کے آخر میں ہونے والا کبڈی ورلڈ کپ منسوخ کرنا پڑا ہے۔ نچلی ذات کے ہندﺅوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔ شاعروں ، ادیبوں اور متوازن سیاست دانوں کے منہ کالے کیے جا رہے ہیں۔ اور ان کی جانب سے حکومتی اعزازات واپس کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کنٹرول لائن پر فائرنگ سے خواتین اور بچوں سمیت درجنوں پاکستانیوں کی شہادت کے باوجود لشکر طیبہ اور اس طرح کی دوسری تنظیموں پر پابندی کے لیے پاکستان پر دباﺅ ڈالنے والے امریکہ کو ”شیو سینا“ نظر نہیں آئی بلکہ امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے اس بارے ایک رسمی بیان تک جاری نہیں کیا گیا۔ ایسے ہی اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ کے بارے میں مشکل سے قائم کیا گیا مثبت تاثر زائل ہو جاتا ہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی دنیا سے اپنے تعلقات یکساںاخلاقی اصولوں کی بنیاد پر قائم کرے ۔ جس چیز کی مذمت وہ پاکستان میں کرتا اور پاکستان پر اسے ختم کرنے کے لیے ہر طرح سے دباﺅ ڈالتا ہے بھارت کے ایسے کسی عمل کی مذمت بھی وہ اسی انداز میں کرے۔ ورنہ تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستانی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ کیوں بھرپور ثبوتوں کی فراہمی کے باوجود امریکی حکام نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ امریکہ کو یہ جاننا ہو گا کہ ایسا بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ اور عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ بھارت سے درپیش خطرات اور امریکہ کی جانب سے چشم پوشی پاکستان کو اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ طاقت کے توازن کے لیے خطے کے دوسرے طاقتور ممالک بشمول چین اور روس سے اپنے تعلقات کو سٹریٹجک بنیادوں پر مضبوط بنائے۔ پاک چائینا اکنامک کوریڈور اور پاک روس سٹریٹجک مذاکرات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے قبل امریکی ذرائع ابلاغ میں تواتر سے پاکستان کے ساتھ امریکی سول جوہری معاہدے اور 8نئے F-16طیاروں کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ لیکن سربراہان مملکت کی ملاقات اور پینٹا گان کے دورے کے بعد بھی کسی سطح پر اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔ اسی دورے کے دوران سرتاج عزیز نے پاکستانی نیوکلیر پروگرام پر سے امریکی دباﺅ کم کرنے کے لیے کمال حکمت عملی سے ”چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں “ کا راز فاش کر دیا۔ اس کا مقصد بھارت کی ”کولڈ سٹارٹ“ ڈاکٹرائن کا جواب دینا تھا۔ گویا کہ پاکستان نے اپنے نیوکلیئر پروگرام پر کسی بھی قسم کی قدغن برداشت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور امریکی حکام پر واضح کر دیا ہے کہ موجودہ بھارتی ہٹ دھرمی کے سامنے پاکستان ایسے کسی اقدام کا متحمل نہیں ہو سکتا جو اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔ مشہور امریکی اخباروں نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں حالیہ شائع شدہ رپورٹس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ جوہری پروگرام پر چند پابندیوں کے بدلے پاکستان سے سول نیوکلیئر معاہدہ کرنے کو تیا ر ہے۔ اس دورے کے دوران وزیر اعظم نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کے علاوہ امریکی چیمبر آف کامرس کا بھی دورہ کیا۔ یاد رہے کہ نواز شریف کے دورہ امریکہ سے چند دن قبل 19اکتوبر کو آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے امریکہ کا دورہ کیا اور اعلیٰ امریکی فوجی حکام سے باہمی دلچسپی کے امور پر ملاقاتیں کی تھیں اور نواز شریف کی امریکہ روانگی سے قبل آئی ایس آئی سربراہ نے اپنے دورہ امریکہ پر وزیراعظم اور آرمی چیف کو بریفنگ بھی دی تھی۔ کامیاب ترین آپریشن ضرب عضب اور بلوچستان و کراچی میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات نے ایک بار پھر عالمی دنیا کی نظروں میں پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کو ثابت کیا ہے۔ اگلے ماہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا دورہ امریکہ F-16طیاروں کی فراہمی اور 300ملین ڈالر کے اتحادی فنڈ کی بحالی کے حوالے سے نہائت اہمیت کا حامل ہو گا۔
سائیڈ سٹوری : اگلے صفحہ پر
