پاکستان اور بھارت کے تعلقات کئی تاریخی اور سیاسی واقعات کی وجہ سے ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بنیاد 1947میںبرطانوی ہندوستان کی دو مملکتوں میں تقسیم سے رکھی گئی۔ سب سے بڑی وجہ تنازعہ ریاست کشمیر رہی جس پر دونوں ملک اپنا حق جتاتے ہیں۔ نتیجتاً دونو ں جنوبی ایشیائی ممالک جن کی زبان، ثقافت، جغرافیہ اورمعیشت تقریباً مشترکہ ہے کے تعلقات معاندانہ اور شک آلود رہے ہیں۔برطانوی ہندوستان کی تقسیم سے 12.5ملین لوگ بے گھر ہوئے ۔قریباً 10لاکھ انسانوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ بھارت نے ہندو آبادی کی اکثریت کے ساتھ ایک سیکولر ریاست ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ پاکستان نے مسلم آبادی کی اکثریت کے ساتھ ایک مسلم ریاست ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ اس کا آئین دوسرے مذاہب کو مکمل آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ہی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے لیکن بہت سے جغرافیائی جھگڑوں اور فسادات کی وجہ سے یہ تعقات کشیدہ ہی رہے۔ آزادی سے اب تک دونوں ملکوں نے اب تک تین بڑی جنگیں لڑی ہیں۔
1980کے سیاچن تنازعہ، 1989میں کشمیر کی تحریک آزادی میں تیزی، 1998کے ایٹمی دھماکوں اور 1999کی کارگل جنگ کے بعد ان تعلقات کی بحالی کے لیے دونوں ملکوں اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے کئی سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ جن میں شملہ معاہدہ، آگرہ سمٹ اور لاہور سمٹ سر فہرست ہیں۔ 2003کا فائر بندی معاہدہ اور دہلی ۔لاہور بس سروس اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ لیکن 2001میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے سے دونوں ملکوں کی فوجیں ایک بار پھر جنگ کے دھانے پر آکھڑی ہوئیں۔ 2007میں سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں جن کے نتیجے میں 68سویلین جاں بحق ہوئے (جن میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی) بھی ان تعلقات کی ابتری میں سنگ میل ثابت ہوا۔ اور پھر 2008کے بمبئی دھماکوں نے پاک بھارت تعلقات کو نفرتوں اور بد اعتمادیوں کے تابوت میں بند کر دیا۔
2010سے ایک بار پھر دونوں مملکتوں کے درمیان بات چیت کی راہیں ہموار کرنے کی کو ششیں جاری ہیں۔ خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان
©”باہمی طور پرکاروباری مارکیٹ تک غیر امتیازی رسائی “ کے حوالے سے آزادانہ تجارتی معاہدے کو شروع کرنے کے لئے کئی کوششیں ہو چکی ہیں۔ 2015کے اواخر میں دونوں ممالک کے سیکرٹری خارجہ اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرز کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنی حلف برداری کی تقریب پر مدعو کر کے تعلقات میں تلخیوں کو ایک حد تک کم کیا۔ اسی تسلسل میں نومبر 2015میں نئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعظم نواز شریف نے جامع مذاکرات کی دوبارہ بحالی پر اتفاق کیا۔ ایک ماہ بعد ہی بھارتی وزیر اعظم نے افغانستان کے دورے سے واپسی پر پاکستان میں مختصر قیام کیا جس نے سیاسی پنڈتوں اور فارن پالیسی ماہرین کو حیران کر کے رکھ دیا۔
ابھی تو وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات کے خوشگوار اثرات مدہم بھی نہ ہونے پائے تھے کہ دہشت گردوں نے پاک بھارت دوستی کے چڑھتے سورج کو گہنا دیا۔ دہشت گردوں نے بھارت کی پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملہ کر دیا۔سیکیورٹی اہلکاروں کی مزاحمت سے دہشت گرد اگرچہ اپنا حتمی ٹارگٹ تو حاصل نہ کر سکے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان جنم لینے والی دوستی میں دراڑ ڈالنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئے۔ پاکستان اور بھارت کے موجودہ مذاکرات کی ابتدا تو مارچ 2011میں ہوئی لیکن اس کی جڑیں جنوری 2004سے جڑی ہیں جب اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے12ہویں سارک کانفرنس کے موقع پر کارگل کے بعد ایک بار پھر سے مذاکرات کو شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 18دسمبر2003کو صدر مشرف نے پاکستان کے کشمیر پر موقف میں واضح تبدیلی کا اشارہ دیااور کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں سے باہر نکل کر کشمیر کے ہر قابل عمل حل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ جس کے جواب میں بھارتی وزیر اعظم نے بھی کشمیر کو ایک متنازعہ مسلئہ تسلیم کرتے ہوئے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر جامع مذاکرات کرنے کا اعلان کیا۔ اسی تسلسل میں انہوں نے اسلام آباد میں 12ہویں سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کی اور 6جنوری 2004کو پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کیے۔
2004میں شروع ہونے والے اس مذاکراتی دور میں 8ایجنڈا آئٹمز تھے جو کہ دراصل 1997کے شریف دور میں خارجہ سیکرٹریز ملاقات میں طے کئے گئے تھے۔ 1972ء کے شملہ معا یدے کے بعد لاہور اعلامیہ پاکستان اور بھارت کے مابین طے پانے والا پہلا نہایت اہم سیاسی معاہدہ تصور کیا جاتا ہے۔ شملہ معاہدہ 1971ء کی جنگ کے بعد طے کیا گیا تھا جبکہ اعلامیہ لاہور دراصل شملہ معاہدے کی رو سے ان خطرناک عوامل اور حالات سے نمٹنا تھا جو کہ مئی 1998ءمیں ہوئے ایٹمی دھماکوں کے بعد دونوں ممالک میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کی صورت میں پیدا ہو سکتے تھے۔ مئی 1998ءمیں اس وقت حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جب بھارت نے پوکھران کے مقام پر 11 اور 13 مئی 1998ءکو کئی ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کیے اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کی فہرست میں جا کھڑا ہوا، بھارت کے ان تجربات کے جواب میں پاکستان نے بھی 28 مئی 1998کو چھ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات چاغی کے مقام پر کیے۔ پاکستان کے جوابی دھماکوں کی وجہ سے خطے کے حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور یہاں ایٹمی خطرات بڑھ گئے، ساتھ میں ہی خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی۔
23 ستمبر 1998ئکو دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کی بنیاد پر خطے میں امن اور سیکورٹی کے حالات کو بہتر بنانا اور باہمی مسائل کا حل تلاش کرنا تھا۔ یہی معاہدہ دراصل لاہور اعلامیہ کا سبب بھی بنا۔ 19 فروری 1999ء کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا اور دہلی سے لاہور تک دوستی کی بس سروس پر سفر کرتے ہوئے لاہور کے تاریخی شہر میں قیام کیا۔ بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ اعلٰی بھارتی حکام کے ساتھ ساتھ کئی بھارتی شخصیات جیسے دیو آنند، ستیش گجرال، جاوید اختر، کلدیپ نئیر، کپل دیو، شتروگان شینا اور ملکا ساراباہی نے بھی سفر کیا۔بھارتی وفد جس کی سربراہی وزیر اعظم کر رہے تھے کا لاہور میں فقید المثال استقبال کیا گیا اور واہگہ کی سرحد پر پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے خود استقبال کیا۔ اس دورے میں لاہور کے مقام پر تاریخی مذاکرات اور ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کو پوری دنیا میں نہایت گرمجوشی سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ دنیا بھر میں اس موقع کو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اور امن کے عمل میں نہایت اہم پیشرفت سمجھا گیا اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ موقع پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں اہم ترین اور خوشگوار ترین تھا۔
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ملاقات کرنے میں تقریباً 14 ماہ لگائے۔روسی شہر اوفا میں دونوں رہنماو
¿ں کی ملاقات کے بعد تعلقات میں بہتری کی امیدیں ایک بار پھر پیدا ہوئیں۔ماضی میں ایسے کئی مواقع آئے جب دونوں ہسمایوں نے اپنے رشتوں کو مضبوط کرنے کے عہد کیے لیکن یہ کبھی وفا نہیں ہو سکے۔ ان میں پہلے کشمیر کے تنازعے کی وجہ سے معاملات خراب ہونے کا تاثر ملتا تھا پھر بات دہشت گردی کے مسئلے پر آ کر رک جاتی۔ہم وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد تعلقات میں بہتری کی کوششوں اور تلخیوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
2013 عام انتخابات میں وزیراعظم نواز شریف نے ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بھارت سے تعلقات کو بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ بھارت میں 2014 کے انتخابات میں نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا اور دونوں رہنماو
¿ں کی دہلی میں ملاقات ہوئی۔وزیراعظم مودی کی تقریب حلف برد ا ری میں وزیراعظم نواز شریک ہوئے اور دونوں کی 27 مئی کو ملاقات ہوئی جس میں مودی نے دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کیا تو نواز شریف نے محاذ آرائی چھوڑنے پر اصرار کیا تھا۔اس ملاقات میں دونوں رہنماو
¿ں نے سیکریٹری خارجہ سطح پر رابطے قائم رکھنے پر اتفاق کیا اور اس کے علاوہ بات آگے نہیں بڑھ سکی بلکہ دو ماہ بعد ہی اس سے بھی پیچھے چلی گئی جب 12 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے دورے کے دوران پاکستان پر در پردہ جنگ کا الزام اس وقت عائد کیا جب دونوں رہنماو
¿ں کے درمیان خطوط اور تحائف کے تبادلوں کے برعکس لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باو
¿نڈری پر دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ ایک وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو چکا تھا۔
اس کے بعد 18 اگست کو بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماو
¿ں سے ملاقات کی تو اس کے ردعمل میں بھارت نے 25 اگست سے سیکریٹری سطح کے مجوزہ مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی دوران پاکستان میں عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد میں دھرنوں کا آغاز ہو چکا تھا جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی حکومت اندرونی دباو
¿ کا شکار ہوئی اور بات جنرل راحیل شریف سے مدد مانگنے تک جا پہنچی۔ ان حالات میں دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے دوبارہ شروع ہونے کے امکانات مزید معدوم ہو گئے البتہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں شدید بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر وزیراعظم مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو خط ضرور لکھا اور مدد کی پیشکش بھی کی۔
اسی ماہ 27 ستمبر کو ملک میں سیاسی عدم استحکام سے دوچار وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر کے تنازعے پر کھل کی بات کی اور بھارت کی امن کی کوشش میں سنجیدہ نہ ہونے پر تنقید کی جبکہ بھارتی وزیراعظم مودی نے کہا کہ پاکستان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں تاہم پاکستان کو اس کے لیے تشدد سے پاک ماحول مہیا کرنا ہو گا۔ دونوں رہنماو
¿ں کے درمیان نیویارک میں اس موقعے پر ملاقات نہیں ہو سکی۔اس کے بعد دونوں رہنماو
¿ں کے درمیان باضابط ملاقات کا موقع نومبر نیپال کے دارالحکومت کٹ ھ منڈو میں سارک کانفرنس کے دوران آیا لیکن اس اجلاس سے پہلے پاکستان نے کشمیر کے مسئلے پر اپنے موقف میں سختی لائے اور دونوں رہنماو
¿ں کے درمیان بات مصافحے اور چند جملوں کے تبادلے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
اس سے آگے ہی ماہ دسمبر میں پاکستان کے شہر پشاور میں فوجی سکول پر طالبان کے حملے میں بچوں سمیت 140 سے زائد افرادشہید ہو گئے اور اس کے بعد ملک کی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ عمران خان نے اپنے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا تو اس ساتھ میں ملک میں شدت پسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان سامنے آیا اور قومی معاملات میں فوج کے کردار میں مزید اضافہ ہوا۔اس واقعے کی بھارتی وزیراعظم مودی نے مذمت کی اور فروری میں انھوں نے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات بھی کی اور اسی کے نتیجے میں ایک پیش رفت اس وقت ہوئی جب مارچ کے پہلے ہفتے میں بھارتی سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اسلام آباد کا دو روزہ دورہ کیا اور کہا کہ سرحدوں پر امن قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔اس دورے کو پیش رفت کہا گیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ سے کشیدہ ہوتے چلے گئے جس میں اپریل میں پاکستان نے پہلے ممبئی حملہ کیس میں گرفتار ذکی الرحمان لکھوی کو رہا کر دیا اور اس پر بھارت نے احتجاج کیا اور معاملے کو سکیورٹی کونسل میں اٹھانے کا اعلان کر دیا اور پاکستان نے مئی میں سفارتی سطح پر بھارتی اینٹیلجنس ایجنسی ’را‘ پر الزام عائد کیا کہ یہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان سیکریٹری خارجہ سطح پر مذاکرات کے بعد الزام تراشیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب 20 اپریل کو پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری سے متعلق معاہدے طے پائے اور کراچی میں بلوچستان میں جاری شورش سے متعلق کراچی میں ایک سیمینار کے بعد سماجی کارکن سبین محمود کا قتل ہوا۔ پانچ مئی کو بّری فوج کے کور کمانڈروں کے اجلاس میں پہلی بار فوج کی جانب سے کھلے عام بھارتی خفیہ ایجنسی را کی ملکی معاملات میں مداخلت کا تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں را کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
ان الزامات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی امیدیں دم توڑ گئیں اور اگلے ماہ جون میں بنگلہ دیش کے دورے پر گئے ہوئے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس بیان نے، کہ بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی، پاکستان میں ایک طوفان برپا ہو گیا اور مودی کے خلاف قومی اسمبلی میں قراداد منظور کی گئی اور بھارتی وزیراعظم کے بنگلہ دیش سے متعلق بیان کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان بھی کیا گیا۔اس سے پہلے بھارتی وزیراعظم چین کے دورے پر گئے تھے اور انھوں نے پاک چین اقتصادی راہداری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ وزیراعطم نواز شریف کے مطابق چین نے بھارتی تحفظات کو مسترد کر دیا تھا۔ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا ہوا ہی نہیں تھا کہ بھارتی وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات وردھن سنگھ راٹھور نے برمی سرحد کے اندر بھارتی فوج کی کارروائی کو پاکستان سمیت ان دوسرے ممالک کے لیے ایک پیغام قرار دیا جہاں بھارت مخالف شدت پسند نظریات والے لوگ بستے ہیں۔
بھارتی وزیرِ مملکت کے بیان کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور اس کسی بھی ممکنہ جارحیت کی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں بھی کی گئیں۔ جون میں ہی امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کم کرنے کے لیے اعلیٰ سطح پر کوششیں شروع کی اور امریکی وزیر خارجہ نے صورت حال پر وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کی اور اس کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات کی اور ماہِ رمضان کے آغاز کی مبارکباد دی اور اس سے برف تھوڑی پگھلی۔اسی دوران پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی بھارت سے مالی و عسکری تعلقات کے خبریں نمایاں رہیں اور اس کے ساتھ پاکستان کی افغانستان میں قیامِ امن کے لیے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی خبروں کا تذکرہ رہا۔
اس کے بعد جولائی میں بھارتی وزیراعظم اور وزیراعطم نواز شریف کی روسی شہر اوفا میں ملاقات ہوئی ۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جب بھی کشیدگی میں کمی کا امکان پیدا ہوتا اور تعلقات میںبہتری کی کرن پھوٹنے لگتی ہے توانہونی ہوجاتی ہے۔پھر ایک طویل عرصے تک تعلقات پر برف کی دبیز تہہ جم جاتی ہے ۔پاکستان کیساتھ تعلقات میں بہتری کا سلسلہ پیرس میں ماحولیاتی کانفرس سے شروع ہوا،جہاں مودی اچانک نواز شریف کے قریب بیٹھ کر رازونیاز کرنے لگے اس مختصر سی ملاقات میںیہ پیشرفت ہوئی کہ چند دن بعد قومی سلامتی کے مشیر بنکاک میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔اسکے بعد وزیر خارجہ سشما سوراج ہارٹ آف ایشیا کانفرس میں شرکت کیلئے اسلام آباد آئیں تو ان کا رویہ مثبت اور لب ولہجہ دھیما تھا۔مودی افغانستان سے واپسی پرپاکستان ر
±کے ،نواز شریف کو سالگرہ پر مبارک باد دی ، انکی نواسی کی شادی میں شرکت کی اور میاں نواز شریف کی والدہ کے قدموں کو چھو کراپنی والدہ جیسا احترام دیا تو اس سے دو خاندانوں کیساتھ ساتھ دو ممالک کے مابین بھی خیر سگالی کی فضاہموار ہوئی۔سیکرٹری سطح کے مذاکرات کے طے ہوئے اور دس نکاتی ایجنڈے پر پیشرفت جاری تھی کی پٹھان کوٹ کا وقوعہ ہوگیا۔ بھارتی پنجاب میں پاکستان کی سرحد کے قریب پٹھانکوٹ ائرفورس بیس کو دہشتگردوں نے نشانہ بنایا۔اس حملے اور بھارتی فورسز کے اپریشن کے دوران میں ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت7 فوجی اور 5 حملہ آور مارے گئے۔ بھارت کی جانب سے پٹھان کوٹ حملے کا الزام کالعدم جیش محمد اور اس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر عائد کیا گیا تھا اور مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ پاکستان ان کے خلاف کاروائی کرے۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے گوجرانوالہ میں پٹھان کوٹ واقعے کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 324 اور 109 جبکہ انسداد دہشت گردی کی دفعات سات اور 21 شامل کی گئی ہیں۔ مقدمے کی ایف آئی آر میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کی جانب سے دی گئی معلومات کا حوالہ دیا گیا ہے ۔وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے گا، اور یہ معلوم کیا جائے گا کہ کون لوگ ہیں جو ملک کو مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیںیا وہ پاکستان سے ہیں بھی یا نہیں۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی شکوک و شبہات سے بالاتر ہو کر اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ایٹمی ہمسائے مثبت سوچ اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے تاکہ دنیا کے اس ترقی پزیر خطے میںعوام الناس کی ابتر حالت، غربت اور پسماندگی پر توجہ دی جا سکے۔