بالغ مرد کے اوپر کے لب پر اگنے والے بال، بروت، لب، م±وچھ کہلاتے ہیں۔ جدید اردو میں یہ لفظ ”مونچھ “ پڑھا اور لکھا جاتا ہے ۔ ماہرین اردو کا کہنا ہے
کہ نون غنہ کے ساتھ (م±ونچھ) سنسکرت الاصل لفظ کے زیادہ قریب ہے اور اسی زبان سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے ۔ 1845 کو ”نغمہ عندلیب“ میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔ اگر انگریزی زبان کی بات کی جائے تو مونچھ کا فرانسیسی مترادف Moustache اب انگریزی زبان کا لفظ بن چکا ہے اور دوسری جانب خود فرانس نے بھی Moustacheاطالوی زبان سے مستعار لی ہے جو اپنے لفظ Moustachio کو ابتدائے مونچھ قرار دیتی ہے لیکن ایران یورپ کے ان تمام دعووں کو جھٹلاتا ہوا بات کو 300قبل مسیح میں لے جاتا ہے ۔ اس دور میں بنائی گئی گھڑ سوار کی ایک پینٹنگ میںشیو شدہ مونچھ بردار نوجوان گھوڑے پر سوار نظر آتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس دور میں پتھر سے بنے ہوئے استروں کی مدد سے شیو کرنا ممکن ہو چکا تھا۔ استرا یا Razorکا مونچھ سے گہرا تعلق ہے کیونکہ مونچھ تب ہی مونچھ کہلاتی ہے جب بالائی ہونٹ پر موجود بالوں کو ایک خاص طریقے سے داڑھی کے دوسرے بالوں سے علیحدہ کر دیا جائے۔
مونچھوں اور داڑھی کو مردوں کی تاریخ میں ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے بلکہ یہ مرد کی شخصیت کا بہت اہم حصہ رہی ہیں۔ سر سید احمد خان، کارل مارکس اور ابراہم لنکن کی داڑھی، ایڈولف ہٹلر کی مونچھ اور سردار عبد الرب نشتر کی مونچھیں اچھلی بھلی شہرت رکھتی ہیں۔مونچھ کا یہ بھرم آج سے نہیں بلکہ صدیوں قرنوں سے چلا آرہا ہے، قدیم صحیفوں اور تاریخ کی کتب سے مونچھوں کے قصے چلے آرہے ہیں۔ اجنتا کے غاروں سے لے کر سندھ و ہند کی تہذیب تک جہاں کہیں مردانہ جاہ و جلال، شان و شوکت، امارت، جرات، شجاعت، لیاقت، سیادت، قیادت، الفت، اور کہیں’خفت ‘ کے قصائص ملے ہیں وہاں رخ روشن پر مونچھ ضرور پائی گئی۔ آج بھی پانچ آٹھ ستارہ ہوٹل ہوں یا بڑی بڑی ‘ایمپائرز’ کے دروازے پر سجاوٹ کو ایک عدد مونچھ بردار دربان لازمی ہوتا ہے۔ یہی نہیں واہگہ کی سرحد پر بھی دشمن پر رعب جمانے کو دونوں جانب مونچھ دار سپاہی موجود ہوتے ہیں۔ پرانے بابوں سے پوچھو تو کہتے ہیں کہ اماں باوا مونچھوں کے کونڈے کی تاریخ رکھتے، احباب اکٹھا ہوکر جوانی میں قدم رکھنے کی مبارک سلامت دیتے، کچھ’گ±ر ‘ کے نسخے گوش گزار کرتے۔ یعنی مونچھیں آتے ہی لڑکا سب مردوں کی مونچھ کا بال بن جاتا۔
مونچھوں کے حسن و جملہ خصائص پرکیا کیا نہ محاورے بنائے گئے ہیں، مونچھیں ہیں یا روشن چراغ یا مونچھ نہیں مانو نیبو ٹکا ہے۔ انا کی جنگ ہو تو مونچھ کی لڑائی، خطرہ سامنے آئے تو مونچھیں کھڑی ہونا، مار کھا ئی تو مونچھیں نچوانا، جیت ضروری ہے کہ مونچھوں کی لاج رکھنی ہے اور دشمن پر فتح یاب ہوگئے تو اس کی مونچھیں زیر کر دی گئیں اور اپنی مونچھیں اونچی ہوگئیں۔دنیا میں سب سے لمبی مونچھوں کا ریکارڈ بھارت کے رام سنگھ چوہان کے پاس ہے جس کی مونچھوں کی لمبائی 4.29میٹر ہے۔ مونچھیں تو ہٹلر اور سٹالن کی بھی کچھ کم شہرت نہیں رکھتیں لیکن چارلی چپلن اورگروشو مارکس کی مونچھوں کے کیا کہنے جو مصنوعی مونچھوں سے اتنی شہرت پا گئے کہ رام سنگھ چوہان حسرت سے تکتا ہے۔ اور پھر شرابی فلم کے ”نتھو لال “ کو کون بھولے جو اب برصغیر میں مونچھ کا استعارہ بن چکا ہے کہ ”مونچھ ہو تو نتھو لال جیسی“ ۔ آسٹرین الپائن کے علاقے لیوگانگ میں ’بال‘ چھائے رہیں گے، جہاں مونچھ اور داڑھی کا 12واں عالمی مقابلہ منعقد ہو رہا ہے۔ اس عالمی چمپیئن شپ مقابلے میں دنیا بھر سے چہرے پر طرح طرح سے بال ا±گائے افراد شرکت کر رہے ہیں۔ان مقابلوں میں 18مختلف ٹائٹلز دیے جائیں گے، جن میں مونچھیں، جزوی اور مکمل داڑھیاں شامل ہیں۔ مونچھوں کی کیٹیگریز میں قدرتی، انگلش، امپیریل، ہنگیرین اور فری اسٹائل شامل ہیں۔ واشنگٹن کی مشہور و معروف مونچھ اب نہیں رہی۔ صدر اوباما کے سینئر مشیر ڈیوڈ اسکیل راڈ نے ٹی وی کے لائیو پروگرام کے دوران مرگی کی بیماری کی تحقیق کیلئے ایک ملین ڈالر کی رقم کا عطیہ آنے کے بعد مونچھ مونڈوا دی۔ ایکسل راڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 40 سال سے مونچھ رکھی ہوئی تھی اس موقع پر پہلا عطیہ حیران کن طور پر جائیداد کا کاروبار کرنیوالے ٹرمپ جو اوباما کے نقاد ہیں کی جانب سے فون کال کے ذریعے آیا۔ وینزویلا کے صدر نیکولاس مدورو نے کہا ہے کہ اگر ان کی حکومت 2015 کے آخر تک ایک ملین لوگوں کو گھر فراہم کرنے کا وعدہ پورا نہ کرسکے تو وہ مونچھیں مونڈ دیں گے۔ وینزویلا کے نوجوان صدر نے کہا کہ اگر وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس کی سزا کے طور پروہ اپنی مونچھیں مونڈ دیں گے تاکہ سب کو پتا چل جائے میں ایک بدعہد صدر ہوں جو عوام سے کیے وعدے پورے نہیں کرسکتا۔
پاکستان کی بات کی جائے تو آج کل عسکری حلقوں میں مذاق کے پیرائے میں ایک سنجیدہ اطلاع برقی پیغام کے ذریعے گردش کررہی ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی مارشل لاء لگائے گئے سب کے سب آرمی چیفس مونچھوں والے تھے مثلاً فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان،جنرل(ر) ضیاء الحق،اور جنرل(ر) پرویز مشرف۔۔۔جبکہ جتنے آرمی چیف کلین شیو تھے سب نے جمہوریت کو سپورٹ کیا جن میں جنرل(ر) یحی ٰ خان،جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ،جنرل(ر)آصف نواز جنجوعہ،جنرل(ر)جہانگیر کرامت اورجنرل(ر)اشفاق پرویز کیانی شامل ہیں جبکہ ایک دلچسپ پہلویہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بھی مونچھیں ہیں۔ یہ بھی شنیدہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان مختلف معاملات پر ایسے ایشو سامنے آچکے ہیں، کچھ کہی ان کہی کہانیاں بھی ہیں جس سے تناو¿ کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے” سیاسی سیانوں“ کا کہنا ہے لیکن اپنے سخت فیصلوں میں مونچھوں کا تو کوئی رول نہیں مگرسابقہ روایات کو نظرانداز کرنا بھی خاصا مشکل ہے یہ باتیں یقینا ایسے لوگ تواتر سے کرتے ہیں جن کی جمہوریت کے دوران دال کم ہی گلتی ہے ویسے بھی پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں کسی بھی وقت ،کچھ بھی ہو سکتاہے ان حالات میں”اب تلک مونچھوں والے جرنیلوں نے مارشل لاء لگایا کلین شیو جمہوریت کے حامی نکلے والی بات “نے کئی وزیروں،مشیروں کی نیندحرام کرکے رکھ دی ہوگی ۔
لیکن پاکستان میں تگڑی مونچھیں رکھنا بھی کوئی مذاق نہیں۔ پاکستانی بزنس مین ملک عامر محمد خان آفریدی جو اپنی دیو ہیکل مونچھوں کی وجہ سے مشہور ہیں دو بار اغوا ہو چکے ہیں، قتل کی دھمکیاں ملی ہیں، دھمکیوں کی وجہ سے اپنی فیملی سے دور اکیلے رہنے پر مجبور ہیں اور یہ سب انھیں اپنی شاندار مونچھوں کی کی وجہ سے جھیلنا پڑا-سیاست دان البتہ اس حوالے سے کچھ مختلف ہیں ۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم نے پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجو د مرد ممبران کی مونچھوں کے حوالے سے پارٹی پوزیشن جاننے کی کوشش کی ہے جو کہ یقینا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ مونچھیں مسلم لیگ (ن) کی ہیں جو 113مونچھوں کے ساتھ سر فہرست ہے۔ اس کے کلین شیو ممران کی تعداد 35ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کی مونچھوں کی تعداد 23اور کلین شیو ممبران 9ہیں۔ پی ٹی آئی کا تیسرا نمبر ہے جس کے پاس 19مونچھیں ہیں اور کلین شیو ممبران 7ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہو گی کہ اسمبلی میں ان پارٹیوں کی موجودہ پارٹی پوزیشن بھی یہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سب سے زیادہ مونچھیں ۔سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی اور حکومتی نشستوں پر براجمان۔ پیپلز پارٹی 23مونچھیں ۔ لیڈر آف دا اپوزیشن کی سیٹ پر براجمان اور پی ٹی آئی 19مونچھوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی ہے۔ گویا اگر ازراہ تفنن یہ کہہ دیا جائے کہ اسمبلی پوزیشن کا دارومدار مونچھ پر ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
قومی اسمبلی میں باقی پارٹیز کی ”مونچھ پوزیشن “ کا اندازہ لگایا جائے تو یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ اسمبلی میں پارٹیز کی مونچھ پوزیشن ہی دراصل ان کی پارلیمانی پوزیشن بھی ہے۔ یہ محض اتفاق ہے یا مونچھ کا سیاست میں کامیابی کے ساتھ کوئی گہرا تعلق بھی ہے کہنا بہت مشکل ہے۔ مغل بادشاہوں کی بات کی جائے تو آپ کو مونچھ سجائے دربان بٹھائے بادشاہ نظر آئیں گے اور مونچھ کا ڈیزائن بھی ہر ایک کا منفرد گویا مونچھ کی اہمیت تخت و تاج کی سی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مختلف پارٹیز کی مونچھ پوزیشن درج ذیل ہے۔

صرف پاکستان ہی نہیں بلاد ترکیہ سے ایک دلچسپ خبر موصول ہوئی ہے۔ ترک راہنما عام طور پر پاکستان آتے ہیں تو ایک بات ضرور کہتے ہیں کہ پاکستان اور ترکی دو ملک لیکن ایک قوم ہیں۔ لیکن اس خبر کے بعد تو شک کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔ خبر یہ آئی ہے کہ ترک افسر شاہی نے الیکشن کے نتائج آنے کے بعد گزشتہ تیرہ برس کی پالی پوسی مونچھیں قربان کر دی ہیں۔ اے کے پارٹی کے تمام بڑے لیڈروں میں ایک بات مشترک تھی، اور وہ تھا ان کی مونچھوں کا سٹائل جسے ترک بادامی مونچھ کہتے ہیں۔ تو اے کے پی کی حکومت آنے پر افسر شاہی بھی اسی طرح اے کے پی کے بڑوں کے رنگ میں رنگی گئی جیسے کہ پاکستان میں جنرل ضیا کے مارشل کے بعد تھری پیس پاکستانی بیوروکریسی بھی راتوں رات شلوار واسکٹ اور سر پر نمازی ٹوپی کا رنگ اپنا کر پیا رنگ رنگی گئی تھی۔تو ہوا یوں کہ اب جب کہ تیرہ برس کے بعد افسر شاہی نے یہ دیکھا کہ اے کے پی اب اکیلی حکومت نہیں بنا سکتی ہے، تو اس نے بادام کو خداحافظ کہا۔ اب یا تو وہ مونچھیں منڈوانے لگے ہیں، یا پھر سائیکل کے ہینڈل کی طرح کی مونچھیں رکھنے لگے ہیں جو کہ انتہائی دائیں بازو کی ایم ایچ پی کی لیڈرشپ کے چہروں پر سجی نظر آتی ہے۔ ہمارے یہاں تو پارٹیوں کے لیڈر رنگ برنگے دوپٹوں سے پہچانے جاتے ہیں، کوئی لال اور ہرا دوپٹہ پہنے ہوتا ہے،کوئی لال ہری اور کالی چنی سلیقے سے اوڑھے ہوتا ہے، اور کوئی ہرے رنگ کا دوپٹہ زیب تن کیے ہوتا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ ترکی میں ہر پارٹی اپنی مونچھ سے پہچانی جاتی ہے۔ تعجب نہیں ہو گا اگر وہاں کا الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں کو انتخابی نشان کے علاوہ مونچھ کا انداز بھی الاٹ کرتا ہو۔
اپنے ہمسائے بھارت کو ہی لے لیجیے۔ جہاں فائیو سٹار ہوٹلوں میں دربان کی نوکری کے لئے گھنی اور لمبی مونچھیں کسی ڈگری یا ڈپلومہ کی طرح روزگار حاصل کرنے میں کارآمد ثابت ہو رہی ہیں لیکن یہ مونچھیں رکھنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ انکی حفاظت کیلئے کئی جتن کرنا پڑتے ہیں ،مونچھوں کامساج کرنے سمیت انہیں شیمپو سے دھونا پڑتا ہے اورگھر پر مونچھ پٹی بھیباندھنا پڑتی ہے۔دربان کی شخصیت میں اس کا قد کاٹھ اور مونچھیں اہم ہوتی ہیں اسلئے جتنی بڑی اور گھنی مونچھیں ہوں گی وہ اتنا ہی پر کشش لگے گا، سیاح ایسی مونچھوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور کئی بار انعام بھی دیتے ہیں جبکہ ہوٹل انتظامیہ کی طرف سے بھی مونچھوں کی دیکھ بھال کیلئے اضافی پیسے دئیے جاتے ہیں۔ اب تو پاکستان میں بھی یہ کلچر سرائت کر گیا ہے۔ پتہ نہیں یہ مونچھ کی تکریم ہے یا تذلیل۔ بات کچھ ٹیڑھی سی ہے۔ مونچھ مردوں کا عالمی ورثہ ہے۔ قدامت پرست آج بھی “موچھ منے” (بغیر مونچھوں والے) کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ بلکہ پرانے لوگ کہتے تھے کہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں اگر شوہر کی مونچھ نہ ہو تو خاتون گھر میں گھسنے نہیں دیتیں۔مونچھوں میں عالمی شہرت ہندوستان سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ بادام سنگھ گجر کی ہے۔ جو دنیا میں سب سے بڑی مونچھیں رکھتے ہیں۔۔ تقریبا ساڑھے بارہ فٹ لمبی مونچھیں ہیں جو 22 سالوں سے قینچی سے محروم ہیں۔ برصغیر کے مرد تاریخی طور پر مونچھ کو اپنی مردانہ شان کا لازمی حصہ قرار دیتے رہے ہیں لیکن بھارت میں منعقد کئے جانے والے مونچھ میلے میں نظر آنے والی مونچھیں تو کسی حیرتناک عجوبے سے کم نہیں۔ریاست راجھستان کی جھیل پشکر کے کنارے ہر سال ایک میلہ مویشیاں منعقد کیا جاتا ہے جس میں مقابلہ حسنِ مونچھ کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ اس مقابلے میں حصہ لینے والے مردوں کی مونچھیں کوئی عام مونچھیں ہرگز نہیں ہیں بلکہ انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے گویا کئی فٹ لمبی رسیاں ہوں۔مقابلے کیلئے آنے والے اپنی مونچھوں کو گچھوں کی صورت میں لپیٹ کر آتے ہیں لیکن جب یہ مونچھیں کھلتی ہیں تو زمین کو چھونے لگتی ہیں۔شرکائ اس مقابلے میں شرکت کیلئے کئی کئی سال تک مونچھوں کی پرورش کرتے ہیں اور پھر میلے میں آکر حاضرین سے اپنی محنت کی داد پاتے ہیں۔
بالائی ہونٹ پر براجمان مونچھوں کا ذکر ہو تو ایوان بالا (سینیٹ ) کے ذکر سے خالی نہیں ہو سکتا۔ ذرا پاکستانی سینیٹ کی پارٹی کے لحاظ سے مونچھ پوزیشن ملاحظہ ہو۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیائے شعور میں مردانگی کا مونچھوں سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ یہ سوچ جو آباﺅ اجداد کے راستے ہم میں اتری ہے کہ مونچھ فخر کی پہچان ہے آج مونچھیں سجائے دربانوں کو دیکھ کر دم توڑتی جا رہی ہے۔ مونچھ تو ایک انداز ہے سجنے کا سنورنے کا۔ جو لگائے اس کا بھی بھلا جو نہ لگائے اس کا بھی۔ ہم جب جوانی میں قدم رکھ رہے تھے اور بڑھتی عمر کے تقاضے جس وقت ہم پر سوار تھے اس وقت نہ والدین نے سمجھایا نہ ہم میں خود اتنی عقل تھی کہ یہ سمجھ سکتے کہ مردانگی یا نسوانیت کو جسمانی ہیّت یا اس میں تبدیلیوں کے ساتھ جوڑنے والوں کو بالغ ہونے سے پہلے تو کم عمری، ناپختگی یا ہارمون کے چکر وغیرہ کی رعایت دی جا سکتی ہے لیکن بالغ ہونے کے بعد لوگوں کو مونچھوں کی لمبائی یا دوپٹوں کی چوڑائی سے ناپنے والوں کے دماغ کی نمو چیک کروانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہاں اگر مونچھوں کی اہمیت اور مونچھ کا فخر و مردانگی سے تعلق اتنا ہی ناگزیر ہے تو ذرا دماغ کی مونچھوں کی جانب بھی نظر ہو۔ کیونکہ اصل مونچھیں تو یہی ہو تی ہیں۔