pin up casinomostbet1winpin up

آزادی ملنے سے اب تک پاکستان نے معیشت سمیت بہت سے شعبوں میں بہت سے معجزے کر دکھائے ہیں۔ قوتِ خرید کی مساوات میں 3500امریکی ڈالرز سے زائد فی کس آمدنی کے ساتھ پاکستان دُنیا کی ستائیسویں بڑی معیشت ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی عدم استحکام، پرانی ٹیکنالوجی، تاجروں کے دانستہ فراڈ، ہمارے ساتھ روا رکھی جانے والی دُنیا کی دُشمنی اور بہت سے دیگر اہم عوامل نے ہمارے ملک کے برآمد کنندگان کی کارگزاری کو مایوس کن رکھا ہے اور اس کی صلاحیت سے بہت پیچھے رکھا ہے ۔ پاکستان کی برآمدات مجموعی عالمی برآمدات کا معمولی سا حصہ یعنی 0.15فی صد ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران میں چین اور ہندوستان نے اپنی برآمدات میں بالترتیب چھ اور پانچ گنا اضافہ کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات 2.7ہیں۔ ترکی، ویت نام اور بنگلا دیش جیسے ممالک برآمدات کے شعبے میںہم سے آگے نکل گئے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ ترکی میں سیاسی عدم استحکام رہا، ویت نام نے امریکا کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ دیکھی اور بنگلا دیش کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں نئی ہے۔ ایسی مثالیںہمارے لیے نہ ہونے کے برابر عوامل چھوڑتی ہیں کہ ہم دُوسرے عوامل کو موردِ الزام ٹھہرائیں سوائے اس کے کہ ہم اپنی غلطیوں کو ان کا الزام دیں۔ یہ مضمون نہ صرف برآمدات میں تیزی سے آنے والے زوال کے اسباب سے بحث کرے گا بلکہ معاملات کی اصلاح کے لیے ان چیزوں کی طرف اشارہ بھی کرے گا جن پر حکومت کو توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ آخر میں برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے سفارشات بھی پیش کی جائیں گی۔
سال 2016ءعالمی تجارت میں پاکستان کے حصے کے زوال کا تسلسل تھا۔یہ زوال پاکستانی کی برآمدات میں عمدہ کارگزاری دکھانے والے شعبوں بشمول ٹیکسٹائل اور خوراک تک بھی جا پہنچا ۔ مثال کے طور پر جہاں تک برآمدات کے وزن کا تعلق ہے تو ہم نے مالی سال 2015ءکی نسبت مالی سال 2016ءمیں زیادہ وزن کے چاول برآمد کیے لیکن قیمت کے لحاظ سے ہم نے کمی دیکھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری برآمدی اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی اور دُوسری بات یہ ہے کہ برآمدات کی مقدار اتنی کم ہے کہ یہ ہمارے ملک کی برآمدات میں ترقی ظاہر نہیں کرتی۔تجارت کی آزادی کے حوالے سے ہم برآمدات میں ہم اپنے حریفوں سے پیچھے ہیں۔اوسط ٹیرف مالی سال2013ءمیں 14.4فی صد کے مقابلے میں مالی سال2016ءمیں13.4 فی صدرہا۔ یوں اس میں تھوڑی سی کمی آئی ہے۔
خامیوں کا حل نکالنے کے لیے، برآمدات کے شعبے میں مقابلہ بازی کو فروغ دینے کے لیے وفاقی حکومت نے 180بلین روپے کے ایکسپورٹ اینہینسمنٹ انیشی ایٹو کا اعلان کیا ۔
ایک سرکاری پریس ریلیز کے مطابق اس پیکیج کا مقصد برآمدات میں آنے والی کمی کو سنبھالا دینا اور اسے واپس ترقی کے راستے پر ڈالنا ہے۔ اس پیکیج کے ذریعے حکومت نے پانچ سرکردہ برآمدی شعبوں کو زیرو ریٹنگ ریجیم کی اجازت دے کرکاروباری طبقے کے دیرینہ مطالبے کو پورا کیا ہے ۔ سخت مالیاتی سپیس کے باوجود حکومت نے اس طرح کی ترغیبات کے ذریعے برآمدات کو بڑھاوا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پیکیج کے ذریعے روئی کی درآمد پر عائد چار فی صد کسٹم ڈیوٹی ہٹا دی ہے، مشینری کی درآمد پر پانچ فی صد سیلز ٹیکس واپس لے لیا ہے اور مقامی ٹیکس بھی واپس لے لیے ہیںتاکہ مصنوعات کی قدروقیمت بہتر بنائی جا سکے۔
ٹیکسٹائل ملبوسات کو سات فی صد کی شرح سے ڈرا بیک، ریڈی میڈ ملبوسات کو چھ فی صد ڈرا بیک، پراسیس کیے گئے فیبرکس پر چار فی صد ڈرا بیک، دھاگے پر تین فی صد ڈرا بیک دیا جائے گا۔اسی طرح نان ٹیکسٹائل شعبے میں چمڑا تیار کرنے والوں بشمول چمڑے کی مصنوعات پر سات فی صد کی شرح سے مقامی ٹیکسوں میں ڈرا بیک دیا جائے گا، جوتوں پر اس کی شرح سات فی صد ہوگی۔ اسی طرح سرجیکل آلات پر بھی اس کی شرح سات فی صد ہو گی۔ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے حکومت نے نہ صرف یہ کہ صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کو مکمل طور پر ختم کر دیا، بلکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی تقریباً پانچ روپے کم کر دی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے دور میں برآمدات میں مسلسل کمی آ رہی ہے ، درآمدات بڑھ رہی ہیں اور تجارتی خسارے کے اہداف کبھی پورے نہیں ہوئے۔ اس سے پہلے برآمد کنندگان کے لیے ایک ٹیکس ری فنڈ سکیم کا اعلان کیا گیا تھا لیکن یہ سکیم ابھی تک نفاذ کی منتظر ہے۔ حکومت اپریل اور ستمبر میں برآمد کنندگان کو سیلز ٹیکس ری فنڈ کرنے کا وعدہ کرتی رہی ہے۔ تاہم اس پیکیج کی وساطت سے وزارتِ خزانہ کو معیشت میں 5.5فی صد اضافے ، دو سے تین بلین ڈالر کی اضافی برآمدات اور ہماری برآمدات میں ایک مثبت رُجحان کی توقع ہے۔ حکومت نے ایک اور اچھا قدم یہ اُٹھایا ہے کہ تیار شدہ مصنوعات کی برآمد پر ٹیکس کی مد میں زیادہ رعایت دی ہے ۔ مثال کے طور پر ٹیکسٹائل ملبوسات کی برآمد پر سات فی صد جب کہ سوت کی برآمد پر تین فی صد رعایت دی گئی ہے۔
اس سے پیشتر 2002-3ءمیں صنعت کاروں نے ایسی ہی ایک سکیم کو غلط طور پر استعمال کیا تھا کیوں کہ حکومت نے اس پر نظر نہیں رکھی تھی ۔ مثال کے طور پر نان ویلیو ایڈڈ شعبوں جیسے دھاگا کاتنے پر بھاری سرمایہ کاری کی گئی۔ یہ ایک مناسب وقت تھا جب بنگلا دیش بازی لے گیا۔ اگرچہ بنگلا دیش میں کپاس پیدا نہیں ہوتی ہے، پھر بھی یہ ٹیکسٹائل ملبوسات اور ریڈی میڈ ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے جن کی مالیت تیس بلین امریکی ڈالر ہوتی ہے۔ 2002-3ءمیں ہمارے سرمایہ کاروں نے سوت کاتنے والی مشینری کی درآمد پر کم سود والی ریجیم استعمال کی۔ اعلیٰ قسم کا پیدا کیا گیا تقریباً سارے کا سارا دھاگا بہت کم منافعے پر اور ارزاں نرخوں پربنگلا دیش اورٹیکسٹائل گارمنٹس بنانے والے دیگر ممالک کو برآمد کر دیا گیا ۔ ہمارے پڑوسی ممالک ہمارے خام مال سے ویلیو ایڈڈ مصنوعات بنا کراور یوں اپنی برآمدات میں اضافہ کر کے اربوں کے حساب سے نفع کما رہے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنی معیشت کو بہتر بنا رہے ہیں۔
قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہ پیکیج اگلے اٹھارہ ماہ کے لیے دیا گیا ہے اور ٹیکس میں رعایت اُن مصنوعات پر دی جائے گی جو اگلے چھ ماہ میں برآمد کی جائیں گی۔ نئی مشینری کی درآمد پر ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے تاکہ صنعت میں نئی مشینری اور ٹیکنالوجی داخل ہو سکے۔ مالی سال 2016ءکے پہلے نصف میں تجارتی خسارہ 22فی صد کی شرح سے بڑھا ہے، اور 14490ملین امریکی ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ جولائی 2016ءسے دسمبر2016ءتک مجموعی برآمدات 9912ملین امریکی ڈالر کی تھیں جب کہ اسی دورانیے میں مجموعی درآمدات 24402ملین امریکی ڈالر کی تھیں۔ یہ فرق وسیع تجارتی عدم توازن ظاہر کرتا ہے۔
موجودہ مالی سال میں حکومت نے تجارتی خسارے کا ہدف تیس بلین امریکی ڈالر مقرر کیا ہے۔ لیکن اس سال کے پہلے چھ ماہ میں یعنی جولائی2016ءسے دسمبر2016ءتک یہ خسارہ بائیس بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور ابھی اس سال کے چھ ماہ باقی ہیں۔ ہماری کرنسی کی قدر بہت بڑھا دی ہے اور درآمدات کا ملک میں بننے والی مصنوعات کے ساتھ مقابلہ ہو رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ اور برآمد کنندگان نے کئی بار اس قیمت کے بڑھانے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن حکومت نے ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ سیاسی دباﺅ اور مخصوص سیاسی تحفظات کی وجہ سے حکومت نے نج کاری کے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور مسلسل بجلی اور روپے کی قدر پر سب سڈی دی جا رہی ہے ، سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے روپے کی قدر گرائی نہیں جا رہی۔ اپنی زرخیز زمین، آب و ہوا، آب پاشی کے نظام اور افرادی قوت سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے پاکستان زرعی برآمدات میں زبردست اضافہ کر سکتا ہے۔ انجنئیرنگ، مالیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اس کے افرادی وسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دُنیا میں انگریزی بولنے والی نویں بڑی قوم ہے جو عالمی تجارتی نظام سے بخوبی مربوط ہے۔ روایتی برآمدات پر زیادہ انحصار اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی گھٹیا کوالٹی (جنھیں مقامی مارکیٹ میں کھپانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے) ، برآمد کنندگان کی اکثریت یا تو برآمدی مارکیٹ سے بے خبر ہے یا وہ کوالٹی کو بہتر بنا کر اُس معیار کا نہیں کرنا چاہتے جو دُنیا کو قابلِ قبول ہے۔ ہمارا ملک وہ ہے جسے ترجیحی تجارت کے لیے جی ایس پی پلس اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کا مقام حاصل ہے، لیکن ہم نے اس موقع سے صحیح طرح فائدہ نہیں اُٹھایا۔
ہم عالمی سطح پر ادنیٰ کوالٹی اور سستی چیزیں بنانے والے ملک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس سے ہماری برآمدات کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اورمعاشرتی و ماحولیاتی مسائل، جنس کی بنیاد پر عدم روازن، بچوں سے مزدوری کرانے اور جبری مشقت کے بارے میں درآمد کنندگان کی تشویش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے سرمایہ کار اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر رہے ہیں اور ہماری بڑی برآمدی منڈیاں بشمول امریکا، یورپی یونین، چین اور مشرقِ وسطیٰ کساد بازاری کا شکار ہیں۔ ہمیںبرآمدی ترغیبات مہیا کر کے اپنی اہلیت اور منافع بخشی کے ذریعے اپنی پیداواریت میں اضافہ کرنا چاہیے اور ماحول کو محفوظ بنا کر پائیداریت اور تیزی سے ہوتی گلابلائزیشن کے ذریعے سے مقابلہ بازی میں اضافہ کرنا چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اضافی طور پربرآمدات میں اضافہ کریں ، مصنوعات کے استعمال کی صلاحیت ، پیداواریت، بہتر کوالٹی کنٹرول نیز سرکاری و نجی اشتراکِ کار کو بڑھائیں۔ بنک کے ذریعے ٹرانزیکشن (لین دین) کی لاگت کم کرنے اور روپے کی قدروقیمت بھی ضروری ہے۔ ہمیں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری ، معاشی ڈپلومیسی، معاشرتی اور ماحولیاتی تعمیل کو اپنی طرف مائل کرنے کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔برآمدات کے لیے چھوٹی اور درمیانے سائز کی انٹرپرائزز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور انھیں سہولتیں بہم پہنچانی چاہییں۔ ہماری صنعت اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ پیداوار نہیں دے رہی ۔ اس کی وجہ زیادہ تر قیمتی خام مال ، غیر موثر بی ایم آر، خراب فنانسنگ اور مہارتوں میں کمی ہے۔ ان مسائل کی فہرست بنانے اور ترجیحی بنیادوں پر ان کو حل کرنے کے لیے مختلف صنعتی یونٹوں کے جامع تجزیے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدات پلس تخلیق کیا جا سکے۔
ایسی اشیا اور خدمات کا انتخاب کر کے جو ہمیں عالمی منڈی میں مقابلتاً فائدہ دے سکیں ،ایکسپورٹ پروموشن بیورو کو ایک فعال اور سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اس مقصد کے لیے عالمی طلب کی سائنسی اور پیداوار پر مبنی شماریاتی تحقیق ضروری ہے۔ہمارے لیے صرف ٹیکسٹائل اور خوراک ہی آپشن نہیں ہیں ، ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونی کیشن آلات، آٹو موٹِو پارٹس، کھیلوں کا سامان، ادویات، قابلِ تجدید توانائی، پیٹروکیمیکلز وغیرہ دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔برآمدات کی بنیادوں کو متنوع بنانا پاکستان کے لیے پائیدار برآمدات کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہمارے افرادی وسائل مقابلے والے نہیں ہیں، اس لیے ہمیں اُنھیں ہنر مند بنانے، روزگار کے حصول کے لیے کارآمد بنانے، جدید ترین علم اور ٹیکنیکس کی اشاعت کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
اب ہماری صنعت کی اولین ترجیح کوالٹی ہونی چاہیے کیوں کہ ہمیں صارفین کی منڈی چاہیے جو کوالٹی کو سمجھ سکے اور اس کی تعریف و تحسین کر سکے۔جب تک ملکی و غیر ملکی مصنوعات کا فرق ختم نہ کیا جائے، پاکستان معاشی جن نہیں بن سکتا۔ کہتے ہیں : اوّل خویش بعد درویش۔ یہی حال کوالٹی کا ہے۔ یوں یہ 180بلین روپے کا کیچ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *