بحیثیت ِ قوم ہم اپنی مسلح افواج کے شہدا کو بہت عزت دیتے ہیں، اُنھیں نشانِ حیدر، ہلالِ جرات، ستارہ¿ جرات، تمغائے جرات، ستارہ¿ بسالت، تمغائے خدمت، نشانِ امتیاز، ہلالِ امتیاز، ستارہ¿ امتیاز اور تمغائے امتیاز کے اعزازات دیتے ہیں، لیکن شہدائے پولیس کو ان میں سے کوئی اعزاز کم ہی ملتا ہے۔ درحقیقت پولیس اور فوج کے درمیان ان اعزازات کا تناسب تقریباً 1:20,000 ہے۔ اگرچہ پولیس کے شہدا کے لیے مالی انعامات ہیں جن میں مفت علاج معالجہ اور تعلیمی تعاون موجود ہیں لیکن ان شہدا کے بیٹے اس دھرتی کے دلیر سپوتوں کو پیش کیے جانے والے یہ دردناک انعام لینے کی خاطراکاﺅنٹس آفسز کے چکر لگاتے پائے جاتے ہیں ۔ پولیس کو ایک دن میں کم سے کم بیس گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور بیماری کی ایک رخصت اوسطاً ایک ماہ کے بعد ملتی ہے۔ اُن کے لیے سی ایم ایچ کی طرز کا کوئی پولیس ہسپتال نہیں ہے اور آرمی پبلک سکول جیسا کوئی پولیس پبلک سکول نہیں۔ عدالتوں میں اُن سے مجرموں جیسا برتاﺅ کیا جاتا ہے اور وہ اپنی نوکری بچانے کے لیے طاقت کے ایک مرکز سے دُوسرے کی طرف پھرتے ہیں ۔ یہ نوکری اُنھیں ماہانہ35000روپے یا 350امریکی ڈالر دیتی ہے۔ پھر بھی یہ ملازمین کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ وہ ڈاکٹروں کی طرح کبھی ہڑتال پر بھی نہیں جاتے۔وہ تنخواہ میں اضافے کے لیے مارچ بھی نہیں کرتے اور وہ دُوردراز علاقوں میں تعیناتی سے بھی انکار نہیں کرتے۔ اُن کے بچے اُنھیں عید ، یومِ پاکستان، یومِ آزادی، محرم، یومِ دفاع یا دیگر تعطیلات پر بھی کبھی کبھار ہی دیکھتے ہیں ۔
وہ تھانوں کے برآمدوں میں بغیر پنکھے یا ائر کنڈیشنر کے سوتے ہیں اور وہ کھانے پر اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں کیوں کہ اُنھیں اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ اُنھیں قومی دولت سے مناسب کھانا فراہم کیا جائے۔ چوں کہ وہ خوف ناک حد تک بد عنوان ہیں کہ وہ شکایت کنندگان اور مدعاعلیہان دونوں سے کیس آگے چلانے کے لیے یکساں پیسے لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گھر کے اندر رہنے والوں سے بھی پیسے لیتے ہیں اور اُن سے بھی جو شکایت درج کرانے تھانے آتے ہیں۔ وہ بسوں ، ویگنوں میں سوار ہو کر کرایہ بھی نہیں دیتے اور اکثر کنڈکٹر کے کرایہ طلب کرنے پر ایک لفظ ”ملازم“ کہتے ہیں۔ بس کنڈکٹر بجا طور پر چیخ کر کہتے ہیں کہ” آپ کو آپ کے کام کی تنخواہ ملتی ہے ، کرایہ دیں یا اتر جائیں۔“بد عنوان پولیس والے اتنے کمینے ہیں کہ کئی بار وہ شکایت کنندگان سے درخواست لکھنے کے لیے کاغذ لانے کو کہتے ہیں، اگرچہ اُنھیں اُن کے کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ وہ رشوت لینے کے لیے شکایت کنندگان اور مدعاعلیہان پر دباﺅ ڈالتے ہیں کیوں کہ اُنھیں کبھی اُن کے منظور شدہ تفتیشی فنڈز نہیں ملے۔
ایک منظم فورس کا رکن اپنے محکمے میں بھی نظم و ضبط کی توقع رکھتا ہے لیکن محکمے میں ترقی کا ایک شیطانی چکر تیار کیا گیا ہے۔ جب وہ ترقی کے لیے ایک لازمی کورس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پالیسی پر نظرثانی ہو جاتی ہے اور ترقی کی قطار میں کھڑے رہنے کے لیے اُنھیں مزید دو کورس کرنا پڑتے ہیں۔
سپاہی سے انسپکٹر تک ترقی کا طریقِ کار واضح نہیں ہے ، اگرچہ اپر کلاس کورس منسوخ کیے جانے کی ایک چٹھی جاری کی گئی تھی اور انسپکٹرکے عہدے پر ترقی کے لیے لازمی بنایا گیا تھا کہ ترقی کا معیار یا خفیہ اپریشن یا تفتیش کو بنایا جائے گا ۔ اُنھیںبغیر کسی منصوبہ بندی کے محکمے کے اندر ایک یونٹ سے دُوسری یونٹ میں تبادلہ کر کے تعینات کیا جا سکتا ہے۔ وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا۔ ڈولفن فورس اس کی ایک مثال ہے۔ وردی اور موٹر سائیکل کی حد تک یہ ترکی کے ماڈل کی نقل ہے لیکن سہولتوں کی نقل نہیں کی گئی۔ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جو اس فورس میں شمولیت اختیار کریں گے ، اُنھیںالاﺅنس کے طور پر آٹھ سے دس ہزار اضافی ملیں گے لیکن جب چند ایک غریب اور حوصلہ مند نوجوانوں نے اس میںشمولیت حاصل کر لی تو بتایا جاتا ہے کہ پالیسی پر نظر ثانی کی گئی اور اُنھیں اسی تنخواہ کے پیکیج پر کام کرنا پڑا۔ پولیس میں فائٹر فورس تیس ہزار لیتی ہے جب کہ کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ والے اسی ہزار تنخواہ پاتے ہیں۔ اس سے پولیس افسروں میں افسردگی پیدا ہوتی ہے۔
جب امنِ عامہ کی صورتِ حال خراب ہوتی ہے تو عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ طاقت والے مزید طاقت ور بن جاتے ہیں اور پولیس غریبوں کے لیے جارح اور متشدد بن جاتی ہے جب کہ طاقت وروں کے لیے ثالث اور بیچ بچاﺅ کرانے والے کا کردار ادا کرتی ہے۔
پولیس افسروں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ پولیس اور عوام کے مابین بڑھتی ہوئی بیگانگی ہے۔ بد عنوان پولیس والوں ( جیسا کہ انھیں غلط طور پر سمجھا جاتا ہے)کے حوصلے پست ہو چکے ہیں اور ان کی فورس کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ بیس گھنٹے تک ڈیوٹی دینے کے بعد کسی کے پاس اتنی توانائی یا مزاج نہیں ہوتا کہ وہ شائستگی سے پیش آئے یا خوش آمدید کہنے والا ہو۔ ہر شکایت کنندہ ایک نئے اور ناخوش گوار مسئلے کے ساتھ آتا ہے جس سے اُن کے پہلے سے بوجھ تلے دبے شیڈیول میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
لوگ انھیں اکثر ہائی وے کے ناکوں پر دیکھتے ہیں اور اُن کے بارے میں ایک مستقل نقش اُن کے ذہنوں میں بیٹھ جاتا ہے۔ ان کالی وردی والوں کے پاس کوئی سکینر ہیں نہ آلات، نہ ہی گاڑیوں میں اسلحہ اور منشیات کا کھوج لگانے کے لیے سراغ رسان کتے۔ وہ چند ایک کو گاڑی سے باہر آنے کو کہتے ہیں اور دُوسروں سے معذرت کرتے ہیں کیوں کہ وہ عام پاکستانی نہیں ہوتے۔ ان مثالوں سے بد عنوان پولیس والے پیسے کماتے ہیں۔ وہ اچھے کھانے اور مشروبات سے اپنے خالی پیٹ بھرتے ہیں ، یہی واحد عیاشی ہے جو وہ خطرناک ناکوں پر کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب وہ کام کر رہے ہیں، جن کے لیے انھیں نہیں بنایا گیا تھا۔ جب چند سال قبل پولیس کی نیشنل ہائی وے پٹرولنگ شروع ہوئی تو یہ سمجھا گیا کہ یہ امن و امان قائم رکھنے کے اہم کام کی انجام دہی ہے۔ان کے لیے پولیس سٹیشن بنائے گئے جہاں جدید ترین گاڑیاں موجود تھیں لیکن بغیر مناسب مانیٹرنگ کے پٹرولنگ اُن کے لیے ایک بوجھ بن گئی۔ پٹرولنگ پولیس کے دبلے پتلے نوجوانوں کی اب بڑی بڑی توندیں نکل آئی ہیں۔
پٹرولنگ پولیس سب کچھ کر رہی ہے سوائے پٹرولنگ کے۔ کام کے بوجھ تلے دبی پولیس فورس وہ کام کر رہی ہے جو عمدہ تنخواہ پانے والی مگر سست پٹرولنگ فورس نہیں کر رہی۔
اس سب کے باوجود ، یہ فورس ابھی تک ممکنہ طور پر پوری اہلیت کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ بعض بہت ذہین افسروں نے تحریک اور جذبے کی سطح بلند کر دی ہے نیز کام سے لگن بڑھا دی ہے۔ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر قصور علی ناصر رضوی خبروں میں ہیں۔ صرف ایک سال میں انھوں نے پولیس کے بارے میں لوگوں کا تصور بدلنے کے لیے بڑے بڑے اقدامات کیے۔ رضوی صاحب نے ضلع کے لیے ایک خصوصی پولیس پٹرولنگ فورس بنائی۔یہ اچھی شہرت کے حامل سپاہیوں پر مشتمل تھی جو پولیس ورک فورس کا بوجھ کم کرنے کے لیے مدد کر رہے ہیں۔ایسے مقدمات جو گہری تفتیش کا تقاضا کرتے ہوں، اُن کے لیے ایک قتل والی یونٹ تشکیل دی گئی اور اس کام کو نمٹانے کے لیے چند ذہین افسر منتخب کیے گئے۔
کرائم فائٹنگ یونٹ میں نجی جاسوسوں کا شان دار جال بچھا دیا گیا۔ پولیس کی گاڑیوں میں ٹریکر نصب کر دیے گئے اور اس بات کو یقینی بنانے
کے لیے کہ یہ گاڑیاں صرف سرکاری کاموں کے لیے ہی استعمال ہوں، ایک نئے کنٹرول روم میں ان گاڑیوں کی حرکت کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔
رضوی صاحب نے پولیس کو عوام کے ساتھ جوڑنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا ہے ۔ اس سے لوگوں کو فوری رسائی مل گئی ہے۔ فیس بک کا ایک صفحہ اور ویب سائٹ بنائی گئی۔ اس ترقی پسند افسر نے اپنی ٹیم کے لیے لگن سے کام کرنے کی مثال قائم کرنے کے لیے اپنے اوقاتِ کار بھی صبح آٹھ بجے سے رات کے تین بجے تک بڑھا دیے۔ ہر تھانے کے سامنے شکایت کے ڈبے نصب کروا دیے اور ان کی چابیاں ایک ایمان دار شخص کے حوالے کی گئیں تاکہ وہ ہر تھانے کا دورہ کرے، شکایت کے ڈبے کا تالا کھولے ، شکایات باہر نکالے اور اُنھیں سیدھا ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی میز پر لے آئے۔ ستم رسیدہ افراد کی شکایات کو موقع پر حل کرنے کے لیے ضلعی ہیڈ کوارٹر پر ہر روز کچہری لگائی جاتی جب کہ ہر تھانے میں مہینے میں ایک بار یہ کچہری لگتی۔ موبائل فون پر شکایت جمع کرنے کی ایک ایپ شروع کی گئی اور ایس۔ایم۔ایس کرنے کے لیے ایک نمبر مشتہر کیا گیا۔ اس کا مقصد لوگوں کو جرائم کی رپورٹ کرنے کے لیے حوصلہ دینا تھا۔ پولیس، سکولوں ، ہسپتالوں، کریانے کی دکانوں اور تفریح کے مقامات کے مابین معاہدو ں پر عمل کرایا گیا تاکہ پولیس فورس کے خاندانوں کو سہولت دی جا سکے۔ جواباًورک فورس نے ایک سال میں تین ہزار اشتہاریوں اور 1350عدالت سے مفرور مجرموں کو گرفتار کیا۔
مجرموں کے ستر گینگوں سے تعلق رکھنے والے 220بدمعاشوں کو پکڑ کر اُن سے چار کروڑ روپے کی خطیر رقم برآمد کی۔ پولیس مقابلوں میں ستاسی خطرناک مجرم مارے گئے اور ایسے واقعات جن میں مال چھیننے کے دوران قتل ہوتا تھا، ان کی تعداد 2015ءمیں آٹھ تھی، 2016ءمیں یہ تعداد کم ہو کر ایک رہ گئی۔ 2015ءمیں اٹھاون ڈکیتیاں ہوئیں جب کہ اگلے سال 2016ءمیں ڈکیتیوں کی صرف تیس وارداتیں ہوئیں۔ 2015ءمیں راہ زنی کی 241وارداتیں ہوئیں جب کہ2016ءمیں ان کی تعداد140رہ گئی۔ اسی طرح 2015ءمیں ایک سو اٹھارہ گاڑیاں چوری ہوئیں جب کہ2016ءمیں انچاس گاڑیاں چوری کی گئیں، 2015ءمیں ایک سو ساٹھ کاریں چھینی گئیں جب کہ2016ءمیں ستانوے کاریں چھینی گئیں۔
یہ سب کچھ انھی بد عنوان پولیس والوں نے کیا ہے۔تو آئیے ہم اپنے آپ سے کچھ مشکل سوالات کریں:
کیا ترقی کے معیار کو شفاف اور واضح بنانا واقعی مشکل ہے؟
جب ہم اپنے انسانی وسائل کے بہترین استعمال کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم انھیں جرائم کی بیخ کنی کے لیے جدید ترین ٹیکنیکس سیکھنے کی غرض سے بیرونِ ملک کیوں نہیں بھیجتے؟
یہ کتنا مشکل ہے کہ کام کرنے والے لوگ محکمے سے فائدہ بھی حاصل کریں؟
ورک فورس کو نئے سائبر کرائم قانون اور تحفظِ نسواں بل 2016ءکے بارے میں کب معلومات دی جائیں گی؟
پولیس افسران کے لیے دورانِ ملازمت ریفریشر کورس کے بارے میں کیا خیال ہے تاکہ ہم اُن سے جو توقعات رکھتے ہیں، اُن کے بارے میں ان کے پاس تازہ ترین علم موجود ہو؟
کیا ہم خفیہ معلومات، تفتیش اور اپریشن کے شعبوں میں افسروں کی صلاحیت کی تجدید کر سکتے ہیں؟
سوائے لاہور کے پنجاب کے باقی اضلاع کب تفتیشی فورس اور اپریشن کرنے والی فورس کو اس کی صحیح رُوح کے مطابق لگ الگ دیکھیں گے؟
میں باہمت اور ایمان دار آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا اور پُر جوش وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے جواب کی توقع رکھتا ہوں۔ اب یہ مناسب وقت ہے کہ پولیس فورس کو درپیش حقیقی مسائل کو حل کیا جائے۔
کیا ہمیں ان بد عنوان پولیس والوں کا شکرگزار ہونا چاہیے؟
جی ہاں، بے شک ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ خاص طور پر ہمیں گزشتہ چھ سالوں میں 678بہادر پولیس والوں کی قربانی کا احترام اور شکریے کے ساتھ اعتراف کرنا چاہیے۔