pin up casinomostbet1winpin up

کارگل ہمارے لیے سب سے جانا پہچانا لفظ ہے ۔ اس کی وجہ صرف وہ جنگ ہے جو کشمیر کے ضلع کارگل میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ مئی سے جولائی1999ءمیں ہوئی۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں فوج پر بھاری اخراجات کر رہے ہیں جو ان ممالک کی تجارت اور صنعت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان ملکوں کے عوام کارگل ان کارپوریٹڈ کے بارے میں نہیں سوچ سکتے جو ایک نجی امریکی عالمی ادارہ ہے۔ اس کمپنی کی بنیاد 1865ءمیں رکھی گئی ، یہ امریکا کی خوراک کی صنعت کا سب سے بڑا نجی ملکیتی ادارہ ہے۔ 66ممالک میں اس کے 140,000ملازمین ہیں۔ امریکا سے اناج برآمد کرنے کا 25فی صد اس کے حصے میں آتا ہے۔ امریکا میں گھروں میں استعمال ہونے والے گوشت کا 22فی صد یہ ادارہ فراہم کرتا ہے اور تھائی لینڈ میں پولٹری کی پیداوار کا یہ سب سے بڑا ادارہ ہے۔دُنیا بھر میں میکڈونلڈ کے ریستوران صرف وہ انڈے استعمال کرتے ہیں جو کارگل کے پلانٹس سے گزر کر آتے ہیں۔ البرجر پراسیس سالٹ بنانے والی یہ واحد کمپنی ہے۔ یہ نمک فاسٹ فوڈ اور خوراک کی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔
آج پاکستان اسلامی دُنیا میں پانچویں اور پوری دُنیا میں سب سے زیادہ فارم کی پیداوار دینے والا ملک ہے۔ خوراک کی پیداوار میں ہم شان دار عالمی مقام رکھتے ہیں۔اس پیداوار میں بیسن (دوسرا)، آم (تیسرا)، خوبانی (چوتھےوو)، گنا (چوتھے)، دودھ (پانچویں)، پیاز (پانچویں)، کھجور (چھٹے)، چاول (آٹھویں)، گندم (نویں)اور سنگترے (دسویں) نمبر پر ہیں۔ لائیو سٹاک کی بات کی جائے تو اس کی بھینسیں، بکریاں، بھیڑیں اور مویشی دُنیا میں بالترتیب دُوسرے، تیسرے، نویں اور تیرھویں نمبر پر ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں زرخیز زمین اور پانی کی بہتات ہے تاہم اس کی کل زمین کا صرف 25فی صد زیرِ کاشت ہے۔ پھر بھی یہ 25 فی صد اس کے نظامِ آب پاشی کو دُنیا کا بہترین نظام قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ نظام اس قدر وسیع ہے کہ آج ہمارا ملک روس سے تین گنا زائد ایکڑ سیراب کرتا ہے۔ جب ہم پاکستان کا روس کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے پاکستان کے کل رقبے سات لاکھ مربع کلومیٹر کا روس کے 7.1ملین مربع کلومیٹر کے ساتھ موازنہ۔
ہمارے ملک کے چوالیس فی صد مزدور خوراکزراعت کے ساتھ منسلک ہیں اور یہ ہماری جی ڈی پی کا 23فی صد ہے۔ خوراک اور اس سے جڑی ہوئی مصنوعات والی صنعتیں پاکستان میں سب سے زیادہ ہیں کیوں کہ یہ 27فی صد ویلیو ایڈڈ پیداوار دیتی ہیں اور مینو فیکچرنگ کے شعبے کا 16فی صد روزگار اس سے وابستہ ہے۔ پاکستان اکنامک سروے کے ایک حالیہ اندازے کے مطابق تقریباً اسی ہزار چھوٹے کاروبار ہیں اور ملک میں دو ملین سے زیادہ مائیکرو انٹرپرائززہیں۔ ان میں سے زیادہ تر خواراک تیار کرنے والی ہیں۔ ان میں سے اسی فی صد دیہات میں ہیں اور اُن کی پیداوار اور اُس کی کوالٹی کا دارومدار دست یاب خام ما اور بے سلیقہ غیر پیشہ ور مزدوروں پر ہے۔ ان میں سے چالیس فی صد گندم اور چاول کی ملوں کا حصہ ہیں۔ لیکن اس سب کے ساتھ دو ٹریلین ڈالرز پر مشتمل عالمی خوراک کی مارکیٹ میں ہماری خوراک کی برآمدات کا حصہ تقریباً0.22فی صد ہے۔
کم پیداوار، فصل کاٹنے کے بعد ہونے والے نقصانات، کاروبار کرنے پر اُٹھنے والے بھاری اخراجات اور گیس اور بجلی کی قلت، ان سب نے مل کر ہمیں خوراک کے عالمی کاروبار میں کوئی مقام حاصل نہیں کرنے دیا۔ ہم اس بات پر پھر بھی مسکرا سکتے ہیں کہ خوراک کا شعبہ ہماری برآمدات میں بہتر کارگزاری دکھا رہا ہے۔مجموعی طور پر عالمی تجارت میں ہمارا حصہ 0.14فی صد ہے ۔ اس کے مقابلے میں ہماری خوراک کی برآمدات 0.22فی صد ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان نے3.4بلین امریکی ڈالر کی خوراک والی اشیا برآمد کیں جب کہ خوراک کی عالمی برآمدات کا حجم 1.486ٹریلین امریکی ڈالر تھا۔
اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری حکومتوں نے ایسی کوالٹی پیدا کرنے کے لیے جسے ہم اعتماد کے ساتھ برآمد کر سکیں، کبھی خوراک کو صنعت کے طور پر لیا ہی نہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے، پودوں اور خوراک کی پراسیسنگ کے ذرائع کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔بے ہنر، ان پڑھ مزدور اور کم اجرت اس صنعت کی قدروقیمت میں اضافے کے راستے میں حائل ہیں۔ کسان اور صارف کے مابین رابطہ مفقود ہے۔ غیر مستحکم سپلائی کا سلسلہ اور تقسیم کاری کا عمل ہمارے خوراک پیدا کرنے والوں کو عالمی سطح پر کسی مقابلے میں نہیں آنے دیتا۔ ہماری خوراک کی زیادہ تر صنعت قواعد و ضوابط سے ناواقف ہے اوروہ مالی مہارتوں، علم اور انتظام کے لفظوں سے ناآشنا ہے۔ پیداوار کے لیے ضروری حفظانِ صحت کے اصول سرے سے غائب ہیں اور قاعدے قانون غیر موثر ہیں ۔
اس وجہ سے ہماری اس دیہی صنعت کا 70فی صد اس حالت میں ہے کہ کوئی بنک ان کی مالی ضروریات پوری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ تجارتی بنکوں کو اس صنعت کے کاروباری طریقوں اور سرمایہ کاری کی واپسی پر کوئی اعتماد نہیں۔ زرعی ترقیاتی بنک کی ایک دیہی شاخ کے مینیجر جناب کبیر علی راجا نے MOREسے بات کرتے ہوئے اس صورتِ حال کی وضاحت ان لفظوں میں کی:”بنک منافعے کے لیے ہیںاور ہمارے فنڈز اتنے فارغ نہیں ہیں۔ ان چھوٹی اور درمیانے درجے کی انٹرپرائزز کے پاس ذخیرہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اجناس کی قیمتیں دھڑام سے گر جاتی ہیں ۔ کوئی فعال مارکیٹ اکانومی نہیں اور سرمایہ کاری کی واپسی کی شرح 30فی صد سے کم ہے۔ آپ کے خیال میں کون سا بنک اس قدر خسارے والے کام میں سرمایہ کاری کرنے پر راضی ہو گا۔“
گزشتہ گیارہ سال سے پاکستان میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی نمائش فوڈ ٹیکنالوجی ایشیا کے پراجیکٹ ڈائریکٹر فرحان انیس ہیں۔ MOREسے خصوصی طور پر بات چیت کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ہمارے گوشت کی برآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ حلال کا تصدیق نامہ ہے۔ دُنیا میں اربوں صارفین گوشت خریدتے ہیں جس پر ”حلال“ کی مہر لگی ہوتی ہے اور ہمارے گوشت پیدا کرنے والوں میں سے صرف بیس فی صد ایسے ہیں جن کے ہاتھ میں یہ تصدیق نامے ہیں۔ بقیہ نے کبھی کوشش ہی نہیں کی اور نہ وہ یورپ، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ میں حلال گوشت کی برآمد کے لیے طے شدہ معیارات کو پورا کرنے میں دل چسپی لیتے ہیں۔
غیر مسلم ممالک نے یہ عالمی تصدیق حاصل کر لی ہے اور وہ مسلم ممالک کو گوشت برآمد کر رہے ہیں لیکن ہم اس دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔
اس مقصد کے لیے حکومتی سطح پر کوئی سہولت یا تعاون نہیں کیا جاتا اور یوں لگتا ہے کہ کوئی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی پیداواری معیارات بنا رہی ہے ، اسی طرح انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار سٹینڈرڈزہے۔ لیکن کوئی ان کی تصدیق اور نفاذ میں دل چسپی نہیں لیتا۔ دُنیا اندھی نہیں ہے ۔ شکر ہے اُنھوں نے گزشتہ دو سال میں سامنے آنے والے حرام گوشت اور آلودہ خوراک کے بڑے بڑے سکینڈل نہیں پکڑے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہماری خوراک کی برآمدات پر اب تک پابندی لگ چکی ہوتی۔
جہاں تک فوڈ ٹیکنالوجی کا تعلق ہے ،خوراک کی صنعت میں جس رفتار سے لوگ اسے اپنا رہے ہیں، وہ مایوس کن ہے۔ بمشکل ہماری پیداواری صلاحیتوں کا دس فی صد جدید ترین آلات استعمال کر رہے ہیں۔ بقیہ اُس ٹیکنالوجی پر بھروسا کر رہے ہیں جو متروک یا پرانی ہو چکی ہے۔ یہ بات کسی طرح بھی اس شعبے کے کام نہیں آ سکتی۔ زمین اور صنعت میں ہماری پیداوار کی شرح قابلِ رحم ہے اور پیکیجنگ کا کام بھی غیر معیاری ہے۔ ہم ساتھ ساتھ یورپی اور چینی مشینری کی نمائش کر رہے ہیں تاکہ ہماری صنعت کے پاس انتخاب کا موقع ہو کہ وہ ایسی مشینری خرید سکیں جو اُن کے لیے موافق ہو لیکن ابھی تک جو ردِ عمل آیا ہے، ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ حکومتی سطح پر کوئی نمائش نہیں ہوتی جس سے اُس کی اس صنعت میں دل چسپی ظاہر ہو ، نہ ہی وہ بامقصد انداز میں ہمارے ساتھ شراکت کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ ہمیں اُن سے پیسے نہیں چاہییں بلکہ کم سے کم چند خطوط اور سرکاری شراکت تو ہو جس سے سرکاری شعبے میں چلنے والے محکموں کو اس نئی ٹیکنالوجی میں دل چسپی لینے کی تحریک ملے۔ یہ بھی اُن کے ایجنڈا میں شامل نہیں۔ انیس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
پاکستان میں اس وقت دو سو ملین لوگ ہیں اور 2030ءتک ایک سو ملین مزید بڑھ جائیں گے۔ اس سے آبدی کے متعلقہ سنجیدہ چیلنج درپیش ہوں گے۔ ان میں خوراک کی طرف سے عدم تحفظ بھی شامل ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ساٹھ فی صد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اِن لوگوں کی آمدن کا ستر سے اسّی فی صد صرف خوراک پرخرچ ہو جاتا ہے۔یہ ایک خطرہ بھی ہے اور موقع بھی۔ بائیوٹیکنالوجی اس مسئلے کا قابلِ اعتماد حل پیش کر سکتی ہے کیوں کہ آج کی دُنیا تیزی سے بائیوٹیکنالوجی فصلوں کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی خوراک کی قلت کے خاتمے اور تھوڑے سے عرصے میں اس کی کوالٹی بڑھانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
پاکستان خوراک کی عالمی مارکیٹ میں اپنا حصہ صرف اس صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب یہ بے قیمت مصنوعات سے قدروقیمت میں اضافے والی مصنوعات کی طرف منتقل ہو جائے۔ ہم اناج جیسے چاول، مکئی، گندم اور جو کی پراسیسنگ میں برے نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ گنا، مختلف پھل اور سبزیاں ، سمندری اور تازہ پانی میں پائی جانے والی سمندری خوراک، گوشت اور دودھ سے بننے والی مصنوعات میں ٹھیک ٹھاک ہیں۔ لیکن ابھی تک ہماری مصنوعات کی رینج بہت مختصر ہے۔ کوالٹی کا فقدان ہے اور پیداوار معمولی ہے۔کاشت کاری کے روایتی طریقے خام مال کی سپلائی میں اضافہ نہیں کر رہے اور آڑھتی کسان کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑ رہا کہ وہ بہتر پیداوار کے لیے بیج، کیڑے مار ادویات اور کھادوں میں سرمایہ لگا سکے۔
پاکستان کی خوراک کی صنعت کا عالمی چہرہ پاکستان میں کام کرنے والی کچھ سرکردہ قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کی وجہ سے بہتر ہے۔ ان میں کلوور پاکستان، اینگرو فوڈز لمیٹڈ، نیشنل فوڈز لمیٹڈ، یونی لیور فوڈز پاکستان، نیسلے، ڈالڈا، مئیر فوڈز، مچلز فروٹ فارمز، مری بریوری، اومور، شان فوڈ، شیزان انٹر نیشنل، یونائیٹڈ انڈسٹریز، کے اینڈ انزاور دیگر شامل ہیں۔ ان کمپنیوں کی بڑھوتری اور مالی اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں خوراک کی صنعت کا مستقبل تابناک ہے۔ چاول، گوشت، مرغ، نوڈلز، کریکرز، کارن فلیکس، آلو کے چپس، گندم اور جو کا دلیہ ، بند ڈبے میں پکے ہوئے کھانے اب بڑے پیمانے پر پیدا ہو رہے اور پیک ہو رہے ہیں لیکن ہمیں پیداوار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اس صنعت کو بڑھاوا دینے میں سرکار ی نجی شراکت اہم معاون ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مرچوں کی فصل زیادہ تر صوبہ سندھ میں ہوتی ہے۔ جب اینگروفوڈز نے مسلم کمرشل بنک کے اشتراک سے کسانوں کی معاونت کے لیے قرضے دیے ، نیشنل فوڈز نے کسانوں کو جیو ٹیکسٹائل چادریں فراہم کیںتاکہ بہتر اور تیز تر طریقے سے مرچوں کو سکھایا جا سکے، بائر ، نوواٹس اور آئی۔سی۔آئی کیمیکلز نے فنجائی کش اور کیڑے مار ادویات کے بارے میں کسانوں کو تربیت دی تو ہماری مرچوں کی پیداوار نے تاریخی بلندیوں کو چھو لیا۔
پاکستان کے گوشت کی صنعت کی برآمد سالانہ30فی صد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے مثلاً یونی ورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز آگے آئیں اور گوشت کی صنعت کو فنی ہنر اور سائنسی طریقے سکھائیں جو عالمی سطح پر اُن کی مصنوعات کو مقابلے میں لا سکیں۔
ہمارے سندھڑی، چونسا اور لنگڑا آمکو گرم پانی اور بخارات والے ٹریٹ منٹ پلانٹ کی ضرورت ہے۔ یہ مہنگے نہیں ہیں مگر ملک کے اُن علاقوں میں نہیں ہیں جہاں آم پیدا ہوتے ہیں۔ فوڈ پراسیسنگ کمپنیوں نے ایسے کچھ پلانٹ کراچی میں لگائے ہیں لیکن یہ اس کسان کے لیے بے کار ہیں کراچی میں اپنی پیداوار لے جانے کی بجائے اسے اپنے ہی قصبے میں بیچنا زیادہ مناسب سمجھتا ہے ۔ آم کے گودے، چٹنی، جیم، خشک آم اور اچار سے ہم دُنیا کو بھر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے حکومتی غفلت ہے۔ پاکستان کے زرعی تحقیقاتی ادارے کے ایک اندازے کے مطابق پیدا شدہ چیزوں کی غیر مناسب ہینڈلنگ اور سبزیوں اور پھلوں کے اتارنے کے بعد ہونے والا نقصان چالیس فی صد ہے۔اناج کے معاملے میں یہ نقصان بیس فی صد ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے چودہ تحقیقاتی ادارے اور پی سی ایس آئی آر کی تجربہ گاہیں جہاں ساڑھے آٹھ سو سائیس دان ، ٹیکنالوجسٹ اور انجنئیر ملازم ہیں۔ وہ خوراک کی صنعت کی مدد کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے۔ مدد تو رہی ایک طرف، وفاق اور صوبے ہماری خوراک کی صنعت کی گہرائی اور اس کے سائز کا سروے کرانے ، ذیلی شعبوں کی درجہ بندی کرنے اور مناسب مانیٹرنگ کے لیے ڈیٹا بیس لائن ترتیب دینے میں دل چسپی نہیں لیتے۔
پاکستان میں خوراک غلط رنگوں والے بادبان کے نیچے تیر رہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *