دس کروڑ انسانو زندگی سے بے گانو
صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو بے شعور کہتے ہیں
سوچتا ہوں یہ ناداں کس ہوا میں رہتے ہیں
اور یہ قصیدہ گو فکر ہے یہی جن کو
ہاتھ میں علم لے کر تم نہ اٹھ سکو لوگو
کب تلک یہ خاموشی چلتے پھرتے زندانو
دس کروڑ انسانو ( حبیب جالب)
ستمبر15 کو ہر سال پوری دنیا میں یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آزادی انسان کی سب سے بڑی خواہش رہی ہے۔ صدیوں سے بادشاہت، ملوکیت اور آمریت کے شکنجوں میں جکڑے انسان کو جمہوریت نے اپنے آپ پر خود حکومت کرنے کا مژدہ سنایا۔ یہ تصور آزادی اسے اتنا پسند آیا کہ آج دنیا کے 167ممالک میں جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں نظام حکومت کا حصہ ہے۔ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام یا طریقہ کار ہے جس میں تمام ممبران کا فیصلہ سازی کی طاقت پر برابر حق ہوتا ہے۔ جدید جمہوریت میں فیصلہ سازی کا یہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔عام خیال ہے کہ چھٹی صدی (قبل مسیح)کا یونانی دور قدیم ترین جمہوری دور تھا۔ لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پانچویں صدی (قبل مسیح) سے بھی بہت پہلے دنیا جمہوریت کی بنیادی روایات اورنظام جمہوریت کے خدوخال سے آشنا تھی۔ معروف برطانوی مورخ ”جان کِین “ نے 2009میں اپنی کتاب ”جمہوریت کی زندگی اور موت “ میں باوثوق حوالوں سے تیسری صدی قبل مسیح میں میسو پوٹیمیا کی تہذیبی وراثت کو جمہوریت اور نظام جمہوریت کا نقطہ آغاز گرداناہے۔ میسو پوٹیمیا،ثمر، مصر اور مشرق قریب کے بہت بعد یونان نے باقاعدہ طور پر اپنے پیچیدہ معاشرتی اور سیاسی ادارے قائم کیے۔ اس سے بھی قدیم جمہوریت آج کے پارلیمانی نظام حکومت سے اپنے پھیلاﺅ اور دائرہ کار کے لحاظ سے یکسر مختلف تھی۔ جمہوریت کا پرانا چہرہ قبائلی جرگے یا پنچائتی نظام کے وہ خدوخال ہیں جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے آثار سے برآمد ہوئے ہیں۔
چوتھی صدی قبل مسیح کے مشہورثمری بادشاہ ”گلگامش“ نے اپنے ہاتھ میں ”اختیارات کُلی“ رکھنے کی بجائے”شہری کونسلیں “قائم کیں اور ان کونسلوں میں ” مجلس بزرگان“ اور ”مجلس نوجوانان“ پر مشتمل دو درجی نظام فیصلہ سازی قائم کیا۔ یہ کونسلیں شہری مسائل کے حل کے علاوہ جنگ جیسے معاملات میں بھی حتمی فیصلے کا اختیار رکھتی تھیں۔اختیارات کی وسعت کے لحاظ سے آج کی جمہوریت میسو پوٹیمیا ، ثمری اور یونانی دور جمہوریت کا پانی بھرتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تب تک دنیا لفظ ”جمہوریت “ سے آگاہ نہیں تھی اور اس وقت کی جمہوریت کو ”مشاورتی نظام فیصلہ سازی “ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ جمہوریت کے ارتقائی سفر کا دوسرا نقطہ آغازچھٹیصدی قبل مسیح کی آزاد بھارتی ریاستوں ”سنگاز“ اور”گاناز“ سے ملتا ہے۔ لیکن اس با ت کے اس کے سوا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں کہ یونانی مورخ ”ڈیوڈرس“نے اس کا ذکر ”الیگزنڈر“ کے بھارت پر حملے کے کافی عرصے بعد لکھی گئی اپنی کتاب میں کیا۔ لیکن یہ ذکر کسی قسم کے دستاویزی اور تاریخی ثبوتوں کے بغیر ہے لہذا جمہوریت اور بھارت کا یہ تعلق اتنا ذیا دہ قبول اورمقبول نہیں ہوا ۔
یونانی جمہوریت دراصل ”دوہری بادشاہت“ کی ارتقائی شکل تھی۔ سیاسی طاقت چارحصوںمیں تقسیم کی گئی تھی۔۱) دو بادشاہ جنہیں ”سپرتن کنگ “ کہا جاتا تھا ۲) مجلس بزرگان ۳) ”ایفرز“ وہ لوگ جو بادشاہوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کے نگران تھے۔ ۴) ”اپیلا“ بادشاہ کے وزیروں کی اسمبلی ۔ دونوں بادشاہ حکومت کے اصل مالک تھے۔ مجلس بزرگان کا انتخاب عوامی سطح سے کیا جاتا تھا اور اس کے لیے 60سال سے زیادہ عمر ہونا شرط تھا لیکن عموماً بادشاہ اسمجلس کے ممبران کا انتخاب دولت مند اور طاقت ور خاندانوں میں سے ہی کرتے تھے۔یہ ممبرز قانون بنانے اور اس میں ترمیم کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ ”ایفرز“ بادشاہوں کے کیے گئے فیصلوں پر عمل کرواتے تھے اور سرکاری عمال کو بری کارگردگی یا فیصلوں پر عمل درآمد میں کاہلی پر معزول کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ ”اپیلا “ کے ممبران زیادہ تر ”ایفرز“ کے سابق ممبران ہوتے تھے لیکن یہ صرف ایک سال کے لیے ہی منتخب کیے جاتے تھے او ر کسی بھی حال میں ان کا دوسری ٹرم کے لیے انتخاب نا ممکن تھا۔ قدیم تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دراصل قدیم یونانی جمہوریت ”مطق العنانی “ اور ”کلی بادشاہت“ کی ایک جدید شکل تھی جس میں بادشاہوں نے اپنے اختیارات میں عوام کے ایک خاص حصے کو شراکت دار بنایا۔
چھٹی صدی قبل مسیح کے یونانی شاعر ”سولون “ جو بعد میں ایک قانون دان بنا کو جمہوری قوانین کا بانی گردانا جاتا ہے۔ اسی نے یونان کو وہ سب سے پہلا جامع قانون دیا جس سے یونانی نظام حکومت نے قوانین کے تابع ہو کر ملکی نظام چلانا شروع کیا۔ انہی قوانین نے مشہور یونانی فلاسفرز ”سقراط“ ، ”پلاٹو“ اور ”ارسطو“ کو جمہوری نظام حکومت کے خدوخال پر غور و فکر کرنے کی تحریک دی۔ سقراط نے سب سے پہلے فرد واحد اور معاشرے کے درمیان تعلق پر سوال اٹھایا جس کی مزید وضاحت اس کے شاگرد پلاٹو نے کی۔ ارسطو نے یونان کی مختلف شہری کونسلوں میں موجود نظام حکومت کا تفصیلی تجزیہ کیا اور انہیں تین حصوں ”کافی“ (اختیارات کی زیادہ لوگوں میں تقسیم پر مشتمل نظام حکومت ) ،”کچھ“ (اختیارات کے چند افراد میں ارتکاز) اور ”ایک “ (اختیارات کا فرد واحد میں مرتکز ہونا) میں تقسیم کیا۔ اس نے ”سیاست“ نامی اپنی کتاب میں ان تینوں طریقہ حکومت کا تفصیلی ذکر کیا اور ان کے نمایاں خدوخال اور خوبیوں خامیوں پر روشنی ڈالی۔ اس نے افراد کی تعداد اور حکومت کے فیصلوں میں ان کی تعداد کے لحاظ سے شمولیت پر زور دیا۔ارسطو نے اچھے اور برے نظام حکومت کی فہرست بنائی جس میں اس نے ”جمہوریت“ کو ایک برا نظام حکومت کہا۔ یار لوگ ارسطو کی تحریروں کو پڑھے بغیر ہی ارسطو کے ”خلاف جمہوریت “ ہونے کا فتویٰ جاری کر دیتے ہیں حالانکہ ارسطو کی تحریروں کو غور سے پڑھا جائے جو پلاٹو کا یہ شاگرد دراصل ”ماب گورنمنٹ“ کے خلاف تھا۔ اور کیونکہ تب تک موجودہ پارلیمانی نظام حکومت کے خدوخال واضح نہیں تھے لہذاارسطو یہ نہیں چاہتا تھا کہ افراد کا جتھا محض اکثریت کی بنا پر حکومت کرے۔ نئے جمہوری نظام میں جمہوریت کی یہ خامی براہ راست اور بالواسطہ انتخاب کے ذریعے دور کر دی گئی ہے جس میں عوام کی اکثریت ”دانا“ ، ”عالم “ اور ”ایماندار “ شخص کو اپنا نمائندہ چن سکتی ہے۔ لہذا بیک وقت اکثریت اور دانائی کے پیمانے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب دنیا پہلی بار لفظ جمہوریت سے آشنا ہو ئی ۔ جمہوریتDemocracy ایک یونانی لفظ ہے ۔ یہ لفظ دو یونانی لفظوں ”Demos“ یعنی لوگوں کی اور ”Kratia“ یعنی حکومت کا مجموعہ ہے۔ اس طرح سے جمہوریت کے معنی ہیں لوگوں کی حکومت۔
تیرہویں صدی قبل مسیح کی رومی مملکت کو پہلی جمہوری ریاست سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی تاریخ نے جمہوریت کے تصور کو صدیوں محفوظ رکھنے کی مدد دی ہے۔ روم کے جمہوری ماڈل کو صدیوں سے سیاسی سوچ بچار کرنے والوں نے قابل تقلید مثال کے طور پر دیکھا ہے۔ اور آج کے جمہوری دور میں سیاسی مفکرین رومی ماڈل کو یونانی ماڈل پر ترجیح دیتے ہیں۔ رومی جمہوریت میں سینیٹ اور اسمبلیز ، لکھا ہوا آئین اور ووٹ کے ذریعے انتخاب کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ آج یہ سب جدید جمہوریت کا حصہ ہے۔لیکن یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ رومی سینیٹ کا ممبر بننے کے لیے پہلی شرط ایک لاکھ دینار کے برابر مالیت کی زمین کا مالک ہو نا تھا۔ گویا سینیٹ کا ممبر بننے کے لیے اچھا خاصا دولت مند ہو نا ضروری تھا۔ یہی وہ خامی ہے جو شروع سے جمہوری نظام میں چلتی آرہی ہے یہاں تک کہ آج دنیا بھر میں جمہوریت دولت مندوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ اور جمہوریت کی اس خامی کو ختم کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔
جمہوریت کے تاریخی ارتقا کی مکمل تفصیلات بیان کی جائیں تو شائید کئی ضخیم کتابیں بھی کافی نہ ہوں۔ جدید جمہوریت کی جانب اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہم برطانوی جمہوریت کی جانب آتےہیں۔ بارہویں صدی عیسوی (1215) میں برطانیہ اور سکاٹ لینڈ میں پہلا ”میگنا کارٹا“ یعنی عظیم معاہدہ وجود میں آیا جس کے ذریعے معاشرے کے طاقتور افراد کے اختیار ات کو محدود کر دیا گیا۔ 1265میں پہلی منتخب برطانوی پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ میگنا کارٹا نے عوام کے لیے حبس بیجا سے نجات کا راستہ ہموار کیا۔ اور گرفتاری کی صورت میں ان کو اپیل کا حق دیا گیا۔ 1628میں ٹیکس کا اختیار عوام کو دیا گیا اور عوام کی رائے لیے بغیر ہر قسم کے ٹیکس کا نفاذ ممنوع کر دیا گیا۔1787میں امریکی آئین وجود میں آیا۔ 1789میں انقلاب فرانس کے بعد انسانی حقوق کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس کے تحت باضابطہ طور پریہ اعلان کیا گیا کہ ”تمام انسان برابر اور انن کے حقوق برابر ہیں “۔ 1870میں 15ویں آئینی ترمیم کے ذریعے امریکہ نے رنگ ، نسل اور غلامی کی سابقہ تاریخ کی بنیاد پر افراد کے ووٹ دینے کی اہلیت کے درمیان فرق کو ختم کر دیا۔ لیکن اب تک عورت کو ان جمہوریتوں میں ووٹ کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ 1893میں پہلی بار نیوزی لینڈ نے عورت کو ووٹ کا حق دیا۔ امریکہ میں عورت کو ووٹ دینے کا حق 1920میں دیا گیا۔ 1950میںمشرق وسطیٰ کے چند ممالک میں پہلی بار پارلیمانی نظام جمہوریت کو رائج کیا گیا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کوئی ہتھیار جمہوریت کو تباہ نہ کر سکا اور یورپ اور امریکہ جمہوریت کا گڑھ بن کر سامنے آئے۔ 1947 میں پاکستان اور بھارت نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جمہوریت سے اپنا رشتہ قائم کیا۔
یہ بات بھی انتہائی قابل توجہ ہے کہ برصغیر کے اس خطے میں جمہوریت کی جڑیں اتنی ہی قدیم ہیں جتنی کہ خود جمہوریت کی تاریخ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ جمہوریت کا نقطہ آغاز میسو پوٹیمیا کی قدیم تہذیب تھی، اسی تہذیب کے کنارے آباد ”انڈس ویلی سویلائزیشن“ ، ”وادی نائل “،”ایناطولیہ“ اور ”قدیم چین “ آج بھی اپنے بہترین اور پر شکوہ شہری تعمیرات و انتظامات کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ موہنجو ڈارو اور ہڑپہ کے قدیم آثار اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اس وقت بھی یہاں شہری حکومتوں کو نظام نافذ تھا ۔پاکستان میں 1947کے لے کر 2013تک ایک کامیاب جمہوری انتقال اقتدار نہیں ہوا تھا ۔ 2013کے بعد سے اب تک موجودہ حکومت بھی مسلسل بحرانوں کی زد میں ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور سیکورٹی کے گھمبیر مسائل نے اسے ایک فلاحی ریاست کی بجائے دفاعی ریاست بنا دیا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں کی سرزمین سونا اگلتی ہے۔ سرحدیں تجارتی مراکز ہیں، کراچی اور بالخصوص گوادر کی بندرگاہ پر پوری دنیا کی نظریں ہیں،دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ جہاں دنیا کے وسیع ترین گلیشیر اور بلند ترین چوٹیاں ہیں۔ وہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ملک جہاں لوگوں کو بجلی مفت دی جا سکتی تھی وہاں لوڈ شیڈنگ کا عذاب کیوں ہے۔ اسکی معیشت مضبوط ترین ہو سکتی تھی مگر زمینیں کیوں بنجر ہونے لگی ہیں؟قدرت کی بے پایاں نعمتوں سے لدے اس ملک پر ہر چیز کی کمیابی کا عذاب کیوں مسلط ہے؟ جسے اعلیٰ معیشت کی حامل ریاست ہونا چاہیے تھا وہاں لوگوں کا معیار زندگی اس قدر پست کیوں ہے۔ پاکستان کے ظاہری حالات اس کی حقیقت سے میل نہیں کھاتے۔ مذہبی بنیاد پرستی، مسلکی و لسانی تضادات و فسادات، سیاسی عدم استحکام، اداروں کی کمزوری اور کرپشن کے باعث اس سے ایتھوپیا اور سوری ہونا چاہیے تھا مگر اس کی معاشی استعداد اس قدر غیر معمولی ہے کہ نا گفتہ بے حالات کے باوجود اسکی معیشت کی سانس اب بھی چل رہی ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود 1947سے اب تک پاکستان نے اپنی معاشی گروتھ برقرار رکھی ہوئی ہے۔
بھارت کے برعکس پاکستان میں کمزور اداروں اور سیاسی جماعتوں کے باعث جمہوریت پنپ نہ سکی۔ شائقین کی دلچسپی کے لیے کی گئی میری تحقیق کے مطابق09-08-2015تک کی پاکستانی کی قومی زندگی کے 24,965دنوں میں سے محض 9,886دن جمہوری حکومتوں کا دور رہا۔ باقی تمام عرصہ آمریت، آمریت نما جمہوریت اور نگران ادوار میں گزر گیا۔ جمہوریت کے نزدیک آزادی کا مفہوم فرد واحد کی آزادی ہے ۔ اور یہ آزادی اسے یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے خاص طور پر جب وہ اس کی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہو رہے ہوں۔ اور ہمیں اس مقصد کے لیے افراد کی کثرت رائے کا احترام کرنا ہو گا۔ ضروری نہیں کہ اس کے لیے افراد میں ”عالم “ ”امیر“ ”دانا“ ”نسب“ ”قبیلہ“ اور ”خاندانی“ تفریق کی جائے اگر ہم بنی نوع انسان کی برابری پر واقعی یقین رکھتے ہیں۔ کثرت کے فیصلے کا احترام ہی اصل برابری ہے۔ اقبال ؒ نے کہا۔
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔
اقبالؒ کا تنز اپنی جگہ یقیناً جمہوریت کی واحد خامی یہی ہے کہ اس میں افراد کسی غلط نمائندے کا انتخاب کر کے نظام حکومت کو مفلوج اور مفلوک الحال کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ قصور افراد کا ہے جمہوریت کا نہیں۔ جمہوریت ہر انسان کے ووٹ کو برابر اہمیت دیتی ہے۔ کیا مشاورت کے اسلامی اصول و نظریے کے تحت ( جہاں ایک سے زیادہ افراد کے آپس میں مشورے کو فیصلے کی بنیاد بنانا بہتر قرار دیا گیا ہے ) افراد کے مجموعے کا درست انتخاب کا کرنا اور غلط نمائندہ چن لینا ان افراد کی کوتاہی ہے یا جمہوریت کی ؟ ایسے ہی ایک مخمصے کا حل اقبال ؒ نے ان الفاظ میں کیا۔
لوہے کی مشینوں میں نہیں کوئی خرابی مٹی کی مشینوں کی کوئی چال غلط ہے
کیا یہ بات قابل ارتداد ہے کہ نظام حکومت میں حصہ لینے کا اختیار ہر شخص کو ذات پات، تعلیم، دولت، رنگ و نسل، قبیلہ و نسب اور خاندان سے بالا تر ہو کر ہونا چاہیے۔ کیا معاشرے کے چند افراد کو صرف اس بنا پر دوسروں کی زندگی کے فیصلے کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ قدرتی طور پر یا اپنی کوشش سے بعض معاملات میں دوسروں پر بازی لے گئے ہیں؟ یقینا ہر گز نہیں۔ جمہوریت کو برا نظام حکومت کہنے کی بجائے اگر افراد کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے تو زیادہ بہتر نتائج اسی طرح برآمد ہو سکتے ہیں جیسا کہ دنیا کے ان ملکوں میں ہیں جہاں افراد ووٹ دیتے وقت ووٹ کی اہمیت اور تقدس کا خیال رکھتے ہیں۔ ہاں مگر ان ملکوں میں ووٹ کا تقدس دھاندلی کے ذریعے پامال نہیں کیا جاتا اور الیکشن کے عمل کو اس حد تک شفاف بنا دیا گیا ہے کہ افراد ووٹ دیتے وقت یہ جانتے ہیں کہ ان کا ووٹ نتائج پر اثر انداز ہونے کی پوری طاقت رکھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی یوم جمہوریت مناتے وقت جمہوریت کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچانے کی مخلص سعی کی جائے۔
…………………………………………………………………………………………………………………………..
سائیڈ سٹوری 1۔
آج دنیا کے بیشتر ممالک جمہوری ہیں۔ لیکن دنیا میںمطلق العنانی کا شکار ملکوں میں آذربائیجان ، بحرین، بیلاروس، کیوبا، قازقستان، شمالی کوریا، قطر ، سعودی عرب، سوازی لینڈ، شام، ترکمانستان، عرب امارات، ویتنام اور ازبکستان شامل ہیں۔
سائیڈ سٹوری 2۔
دنیا کے ہر تین میں سے ایک انسان آمریت کا شکار ملکوں میں رہتا ہے۔ آج براعظم افریقہ کے تمام ملکوں میں حکومتی سربراہان کو بُلٹ کی بجائے بیلٹ کے ذریعے حکومت میں لایا اور ہٹایا جاتا ہے۔ 1960-1970کے درمیانی عشرے میں 75فیصد کے قریب افریقی راہنماﺅں کو حکومت سے تشدد آمیز طریقوں سے ہٹایا جاتا تھا۔
سائیڈ سٹوری 3۔
تیل پیدا کرنے والے عرب ملکوں کے سوا دنیا کے زیادہ تر امیر ترین ملک جمہوریت ہیں۔ دنیا کے 25 امیر ترینملک جمہوری نظام کے حامل ہیں۔
سائیڈ سٹوری 4۔
دنیا میں زیادہ تر جمہوریتیں ناقص جمہوریتیں ہیں۔ صرف پندرہ فیصد جمہوریتوں کو مکمل جمہوریت کہا جا سکتا ہے۔ 31فیصد ممالک میں مطلق العنانی ہے۔
سائیڈ سٹوری 5۔
1997سے لے کر اب تک دنیا بھر کی پارلیمنٹس میں منتخب ہونے والی عورتوں کی تعداددوگنا ہو چکی ہے۔ گو کہ ابھی تک یہ مردوں کے مقابلے میں صرف 21فیصد ہے۔ روانڈا، انڈورا، کیوبا، سویڈن، سیشلز، سینیگال، فن لینڈ، جنوبی افریقہ، نکاراگوا اور آئس لینڈ دنیا کے وہ ملک ہیں جہاں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
سائیڈ سٹوری 6۔
الیکشنز کا مہنگا اور جدید ترین ہونا بہتر جمہوریت کی نشانی نہیں۔ کینیا کے2007کے انتخابات میںکاسٹ ہونے والے ایک ووٹ پر 13.74امریکی ڈالر (تقریباً 1400پاکستانی روپے( خرچ آیا جبکہ گھانا میں 2008میں ہونے والے انتخابات میں ایک ووٹ پر خرچ 0.74امریکی ڈالر (تقریباً 70پاکستانی روپے ) آیا۔ اور گھانا کا جمہوری نظام کینیا کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔