پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی نوازشات کے باعث صنعتی شعبہ اپنے عروج پر ہے جب کہ زراعت جیسا اہم شعبہ کمزور ہو گیا ہے۔ اگرچہ خدمات کے شعبے نے 5.7فی صد کی نشوونما کے اپنے ہدف کو حاصل کر لیا ، پھر بھی پریشانی کے کافی اسباب ہیں کہ زراعت کے مقرر کردہ ہدف 3.9فی صد میں 0.19فی صد کمی آئی۔ اقوامِ متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے کے مطابق پاکستان دنیا میںسب سے زیادہ بیسن (تیسرانمبر) ، کپاس (چوتھا نمبر)، چاول (چوتھا نمبر)، آم (چوتھا نمبر)، دودھ (پانچواںنمبر)، کھجور (پانچواںنمبر)، گنا (پانچواںنمبر)، خوبانی (پانچواںنمبر)، خوبانی (چھٹانمبر)، سنگترے (چھٹا نمبر) پیاز (ساتواں نمبر)، گندم (ساتواں نمبر) اور فارم کی پیداوار (آٹھواں نمبر) کرنے اور سپلائی کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
اب تشویش کرنے والی کیا بات ہے؟
سب سے پہلے یہ بات ہے کہ زراعت جی ڈی پی کا 21فی صد اور تقریباً43فی صد مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ 21فی صد کے مایوس کن اعدادوشمار حقیقی دکھائی نہیں دیتے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ زراعت کے شعبے میں صرف لائیو سٹاک کا حصہ11فی صد ہے۔ مزید یہ کہ مچھلیاں ، جنگلات اور نقدآور فصلیں بقیہ میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ وہ فصلیں جو کبھی ہمارے قومی جی ڈی پی میں 53فی صد پر کھڑی تھیں، وہ 2016ءکی جی ڈی پی میں 10فی صد سے بھی نیچے آ گئی ہیں۔ ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ:
کبھی کپاس کو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا۔ یہ بہت بری طرح نیچے گری ہے اور اس نے 27فی صد کی شرح سے منفی بڑھوتری دکھائی ہے۔ 13.96ملین گانٹھوں کے ہدف میںسے اس کی پیداوار 10.1ملین گانٹھیں رہی ہے جب کہ سالِ گزشتہ 9.5فی صد کی نشوونما کی شرح کے ساتھ اس کی پیداوار13.9ملین گانٹھیں رہی تھی۔ نتیجةً روئی اوٹنے کے کام میں 5فی صد کے ہدف کے مقابلے میں 21فی صد کمی آئی ہے۔
نقدآور فصلوں کی پیداوار 3.2فی صد کے مقرر کردہ ہدف کے مقابلے میں 7.18فی صد نیچے گری۔ جب کہ دیگر فصلیں 4.5فی صد کے ہدف کے مقابلے میں 6.2فی صد نیچے گریں۔ لائیوسٹاک کے شعبے میں 3.63فی صد بڑھوتری ہوئی لیکن یہ بھی اپنے ہدف سے 4.1فی صد کم رہا۔ مچھلیوں کا مقر کردہ ہدف 3فی صد تھا جب کہ یہ اپنے ہدف سے 0.03 فی صد اُوپر رہیں۔ جنگلات نے دیے گئے ہدف 4فی صد کے مقابلے میں 8.8فی صد اضافہ دکھایا۔
ہندوستان سے سبزیاں درآمد کرنے کے فیصلے نے ہمارے کسانوں کو متاثر کیا ہے۔ وہ لوگ جو اسے برداشت کر سکتے ہیں اُنھیں دُنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی فاسفورسی کھادوں نائتروجن، یوریا اور ڈی۔اے۔پی کی مہنگی قیمتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔عالمی مالی کساد بازاری کے مقابلے میں پیداواری لاگت مسلسل بڑھ رہی ہے اور صارفین کی قوتِ خرید سے قیمتیں آگے چلی گئی ہیں۔
موجودہ حکومت کا مضبوط گڑھ پنجاب ہے جہاں زراعت کمائی کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ 2018ءمیں ہونے والے عام انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومتوں نے دانش مندی سے بجٹ پیش کیا ہے ۔ اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو یہ مایوس زرعی شعبے کے لیے مفید ثابت ہو گا۔
گزشتہ سال ایسا ہوا کہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے یا دونوں طرف سے تعلق رکھنے والے ارکانِ قومی اسمبلی نے اپنی اپنی پارٹی کی وابستگی سے بالاتر ہو کر متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ زراعت کے شعبے کو 200بلین روپے کی امداد دی جائے۔ 2015-16ءکے بجٹ پر ستر ارکانِ پارلیمان نے بات کی۔ ان میں سے حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رانا محمد حیات خان کی تقریر ایسی تھی جس نے سوتے ہوئے ارکان اور میڈیا کو جگا دیا۔ اُنھوں نے اس لہجے میں بات کی جیسے حزبِ مخالف سے تعلق رکھنے والا کوئی رکن بول رہا ہو۔ اُنھوں نے زراعت کے شعبے کے لیے بھرپور طریقے سے سب سڈی کا مطالبہ کیا۔ اُنھوں نے موجودہ اور سابقہ حکومتوں کو زراعت کے شعبے کو نظر انداز کرنے پر ہدفِ تنقید بنایا۔ مزید براں اُنھوں نے خشک دودھ اور ڈیری کی دیگر مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی لگانے کا مطالبہ کیا۔ اُن کی تقریر پر نہ صرف حزبِ مخالف نے تالیاں بجائیں بلکہ حکومتی ارکان نے بھی اُنھیں داد دی۔ ایک مثبت ردِعمل کا اظہار ہوا کیوں کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس اہم شعبے کے مفادات کو تحفظ دیے بغیر فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا ناممکن ہے ۔ فوڈ سیکیورٹی کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا تک نہیں تھا لیکن آج یہ بقا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
ہم گھٹیا کوالٹی والے زرعی آلات مثلاً ٹریکٹر،ہل، تھریشر اور دیگر آلات استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ کاشت کار طبقے نے جائز طور پر شکایت کی ہے کہ ان آلات کے بنانے میں غیر معیاری مواد استعمال کیا جاتا ہے۔ کاشت کاری کے لیے کیڑے مار ادویات، کھادیں اور دیگر کیمیکل ضروری ہیں مگر یہ کسان کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ان ضروری اشیا کے استعمال میں کمی سے زرعی ترقی رُک جاتی ہے۔متاثرہ کسانوں نے قیمتوں کے زیادہ ہونے اور تجارتی ٹیوب ویل ٹیرف کی بھی مذمت کی ہے۔ اُن کا نقطہ¿ نظر یہ ہے کہ ہندوستان کی طرح کھادیں اور کیڑے مار ادویات ٹیکس اور ڈیوٹی سے آزاد ہونی چاہییں۔ اس سے پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور عام کسان اس قابل ہو گا کہ وہ بھرپور فصلیں حاصل کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر کھادیں اور کیڑے مار ادویات استعمال کر سکے۔
ہم گوشت اور دودھ سے بنی مصنوعات کی پیداوار میں وسیع صلاحیت کے حامل ہیں۔ اس صلاحیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے زرعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کر کے اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں لیکن حکومتوں نے زرعی شعبے کے مطالبات پر زیادہ تر توجہ نہیں دی یہاں تک کہ ستمبر 2015ءمیں وزیرِ اعظم محمد نوازشریف نے کسانوں کے لیے ایک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد دیہی معیشت کو سنبھالا دینا تھا ۔ ان میں چاول اور کپاس اگانے والے کاشت کار شامل تھے جنھیں فصلیں اگانے کے لیے بھاری اخراجات کرنے پڑے اور بعد ازاں نقصان اٹھانا پڑا۔ اس پیکیج کے تحت 32بلین روپے کی نقد مدد فراہم کی گئیئ۔ اس سے سولہ لاکھ کاشت کاروں کو فائدہ ہوا۔ پنجاب میں دی پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ قریبی رابطے سے تینتیس اضلاع میں 166مراکزِ تقسیم قائم کیے گئے۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ، اربن یونٹ، نادرا، دی بنک آف پنجاب اور نیشنل بنک آف پاکستان کے نمائندوں نے مل کر ون ونڈو اپریشن کا اہتمام کیا جس کے تحت اوسطاً ایک دن میں دو سو کسانوں کو بھگتایا جاتا تھا۔ غربا کو سہولت دینے کا خواب حقیقت کا روپ دھار گیا۔
مالی سال 2016-17ءکے وفاقی بجٹ میں مرکزی حکومت نے یوریا کے لیے براہِ راست نقد رقم کی صورت میںمدد کرنے کے لیے 40بلین روپے مختص کیے۔ یوریا کے لیے 20بلین روپے کی سب سڈی ہے، اس کے تحت یوریا کھاد کی قیمت650روپے فی بوری کم کی جائے گی (2050روپے سے کم کر کے1400روپے)۔ دُوسری سب سڈی یوریا کی درآمد سے متعلق ہے۔ اس سے قیمتیں کم رکھنے میں مدد ملے گی۔ زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے رعایتی نرخہیں۔ 2015-16ءمیں ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں دی گئی مراعات 2016-17ءمیں بھی جاری رہیں گی۔ توقع کی جاتی ہے کہ 15بلین روپے کی رقم زرعی شعبے کی معیشت کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ مالی سال 2016-17ءکے دوران یوریا اور ڈی۔اے۔پی پر سب سڈی دینے کے لیے 46بلین روپے رکھے گئے ۔ حکومت نے ڈی۔اے۔پی کھاد کی ہر بوری پر تین سو روپے سب سڈی دی ہے اور یکم جولائی کے بعد اس کی نئی قیمت 2500روپے فی بوری ہو گی۔ گزشتہ تین سال کے دوران زرعی کریڈٹ کا حجم 336بلین روپے سے بڑھ کر600بلین ہو گیا ہے۔ مالی سال 2016-17ءکے لیے اس کا ہدف 700بلین روپے ہے۔ حکومت نے سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ذریعے ایک ڈھانچا بنایا ہے ۔ اس کے تحت زرعی ترقیاتی بنک، نیشنل بنک آف پاکستان، بنک آف پنجاب اور پنجاب کواپریٹو اپنا منافع (مارک اپ) دو فی صد کم کر دیں گے۔
یکم جولائی سے زرعی ٹیوب ویل کا آف پیک ریٹ فی یونٹ 8.85روپے سے کم کر کے 5.35روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے۔ اس خصوصی رعایت کی وجہ سے حکومت ہر سال 27بلین روپے کے اخراجات برداشت کرے گی۔ ڈیری، لائیو سٹاک اور پولٹری کے شعبے کے لیے مشینری کی درآمدی ڈیوٹی پانچ فی صد سے کم کر کے دو فی صد کر دی گئی ہے۔ ان کیوبیٹرز، بروڈرزاور اینیمل فیڈ سٹف پر عائد ڈیوٹی بھی پانچ فی صد سے کم کر کے دو فی صد کر دی گئی ہے۔ مچھلی کی خوراک والی پیلٹ مشینوں اور واٹر ائریٹرز پر ئد ڈیوٹی بھی پانچ فی صد سے کم کر کے دو فی صد کر دی گئی ہے۔مچھلی کی خوراک پر دس فی صد کسٹم ڈیوٹی تھی جب کہ کیکڑے کی خوراک پر کسٹم ڈیوٹی بیس فی صد تھی۔ مچھلی اور کیکڑے کی خوراک پر کسٹم ڈیوٹی دس فی صد کر دی گئی ہے ۔ اتنی ہی ڈیوٹی کی شرح مچھلی کے زندہ بچوں پر ہے۔
خوراک کی پراسیسنگ کے لیے کُول چین سٹوریج اور اس سے متعلقہ سامان کو ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ کیڑے مار ادویات اور ان کے اجزا جن پر سات فی صد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا تھا، اب وہ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ ان اہم مالی فیصلوں کے ذریعے حکومت نے زرعی شعبے کی حالت میں بہتری لانے کے عہد کا اظہار کیا ہے ۔ ان سے اس شعبے کو نئی زندگی پانے کے لیے اہم فروغ ملے گا۔ ہم پر امید ہیں کہ یہ فیصلے نہ صرف نفاذ کرنے کے مرحلے میں مفید ہوں گے بلکہ اس سے زراعت کو طویل المیعاد بقا بھی نصیب ہو گی۔