
یونیفارم: ہیلمٹ : سفید
شرٹ : سرخ،نیلا وکالا چیک دار اَپر
ٹراﺅزر: بلیک، سرخ، سفید چیک
قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان کے وہ ادارے ہیں جن کو آئین پاکستان نے حق دیا ہے کہ وہ پاکستان کے سرزمین پہ قانون کا نفاذ کریں۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔فوجی اداروں میں پاک فوج،پاک فضائیہ اور پاک بحریہ شامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں،قدرتی آفات میں متاثرین کی امداداور بحالی میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی اداروں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرز شامل ہیں۔پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسلئے اس ادارے کے مزید دو شاخیں بنائی گئی ہیں
یعنی پنجاب رینجرز اور سندھ رینجرز۔اسی طرح سرحد کور اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹیبلری اور بلوچستان کانسٹیبلری۔ اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میں خیبر پختونخوا پولیس،پنجاب پولیس،سندھ پولیس،بلوچستان پولیس،آزاد کشمیر پولیس اور گلگت بلتستان پولیس شامل ہیں۔
پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنای گئی ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے،اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سرانجام دینا ہے اسی طرح موٹروے پولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔ تحقیقات کیلئے وفاقی ادارہ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ خفیہ ادارئے، ملک کے بیرون اور اندرون خطرات سے نمٹنے کیلئے 26 خفیہ ایجنسیوں (جیسے آئی ایس آئی آئی بی،وغیرہ) موجود ہیں۔اتنی ”زیادہ فورسز“ اور ان کی” ذیلی شاخوں“ کے ہوتے ہوئے بھی پاکستانیوں کو کسی ”فکر پریشانی“ میں مبتلاہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے مگر پھر بھی یہ قوم” ناشکری“ کرتے ہوئے ہر وقت شکائت کندہ رہتی ہے اور ملک کو سیکورٹی سٹیٹ تک کہ دیا جاتا ہے۔
پولیس کسی بھی ملک کے نظام انصاف میں ریڑھ کی ہڈی اور وہ بنیادی اینٹ ہے جس کے ٹھیک ہونے سے انصاف کی عمارت کی آبرو قائم رہ سکتی ہے۔ مگرکہا یہ جاتا ہے کہ یہ کالونیل دور کی نشانی ہے یا اسی طرح کے کئی مفروضے ہیں جس میں انگریز سرکار کو برا بھلابھی کہنے کے ساتھ اس نے اپنے اقتدار کوطول دینے اور مظبوط بنانے میں پولیس فورس کا استعمال کیا۔ ان مفروضوں کو سچ مان بھی لیا جائے تب بھی انگریز دور کی پولیس کے قصے جو ہم تک پہنچے ہیں اور جو کچھ اس وقت کی پولیس کے بارے پڑھا ہے۔
کہ اس وقت کی پولیس اپنے فرائض انتہائی ایمانداری اور ذمہ داری سے ادا کرتی تھی جرم کسی نوعیت کا بھی ہو اس کی مکمل جانکاری نوعیت اور وجوہات کا کھوج لگائے بغیر کوئی کیس داخل دفتر نہیں کیا جاتا تھا۔ مجرم کوانصاف کے کٹہرئے میں لانے کے لئے ہر طرح کے وسائل اور صلاحیتیں استعمال کی جاتی تھیں۔ پولیس شہریوں کی ہمائتی ، مظلوم کی پشت بان، مجرموںاور بدماشوں کے لئے خوف کی علامت تھی ایک سپاہی پورئے علاقے کے لئے کافی ہوا کرتاتھا جس کی عزت و تکریم تھی ، کیا ایسا اب ممکن ہے؟
تھانہ کلچر بدلتے بدلتے میاں بردران کو چھتیس برس ہونے کو آئے ہیں جس کی لئے انہوں نے پولیس فورس میں کئی طرح کے نئے یونٹ متعارف کرائے نئی فورس تشکل دیں عمارتوں سے لیکر جدید ترین گاڑیوں تک مہیا کی گئیں تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا مگر ”پرنالہ“ وہیں کا وہیں رہا۔ اس کا ایک ہی سبب ہے کہ مرض کا اعلاج بنا تشخیص کے کیا جارہا ہے جو طب کے عالمی اصولوں کے خلاف ہے یعنی آپ مرض کی تشخیص کئے بنا اس کا اعلاج شروع کر دیں۔ جس کی کچھ عرصہ پیشتر آرمی چیف نے نشان دہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کو غیرسیاسی اور بااختیار بنایا جائے اور اعلیٰ پولیس افسران کے تبادلے ایپکس کمیٹی کے ذریعے کیے جائیں۔
گزشتہ سالوں میں پولیس گشت کے لیے مختلف ماڈلز اپنانے اور بعد میں انہیں چلانے میں ناکامیوں کے بعد اب لاہور پولیس میں سٹریٹ کرائمز کا مقابلہ کرنے کے لیے استنبول پولیس کے ڈالفن ماڈل کا اضافہ کیا گیا ہے۔کچھ عرصہ پیشتر ترکش پولیس نے اس نئے نظام کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سامنے پیش کیا تھا۔ نئی ایلیٹ سیکیورٹی یونٹ ڈالفن فورس کا آئیڈیا اور نام ترکی کے ایک خصوصی یونٹ سے مستعار لیا گیا ہے، جس سے وزیر اعلی پنجاب انتہائی متاثر تھے۔ایک طرف جہاں شہباز شریف اس فورس کو متعارف کرانے میں انتہائی سنجیدہ تھے وہیں اعلیٰ پولیس افسران نے اس نئے یونٹ کو شبہات کی نظر سے دیکھا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ماضی کے خصوصی یونٹس کی طرح اس کا بھی انجام صرف شرمندگی ہو گا۔ خدشات کا اظہار ڈالفن فورس کی ممکنہ ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اس پر اٹھنے والے کثیر اخراجات پر کیا جارہا ہے۔
والٹن روڈ لاہور پر ڈالفن پولیس لائینز کی تعمیر ” کی مجموعی طور پر 33 کروڑ 10 لاکھ روپے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ جبکہ یونٹ کیلئے اب تک 35 ہنڈا سی بی 1250سی سی موٹر سائیکلیں خریدیں جا چکی ہیں اور ہر موٹر سائیکل کی قیمت پندرہ لاکھ روپے ہے۔نئی فورس کیلئے اخراجات کی فہرست یہیں مکمل نہیں ہوتی کیونکہ ایک منصوبے کے تحت فورس کے ہر اہلکار کیلئے پچاس ہزار روپے مالیت کی وردی خریدنے پر غور ہو رہا ہے۔ اس وردی میں کیمرے کے ساتھ ساتھ اہلکار کی نقل و حرکت دیکھنے کیلئے خصوصی چپ بھی نصب ہو گی ۔
اس کے علاوہ ماضی میں قائم ہونے والے پیٹرولنگ یونٹس کے مقابلے میں ڈالفن فورس کی مینٹیننس اور ریپئرنگ اخراجات زیادہ ہوں گے۔ پولیس کے امور پر گہری نگا رکھنے والوں کے خیال میں تھوڑے عرصے میں ہی ”ڈالفن فورس“ اور اس کے ساز وسامان کیلئے فنڈز ختم ہو جائیں گے اور آخر کار اسے جرائم کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے وی آئی پی شخصیات کی حفاظت کیلئے تعینات کر دیا جائے گا (جس طرح ایلٹ فورس کو کیا گیا تھا)۔ یہ بات درست ہے کہ سٹریٹ کرائمز میں ملوث مجرموں کا پیچھا اور گرفتار کرنے کیلئے یونٹ کے پاس اس طرح کی طاقت ور موٹر سائیکلیں ہونا ضروری ہے لیکن گلیوں، محلوں اور پر ہجوم سڑکوں جہاں گاڑیاں چلتی نہیں رینگتی ہیں پر یہ موٹر سائکلیں کیسے چلیں گی کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
محکمے میں جہاں اس نئی فورس کی کارکردی پر امید باندھی جارہی ہے وہیں مایوسی بھی نظر آرہی ہے جس کی وجہ 2007میں شروع کی جانے والی محافظ فورس کی مختلف وجوہات کی بنا پر ناکامی کو کہا جارہا ہے۔
چلیں کچھ دن لاہور کے شہریوں کو نئی وردی اور ہیوی بائک جو صرف ”ہالی وڈ “کی فلموں میں نظرآتی ہیں پر سوار پولیس کے چاک و چوبند اہلکار” پولیس کلچر“ میں تبدیلی کااستعارہ بنے نظر آئیں گے۔
تاہم، اسی طرح کی دوسری ایلیٹ یونٹس ’محافظ فورس‘ اور ’ کوئیک رسپانس فورس‘ قائم ہونے کے کچھ عرصے میں ہی 125سی سی موٹر سائیکلوں کی مینٹیننس کیلئے فنڈز ختم ہونے کی وجہ سے بیکار ہو گئیں۔ان یونٹس کے زیادہ تر اہلکار روزمرہ کے ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے اپنی سواری استعمال کرنے پر مجبور ہوئے اور انہیں اس کام کیلئے روزانہ 1.5 لیٹر فیول آلاو
¿نس دیا جانے لگا۔ کچھ واقفان حال کا کہنا ہے کہ نئی ایلیٹ فورس پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے اسے موجودہ فورسز کی بہتری کیلئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ فی الحال پولیس حلقوں میں ڈولفن فورس کی کامیابی کے حوالے سے تھوڑی امید ہی پائی جاتی ہے۔محکمہ داخلہ پنجاب اسی ماہ میں ابتدائی طور پر 700 اہلکاروں کو ڈولفن فورس میں فعال کریگا۔ اس سلسلے میں ڈولفن فورس کا کنٹرول روم قائم کردیا گیا ہے۔ان اہلکاروں کو 4 ترک اور اعلیٰ تربیت یافتہ پاکستانی تربیت دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ڈولفن فورس کیلئے ہیوی بائیکس کی دوسری کھیپ لاہور پولیس کے حوالے کر دی گئی۔ دوسری کھیپ میں ایک سو اٹھائیس ہیوی بائیکس ایم ٹی ورکشاپ پہنچا دی گئی ہیں۔ فورس اگلے ماہ میں اپنے فرائض انجام دینا شروع کر دےگی۔ ڈولفن فورس کیلئے پہلے مرحلے میں لاہور پولیس کو پینتیس ہیوی بائیکس فراہم کی گئی تھیں جن پر ڈولفن فورس کے جوان تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس میں موجود عملے کو ابتدا ئی طبی امداد کے لیے بھی سا ما ن فرا ہم کیا گیا۔انھیں تصاویر بنا نے کے لیے جدید کیمر ے بھی دیے گئے۔ان کے پا س ہنگا می صورت حا ل سے نمٹنے کے لیے الاو ڈ سپیکر اور جدید اسلحہ بھی ہے۔ ذرائع کے مطا بق اگر چہ یہ فورس پنجاب حکومت کا ایک اچھا منصوبہ ہے مگر افسو س نا ک امر یہ کہ جن علاقوں میں اس فورس کو میدان میں اتارا گیا ہے وہاں ابھی تک جرائم کی شرح میں کمی واقع نہیں ہو سکی۔ اس سے پہلے پنجاب حکومت نے اورنج لائن منصوبے کےلئے پولیس کے بجٹ میں ستاسی کروڑ روپے کی کمی کر دی تھیجس وجہ سے پولیس کا ڈولفن سکواڈ کی تشکیل تاخیر کا شکار ہوا ‘ ترکش پولیس کی طرز کے سکواڈ کےلئے ایک ارب اڑسٹھ کروڑ 75 لاکھ مختص تھے۔منصوبے کے مطابق اس فورس کے لیے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے 73 سب انسپکٹرز، 2416 کانسٹیبلز، 60 ڈرائیورز اور 282 دیگرسٹاف بھی بھرتی کیا جانا تھا۔ جو فنڈز کی کمی کی وجہ سے اب تک نہیں ہو سکا۔ لیکن خوشخبری یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے ڈولفن فورس کے 3 پولیس سٹیشنز کے قیام کے لئے سپلیمنٹری گرانٹ منظور کرلی ہے ۔ اب 10کروڑ روپے سے والٹن اور 10کروڑ سے سبزازار اور ٹاﺅن شپ میں پولیس اسٹیشن بنیں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے وقت میں موٹر وے پولیس کی طرح یہ فورس بھی محکمہ پولیس کے لیے نیک نامی کا باعث بنے گی۔