pin up casinomostbet1winpin up

یونان کے بیرونی قرضہ جات سورس : یورو سٹیٹ

ٹائم لائن

جنوری2001: یونان یورو زون کا ممبر بنا۔
اکتوبر 2009: یونانی وزیر اعظم جارج پاپنڈرو نے اعلان کیا کہ امسال یونان کا بجٹ خسارہ توقعات سے دوگنایعنی جی۔ڈی۔پی کا (15%)رہا ہے۔
جنوری 2010: تین اہم ترین عالمی ریٹنگ ایجنسیز ”فچ“، ”سٹینڈرڈ اینڈ پورز“اور”موڈیز“ نے یونان کی عالمی معاشی ریٹنگ کو پست کر دیا۔
مارچ2010:گرتی ہوئی یونانی معیشت کو دیکھتے ہوئے عالمی معاشی اداروں نے یونانی حکومت کو قرض دینے کے لیے درکار شرح سود میں اضافہ کر دیا۔
اپریل 2010:یونان کی یورو بانڈ آمدن میں 8.5فیصد کی ریکارڈ کمی دیکھی گئی۔ یونان کا بیرونی(غیر یورپی) اور اندرونی (یورپی)قرضہ 350ارب یورو (450ارب ڈالر) تک پہنچ گیا۔یونان نے یورپی یونین اور آئی۔ایم۔ایف سے امداد کی اپیل کر دی۔
مئی2010: یونان یورپی یونین کا پہلا ملک بن گیا جسے یورپی یونین اور آئی ایم ایف نے مل کر 110ارب یورو کا بیل آﺅٹ پیکج تنخواہوں اور مزدوریوں میں کمی اور ٹیکسزمیں ہوش ربا اضافے کی شرائط پر جاری کیا۔
فروری 2012: پہلا بیل آﺅٹ پیکج یونانی معیشت کو سنبھالنے میں ناکام رہا اور یورپی یونین اور آئی ایم ایف نے 130ارب ڈالر پر مشتمل دوسرا بیل آﺅٹ پیکج جاری کیا جس میں پرائیویٹ معاشی اداروں نے واجب الادا قرض کا 50فیصد تک معاف کر دیا۔
اپریل 2014:پہلے اور دوسرے بیل آﺅٹ پیکج میں موجود سخت شرائط کی وجہ سے عوامی سطح پر کساد بازاری ، عدم اعتماد اور معاشی بد انتظامی پھیل گئی۔ روزگارو آمدن کے ذرائع محدود ہوتے چلے گئے۔ صنعتوں کی ایک بہت بڑی تعداد بند ہو گئی۔ یونانی معیشت نہ سنبھل سکی اور مزید سخت شرائط سے بچنے کے لیے یونان نے آزاد مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرنا شروع کر دیے۔
جنوری 2015: آئر لینڈ کی Anti-Austerity Party ”سادگی مکاﺅ پارٹی“ جو سرمایہ دارانہ نظام کی مخالف ہے اور جس کا یہ ماننا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے عوام کا پیٹ کاٹنا اور سادگی کے درس دینا ظلم ہے سے متاثرہ یونانی ”سریزا“پارٹی نے عوام سے اس وعدے پر انتخاب جیتا کہ وہ پہلے اور دوسرے بیل آﺅٹ پیکج میں موجود سخت شرائط میں نرمی کے لیے مالیاتی اداروں سے مذاکرات کرتے ہوئے عوامی مسائل میں کمی کرے گی۔ ”الیکسز سپراز“وزیر اعظم بنے ۔
فروری 2015: ”موڈیز“ کی جائزہ رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سال میں یونانی معیشت مزید25%گر چکی ہے۔ مزدوروں کی تنخواہیں 40فیصدتک کم ہوئی ہیں اور ہنر مند افراد کا ایک چوتھائی بے روزگار ہے۔ 7.2ارب یورو کے ایمرجنسی فنڈ دینے کے لیے یورو زون اور عالمی مالیاتی ادارے عمر رسیدہ افراد کی پنشن میں اور ہنر مند افراد کی تنخواہوں میں کمی جیسی سخت شرائط سامنے لے آتے ہیں۔
جون2015:”الیکسز سپراز“ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
10جون2015: یورپی یونین اور یونان کے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں اور یورپی یونین ایمرجنسی فنڈز کی نئی قسط جاری کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ 10سے 25جون کے درمیان 11بار مذاکرات کے دور ہوئے لیکن یہ ناکام رہتے ہیں۔ یونان پر 30جون کے آئی ایم ایف ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
27جون2015: سپراز حیران کن طور پر بیل آﺅٹ پیکج کے معاملے پر فوری ریفرنڈم کا اعلان کرتے ہیں۔
28جون 2015: یونانی پارلیمنٹ نے 120کے مقابلے میں 179ووٹوں سے ریفرنڈم کی حمایت کی۔ اس کے ساتھ ہی سپراز نے اعلان کیا کہ یونانی بنک کچھ دن کے لیے بند رہیں گے اور ATMسے ایک دن میں60سے زیادہ یورو نہیں نکالے جا سکیں گے۔ بیرون ملک رقم ٹرانسفر کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔
29جون 2015: یونان میں بین الاقوامی منی ٹرانسفر پر پابندی سے کاروبار ٹھپ ہو گئے اور عوام نے غیر یقینی صورتحال میں روز کی بنیاد پر 60یورو نکالنے شروع کر دیے جس سے رہا سہابنک ڈپازٹ بھی تیزی سے گرنے لگا۔

30جون2015: یونان IMFکی شیڈول شدہ قسط کی ادائیگی میں ناکام رہا ۔

3جولائی2015: 1000کے قریب بنک برانچز کھولی گئیں جنہوں نے پنشنرز کو 120یورو فی ہفتہ کے حساب سے ادائیگی شروع کر دی۔

5جولائی 2015: یونانی عوام کی61فیصد اکثریت نے بیل آﺅٹ پیکج میں موجود سخت شرائط کو ماننے کے خلاف ووٹ دیا۔

11جولائی 2015: یونانی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے17کے مقابلے میں251ووٹوں سے بیل آﺅٹ پیکج اور اس کی شرائط کے حق میں ووٹ دیا۔

13جولائی2015: یو نان اور یورپی یونین میں 86ارب یورو کے بیل آﺅٹ پیکج پر اتفاق ہو گیا۔

16جولائی2015: یونانی پارلیمنٹ نے 64کے مقابلے میں229ووٹوں سے پنشن کٹوتی اور سخت ٹیکس شرائط کے نفاذ کا آغاز کر دیا۔ ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔

14اگست2015: جشن آزادی پاکستان کے دن یونانی پارلیمنٹ نے بیل آﺅٹ پیکج کی باقی ماندہ سخت ترین شرائط کے نفاذ کی منظوری دی۔ وزیر اعظم سپراز کی پارٹی کے43ممبران پارلیمنٹ نے ان شرائط کے خلاف ووٹ دیا۔

20اگست2015: اپنے ہی ممبران کے اس رد عمل سے پریشان”الیکسز سپراز“ نے وزارت عظمیٰ سے فوری طور پر استعفیٰ دے دیا اور 20ستمبر کو دوبارہ الیکشن کروانے کا اعلان کر دیا۔

            تاریخ دنیا کے کسی ملک اور خطے میں ایسے معاشی نظام کا پتہ نہیں دیتی جہاں مختلف ملکوں میں ایک کرنسی ہونے کے باوجود محصولات، ٹیکس ، وصولیوں، صنعتوں اور بیرونی سرمایہ کاری کی پالیسیز علیحدہ علیحدہ ہوں۔ یورو کے اجراءکے وقت ماہرین معیشت نے اس بنیادی نقطے کی طرف ضرور نشاندہی کی تھی کہ کرنسی کی اہمیت، کنڑول اور تقسیم اس وقت تک مساوی نہیں ہو سکتی جب تک حکومتیں اس کو ٹیکس اصلاحات اور ذرائع آمدن کے ساتھ ایک مربوط نظام کا حصہ نہ سمجھیں۔ یورپی یونین کے قیام میں اس بات سے صرف نظر کیا گیا اوراسی معاشی نظریے پر اکتفاکیا گیا کہ مضبوط معیشت کے حامل ممالک مقابلتاً کمزور معیشت کے ممالک کو ایمرجنسی فنڈ سے سہارا دے کر ان کی معیشت کو مستحکم بنا سکتے ہیں۔ اس یونین میں شامل ہونے والے دسویں ملک یونان نے یہ سب سراب بنا دیا۔

            غیر قانونی مہاجرین کی آباد کاری سے نبرد آزما ہوتے یونان میں سال 2015کے آغاز سے اب تک سمندری راستے سے 80ہزار سے زیادہ آباد کا ر داخل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 60فیصد سے زیادہ کا تعلق جنگ زدہ شام سے ہے۔ باقی وہ جو انسانی سمگلروں کو بھاری رقوم دے کر روشن مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں اور جن کی اکثریت دشوار گزار سمندری راستوں میں مچھلیوں کی خوراک بن جاتی ہے۔ یونان ! (جس کے جنوب میں لیبیا کا آگ و خون ہے ،شمال میں بلکنز شورش اور مشرق میں غضبناک روس) نے یورپ تک ان تمام ہنگاموں کو پہنچنے سے روک رکھا ہے۔ لیکن یونان کے حالیہ معاشی بحران نے یورپی یونین اور آئی ایم ایف کے سیاہ کردار کو آشکار کر دیا ہے۔ یورپ جو یونان کی معیشت کو گرجانے دینے پر راضی ہے وہ جغرافیائی سبق بھول چکا ہے جو سرد جنگ کے دوران روس نے اسے سکھائے تھے۔ وہ ملک جو اپنی مضبوط ترین معیشت کی وجہ سے کبھی 28ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے استحکام کی ضمانت تھا آج ایسا لگتا ہے جیسے یورپی یونین کے اختتام کی بنیاد بن رہا ہو۔ وسیع سرمایہ کاری ، کامیاب صنعت، مضبوط بنیادی ڈھانچے، یورپی یونین سے فنڈز کی وافر فراہمی، سیاحت،جہاز رانی اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے خدمات کے شعبے کی وجہ سے دہائیوں سے یونان کی معیشت کو دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک مانا جاتا تھا۔ 2001میں یورو زون میں شمولیت کے بعد سے 2008تک یونان کا جی ۔ڈی ۔پی ۔تین گنا بڑھ چکا تھا۔ 2001میں 12400ڈالر پر موجود یہ جی۔ڈی۔ پی 2008تک 31700ڈالر تک جا پہنچا تھا۔

             اسی دوران 2004میں ایتھنز اولمپکس کے موقع پر یورپی سنٹرل بنک اور یورپی کمیشن کی شہہ پر یو رپی پرائیویٹ کمپنیز اور حکومت نے بین الاقوامی تعمیراتی اداروں سے ان کھیلوں کے انعقاد اور سیاحوں کو یونان کا حیران کن اور پر اثر چہرہ پیش کرنے کے لیے پر شکوہ تعمیرات کرائیں۔ ان اداروں کو خدمات اور لوازمات کا معاوضہ دینے کی ضمانت یورپی کمیشن، سنٹرل بنک اور حکومت نے دی ۔ لیکن 2007کے آخر میں یہ انکشاف ہوا کہ یونانی معیشت کی یہ چکا چوند دراصل ان غلط اعداد و شمار پر مبنی تھی جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں، یورپی یونین اور سنٹرل بنک کے سامنے پیش کیے جاتے رہے۔ اس راز کے فاش ہوتے ہی یونان کا جی۔ڈی۔پی محض دو سال میں 20فیصد تک گر گیا۔ اور یونان کی قرضے چکانے کی طاقت محدود ہو کر رہ گئی۔

            2010میں اس معاشی بحران میں شدت کے ساتھ ہی بین الاقوامی بنکوں اور بیرونی سرمایہ کاروں نے فوری طور پر یونانی یورو بانڈ فروخت کر نا شروع کر دیے اور یونان کو اپنی معیشت پر اعتماد بچانے کے لیے ان اداروں کو بانڈز کے بدلے میں کیش ادائیگی کرنی پڑی۔ پرتگال، آئر لینڈ اور سپین بھی اس معاشی چکر میں پھنسے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو فوری طور پر یونانی اثرات سے آزاد کروا لیا۔ اور چند ماہ میں اس بحران سے نکل گئے۔

            یونان کے اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ یورپی یونین اور یورو کرنسی کو خیر باد کہنے میں مضمر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں جب یونان کی معیشت پر اعتماد کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے کو ئی بیرونی سرمایہ کار یونان میں یورو سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ۔ یورو کی بڑھتی ہوئی قدر ہچکولے کھاتی یونانی معیشت کے لیے زہر قاتل ہے کیونکہ خریداری کی سکت نہ رکھنے والے عوام اور حکومت ایک انتہائی بلند ایکسچینج ریٹ پر یورو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ امیر یونانی سرمایہ کار اپنی دولت یورپ کے دوسرے ملکوں میں رکھے بیٹھے ہیں۔ غرض یہ کہ یونان اور یورو ہم لاحقہ ہونے کے باوجود باہم متضاد ہو چکے ہیں۔یورو حا صل کرنے کے لیے یونانی معیشت یورپی سنٹرل بنک اور یورپی یونین کی سخت ترین شرائط کی دو اقساط مان چکی ہے جس سے نہ صرف بے روزگاری 26فیصد تک جا پہنچی ہے بلکہ ان بیل آﺅٹ پیکجز کا زیادہ تر حصہ انہی اداروں کے پاس قرض کی قسطوں کی ادائیگی کی صورت میں واپس جاتا رہا ہے۔ اور یونانی عوام کے حالات زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔

            ضرورت اس امر کی ہے کہ یونان فوری طور پر

©”گریکزٹ“ یا ”یورو ایگزٹ“ کا راستہ اپنائے ۔ اس راستے کو اپنانے سے نہ صرف یونان کا ”بیرونی “کرنسی پر انحصار ختم ہو گا بلکہ وہ تیزی سے باہر جاتے ہوئے سرمائے پر بھی تھانیدارانہ کنٹرول کی بجائے ایماندارانہ کنٹرول رکھ سکے گا۔ اس سے نہ صرف یونان کو ریلیف ملے گا بلکہ یورپی یونین کے ممالک بھی اس فیصلے پر اس لیے اعتراض نہیں کریں گے کہ وہ ہر گز ایک ایسا ہمسائیہ نہیں چاہیں گے جسے اپنے عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے ہر وقت اپنے ہمسایوں کی معاشی مدد کی ضرورت رہے۔ یونان کو فوری طور پریورپی یونین کے ذریعے چند معاشی آسائشوں ( قرض میں قابل ذکر معافی۔ یورپی یونین میں موجودگی۔ اور یورو زون میں چند سال میں دوبارہ داخلے )کے بدلے یورو کو خیرباد کہنا ہے۔ جلد یا بدیر لیکن بحالی کا واحد راستہ یہی ہے۔ یورو کی بجائے ”ڈریکما(سابق یونانی کرنسی)“ کو اپنانے کے لیے یونان کو ڈریکما واحد قابل قبول کرنسی (بیرونی و اندرونی) بنانی ہو گی۔ اس فیصلے سے یونان میں یورو کے بدلے ڈریکماخریدا جانے لگے گا۔ تمام موجودہ قیمتوں ، تنخواہوں، معاہدوں ، اندرونی اور بیرونی قرضوں کو ایک ایک کر کے ڈریکما میں تبدیل کرنا ہو گا۔ جس سے ان کی موجودہ مقدار میں فوری کمی آئے گی۔ مقامی لوگ ڈریکما کی وجہ سے درآمد شدہ مصنوعات کی بجائے سستی مقامی مصنوعات کو خریدنے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ سیاحت تیزی سے ترقی کرے گی اور سرمائے کی پرواز رک جائے گی۔ امیر یونانی اپنے ملک واپس آئیں گے اور رئیل سٹیٹ اور تعمیرات کو شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔ یورو کی اہمیت اور اس کی ڈیمانڈ ایک دم گر جائے گی۔ یورپی یونین سے حاصل کردہ قرضی رعائتوں کی وجہ سے فوری ادائیگیاں بند ہو جائیں گی اور دو سے تین سال کے عرصے میں یونانی معیشت استحکام کی جانب آنے لگے گی۔ افراط زر میں ضرور اضافہ ہو گا۔ لیکن یہ اس ”اقلات زر“ سے بحر حال بہتر ہو گا جس کا سامنا یونان کو آج ہے ۔ ویسے بھی پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک افراط زر کے مسلئے کے باوجود نہ صرف عالمی معاشی ریٹنگ میں Stableہیں بلکہ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کے لحاظ سے دنیا کے مقابلے میں کم ترین سطح پر ہیں۔ ا س بات کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو یورپ، امریکہ اور سعودی عرب سے ایک درجن کیلے خریدنے کے بعد انہیں پاکستان سے خرید کر پاکستان میں اشیائے خورد و نوش کے سستے ہونے کا عملی موازنہ کرے۔

            پچھلے چند سالوں کا تجزیہ کیا جائے تو یورپی یونین کا GDPسال 2013میں امریکہ کے 2.2فیصد کے مقابلے میں 1فیصد رہا۔ 2014میں یو رپی یونین کے ممالک میں بیروزگاری کی شرح اوسطاً 11.4فیصد جبکہ امریکہ میں 5.6فیصد رہی۔ یورپ جہاں 2030تک ہر چار میں سے ایک آدمی 65سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہوگا اپنی ترقی کرنے کی طاقت کو تیزی سے کھوتا جا رہا ہے۔ یعنی ایک ایسا ملک جہاں کی بڑی آبادی نوجوان اور ہنر مند افراد سے پنشن اور دوسری مراعات کی شکل میں دولت کا ایک بڑا حصہ اپنی گزر بسر کے لیے لیتی رہے گی اوریہ دولت ترقی، جدت اور تعمیر کے کاموں میں استعمال نہیں ہو پائے گی۔ یونانی تجربے کے بعد یہ دعوے تو دم توڑ گئے کہ یورپی یونین میں شامل ہونا کامیابی اور ترقی کی ضمانت ہے ۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ پورا یورپ اور آئی ایم ایف مل کر بھی ایک ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں ناکام رہے۔ ذرا سوچئے اگر اگلے چند سالوں میں اسی نوعیت کا بحران یورپ کے چند دوسرے ممالک میں آجائے تو سنٹرل یورپین بنک کی کیا حالت ہو گی۔

            ماہرین کے خیال میں”گریکزٹ“ (یونان کے یورپی یونین سے اخراج )سے یورپی یونین سے نکلنے کی ریت چل نکلے گی لیکن محض یورپی یونین کی ساکھ بچانے کے لیے 11ملین لوگوں کی زندگی کو داﺅ پر نہیں لگایا جا سکتا۔اگر یورپی یونین یونان کو کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو بھی یورپ کے باقی ممالک اور یونان کے عوام کے درمیان جو خلیج دو بیل آﺅٹ پیکجزکی ظالمانہ شرائط سے پیدا ہوئی ہے کا بھرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔ جب یو رپ کے 28ممالک مل کر بھی ایک ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں ناکام رہے ہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا یہ یورپی یونین نے معاشی استحکام و پلاننگ کے میدان میں اپنی ساکھ کھو دی ہے۔ ایسے میںجب یو رپ کا کوئی ملک اپنے مشکل میں پھنسے اس ممبر کی مدد کرنے کی بجائے اس کو قرض دینے پر بھی تیار نہیں، یونان کے لیے یورپی یونین میں رہنے سے زیادہ ضروری اپنی اور اپنے عوام کی معاشی بقا ہے۔ جب تک یورپ ایک وفاقی ریاست میں تبدیل نہیں ہو جاتا ۔جیسا کہ مستقبل میں کافی حد تک ممکن ہے اس کی کرنسی کی اہمیت کا موازنہ ڈالر سے نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ یورپ کو ”لچکدار کرنسی یونین “ کی شکل میں رہنا ہو گا۔ ایک ایسی یونین جس میں دیوالیہ پن کی صورت میں موزوں شرائط کے ساتھ آنا اور جانا ممکن ہو۔ ہمیشہ اور اٹوٹ ممبر شپ یورپی یونین کی معاشی طاقت کا امتحان ایک کے بعد ایک ملک کی صورت میں لیتی رہے گی۔ یورپی یونین کے لیے بے تحاشہ امداد ، قرضوں اور معاشی حملوں کو سہنے کی طاقت کا امتحان دینے کی بجائے یونان جیسے ممبرز کو باعزت رہائی کا راستہ دینا زیادہ مناسب رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *