pin up casinomostbet1winpin up

دل بہلاﺅ، ملو اور نچوڑ لو، یہ تین الفاظ پاکستان کی آٹوموبائل صنعت کو بہت اچھی طرح بیان کرتے ہیں۔ خریدار کے ساتھ یہ شاہانہ سلوک صرف پاک سوزوکی لمیٹڈ تک ہی محدود نہیں ہے۔ ٹویوٹاانڈس اور ہونڈا اٹلس بھی موجودہ روش کے زبردست مقلد ہیں۔ KIAسپورٹیج، کلاسک، سپیکٹرا، اور سیریس، ہندائی ایکسیل، شہ زور اور سینٹرو، شورلٹ اپٹرا، نسان، ریوو، مزدا، سبارو اور بہت سے دیگر برانڈ لپیٹے جا چکے ہیں اور پاکستان میں اپنا کاروبار بند کر چکے ہیں۔
تین اجارہ داروں کا شکریہ جو نئے آنے والوں کو نکال باہر کرنے کو یقینی بنانے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرتے ہیں ۔ پاکستان کی گاڑیوں کی صنعت کسی کار کا انجن بنانے کی اہل نہیں اور درآمدات پر بے تحاشا انحصار کرتی ہے۔ سوزوکی، ہونڈا اور ٹویوٹا بیرونِ ممالک تحقیق اور پیش رفت پر بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے ہمارے ملک کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔پاکستان میں ہر نیا آنے والے کو جس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، وہ اُن کی مقامی شراکت داروں کا مالی استحکام اور قوت ہے۔ ان میں سے کسی نے پاکستان میں اپنا پیداواری پلانٹ نہیں لگایا، بلکہ انھوں نے درآمد شدہ گاڑیاں بیچنے کی طرف توجہ مرکوز رکھی۔ وہ تین بڑے جن کی مالی حالت بہت مستحکم ہے، اُن کے مقامی مفاد اور سرکاری گٹھ جوڑنے اُن تمام آرزومندوں کے کاروباری خوابوں کو چکنا چور کر دیا جنھوں نے مارکیٹ سے اپنا حصہ لینے کی کوشش کی ۔
مہران ( دُنیا بھر میں فارغ سوزوکی آلٹوکی دُوسری نسل 1984-1988 کے بہت بنیادی شکل میں تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ) کی طرح کی ”نئی“ کار پر 0.7ملین روپے خرچ کرنے کے بعد خریدار کو کیا ملتا ہے : خراب ہینڈ بریک، کمزور سے دروازے، گھٹیا ربڑ، خشک بش، بری طرح سے فٹ کی گئیں کھڑکیوں کے شیشے، پہیے کے پیچھے لٹکنے والی گرد روک، نشستوں کے غلاف، سپیکرز، کیسٹ ایف۔ایم پلئیر، الائے رم اور سٹینڈرڈ ٹائر۔
تین بڑے (سوزوکی، ٹویوٹا اور ہوندا) ایک ایسے معیار کی کاریں فروخت کر رہے ہیں جو دُنیا میں کہیں بھی قابلِ قبول نہیں۔ ماحولیاتی اور کاربن کے اخراج کے معیار کو دیکھا جائے تو آج کی دُنیا یورو۔6پر ہے جب کہ ہمارے ”تین بڑے“ ابھی تک یورو۔2پر ہیں۔
ٹویوٹا اندس غیر معیاری ٹویوٹا کرولا ایکس ایل آئی 17000امریکی ڈالر کی قیمت پر فروخت کر رہا ہے ۔ یہ ماڈل کرولا یورپ کا ایسا ماڈل ہے جو بند ہوچکا ہے ۔ پھر اس ماڈل میں پاور ائر بیگ، پاور ونڈوز، امّوبلائزر اور کروز کنٹرول وغیرہ بھی نہیں۔ حال ہی میں ایک امید کی کرن نظر آئی ہے اور یہ ہے ”آٹو موٹو ڈویلپمنٹ پالیسی2016-21“۔ وہیکل کی پیداوار کے اعلیٰ والیم کے لیے سہولتیں پیدا کرنا۔ سرمایہ کاری کو کشش کرنا، زیادہ بڑے مقابلے کو یقینی بنانا اور ملک اور خطے کے اندر ابھرتے ہوئے مواقع کے مطابق اعلیٰ کوالٹی کی گاڑیاں پیش کرنا۔
1955ءمیں جنرل موٹرز امریکا نے کراچی میں شور لٹ جوڑنے کا پلانٹ لگایا۔ یہ پلانٹ اپنی طرز کا ایشیا میں لگنے والا پہلا پلانٹ تھا۔ اس نے اپنی گاڑیاں مقامی طور پر بیچنے کے علاوہ برآمد کرنی بھی شروع کر دیں لیکن ایوب کی آمریت کے دور میں ایوب خان کے بیٹوں نے جنرل موٹرز کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنا اس حد تک ناممکن بنا دیا کہ کمپنی نے5.6ملین کے عوض اپنا پلانٹ ایوب کے بیٹوں کو فروخت کر دیا۔ تب اس کا نام بدل کر گندھارا موٹرز کر دیا گیا ۔ اس نے نئے خریداروں کو سہولت دی کہ جن بیرونی خریداروں کو جی۔ ایم ٹیکنالوجی میں دل چسپی ہو، اُنھیں پلانٹ کا ہر حصہ بیچ دیں جب کہ بقیہ مقامی کباڑیہ مارکیٹ میں بیچ دیں۔ اس ہوس سے ”شاہی خاندان“ نے پلانٹ کی خرید پر لگائے گئے سرمائے سے چار گنا زیادہ کمایا۔ ”مقامی حصے داروں“ کا یہ لالچ اور ہوس کبھی ختم نہیں ہوئی۔
گزشتہ ماہ کے مضمون ”مارکیٹ سے اجارہ داری تک“ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح حکومت ٹیلی کام کے شعبے میں اپنے عوام کی قیمت پر اجارہ داریاںپیدا کر رہی ہے ۔ آٹوموبائل کے شعبے میں صورتِ حال اس سے زیادہ قابلِ رحم ہے۔ تین بڑے (سوزوکی،
تین بڑے (سوزوکی، ٹویوٹا اور ہوندا) ایک ایسے معیار کی کاریں فروخت کر رہے ہیں جو دُنیا میں کہیں بھی قابلِ قبول نہیں۔ ماحولیاتی اور کاربن کے اخراج کے معیار کو دیکھا جائے تو آج کی دُنیا یورو۔6پر ہے جب کہ ہمارے ”تین بڑے“ ابھی تک یورو۔2پر ہیں۔یہ وہ معیار ہے جو 1996میں مسافر کاروں کے لیے متروک ہو گیا تھا۔ اُس وقت سے اب تک یورو تین (2000)، یورو چار(2005)، یورو پانچ (2009) اور یورو چھ(2014) آ چکے ہیں لیکن گہری اُونگھ اور اجارہ داری کو سہولت بہم پہنچانے کے لیے کی گئی منصوبہ بندی کی وجہ سے ہمارے اربابِ اختیار اس بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہتے۔
یورو چھ کے جدید ترین معیار میں نائتروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ ، ہائیڈروکاربنز اور مخصوص مادے کے اخراج کے مقابلے میں یوور دو میں ان مادوں کا اخراج پانچ گنا زیادہ ہے۔ حفاظتی معیارات ہیں مگر پاکستان میں ان کی پروا کون کرتا ہے؟ ائر بیگز اور ضروری حفاظتی خصوصیات کے بغیر تینوں بڑے اپنی گاڑیاں ایک ہی نظریے پر بیچ رہے ہیں کہ ”خدا ہماری حفاظت کرے گا۔“ اگر یہ کاریں جاپان، امریکا یا یورپ میں بنائیں اور فروخت کریں تو تینوں بڑوں کو ان ممالک کی جیل میں جانا پڑے۔ باخبر حکومت، انجنئیرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ، مسابقتی کمیشن اور وزارتِ تجارت کی مہربانی سے اب ہم دُنیا کے ناکارہ اور فضول مال بیچنے کی جگہ نہیں رہے۔
حال ہی میں ایک روشنی کی کرن نظر آئی ہے اور وہ ہے ”آٹوموٹو ڈویلپمنٹ پالیسی 2016-21“۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے مطابق اس نے زیادہ تعداد میں گاڑیوں کی پیداوار میں سہولت دینے، سرمائے کے لیے کشش فراہم کرنے ، بڑھتے ہوئے مقابلے کو یقینی بنانے اور ملک اور خطے کے اندر ابھرتے ہوئے مواقع سے ہم آہنگ اعلیٰ کوالٹی کی گاڑیوں کے لیے پالیسی تشکیل دی ہے۔ یہ پالیسی ایک وسط مدتی جائزے کے نظام کے ساتھ شروع کی گئی ہے اور اس کا مقصد 2021ءکے آخر تک 350,000سے زیادہ کاروں کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنا ہے۔ اس پالیسی کا بڑا مقصد اس صنعت میں نئے سرمائے کے لیے پر کشش ماحول فراہم کرنا ہے۔ آٹوموٹو ڈویلپمنٹ پالیسی میں نئے سرمائے کی تعریف یوں کی گئی ہے: ایسی گاڑیاں جو پاکستان میں نہیں بنائی جا رہی ہیں، اُن کی پیداوار کے لیے نئی اور خودمختار آٹو موٹو جوڑنے اور بنانے کی سہولتوں کی تنصیب کے لیے سرمایہ لگانا۔“یہ پالیسی اُن سرمایہ کاروں کے لیے تمام مراعات یا مفادات پیش کرتی ہے جو گاڑیاں جوڑنے کے درجے میں نہیں آتے بلکہ وہ گاڑیاں بناتے ہیں۔
اس سہولت کے تحٹ گاڑیاں جوڑنے اور بنانے کے لیے مشینری اور پلانٹ کی درآمدات کو ڈیوٹی فری کر دیا گیا ہے۔ نئے منصوبے کی شروعات کے بعد گاڑیوں کے صد فی صد بلڈ یونٹس موجودہ ڈیوٹی کے 50فی صد پر درآمد کیے جا سکتے ہیں۔مارکیٹ میں آنے والی نئی گاڑیوں کے غیر مقامی پرزے درآمد کرنے کے لیے نئے سرمایہ کاروں کو پانچ سال کے لیے موجودہ کسٹمز ڈیوٹی 32.5فی صد 10فی صد کر دی گئی ہے۔ وہ پانچ سال کے لیے مقامی پرزے 50فی صد کے بجائے 25فی صد کسٹمز ڈیوٹی پر درآمد کر سکتے ہیں۔ اس عرصے کے بعد تمام نئے اور موجودہ سٹیک ہولڈرز کے لیے ڈیوٹی کی ایک ہی شرح ہو گی۔
اگلے سات سال کے اندر پالیسی صرف نئے سرمایہ کاروں کو سہولت دے گی جو گاڑیاں تیار کرنے میں اپنا سرمایہ لگائیں گے۔ بیمار یونٹوں کے اِحیا کے لیے تین سال کے لیے غیر مقامی پرزے 10فی صد جب کہ مقامی پرزے 25فی صد ڈیوٹی کی شرح سے درآمد کیے جا سکیں گے۔ نئے سرمایہ کاروں کو سہولت دینے کے لیے انجنیرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ نے خواہشمندوں سے کہا ہے کہ وہ اپناتفصیلی کاروباری منصوبہ اور متعلقہ دستاویزات جمع کروائیں تا کہ انجنیرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کی سفارش پر وزارتِ صنعت یہ فیصلہ کر سکے کہ آیا وہ متعلقہ کیٹگری میں آتے ہیں یا نہیں۔
تاہم حفاظتی معیارات کے حوالے سے یہ پالیسی مبہم ہے۔ پالیسی ساز بھول گئے کہ پاکستان میں آٹو موبل صنعت کا بڑا مسئلہ یہاں بنائی جانے والی گاڑیوں کی تعداد میں کمی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان گاڑیوں کی قیمتیں ان کی تصریحات اور تغیرات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ان گاڑیوں کی اندرونی و بیرونی ساخت گھٹیا ہے اور حفاظتی خصوصیات موجود نہیں۔ اضافی افادیت کے متعلق خریدار غیر مطمئن ہیں۔ جو وہ لیتے ہیں، اُس کے عوض جو رقم وہ خرچ کرتے ہیں اُس کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پالیسی نے تفصیل کے ساتھ معیارات کے مسئلے پر بھی بحث کی لیکن جن معیارات کی توقع نئے سرمایہ کاروں سے کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پیداوار کو ان معیارات کے مطابق بنائیں، وہ واضح ہونے چاہییں۔ یوں اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہم پاکستانی مارکیٹ میں غیر معیاری گاڑیوں کا ایک اور دروازہ کھول رہے ہیں۔
اس میں بیان کیا گیا ہے کہ موٹر وہیکل رولز 1969ءمیں ترمیم کرنا مشکل ہے۔ پالیسی میں لکھا گیا ہے کہ عالمی روشوں کے مطالعے، موجودہ رولز میں modification، صوبوں اور وفاق کے ساتھ رابطے ، جائزے اور پرکھ کے طریقِ کار اور معیارات کے لیے بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے۔ “پالیسی سازوں نے اقوامِ متحدہ کے ضابطوں کو مرحلہ وار نافذ کرنے اور ڈبلیو۔ پی 29کے انٹرنیشنل ہول وہیکل ٹائپ اپروول نیز گلوبل ٹیکنیکل ریگولیشنزمیں شرکت کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایسی مبہم زبان نیزحفاظتی اور پیداواری معیارات کو التوا میں رکھنا کسی منزل پر نہیں لے کر جائیں گے۔
پالیسی کو نہ صرف موجودہ تیار کنندگان کے لیے تیاری اور حفاظت کے ضروری معیارات جاری کرنے چاہییں بلکہ سرمایہ کاروں کے لیے بلند تر معیارات بھی قائم کرنے چاہییں تاکہ مستقبل قریب میںملک میں لگائے جانے والے پلانٹ اور سہولتیں بہت زیادہ اطمینان بخش ہوں اور اس شعبے میں برآمد کا امکان بھی تلاش کیا جا سکے۔
تمام آٹوموٹو ڈویلپمنٹ پالیسی 16-کے سیکشن کوالٹی ، حفاظت اور ماحولیاتی معیارات کے لیے نظام کی زبان ”گا“ پر مبنی ہے جو بہت مایوس کن اور دل توڑنے والی ہے۔
خیبر پختون خوا کے صارفین کی عدالت کے وکلا کی ایسوسی ایشن کے صدر احمد نواز خان ترین نے اسے شدید غفلت اور لاپروائی قرار دیا ہے۔
”ہمیں لوٹا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں فورڈ، ہنڈائی، ہونڈا، ٹاٹا، رینالٹ، ماروتی سوزوکی اور بہت سے دیگر برانڈ ہیں۔ پاکستان میں غیر معیاری ٹویوٹا کرولا XLI (1.3L) کی قیمت 170000امریکی ڈالر ہے اور یہ کرولا یورپ کا پرانا ایڈیشن ہے اور وہ بھی بغیر پاور ائر بیگ، پاور ونڈوز، امّوبلائزر اور کروز کنترول وغیرہ کے۔ گاہکوں کے پاس کوئی انتخاب کا موقع ہی نہیں۔ امریکا میں ٹویوٹا کیمری 22,205امریکی ڈالر میں بک رہی ہے اور یہاں وہ اسی کار کا 1.06,540 امریکی ڈالر وصول کر رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں لوگ 146مختلف ماڈلوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں مقابلہ سخت ہے اور قیمتیں مناسب اور قابلِ برداشت ہیں۔ ہمارے ہاں تین بڑوں کی سات درآمد شدہ اور آٹھ مقامی طور پر تیار کی جانے والی کاریں ہیں۔ جب دُنیا میں اُن کے ماڈل بکنا بند ہو جاتے ہیں تو وہ اُنھیں ہمارے یہاں لے آتے ہیں۔ کیا آپ مجھے مہران2016ءاور مہران1986ءمیں فرق بتا سکتے ہیں؟©©“ احمد نے اس مشکل سوال پر اپنی بات ختم کی۔
ہندوستان میں کل اکیس کمپنیاں کاریں بنا رہی ہیں جب کہ امیر گاہکوں کے لیے چھ سپورٹسلگژریexoticبرانڈکاریں درآمد بھی کی جا رہی ہیں۔ قریب قریب ہر بین الاقوامی برانڈ کاہندوستانی خریداروں کے لیے اپنا خصوصی ایڈیشن بھی ہے جیسے ہونڈا امیز، رینالٹ کوی، سوزوکی ڈیزائر، ٹویوٹا ایٹی اس اور بہت سے دیگرایڈیشن۔ اُن کی قیمتیں ہندوستانی مارکیٹ کے موافق ہیں۔ یہ قیمتیں ہندوستان اور دُنیا بھر میں ایک جیسی ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں ٹویوٹا کیمری 16لاکھ ہندوستانی روپے میں بک رہی ہے جب کہ یہی گاڑی پاکستان میں 57لاکھ ہندوستانی روپے میں پڑتی ہے۔ (اگر پاکستانی روپے کو ہندوستانی روپے میں تبدیل کریں تو)
تینوں بڑے پہلے ہی زور دار آواز سے حکومت کو کہہ رہے ہیںکہ وہ اُن کی خواہشات اور مفادات کے مطابق آٹوموٹو ڈویلپمنٹ پالیسی16-پر نظر ثانی کرے۔ حال ہی میں ایک سودے بازی کے لیے کیے گئے اقدام میں سوزوکی نے کہا کہ انھیں آٹوموٹو ڈویلپمنٹ پالیسی16-پر تشویش ہے اور موجودہ کھلاڑی آٹو موبل شعبے میں ہونے والی موجودہ سرمایہ کاری کو نقصان نہ پہنچا بیٹھیں۔ کمپنی کی ویب گاہ پر ایک حالیہ پریس ریلیز یہ بتاتی ہے کہ جن ترغیبات اور رعایات کا وعدہ نئے سرمایہ کاروں کے لیے کیا گیا ہے ، وہی پہلے سے موجود کھلاڑیوں کو بھی دئیے جائیں ، پھر ہم پاکستان میں 460ملین امریکی ڈالر کاروبار میں لگانے پر تیار ہیں۔
لیکن صرف یہی واحد انتخاب ہمارے پاس نہیں۔ آٹوموٹو ڈویلپمنٹ پالیسی16-کی مہربانی سے دُنیا کی گاڑیاں بنانے والے اداروں نے پاکستان کی آٹو موبل صنعت میں داخل ہونے کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔ جرمنی کی بہت بڑی کمپنی بی۔ایم۔وی اور آڈی اے۔جی کے علاوہ فرانسیسی رینالٹ بھی پاکستان میں آنے کے لیے تیار ہیں۔ رینالٹ کراچی میں گندھارانسان موٹرز کے قائم کردہ پلانٹ کو پھر سے چلانے کے لیے ایک سو ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ یہ دو مرحلوں میں پچاس ہزار گاڑیوں کی پیداواری صلاحیت تک پہنچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مقامی شراکت داروں بشمول یونس برادرز، کیا موٹرز اور دیوان فاروق موٹرز نے بھی اپنے بند یونٹس کی پیداوار شروع کرنے کی درخواست دی ہے۔ نیشنل لاجسٹک سیل (این۔ایل۔سی) وولکس ویگن کی مالک کمپنی کی ذیلی شاخ مین ٹرک اینڈ بس اے جی کے ساتھ شراکت داری کا معاہدہ کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سی چینی کمپنیاں بھی سندھ میں اپنے پیداواری پلانٹ لگانے میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ نشاط گروپ کوریا کی گاڑیاں بنانے والی کمپنی ہنڈائی کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ اس ممکنہ مشترکہ کوشش کی توجہ کا ایک مرکز ایگری آٹوز کے شعبے میں سرمایہ کاری بھی ہے۔ ریگل آٹوموبیلز انڈس لمیٹڈ اور ٹی۔ایم حبیب رفیق لمیٹڈبالترتیب چینی گاڑیاں بنانے والے ادارے پی۔ڈی ۔ایف موٹرزاور جین وین ڈونگ کے ساتھ اپنے اشتراک کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔
ٹرکوں کے شعبے میں ڈائسن چین کے سرکردہ ٹرک ساز سینو ٹرک کے ساتھ جب کہ گندھارا انڈسٹریز ڈونگ فینگ ٹرکس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ والوو بھی مارکیٹ میں آنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جب کہ دُنیا کے سب سے بڑے ٹرک ساز ادارے ڈونگ فینگ نے بھی یہاں ابتدائی کام کا آغاز کر دیا ہے۔
ٹائر مارکیٹ میں کلی برادرز، گندھارا نسان لمیٹڈ کے ساتھ جنرل ٹائر اینڈ ربر کے ساتھ کاروباری دل چسپی لے رہے ہیں۔ گندھارا نسان لمیٹڈ اور جنرل ٹائر اینڈ ربر کی طرف سے کی جانے والی 500ملین روپے کی سرمایہ کاری نے ایک آمریت قائم کر دی ہے۔
آٹوموٹو ڈویلپمنٹ پالیسی16- کے تحت حکومت آٹو پارٹس کی تیاری کے لیے تھائی لینڈ کے ساتھ ایک آزادانہ تجارتی معاہدہ بھی کر رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے آٹو پارٹس کی مقامی صنعت کو نقصان پہنچے گا۔ اس مقامی صنعت نے حالیہ برسوں میں تھوڑا سا استحکام پکڑا ہے۔
کیا ہماری سڑکوں کی موجودہ حالت اتنی زیادہ گاڑیوں کو سنبھالنے کی متحمل ہو سکتی ہے؟
بڑے بڑے شہروں میں گاڑیوں کی موجودہ تعداد ہی اس قدر زیادہ ہے کہ ہر روز گھنٹوں تک ٹریفک جام رہتی ہے اور آمدورفت ساکت و جامد ہو جاتی ہے۔ محدود گنجائش والی سڑکیں، بند سڑکیں اور ٹریفک کو کسی اور سمت سے گزارنے کے لیے کسی ذمے دار کا نہ ہونا، یہ وہ منظر ہیں جو آئے دن کا معمول ہیں۔ اگرچہ کوششیں کی جا رہی ہیں، تاہم کراچی جیسے بڑے شہروں میں کوئی ماس ٹرانزٹ سسٹم نہیں ہے اور لوگ کاریں گھر چھوڑ کر موٹر سائیکل پر جانے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ اس کے سوا کوئی چارہ¿ کار نہیں ہے۔ موٹر سائیکل رکشے، منی بسیں اور ٹیکسیاں جلتی پر تیل ڈال رہی ہیں۔
اس وقت پاکستان میں ایک ہزار میں سے تیرہ افراد کے پاس گاڑیاں موجود ہیں۔ اس خطے کا بیچ مارک 55فی صد ہے اور یہ تعداد اس سے کہیں کم ہے۔ ایسا ملک جہاں ایک سروے کے مطابق 60فی صد لوگ استعمال شدہ کاریں خریدنے کو ترجیح دیتے ہوں، آٹو موبیل صنعت میں نئے سرمایہ کاروں کے لیے کاروباری مواقع مبہم ہیں۔
کیا ہم اس لمحے کو روک سکتے ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *