پاکستانی عوام پولیس کے ریکارڈ رکھنے اور جرائم سے نمٹنے کی روش اور کلچر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ہرعام انتخابات میں ہر سیاسی جماعت پولیس اصلاحات کو اپنے منشور میں شامل کرتی ہے ۔ 2002ءسے قبل اس مسئلے پر ہونے والی ساری بحث پولیس کے قانون کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس مسئلے پر ہونے والی ہر سنجیدہ بحث میں ہر شریکِ بحث پولیس کے فرسودہ قانون کا ذکر کرتا۔(اُس وقت پولیس ایکٹ1861 اور پولیس رُولز1934غالب تھے)۔ یہ یقین کیا جاتا ہے کہ اگر ہم پرانے قانون کو نئے قانون سے بدل سکیں جو ملک اور پولیس کی موجودہ ضروریات کو پورا کر سکے تو پولیس کی فعالیت، کارگزاری اور اہلیت کا کوئی ثانی نہیں ہو گا۔ چناں چہ مشرف کے دور میں ایک نیا پولیس آرڈر 2002سامنے آیا۔ جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک اچھا قانون کوئی جادوئی چھڑی ہے جو ہر شے کو ٹھیک کر دیتی ہے، اُنھیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں ہوا۔ عیب جوﺅں نے اس نئے قانون پر تنقید شروع کر دی اور پولیس میں انقلاب لانے کے لیے ترامیم تجویز کیں۔ بہت سی ترامیم شامل کی گئیں مثلاً پنجاب پولیس آرڈر میں2013کی ترمیم اور خیبر پختون خوا پولیس آرڈر میں2015کی ترمیم۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان نے نہ صرف یہ کہ نئے پولیس آرڈر2002کو ختم کر دیا بلکہ اسے1861کی کہانی سے بدل دیا۔ اگرچہ اعلیٰ عدالتوں نے اس کے خلاف مزاحمت کی ، پولیس اصلاحات کا راز ابھی تک افشا نہیں ہوا۔
خوش قسمتی سے پولیس کو تبدیل کرنے کی بہت سی نمائشی کوششوں کے بعد خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے نااہلیت کے پیچھے اصل وجہ تلاش کی۔ اس بار پتا چلا کہ اصل خرابی پرانے قوانین میں نہیں بلکہ ”پرانی ٹیکنالوجی “میں ہے۔ ڈیجی ٹائزیشن کی طرف بڑھتی ہوئی پاکستان تحریکِ انصاف کی تیز رفتار نے اس کے سیاسی حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی ڈیجی ٹائزیشن کا عمل شروع کرے۔ پنجاب پولیس نہ صرف یہ کہ خیبر پختون خوا کی پولیس کے ہم پلہ ہو گئی ہے بلکہ بہت سے محاذوں پر اس سے آگے بھی نکل گئی ہے۔ سید علی ناصر رضوی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر قصور نے پنجاب میں پولیس کی ڈیجی ٹائزیشن پر بریفنگ دینے کے لیے مجھے ضلعی چئیرمین قصور رانا سکندر حیات کے ساتھ دعوت دی۔ اس مضمون میں اُن نئے آلات کی فہرست دی گئی ہے نیز اُن کی وضاحت کی گئی ہے جوجرائم سے نمٹنے کے لیے ان دنوں پنجاب پولیس استعمال کر رہی ہے۔ اس کے ذریعے سے ہم نہ صرف پولیس کے محکمے میں استعمال ہونے والی موجودہ ٹیکنالوجی کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ پاکستان میں بہتراور ذمہ دار پولیس کے لیے مستقبل کا ایجنڈا بھی وضع کر سکتے ہیں۔
پولیس سٹیشن ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم
کرایہ داروں کی رجسٹریشن کا نظام
شناختی تصدیقی سسٹم
کریمینل ریکارڈ مینجمنٹ اور شناخت
جیو فینسنگ
ایس او ایس الرٹ سروس
کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم
کرائم میپنگ
فرنٹ ڈیسک (ڈیجی ٹل)
سی سی ٹی وی مانیٹرنگ (پولیس سٹیشن)
آئی جی پی کمپلینٹ سینٹر
انٹی وہیکل لفٹنگ سسٹم
ڈیلی کرائم رپورٹ
سٹی زن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام
ٹریکرز (پولیس وہیکل پٹرولنگ ٹریکر)
ہوٹل آئی
پری ڈِکٹو کرائم انٹیلی جنس سوفٹ وئر
جیل ڈائری
سِم ریکارڈ مینجمنٹ
میگا میچر (چہرے اور انگوٹھے کے نشان سے شناخت)
ہیومن ریسورس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم
ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) کی ڈیجی ٹائزیشن :
پنجاب کے تما م تھانوں میں پولیس سٹیشن ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم نصب کر دیا گیا ہے۔ ہر ایف ۔آئی۔آر اس سسٹم میں داخل کی جاتی ہے اور سسٹم خود بخود متعلقہ رجسٹروں پراندراجات کر دیتا ہے۔ رضوی صاحب نے وضاحت کی کہ نگرانی پر مامور افسر کسی مخصوص کیس کا سارا احوال دیکھ سکتے ہیں اور اس کے بارے میں دیگر معلومات حاصل کر سکتے ہیں مثلاً برآمدگی، شہادت، ضمانت، کیس ڈائری، مظلوموں کے نام، ملزمان کے نام، گواہان کے نام، چالان کی تاریخ، سماعت کی اگلی تاریخ، مظلوموں کی جنس وغیرہ۔
کرایہ داروں کی رجسٹریشن کا نظام:
کوئی بھی شخص جو کرائے پر گھر لیتا ہے ، اُسے ٹی۔آر۔ایس کے ذریعے خود کو قریبی پولیس سٹیشن پر رجسٹر کرانا پڑتا ہے۔ ایک دفعہ جب رجسٹریشن ہو جائے ، سسٹم اسے چیک کرنے کے لیے فوری طور پر ڈیٹا بیس کے ساتھ ملا کر دیکھتا ہے کہ کہیں کرایہ دار کا پہلے سے شیڈیول 4کے جرائم کا کوئی ریکارڈ تو نہیں اور اس کے خلاف کوئی ایف۔آئی۔آر تو نہیں کاٹی گئی یا یہ کوئی مجرم تو نہیں ہے۔ اُس کے ڈرائیونگ لائسنس (اگر ہو تو)، اُس کے نام پر رجسٹرڈ گاڑیوں یا اُس کے نام پر رجسٹرڈ موبائل سم کا ریکارڈ فوری طور پر سامنے آ جاتا ہے۔
شناختی تصدیقی نظام:
ڈسٹرکٹ کنٹرول روم میں پولیس کونادرا سسٹم تک پوری رسائی حاصل ہے کہ وہ شفافیت اور جوازیت لانے نیز دہشت گردی، دھوکا دہی اور جعل سازی کو روکنے کے لیے کسی بھی مشکوک شخص کے قومی شناختی کارڈ کی تصدیق کر سکے۔یہ ایک ویب بیسڈ اُسی وقت معلوم ہونے والی سرگرمی ہے جس سے متعلقہ شخص کے قومی شناختی کارڈ کے دونوں رُخ (سامنا اور پچھلا) سامنے آ جاتے ہیں ، اضافی طور پر تصدیق کے لیے خفیہ معلومات بھی دکھا ئی جاتی ہیں۔
کریمینل ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن:
یہ سسٹم بائیومیٹرک ، جسمانی شکل و صورت اور جرائم کی سابقہ تاریخ کی مدد کے وسیلے سے کریمینل ریکارڈ مینجمنٹ کے لیے ہے ۔ اس سسٹم کی نمایاں خصوصیات میں ڈیجی ٹائزڈ، مجرموں کے فنگر پرنٹس، آٹو میشن کے ذریعے اُن کی شناخت شامل ہیں۔
جیو فینسنگ:
اس سے پہلے پاکستان میں بہت کم مراکز پر جیو فینسنگ کی سہولت دست یاب تھی لیکن اب قصور جیسے دیگر شہروں میں بھی یہ سہولت موجود ہے۔ یہ جی۔پی۔ایس یا آر۔ایف۔آئی۔ڈی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک جغرافیائی حد بندی کر لیتی ہے اور اس سے پتا چل جاتا ہے کہ کسی مخصوص علاقے میں کوئی موبائل فون کب داخل ہوا اور کب وہاں سے نکلا۔ جرم ہونے کے بعد مجرموں کو ڈھونڈنے کے لیے یہ ایک مشکل کام ہے۔ کسی مخصوص علاقے سے مخصوص وقت پر تمام موبائل کمپنیوں کا تمام کالز کا ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ رضوی صاحب نے بتایا کہ اوسطاً ڈیٹا کی جمع آوری کی صلاحیت چار ہزار صفحات کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ تقریباً ایک سو کال کی تفصیل حاصل کی جاتی ہے ، اس کے لیے اندازے سے کام چلایا جاتا ہے۔ ہمارا پی۔آئی۔ٹی۔بی تربیت یافتہ سٹاف اس سلسلے میں ذہانت اور پیشہ ورانہ اُمور سے پوری طرح لیس ہے۔ وہ حقیقی مجرم کا کھوج لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم نے اس ٹیکنالوجی کے وسیلے سے کتنے ہی اندھے قتلوں، اغوا کی وارداتوں اور بچوں پر تشدد کے واقعات کا کامیابی سے سراغ لگایا ہے۔
ایس۔او۔ایس الرٹ سروس
یہ سروس اس حقیقت کے پیشِ نظر متعارف کرائی گئی ہے کہ کئی دفعہ مصیبت اور پریشانی میں مبتلا فرد کے لیے پولیس سے رابطہ کرنا یا اپنے مقامِ موجود کی ٹھیک ٹھیک تفصیل دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سروس کی وساطت سے کوئی ایسا فرد یا کسی ادارے کی انتظامیہ جس پر حملہ کیا گیا ہو، اپنے اینڈرائیڈ فون پر انسٹال کی گئی اس ایپلی کیشن کی مدد سے پولیس کو الرٹ کر سکتی ہے۔ جوں ہی کوئی شخص اپنے موبائل فون پر الرٹ بٹن دباتا ہے،اس مقام کے قریب کم و بیش دس تھانوں میں اطلاع چلی جائے گی۔ متعلقہ ڈسٹرکٹ پولیس کنٹرول رُوم،فیلڈ میں موجود افسران اور سینٹرل پولیس آفس میں بھی الرٹ چلے جائیں گے
کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم :
ملاقاتیوں کی شکایات کے اندراج لیے ایک کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم سوفٹ وئر انسٹال کیا گیا ہے۔ شکایات کنندہ سے اُس کی درخواست وصول کرنے کے بعد اُسے ایک ای۔ٹیگ دیا جاتا ہے۔ ایک بار جب درخواست سسٹم میں داخل ہو جائے تو نگرانی پر مامور اعلیٰ افسران اور سینٹرل پولیس آفس لاہور میں واقع صوبائی مانیٹرنگ روم اس کو مانیٹر کرتے ہیں اور اس کے بارے میں پوچھتے بھی ہیں یہاں تک کہ معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے۔ اگر درخواست کی ضرورت ہو تو استقبالیہ کمرے میں درخواست گزار کے لیے اسے ٹائپ کیا جاتا ہے۔
کرائم میپنگ :
یہ سوفٹ وئرموبائل فون کے ذریعے سے آن لائن مخزن (ریپوزٹری) پر روزانہ ہونے والے جرائم کو ریکارڈ کرنے میں پولیس کی مدد کر رہا ہے ۔ افسر اپنے موبائل فون کے ذریعے جرائم کا ریکارڈ جائے وقوعہ سے تصویر، گوگل میپ سے مقام مع تاریخِ وقوعہ دیکھ سکتا ہے نیز کون سی دفعات اس پر لگتی ہیں، جان سکتا ہے۔ سوفٹ وئر پر روزانہ کی رپورٹنگ سے لاہور میں ہونے والے جرائم کے پیٹرن کا بھی پتا چلتا ہے۔ قابلِ شناخت جرائم کی وجہ سے اب یہ موزوں وقت ہے کہ بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح کونیز مجرموں کی آماج گاہوں کو کم سے کم کیا جائے ۔ بڑی سکرین پر دکھائی جانے والی پریزنٹیشن سے افسران کو کرائم میپ جاننے اور پھر جس علاقے میں زیادہ جرائم ہو رہے ہوں، وہاں وسائل کو مقرر کرنے میں مدد ملتی ہے۔
فرنٹ ڈیسک (ڈیجیٹل):
وہ دن گزر گئے جب تھانوں میں محرر سٹیشنری، ایندھن اور خوراک کی شکایات کرتے تھے۔ اب فرنٹ ڈیسک سویلین سٹافرزنے پولیس فورس کا چہرہ تیزی سے تبدیل کر دیا ہے کیوں کہ اب سٹیشن اسسٹنٹ کو ہر طرح کا سازوسامان دیا گیا ہے، پرنٹر سے لے کر وائی فائی تک، اینڈرائیڈ ہینڈ سیٹ سے لے کر واٹر ڈسپنسر تک، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب وہ ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ یہ فرنٹ ڈیسک جہاں مرد اور خواتین سٹاف تعینات ہے، یہ خوش لباس اور نوجوان افسر شکایات پر کام کرتے ہیں۔ ان کے کام کرنے کا انداز وہی ہے جیسا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے عملے کا ہوتا ہے۔ وہ ایک سنٹرلائزڈ آن لائن سسٹم کے ذریعے سے شکایات پر فوری ردِ عمل دیتے ہیں۔ ملاقاتیوں کو موقع ہی پر سروس دی جاتی ہے جیسے اشخاص اور سرکاری دستاویزات کی رجسٹریشن اور تصدیق۔ شکایات کنندگان کو الیکٹرانک رسیدیں دی جاتی ہیں۔ اعلیٰ افسران مختلف نظاموں کی وساطت سے اس پورے سسٹم کو مانیٹر کرتے ہیں ۔ طریقِ کار کو تیز رفتار بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ضلع قصور کے ہر تھانے میں اس ڈیسک کو فعال بنا دیا گیا ہے۔
سی سی ٹی وی کیمرے (پولیس سٹیشن):
فرنٹ ڈیسک کے تمام افسران کو سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے سے ڈسٹرکٹ کنٹرول رُوم میں مانیٹر کیا جاتا ہے تاکہ اندرونی ماحول اور ڈیسک پر افسر کی موجودگی کو اعلیٰ افسران براہِ راست دیکھ سکیں۔ اس سے سسٹم کے تسلسل اور پائیداری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
آئی۔جی۔پی کمپلینٹ سینٹر (8787):
قبل ازیں شکایت کنندگان کو انسپکٹر جنرل پولیس کے دفتر میںذاتی طور پر درخواست جمع کرانے کے لیے لاہور کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ اب یہ قدم اُٹھایا گیا ہے کہ ایس۔ایم۔ایس یا فون کال کے ذریعے مختصر کوڈ (8787) پر شکایات وصول کی جائیں ۔ مزید براں ای۔میل کے ذریعے بھی شکایات وصول کی جاتی ہیں۔ ان شکایات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے نوجوان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پیشہ ور وں کی لگن رکھنے والی ٹیم تعینات کی گئی ہے۔ سسٹم انتہائی دروں فعال ہے ۔ شکایت جب تک نمٹا نہ دی جائے، اسے لوپ میں رکھا جاتا ہے۔ شکایت کنندہ اپنی شکایت پر ہونے والی پیش رفت کو آن لائن دیکھ سکتا ہے اور کسی بھی لمحے آن لائن یا ایس۔ایم۔ایس کے ذریعے فیڈ بیک بھی دے سکتا ہے۔آئی۔جی۔پی کمپلینٹ سینٹر ایف۔آئی۔آر درج نہ ہونے ، غلط تفتیش، غیر قانونی حراست، بے گناہ لوگوں کی گرفتاری، غلط ایف۔آئی۔آر کے اندراج، فرائض میں غفلت برتنے اور غیر قانونی احسان مندی کا مطالبہ کرنے پر درخواستیں قبول کرتا ہے۔ یہ شکایات تمام اضلاع میں مانیٹر کی جاتی ہیں۔
انٹی وہیکل لفٹنگ سسٹم:
یہ ایک ویب ایپلی کیشن ہے جو چھینی گئی گاڑیوں اک صوبائی ڈیٹا بیس سنبھالتی ہے۔ اس میں چوری کی رپورٹنگ، تفتیش، بازیابی، فورینزک لیبارٹری ٹیسٹ اورعدالتی کارروائی کے بعد گاڑیاں مالکان کے حوالے کرنا شامل ہیں۔ یہ ایپلی کیشن پی۔ایس۔آر۔ایم۔ایس ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے اور پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی سے مربوط ہے۔ یہ ایس۔ایم۔ایس الرٹ کے ذریعے سے مانیٹرنگ کا مرکزی نظام اور جامع رپورٹنگ ڈیش بورڈ بھی مہیا کرتی ہے۔
روزانہ کی جرم رپورٹ:
یہ سوفٹ وئرتھانوں کی حدود میں ہونے والے روزانہ جرائم کی تعداد کا ٹریک رکھتا ہے، یہی سوفٹ وئر ضلع اور صوبے کی سطح پر ہونے والے روزانہ جرائم کی نوعیت اور تعداد کا حساب رکھتا ہے۔ اس کے بعد جرائم کی شماریات تیار کی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حکومت، میڈیا ور عوام بڑے پیمانے پر فیس بک پر پنجاب پولیس کرائم سٹیسٹکس کا صفحہ وزٹ کر سکتے ہیں۔ گراف اور پائی چارٹ دست یاب ہیں جن کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور یہ تازہ ترین ہوتے ہیں۔
سٹی زن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام:
سٹی زن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام شہریوں سے فیڈ بیک جمع کرنے کا طریقِ کار ہے۔ وہ شہری جو عوامی خدمات مثلاً ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا، جائیداد کی رجسٹڑیشن، ڈی ۔پی۔او ، ڈی۔ایس۔پی اور ایس۔پی انوسٹی گیشن کے دفاتر سے متعلقہ شکایات ۔ جمع شدہ فیڈ بیک کا اس نیت سے تجزیہ کیا جاتا ہے کہ یہ شناخت کی جائے کہ مسئلہ کہاں ہے اور شہادت پر مبنی اصلاحی اقدامات کرتے ہوئے متعلقہ اہل کاروں کی مدد کی جائے۔ اس سے بد عنوانی کو ختم کرنے، شہریوں کا اعتماد بڑھانے، عوامی خدمات کی ترسیل کی بہتر مانیٹرنگ، شہریوں کی شرکت بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
2009ءمیں شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ ضلعی سطح کے پروگرام سے ارتقا کر کے صوبائی سطح تک آ گیا ہے ۔ یہ منصوبہ شہریوں اور ریاست کے مابین اعتماد کے فقدان کی حائل خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس منصوبے کو شروع ہوئے چھ سال ہوئے ہیں، سٹی زن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام پنجاب حکومت کے انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی منصوبوں میں سے نمایاں ترین منصوبہ بن چکا ہے۔ اگرچہ اس پروگرام کو اہم قومی اور بین الاقوامی تحسین ملی ہے، اس کی کامیابی کا سچا قدم یہ ہے کہ البانیہ اور رومانیہ کی یورپی ریاستوں نے اسے اپنے ہاں اپنا لیا ہے۔
ٹریکرز (پولیس وہیکل پٹرولنگ ٹریکر):
پنجاب پولیس نے گاڑیوں کے بیڑے ، پولیس سٹیشن کی پٹرولنگ والی گاڑیوں اور پولیس ناکوں کی جی۔پی۔ایس ٹریکنگ اور ڈیجی ٹل مانیٹرنگ متعارف کرائی ہے۔ ان گاڑیوں میں ٹرک، بسیں، جیل والی وینیں اور ایمبولنس شامل ہیں۔ اگر کوئی موبائل وین تیس منٹ سے زیادہ کسی ایک مقام پر کھڑی رہے ، اسے اپنی جگہ تبدیل کرنے اور گشت کرنے کے اصولوں پر مناسب عمل کرنے کا کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی موبائل وین خراب ہو جائے تو گشت کرنے والا افسر فوری طور پر جی۔پی۔ایس کنٹرول رُوم کو اطلاع دیتا ہے۔ اگر کوئی موبائل وین کسی خفیہ مشن میں مصروف ہو تو متعلقہ تھانے دارکواس گاڑی کی روانگی سے پیشتر جی۔پی۔ایس کنٹرول کو اطلاع دینی ہوتی ہے۔ ورنہ گاڑی کام کی جگہ سے روانہ نہیں ہو سکے گی۔ ہر مہینے کے اختتام پر جی۔پی۔ایس سسٹم کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے ماہانہ فاصلے کے مطابق ہر گاڑی کی ایندھن کی کھپت کی رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔ جنرل پوزیشننگ سسٹم کو وائرلیس کنٹرول اور ریسکیو 15کے ساتھ مربوط کیا جاتا ہے ۔ ہنگامی حالت کی صورت میں جی۔پی۔ایس سسٹم ہدف والے مقام کو موبلائز کرتا ہے۔ اس نظام سے پہلے پولیس کی گاڑیوں کو چیک کرنے یا اُن کی حرکات و سکنات کو مانیٹر کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔چناں چہ اب غلط مقام کی رپورٹ دینے ، غلط فاصلہ بتانے اور ایندھن کی غلط کھپت بتانے کا کوئی امکان نہیں۔
ہوٹل آئی:
یہ ایپلی کیشن ہوٹلوں میںآنے اور جانے والے مہمانوں کی اُن کے قومی شناختی کارڈ اور دیگر ذاتی معلومات کی روشنی میں پرکھتی ہے۔ اس سے ہوٹلوں اور مہمانوں کی سرگرمیوں کو ٹریک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہر مجرم کا ڈیٹا سسٹم میں ڈال دیا گیا ہے ۔ چناں چہ اگر کوئی جرم کا ریکارڈ رکھنے والا شخص ہوٹل میں جاتا ہے تو اس کی تفصیلات مانیٹر پر سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ سوفٹ وئر نہ صرف ہوٹلوں کو تحفظ کا احساس دلا رہا ہے اور مجرموں کی شناخت میں مدد دے رہا ہے بلکہ پولیس کو اُن کا ڈیٹا منظم کرنے میں بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس سوفٹ وئر کے ذریعے سے سیکڑوں مجرموں کا کھوج لگایا گیا ہے۔ ان میں وہ مجرم بھی شامل ہیں جن کے سر کی قیمت مقرر تھی۔ اس سے اس سوفٹ وئر کی افادیت اور اس کے اثر کا پتا چلتا ہے۔
پری ڈِکٹو کرائم انٹیلی جنس سوفٹ وئر:
وہ جرائم جو معاشرے کو دہشت زدہ کر دیتے ہیں جیسے ڈکیتی، گلیوں میں ہونے والے جرائم، گھروں میں ہونے والی چوری وغیرہ۔ اب پولیس تفتیشی افسر پر ساری تفتیش نہیں چھوڑتی بلکہ آج کل پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا کرائم انٹیلی جنس سوفٹ وئر تفتیش میں مدد دے رہا ہے۔ جب اس سسٹم میں کوئی قومی شناختی کارڈ ڈاخل کیا جاتا ہے تو یہ اُس شخص کے بارے میں تمام معلومات سامنے لے آتا ہے۔ اُس کا شجرہ¿ نسب، اے ۔ٹی۔ایم کارڈکارڈز، کریڈٹ کارڈکارڈز،چھ ماہ کی ہوٹل بکنگ کی تفصیلات ، بیرونی ملک جانے کی تفصیلات، کرائم انٹیلی جنس سسٹم، جیو فینسنگ، سی۔ڈی۔آرلوکیشن ریسونگ اور گوگل ارتھ ، یہ سب چیزیں اسی ایک سوفٹ وئر میں رکھ دی گئی ہیں۔ اس سوفٹ وئر کی ایک اضافی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ مشکوک شخص کا خاکہ بنا سکتا ہے ، یہ خاکہ اتنا مکمل ہوتا ہے کہ مجرم تک پہنچا جاسکتا ہے۔
جیل ڈائری:
پنجاب پولیس مجرموں کو جیل بھیجنے کے بعد اُن سے ہاتھ نہیں ملا رہی۔ اس سوفٹ وئر کی مدد سے پولیس جیل میں داخلے کی تاریخ کا ریکارڈ، جرائم کا ریکارڈ رکھنے والوں کا ڈیٹا، رہا ہونے والے سزا یافتہ افراد ، بدمعاش، مفرور مجرموں اور عدالت سے مفرور مجرموں کا ریکارڈ رکھ رہی ہے۔اس سے جیل کے اندر اور جیل سے باہر اُن کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔اس سوفٹ وئر سے کسی مخصوص علاقے میں ایک ہی طرح کا جرم ہونے کی صورت میں مجرموں تک پہنچنے اور اُنھیں ڈھونڈنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ انکشاف نامی گزٹ بھی اس سوفٹ وئر کا حصہ ہے۔ یہ عادی مجرموں اور ہدف شدہ مجرموں کی ڈائری ہے۔
سِم ریکارڈ:
اس سوفٹ وئر میں موبائل سم کی ملکیت، انڈیکس کارڈ فیڈنگ اور پی۔اے۔ایف۔آئی۔ایس کارڈ فیڈنگ کا ڈیٹا ہوتا ہے۔ ہر رجسٹرڈ سم کا ریکارڈ اس سوفٹ وئر میں موجود ہوتا ہے۔ یہ سسٹم سیلولر کمپنیوں اور دہشت گردی کے ساتھ لڑنے والے محکموں کے ساتھ باہم منسلک ہوتا ہے۔ اب پولیس سیلولر کمپنیوں کی محتاج نہیں کہ وہ مشکوک افراد کا ریکارڈ اُنھیں دیں بلکہ اس سوفٹ وئر میں سارا ریکارڈ اُن کے پاس ہوتا ہے۔
میگا میچر (چہرے اور انگوٹھے کے نشان کی شناخت):
یہ سوفٹ وئر چہرے اور انگوٹھے کے نشان کی شناخت کے لیے ہے۔ اگر کسی نے ماضی میں کوئی جرم کیا ہو تو اُس کی جسمانی خصوصیات پہلے ہی سے اس سوفٹ وئر میں موجود ہیں۔ نادرا کے ساتھ اشتراک سے یہ سوفٹ وئر مجرموں کی انگلیوں کے نشانات کو ملا کر دیکھ سکتا ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر سید علی ناصر رضوی نے ہمیں بتایا کہ پنجاب میں 94000مجرموں کا ڈیٹااس سسٹم میں دست یاب ہے۔
ہیومن ریسورس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم :
پنجاب میں پولیس اور عوام کے مابین تناسب اطمینان بخش نہیں ۔ درحقیقت پولیس فورس کی کمی ہے۔ اس صورتِ حال میںاہلیت اور اثر پذیری کے مقصد کے لیے ہیومن ریسورس مینجمنٹ اور زیادہ ضروری ہو جاتی ہے ۔اس سسٹم سے پہلے تعینات ہونے پر، تبادلہ ہونے پراور افرادی وسائل کو متحرک کرنے پر افسر غیر محفوظ اور لرزاں ہوتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ منظر نامہ غیر واضح ہوتا تھا۔ تاہم اس سوفٹ وئر نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ یہ نہ صرف کسی ضلعے میں مجموعی پولیس فورس کا ریکارڈ رکھتا ہے بلکہ تقرر کی تاریخ، عمدہ اندراجات، برے اندراجات، سروس بک، سرخ روشنائی سے لکھے گئے تبصرے، دیوٹی کے لیے فٹ نس، مذہب، فرقہ، افسر کے مشاہداتم معطلیاں، بد عنوانی کے الزامات، غرض اس سسٹم میں ہر چیز موجود ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر سے لے کر خاکروب تک محکمہ پولیس میں ہر کوئی اس سسٹم میں موجود ہے۔ انگوگرافکس جیسے مختلف پولیس سٹیشنوں پر تعینات فورس اور اُن کے عہدے بار چارٹ، پائی چارٹ اورگراف کی صورت میں دست یاب ہوتے ہیں۔ اس سے وسائل کو مناسب طور پر استعمال کرنے اور پولیس فورس کی بہترین کارگزاری میں مدد ملتی ہے۔
پولیس کے قانونی معاملات کی مانیٹرنگ کا نظام:
پنجاب پولیس نے مقدمہ بازی کی مانیٹرنگ کے لیے پولیس کے قانونی معاملات کی مانیٹرنگ کا نظام وضع کیا ہے۔ اسے پولیس نے قانون سے متعلقہ کام کو کمپیوٹرائز کرنے سے شروع کیا تھا مثلاً ر،ٹ پٹیشن، سروس اپیل، سول مقدمے، انٹراکورٹ اپیلیں، سول رویژن اپیلیں، آئینی پٹیشن اور ازخود نوٹس ۔ غیر مقدمے بازی والے کیسوں، انسانی حقوق کے کیسز اور سابقہ ڈیٹا کو کمپیوٹرائز کرنے کا کام جاری ہے۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ سارا انقلاب وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی بصیرت افروز قیادت، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چئیرمین عمر سیف اور سوفٹ وئر ڈویلپمنٹ ونگ کے سربراہ برہان رسول کی لگن کی وجہ سے برپا ہوا۔ سید علی ناصر رضوی، سید خرم علی، وقاص حسن اور ذیشان اصغر نے پولیس کے ریکارڈ کی مینجمنٹ کے لیے کوششیں کیں۔ ڈاکٹر حیدر اشرف نے ایچ۔آر۔ایم۔آئی۔ ایس اور عمر ریاض چیمہ نے انگلیوں کے نشانات ملانے کے لیے جو کام کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورد کے اس سسٹم کے ہیرو ہیں: عادل اقبال خان، محمد عامر، محمد عثمان، جہاں تاب اختر، سید محمد رضا، سید محمد یوسف، امدادالاسلام اور عبدالسمیع خان۔
گرفتار کیے گئے مجرم، پکڑے گئے بدمعاش اور دہشت گردی کی ناکام بنائی گئی سرگرمی ان ہیروز پر ہمیں فخر کرنا سکھائے گی۔