پاکستان ہر سال تقریباً دو ملین موٹر سائیکل بناتا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران میں اس فروخت کا بڑا حصہ یعنی 46فی صد جاپانی برانڈ اٹلس ہونڈا کے حصے میں آیا۔
جب کہ چینی عنصر اپنے عروج پر ہے، موٹر سائیکل کی صنعت میں غیر مخصوص سپلائی کا سلسلہ اور اُدھار پر سپلائی سرمایہ کاروں کے لیے یہ کاروبار کرنا امید افزا بنا دیتی ہیں۔ بہر حال اس کاروبار میں داخل ہونے والے نئے افراد اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ کم قیمت والے موٹر سائیکل ساز کے درمیان قیمتوں کا مقابلہ جاری ہے۔
یاماہاموٹرز نے ایک نئی فیکٹری لگائی ہے ۔ یوں یہ پاکستان کی موٹر سائیکل کی مارکیٹ میں ایک بار پھر داخل ہو رہی ہے۔ یہ پاکستان میں موٹر سائیکل جوڑنے سے بنانے کی طرف ایک اہم موڑ ہے۔
سالانہ دو ملین موٹر سائیکلوں میں سے تقریباً ایک ملین یونائیٹڈ، غنی، سپر پاورم یونیک، بی۔ایم۔ایل، کراﺅن، ایگل، ہیرو، میٹرو، اوساکا،پاک ہیرو، پاور، راوی، روڈ پرنس، سہراب، سٹار، سپر ایشیا، ٹریٹ اور دیگر جوڑتے ہیں۔
اگر پاکستان میں موٹر سائیکل کی صنعت پھلتی پھولتی ہے تو یہ 70 سی سی کو 100سی سی سے اُوپر میں بدل کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکتی ہے، کیوں کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں 70سی سی موٹر سائیکل بنائے اور بیچے جاتے ہیں۔ پاکستان میں موٹر سائیکل کی صنعت موٹر سائیکل بنا کم رہی ہے اور جوڑ زیادہ رہی ہے۔ اس صنعت میں نئے آنے والوں کے لیے لائسنس لینے کا عمل بہت سادہ ہے۔ سب سے بڑی ضرورت فیکٹری کا قیام ہے، جہاں موٹر سائیکل جوڑا جا سکے اور رنگ روغن کیا جا سکے اور تکمیل کے بعد ٹیسٹینگ کی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے وزارتِ صحت سے ایک این۔او۔سی لینا پڑتا ہے، ضروری دستاویزات مکمل کر کے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فائنل لائسنس انجنئیرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ فیکٹری اپنی پیداواری سرگرمیوں کا آغاز کر سکتی ہے۔ جوڑنے والوں کوپاکستان سٹینڈرڈ مارک کے لیے پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ایک اضافی لائسنس بھی لینا پڑتا ہے ۔ آئی۔پی۔او کے ساتھ ٹریڈ مارک کی رجسٹریشن اور سیلز ٹیکس کے لیے ایف۔بی۔آر میں اندراج اورپاکستان میں کاروبار شروع کرنے کی آخری ضرورت تیار کنندگان، درآمد کنندگان، تقسیم کنندگان اور برآمد کنندگان کے طور پر متعلقہ درجے (کیٹیگری) میں انکم ٹیکس میں اندراج ضروری ہے۔
مذکورہ بالا ضروریات کو پورا کرنے کے بعد جوڑنے والے یا بنانے والے کو صوبائی ایکسائز اینڈ ٹیکسیسشن ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کر کے موٹرسائیکل جوڑنے کی رجسٹریشن کرانی پڑتی ہے۔ یہ بات شعبے کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ موٹر سائیکل برانڈ کے لیے رجسٹڑیشن نمبر جاری کرے ۔ یہ مصنوعات خریدنے کے بعد آخری صارف ڈیپارٹمنٹ کو رجسٹریشن نمبر کے لیے درخواست دے گا۔
یہ معمولی رکاوٹیں اس صنعت میں داخل ہونے کے خواہش مندوں کی بہت کام آتی ہیں۔ کسی خاص سبب سے صرف چند ایک اس کاروبار کو مناسب طور پر کر رہے ہیں۔ موٹر سائیکل بنانے یا جوڑنے والی ایک سو بیس کمپنیوں میں سے چوٹی کے صرف چند ایک ہیں۔
ہونڈا موٹر کمپنی کے ترجمان شبیر شیخ نے MOREسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں جو حصہ ہمیں مل رہا ہے، وہ خود اس حقیقت کی وضاحت کر رہا ہے کہ پاکستان کی اکثریت قیمت کے مقابلے میں معیار کو ترجیح دیتے ہیں۔ مالی سال 2016ءکے گزشتہ چند مہینوں میں اس کمپنی نے موٹر سائیکل کی فروخت میں 16فی صد اضافہ دیکھا ہے۔ ”مجھے مقابلے کے بارے میں نہ بتائیں، ہر کوئی ہونڈا خرید رہا ہے، اصل یا نقل۔ مقابلہ کہاں ہے؟ “ یہ سوال شبیر شیخ نے تب کیا جب MOREنے قیمتوں میں مقابلے سے نمٹنے کے لیے کمپنی کی حکمتِ عملی کے بارے میں سوال کیا۔ قیمتوں میں مقابلہ پاکستان کے موٹر سائیکل جوڑنے والوں کے کاروباری فیصلوں پر بری طرح اثر انداز ہورہا ہے۔ ”ہم مارکیٹ میں موٹر سائیکل نقد پر بیچ رہے ہیں جب کہ نقل تیار کرنے والے تین ماہ سے لے کر ایک سال کے اُدھار پر بیچنے کے پابند ہیں۔ ہمارے ڈیلر پیشگی ادائیگی پر موٹر سائیکل خریدتے ہیں جب کہ گاہک اُن سے نقد ادائیگی پر خریدتے ہیں۔ شیخ نے فخر سے یہ بات کہی۔
کہتے ہیں کہ کاروبار میں کوئی پرانی سڑک نئی سمت کو نہیں جاتی لیکن یہ بات پاکستان میں موٹر سائیکل ساز یا موٹر سائیکل جوڑنے والوں پر صادق نہیں آتی۔ 1970کی دہائی میں بنے ہوئے موٹر سائیکل 2016ءکے ماڈل کے لیے بھی موزوں ہیں۔جدت کے حوالے سے یہ صنعت اس قدرجامد ہو چکی ہے کہ جن کمپنیوں نے کوئی جدت متعارف کرائی، اُنھیں پرانی طرز پر واپس آنا پڑا یا مارکیٹ میں اُنھیں کوئی حصہ نہ ملا۔
1970ءکی دہائی سے یاماہا (داﺅد یاماہا لمیٹڈ) مارکیٹ کی لیڈر ہونڈا سے براہِ راست مقابلے میں تھا۔ 2000ءمیں یاماہا کا مارکیٹ میں حصہ جاتا رہا۔ اس کی وجہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور دو سٹروک انجن تھے۔ کمپنی ایک بار پھر اپریل 2016ءمیں وائی۔بی۔آر125شروع کر کے مارکیٹ میں آ گئی ہے ۔ یہ ایک ترقی یافتہ موٹر سائیکل ہے جو دیکھنے میں سپورٹی لگتی ہے۔ اسے حسبِ توقعات کامیابی نہیں ملی کیوں کہ نئی نسل اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ کسی زمانے میں موٹر سائیکل کی صنعت میں یہ دُوسرے نمبر پر تھی۔ دُوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وہ نئے آنے والے کو ہونڈا کے برابر یا اِس سے زائد حصہ دینے کو تیار نہیں ۔ اس کے علاوہ جدت وہ شے نہیں جسے پاکستانی گاہک موٹر سائیکل خریدتے وقت تلاش کرتے ہیں۔
محمد خالد لاہور میں یاماہا 3 ایس کے ڈیلرہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ یاماہا ناکام نہیں ہوئی بلکہ کمپنی کی داﺅد گروپ کے ساتھ شراکت ناکام ہوئی۔ داﺅد یاماہا لمیٹڈ پاکستان میں یاماہا کے نئے ماڈل متعارف کرانے میں ناکام رہی اور اُس نے ہونڈا کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا۔ اب کمپنی باقاعدہ طور پر پاکستان میں ہے ، اس کے پاس موٹر سائیکل سازی کی سہولت کے علاوہ ٹھیک ٹھاک سرمایہ کاری اور جدت آمیز ماڈل بھی ہیں۔ آنے والے سالوں میں یہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کر سکتی ہے۔
قبل ازیں یاماہا پاکستان نے موٹر سائیکل ساز فیکٹری کی تعمیر مکمل کی اور اس کی افتتاحی تقریب 27اپریل 2015ءکو منعقد ہوئی۔ کمپنی بن قاسم انڈسٹریل پارک کراچی میں 203,456 مربع میٹر قطعہ¿ اراضی پر تعمیر کی گئی ہے۔ اس میں سے 17,000مربع میٹر پر عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ تقریباً 1400ملازمین کے تھ کمپنی کا آغاز ہوا۔ جب سے یاماہا موٹرز نے نئی کمپنی کے ساتھ پاکستانی موٹر سائیکل مارکیٹ میں دوبارہ قدم رکھا ہے ، کاروباری پیمانے کی وسعت نئے وسط مدتی انتظامی منصوبے کے ساتھ رواں دواں ہے۔ یاماہا کا ہونڈا کے ساتھ انٹی تھیسز اس کا یہ عہد ہے کہ اپنے اپریشن کو ہر سال 15فی صد کی شرح سے مقامیت دے گی۔ یوں 2022ءتک تما م فاضل پرزہ جات اور انجن کی تیاری کا عمل پاکستان میں انجام پائے گا۔ یہ موٹر سائیکل جوڑنے سے موٹر سائیکل سازی کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے اور اس سے ہماری مقامی صنعت کو لاجواب تقویت ملے گی۔
ستمبر2016ءکی رپورٹ میں پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹڈ نے اعلان کیا ہے کہ اس کا موٹر سائیکل کی فروخت کا حجم 19فی صد کم ہوا ہے۔کمپنی نے کہا ہے کہ فروخت میں کمی کی وجہ موٹر سائیکل مارکیٹ میں کمپنی کا 70سی سی انجن کا نہ ہونا اور یاماہا کابہتر انجن کی صلاحیت کا ہونا ہے، یعنی 100سی سی انجن کا مارکیٹ میں نیا داخلہ ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یاماہا اور سوزوکی موٹر سائیکل دونوں پاکستان میں 100سی سی سے زیادہ رینج والی کمپنیاں ہیں جب کہ اس صنعت کی فروخت میں اضافہ70سی سی میں ہوا ہے۔ پاکستان میں کل مارکیٹ کا 80فی صد حصہ 70سی سی کو جاتا ہے جب کہ 100سی سی سے زیادہ کا حصہ محض 15فی صد ہے۔ ہونڈا اور سوزوکی اس کے بڑے کھلاڑی ہیں، اس کیٹیگری کی اوسط قیمت 102,000سے لے کر120,000روپے ہے۔ یاماہا وائی،بی۔آر (125سی سی)کی قیمت 129,400روپے ہے جو سب سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود یاماہا، سوزوکی کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یاماہا کی جدت اور سٹائل ہے جو یاماہا پیش کر رہا ہے۔
مالی سال 2015-16کے دوران میں گزشتہ سال کی نسبت موٹر سائیکل کی پیداوار میں 16.54فی صد اضافہ ہوا ۔ جون،جولائی 2015-16))کے دوران میں 2,071,123تیار کی گئیں جب کہ جون، جولائی (2014-15) کے دوران میں 1,777,251موٹر سائیکل تیار ہوئے۔ یہ اعدادوشمار ادارہ¿ شماریات پاکستان (پاکستان بیورو آف سٹیسٹکس) سے لیے گئے ہیں۔ موٹر سائیکل کی پیداوار 16.41 فی صد اُوپر گئی کیوں کہ یہ اگست2015ءمیں 178,748 تھی جب کہ اگست2016ءمیں یہ تعداد 206,078 ہو گئی۔
ایسوسی ایشن آف موٹر سائیکل اسمبلرز کے چئیرمین محمد صابر شیخ نے اس صنعت کے مستقبل کے بارے میں MOREسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم اپنے عوام کی خدمت کر کے یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ ہمارے منافع کی شرح بہت کم ہے۔ قیمتیں بہت مناسب اور کوالٹی قابلِ موازنہ ہے۔ کیا آپ نے کوئی مقامی برانڈ کی موٹر سائیکل کوڑے کرکٹ میں دیکھی ہے؟ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ لوگ پاکستان میں جوڑی جانے والی چین کی بنی ہوئی موٹر سائیکلوں کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں تو وہ خفا ہو گئے۔ ”ہر موٹر سائیکل سڑک پر ہے، ہماری موٹر سائیکل کی زندگی کا مقابلہ کسی بھی برانڈ کی موٹر سائیکل کی زندگی سے کیا جا سکتا ہے اور پھر بھی ہماری موٹر سائیکل کی قیمت ایسی ہی مشہور برانڈ کی موٹر سائیکل سے ایک تہائی ہے۔ ©©“
” ہم قابلِ برداشت قیمتوں پر موٹر سائیکل دے کر غریب لوگوں کے دل جیت رہے ہیں۔ ہم اُن کو وہ دے رہے ہیں جو وہ مطالبہ کرتے ہیں۔حکومت غیر ملکی برانڈز کوخصوصی مراعات کیوں دے رہی ہے جب کہ وہ ہم سے کچھ بہتر پیدا نہیں کر رہے۔ ہونڈا 70میں ایسی کون سی چیز ہماری موٹر سائیکل سے بہتر ہے جس کی وہ تین گنا زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں؟ آپ غیر ملکی برانڈز کا قیمتیں بڑھانے کے لیے گٹھ جوڑ کر رہے ہیں اور انھیں اس بات کی اجازت دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں اور مقامی صنعت کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ مقامی صنعت کے لیے درآمد پر غیر ملکی برانڈز کی نسبت کہیں زیادہ پانچ مختلف قسم کی ڈیوٹیاںہیں۔ ہم ہر سال چار ملین موٹر سائیکل بناکر بیچ سکتے ہیں۔ ہم آدھے پرزے پاکستان میں تیار کر رہے ہیں جب کہ ہم تمام پرزے بھی تیار کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں مقامی صنعت کے طور پر کسی رعایت کا حق دار نہیں سمجھتے تو ہمیں اور اُن کو کھیلنے کے لیے یکساں میدان فراہم کریں ۔
افغانستان کو موٹر سائیکل کی برآمد میں کمی آئی ہے اور ابھی بنگلا دیش، سری لنکا، اریٹیریا، صومالیا، ایتھوپیا، ڈجبوٹی، کینیا، یوگنڈا اور وسط ایشیائی ریاستوں کی مارکیٹ کو دریافت کرنا ہے۔ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے پاس بنیادی آلہ نہیں ہے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ ہماری صنعت کی پیداوار دھوئیں، کاربن مونو آکسائیڈ اور شور کے یورودو کے معیار پر پورا اُتر رہی ہے کہ نہیں۔
ہماری برآمد کے آرزومندوں کے لیے یہ شدید خطرہ ہے کہ جو ہم فخر سے پیدا کرتے ہیں وہ معیار کے مطابق نہیں ہوتی اور دُنیا اُس کے خریدنے میں دل چسپی نہیں لیتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پیداوار کا صرف 1.4 فی صد برآمد ہوتا ہے۔ اگر مقامی طور پر موٹرسائیکل جوڑنے والے جدت نہیں لائیں گے تو یہ کام کوئی اور کرے گا۔ جب تک ہم ساحل سے دُور جانے کا حوصلہ نہ رکھیں ، آپ نئے سمندر دریافت نہیں کر سکتے۔