وہ وقت گزر چکا جب بے شمار امریکی، برطانوی، کینیڈین، چینی، جرمن، آسٹریلوی، حتیٰ کہ پوری دُنیا سے لوگ فطری حسن، حیران کن تاریخی و ثقافتی ورثہ دیکھنے پاکستان آیا کرتے تھے۔ ہمارے خوب صورت ملک کی سیاحت دہشت گردی اور عدم استحکام کے مسائل سے دوچار ہے۔ اب صرف چند سخت جان متلاشی ہی ادھر کا رُخ کرتے ہیں۔ اس کی باثروت ثقافت، دیدنی پہاڑی مقامات، فطری مقامات، تاریخ، ورثہ، خوب صورت جھیلیں اور آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ آنکھوں میں آنسو لیے شوقین سیاحوں کی راہ دیکھتے ہیں۔ وہ سیاح جو اسے دیکھنے کے بعد دُنیا کو بتا سکیں کہ دُنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ کچھ کہیں گے کہ سیاست پہلے آتی ہے، وہ بھی غلط نہیں ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردی نے ہماری سیاحت کو تباہ کر دیا ہے۔ سال2013ءسب سے بد قسمت سال تھا جب گلگت کے سکاﺅٹوں کی وردیوں میں ملبوس سولہ عسکریت پسندوں نے22جون کو گلگت بلتستان کے ایک بلند ی پر واقع کوہ پیمائی کے بیس کیمپ پر حملہ کر دیا اور دس کوہ پیماﺅںاور ایک مقامی گائیڈ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ یہ کوہ پیما مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے جن میں یوکرائن، چین، سلوواکیا، لتھوانیااور نیپال شامل تھے۔
ملک بھر میں سیاحوں پرہونے والے بار بار کے حملوں سے ہٹ کر بہت سے ممالک نے اپنے شہریوں کو سفری مشاورت دی۔ 2016ءمیں برطانیہ کے دفترِ خارجہ نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے کئی علاقوں جیسے فاٹا،کوہاٹ، لکی اور لوئر دیر کے اضلاع، پشاور شہر، شمالی اور مغربی بلوچستان، اسلام آباد اور قراقرم ہائی وے کے مابین سفر کرنے سے روک دیا۔ اُنھوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ بغیر ضرورت کے وادیِ کیلاش، وادیِ بمبوریٹ اور صوبہ خیبر پختون خوا کے چترال کے جنوبی اور مغربی اراندو ضلع، کوئٹہ شہر، سندھ کے شہر نواب شاہ اور نواب شاہ کے شمال میں اندرونی سندھ میں جانے سے احتراز کیا جائے۔ ان ممنوعہ علاقوں میں سے اکثر ایسے ہیں جو سیاحوں کے لیے زبردست کشش رکھتے تھے۔
اقوامِ متحدہ کی عالمی سیاحت کی تنظیم کی 2016ءکی رپورٹ پاکستان کے بارے میں خاموش ہے۔ یہ رپورٹ موازنہ کر کے بتاتی ہے کہ 2015ءمیں 18,269000سیاحون نے جنوبی ایشیا کی سیاحت کی۔ 2014ئ، 2013ءاور2010ءمیں بالترتیب سیاحوں کی تعداد 17495000، 15966000 اور 12137000 تھی۔ 2010ءمیں سری لنکا میں 654,000 سیاح آئے، اسی سال 907,000 سیاحوں نے پاکستان کا رُخ کیا، لیکن یہ چھوٹا سا ملک 2015ءمیں جنوبی ایشیا میں سیاحت کے اعتبار سے سر فہرست رہا۔ اس سال 17, 98,000سیاحوں نے سری لنکا کی سیر کی اور سیاحوں کی تعداد میں 17.8فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس نے سیاحت سے 2981ملین امریکی ڈالر کمائے۔ ہمارا بالکل پڑوسی ملک ہندوستان جنوبی ایشیا ئی سیاحت میں سب سے آگے ہے اور اُس کا مقابلہ ایران سے ہے۔ 2015ءمیں 8,027,000 سیاحوں نے ہندوستان کی سیر کی جب کہ 5,237,000سیاح ایران کی میزبانی سے فیض یاب ہوئے۔ دونوں ملکوں نے گزشتہ سال سیاحت کے شعبے میں بالترتیب4.5 فی صد اور 5.4فی صد بڑھوتری دکھائی۔ 2016ءمیں ہندوستانی معیشت کوسیاحت کی مد میں 21,013 امریکی ڈالر کا فائدہ پہنچا۔
سیاحت کی مشہور ویب سائٹس پر پاکستان کے بارے میں خوفناک باتیں لکھی گئی ہیں۔” پاکستان میں جاری سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے غیر ملکی حکومتیں یہ مشورہ دیتی ہیں کہ سوائے اہم ضرورت کے ملک کے بہت سے حصوں میں سفر نہ کیا جائے۔اگر آپ ان مشوروں کو نظر انداز کرتے ہیں تو آپ کی سفری انشورنس کارآمد نہیں ہوگی ۔ سیاسی تشددکے خطرے کے باعث غیر ملکی سیاحوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کچھ علاقوں میںحفاظتی دستے کے ساتھ سفر کریں۔ پاکستان میں سفر سے پیشتر سیکیورٹی کی صورتِ حال کے بارے میں تازہترین معلومات حاصل کریں۔“
یوں پاکستان میں غیر ملکی سیاحوں کی میزبانی کے تاریخی دور کو واپس لانا دُور کی بات لگتی ہے کیوں کہ سیکیورٹی کی صورتِ ھال ابھی تک سازگار نہیں ہے۔ غیر ملکی مہمانوں کو سیکیورٹی کی ضمانت دینے میں یقیناً وقت لگے گا ۔ ہماری سیاحت کے اِحیا کا واحد فوری حل اور اس کے بارے میں اچھی اچھی باتیں پھیلانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہم وطنوں کو ان حسین مقامات کی طرف بلائیں۔ ملکی سیاحت کے ذریعے سے ہم خوف کے عنصر پر قابو پا سکتے ہیں اور ضروری آمدن بھی کر سکتے ہیں جس سے ہم موجودہ مقامات ِ سیاحت کو سجا سنوار سکتے ہیں اور نئے سیاحتی مقامات کو بھی ترقی دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں بین الاقوامی سیاحت کے زوال سے لے کر اب تک پاکستان نے عالمی چارٹ نہیں بنائے جو کسی خاص ملک میںسیر کرنے والے بین الاقوامی سیاحوں کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے اپنے عوام پاکستانی حسن کی طرف امڈے پڑتے ہیں۔ تخمینے بتاتے ہیں کہ ہر سال تقریباً اسی ملین پاکستانی افراد اندرونِ ملک سیروسیاحت کے مقصد سے سفر کرتے ہیں۔ لیکن اس پھلتی پھولتی ملکی سیاحت نے پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو تیار نہیں کیا۔جب ملازمین اور افسران کے اختیارات نچلی سطح تک صوبوں کو منتقل ہو کر مختلف وزارتوں اور ڈویژنوںکو چلے گئے تو کارپوریشن کے ملازمین اور افسران ڈیپوٹیشن پر چلے گئے ۔ پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے ہمیشہ وفاقی حکومت کی طرف دیکھا ہے کہ وہ اسے کوئی بیل آﺅٹ پیکیج دے۔ یہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے میں ناکام رہا ہے۔ اسے چاہیے کہ یہ ملکی سیاحت پر توجہ مرکوز کرکے اور سہولتیں دے کر آمدنی کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ صوبے اپنے اپنے سیاحتی شعبے قائم کرکے انھیں فعال کرتے لیکن انھوں نے پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے 35بلین روپے کے اثاثوں پر قبضہ جمانے کے علاوہ کسی اور بات میں دل چسپی نہیں دکھائی ۔ یہ لالچی سوچ اُن کے چشم پوشی پر مبنی وژن اور مبہم ترجیحات کی غمازی کرتی ہے۔ ہم اب بھی سیاحت سے ہر سال اربوں کما سکتے ہیں لیکن صوبائی سیاحت کے دفاتر میں بیٹھے اہل کار وں کو پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی قیمتی زمین ہتھیانے کے اور کوئی کام نہیں ہے۔ ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کے مینجنگ ڈائریکٹر احمر ملک کا خیال ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی ملکی سیاحت کے ساتھ قدم بقدم چلنے کے لیے صوبے بڑھ چڑھ کر کوششیں کر رہے ہیں۔
”پاکستان ٹوڈے“ کی فون کال پر حیران و پریشان ملک صاحب نے ذکر کیا کہ ڈیزرٹ جیپ ریلی، سائٹ سینگ لاہور بس، مری سفاری ٹرین، فوڈ سٹریٹس اور ایکس پلور پنجاب میگزین ملکی سیاحت کے فروغ میں دُوسرے صوبوں سے بہتر کام کر رہے ہیں۔
لیکن دیگر صوبوں سے ایسی مثالیں نہیں ملتیں۔ اٹھارویں ترمیم، ٹریول ایجینسیز ایکٹ 1976 اور قوانین 1977، پاکستان ہوٹلز اینڈ ریسٹورنٹس ایکٹ 1976 اور رُولز 1977، ٹورسٹ گائیڈز ایکٹ1976اور رُولز 1996 کے درمیان گھومتے پھرتے وہ خوشامد میں مصروف ہیں۔ وہ بار بار پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے بقیہ مقامات اور اختیارات پر کنٹرول کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ صوبے اس بنیادی حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ غیر موثرپاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن جدید دُنیا میں پاکستانی سیاحت کے کرشمہ کے بارے میں کوئی دست گیری نہیں کر سکتی ۔ پنجاب کی طرح دیگر صوبوں کو آگے بڑھ کر اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور غیر ملکی سیاحت کی عدم موجودگی میں ملکی سیاحت سے آمدن اکٹھی کرنی چاہیے۔
ٹورزم کارپوریشن خیبر پختون خوا ایسی ہی ایک مثال ہے۔ چھ سال تک پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی طرف سے کوئی سروس مہیا نہیں کی جا رہی تھی، بار بار پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن سے موٹلز اور ہوٹلز حوالے کرنے کے مطالبات کرنے کے بعد بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ ٹو رزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کے ماڈل کی تقلید کی جائے۔ٹورزم کارپوریشن خیبر پختون خوا کی مینجنگ ڈائریکٹر زہرہ عالم نے کسی ماڈل کی نقل کی تردید کی اور کہا کہ صوبائی حکومت سے بہت سے ہوٹل حاصل کرنے کے بعد اس کے صوبے نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔ ”مالم جبہ ، سوات کے مقام پرعام سیاحوںاور برف پر پھسلنے والوں کی خدمت کے لیے دہرے مقصد والی چئیر لفٹ اور ایک زِپ لائنر کی تنصیب کی گئی ہے۔ سیاحوں کو سہولت دینے کے لیے صوبائی حکومت نے انیس ریسٹ ہاﺅس ہمارے (ٹورزم کارپوریشن خیبر پختون خوا )کے حوالے کیے گئے ہیں۔ “ زہرہ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے نئے مینیجر چودھری عبدالغفور کا خیال ہے کہ اُس کارپوریشن کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کے صوبائی مطالبات درست نہیں۔ ”ہم سہولت کار ہیں اور براہِ راست وفاقی حکومت اور صوبائی سیاحتی شعبوں کے ماتحت ہیں۔ ہمارا ایک مشترک مقصد ہے اور وہ ہے پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینا۔ ہمارے فرائض اور دائرہ¿ کار مختلف ہیں لیکن مقاصد مختلف نہیں۔ ہر کسی کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارا کام سرکاری اور نجی شعبے میں چلنے والی سیاحتی تنظیموں کو سہولت بہم پہنچانا ہے۔ “
”ہم ہر سال دوبئی، برلن، ٹوکیو، بیجنگ، لندن وغیرہ میں منعقد ہونے والی سرکردہ بین الاقوامی سیاحتی نمائشوں میں انھیں سہولت بہم پہنچاتے ہیں۔ جب تک ہم تمام صوبائی سیاحتی شعبوں، ٹریول ایجنٹس، ٹور اپریٹرز اور ہوٹلیرز کے ساتھ رابطے میں نہ ہوں ، ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہم پاکستان کی سیاحت کی جان ہیں اور صوبائی سیاحتی شعبے اس کے جسم کے حصے ہیں۔ ہم سب ایک دُوسرے کی ضرورت ہیں۔ صوبے سیاحت میں سرمایہ لگائیں گے اور پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن عالمی سطح پر صوبوں کی کوششوں کو مارکیٹ کرنے اور سہولت دینے کے لیے ہر کوشش کرے گا۔“
ہم بین الاقوامی تنظیموں مثلاً اقوامِ متحدہ کی عالمی سیاحتی تنظیم ، پیسفک ایشیا ٹریول ایسوسی ایشن وغیرہ کے رکن ہیں اوروہاں ملک کے سیاحتی ایجنڈا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہمارا اگلا کام وفاقی حکومت کی جانب سے بیرونی ممالک کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دست خط کرنے اور ان کا نفاذ ہے۔ ہم بے کار نہیں ہیں، ہم اہم ہیں۔“ چودھری عبدالغفور نے کہا۔
اس سے پیشتر سینٹ میں ایک بریفننگ دیتے ہوئے کیبنٹ ڈویژن کے انچارج وزیر نے اطلاع دی کہ پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے چیل منکیال اور بفر سوات میں دو نئے موٹل تعمیر کر رہی ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاحتی مقامات پر پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی سیرگاہیں یا تو بند ہو چکی ہیں یا پھر خستہ حالت میں ہیں جب کہ دیگرسہولتیں جیسے آمدورفت اور گائیڈز بھی موجود نہیں۔
پاکستان میں یونیسکو عالمی ورثے کے بعض چوٹی کے مقامات ہیں۔ ان مقامات میں مندرجہ¿ ذیل شامل ہیں:
آثارِ قدیمہ کے موہن جوداڑو کے کھنڈرات، وادیِ سندھ کی تہذیب
تخت بھائی اور سحرِ بہلول کے مقامات پر پہلی صدی کے بدھ مت کے کھنڈرات
ٹیکسلا کے کھنڈرات، گندھارا تہذیب
قلعہ¿ لاہور اور شالامار باغ، مغل دورِ حکومت
تاریخی آثار، ٹھٹھہ کا قدیم شہر
کابلی دروازہ، لاہور(مغلیہ دور میں 1673ءمیں تعمیر کیا گیا)
مسجد وزیر خان ، لاہور (شاہ جہان نے 1635ءمیں تعمیر کی)
جہانگیر ، آصف خان کے مقبرے اور اکبری سرائے، لاہور (مقبرے1627ءمیں تعمیر کیے گئے)
ہرن مینار اور تالاب، شیخوپورہ ( مغل بادشاہ جہاں گیر نے1606ءمیں تعمیر کرایا)
شاہ رکنِ عالم کا مقبرہ، ملتان (1335 ءمیں تعمیر کیا گیا)
قلعہ رانی کوٹ ، دادو ، دُنیا کا سب سے بڑا قلعہ(سترھویں صدی میں تعمیر کیا گیا)
مسجد شاہ جہان ، ٹھٹھہ (1647ءمیں تعمیر ہوئی)
چوکھنڈی مقبرے ، کراچی (مغل عہد میں تعمیر ہوئے)
مہر گڑھ، بلوچستان ( پتھر کے زمانے کے قدیم ترین کھنڈرات میں سے ایک اور آثارِ قدیمہ کے مقامات)
رحمان ڈھیری ، ڈیرہ اسماعیل خان (وادیِ سندھ کی تہذیب کے تاریخی کھنڈرات)
ہڑپہ ، پنجاب(کانسی کے دور کے تاریخی کھنڈرات)
رانی گھاٹ، خیبر پختون خوا(بدھ مت کے راہبوں کی عمارت کے آثار)
شاہباز گڑھی چٹانی شاہی فرمان ( بادشاہ موریان، اشوکا کی کندہ کاری)
مانسہرہ چٹانی شاہی فرمان (تیسری صدی قبل مسیح کی قدیم ترین تحریریں)
بلتی قلعہ ، وادیِ ہنزہ (تبتان طرز کا تیرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا قلعہ)
بی بی جوندی کا مقبرہ، بہا ءالحلیم اُستاد نوریہ، مسجدِ جلال الدین بخاری ، اُچ شریف ( تاریخی شخصیات کے پانچ آثار)
بھنبھور کا قلعہ، تاریخی بندرگاہی شہر کے آثارِ قدیمہ
ان تاریخی اور قیمتی سیاحتی مقامات کی طرف مقامی سیاحوں کو بلانے میں بڑی رکاوٹ سہولتوں اور آمدورفت کی کمی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں بہت سے نجی ٹور اپریٹرز اس کاروبار میں داخل ہوئے ہیں، وہ مقامی سیاحوں کو کفایتی نرخوں والے پیکیج پیش کرتے ہیں اورقیا م و طعام کی سہولتوں کے ساتھ کئی مقامات کی سیر کراتے ہیں۔ اس سے سیاح کو ذہنی سکون ملتا ہے اور منصوبہ بندی کا بوجھ اُتر جاتا ہے۔ خاندان خصوصی طور پر تمام سہولتوں والے ایسے پیکیج کو ترجیح دیتے ہیں جہاں وہ یک مشت ادائیگی کر تے ہیں۔
سیاحت کو فروغ دینے کے لیے 25دسمبر کو پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن اور پاکستان ریلویز مشترکہ طور پرراول پنڈی سے کراچی تک ایک ٹرین چلاتے ہیں۔ اس ٹرین کو ”سدا سلامت پاکستان“ کا نام دیا گیا ہے، اس ٹرین کی وساطت سے پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو اُمید ہے کہ ملک بھر سے کثیر تعداد میں سیاح مقامی سیاحت کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ ایسے بامقصد قدم کی اہمیت کو ردّ نہیں کیا جا سکتا، پھر بھی اس سے پیٹ نہیں بھرتا۔ پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی کمائی کا اصلی ذریعہ کہیں اور چھپا بیٹھا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے، بیل آﺅٹ کی رسوائی مالی لحاظ سے قابلِ عمل اور خودمختار بنتی جا رہی ہے۔
پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن وقت سے فائدہ اُٹھانے میں ابھی تک ناکام ہے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ یہ اپنے موٹلز اور دیگر وسائل کو منافعے کی بنیاد پر نجی ٹور اپریٹرز کوٹھیکے پر دے دے۔ ایک نجی ٹور اپریٹنگ ایجنسی کے مالک عاصم اقبال لاہور سے تین روزہ سیر پر وادیِ کاغان لے جانے کی سہولت دیتے ہیں۔ ”ہمارے پاس انیس ملازم اور دو ائر کنڈیشنڈ کوچز ہیں۔ہمارا ناران، سری پائے اور سیف الملوک میں پانچ ہوٹلوں کے ساتھ شراکتی معاہدہ ہے۔ ہم لاہور سے سیاحوں کوایک ہی مقام ٹھوکر نیاز بیگ سے گاڑی پر بٹھاتے ہیں اور ٹور مکمل ہونے پر واپس اُتارتے ہیں۔ اگر کوئی سیٹ خالی رہ جائے تو ہم اپنے اسلام آباد میں واقع دفتر سے بھی سیاح لے لیتے ہیں۔ ہم ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہم ہوٹل میں قیام کی سہولت دیتے ہیںاور پہلے سے طے شدہ مقامات تک اچھے ٹور گائیڈز کے ساتھ سیاحوں کو آمدورفت کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں۔ مشکل ہی سے کوئی دن ایسا ہوگا جب ہم ٹور اپریٹ نہ کرتے ہوں۔ لوگ اچھی سروس چاہتے ہیں اور ہم بہترین انداز میں یہ سروس فراہم کرتے ہیں۔“
عذر زیادہ دیر نہیں چلیں گے ۔ اب سیاحوں کو سہولتیں فراہم کرنی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، غربت اور دیگر تمام عوامل ہمیں بین الاقوامی سیاحت سے دُور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ مقامی سیاح ، چند ایک جذبہ¿ شوق سے سرشاراور مثبت بین الاقوامی متلاشی ، کیا ہم خوب صورت مگر جنوبی ایشیا کے مسائل زدہ بچے، پاکستان، کی طرف جا رہے ہیں؟