عظیم لوگ کبھی مرتے نہیں کیوں کہ اُن کی میراث اُن کے بعد باقی رہتی ہے۔ 27دسمبر2007ءکو جب جنوبی ایشیا کی خاتونِ آہن محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ سیاسی محاذ سے قطع نظر ، اُس کے پیروکاروں نے ملک سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا ۔ یہ وہ پیروکار تھے جنھوں نے محترمہ کے حق میں ووٹ دے کر اُسے دو مرتبہ ایک اسلامی ریاست کی اولین خاتون سربراہ بنایا۔ اُن کا انتقام ابھی تک جاری ہے کیوں کہ اس مقصد کے لیے اُنھوں نے پاکستان ریلویز کو چنا۔ سندھ میں بھٹو کے چاہنے والوں نے دی ٹریک مشین ڈی۔ یو 3082 ، اور میر پور میتھیلو تا شداد پور سیکشن کے تئیس سٹیشنوں ، بن قاسم سٹیشن، بائیس لوکو موٹوز اور ایک سو چالیس کوچز کو آگ لگا دی۔ چوں کہ ان سٹیشنوں پر ٹیلی مواصلات اور ریلوے کا سگنلنگ کے نظام کو نقصان پہنچا تھا یا یہ نظام جل گیا تھا، اس لیے یہ تباہی جاری رہی۔ صرف دو دِن کے اندر اندر ریلوے کے نظام کو پہنچنے والا مجموعی نقصان دو سو ملین امریکی ڈالر تھا۔
پاکستان ریلویز کو مسافروں اور سامان کی نقل و حمل کے شعبے میں اجارہ داری حاصل تھی۔ ریاست کی طرف سے چلایا جانے والا یہ ادارہ آرام د ہ ائر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ والے بے شمار پر تعیش سفروں کی ایک علامت تھا ۔ اس ادارے کے عروج کے زمانے سے وابستہ نمایاں خصوصیات میں گاڑیوں کی پابندیِ وقت، قابل ملازمین اور معیاری خدمت شامل تھیں۔ پھر ایوب خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر آیا جس نے خیبر پختون خوا صوبے (صوبہ¿ سرحد) کی ٹرک لابی کو سہولت دینے کی ہر ممکن کوشش کی ، اُس نے سامان کی ترسیل کو ریلوے کے بجائے سڑک کی طرف موڑ دیا۔ ”دیانت دار“ سربراہِ ریاست ہونے کی وجہ سے اُس نے یقین دلایا کہ کوئی کاروباری شخص ویگنوں کی دست یابی کے لیے ریلوے کی نوکر شاہی کو رشوت دینے کی کوشش نہیں کرسکے گا۔
ایوب خان کے بعد آنے والے اگلے آمر ضیا ءالحق تھے۔ ”مردِ مومن “ نے محسوس کیا کہ خیبر پختون خوا کے ٹرانسپورٹر اب بھی ایوب کے عہد سے کم کما رہے ہیں، اس لیے اُس نے کاروباری افراد کو تھوڑا سا مزید ”سہولت“ دینے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے نیشنل لاجسٹک سیل نامی ایک نئی سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی بنائی۔ ریاستِ پاکستان ٹرکوں کا ایک بہت بڑا بیڑا خریدنے میں لگ گئی اور الزام لگایا جاتا ہے کہ اس خرید میں فوج کے افسران کو بھاری رشوتیں ادا کی گئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں نیشنل لاجسٹک سیل کے دو قبرستان بن چکے ہیں،جہاں ان ٹرکوں کے ”مردہ اجسام“ دفن ہیں۔ لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا کیوں کہ نیشنل لاجسٹک سیل کا وجود ابھی تک باقی ہے۔ اس کے پاس اختیار ہے کہ یہ نجی ٹرک مالکان کو سرکاری سامان کی ترسیل کے لیے ”نام زد“ کر سکے۔ بلا شبہہ وہ کبھی نہیں مرتے!
پاکستان ریلویز کی وراثت ہے گاڑیوں کا ٹکراﺅ ، گاڑیوں کا پٹڑی سے اُترنا، ریلوے پھاٹکوں پرٹکراﺅ اور آگ ۔ تاہم ابھی تک پاکستان ریلویز قومی شناخت کی علامت ہے۔ یوں اس کے دُشمنوں کے لیے یہ ایک آسان ہدف ہے۔ بلوچستان ہو، سندھ ہو، خیبر پختون خوا ہو یا پنجاب، اس کی ویگنوں، ملازمین اور مسافروں پر بے رحم حملے ہوتے ہیں لیکن اس نے تاریخ کے سب سے زیادہ لچک دار اثاثے کے طور پر اس نے کبھی سفر روکا نہیں ۔
ان حملوں کی وجہ سے اس کے ڈرائیوروں، بندوق برداروں، دروازوں پر کھڑے پہرے داروں، پوائینٹس پر کھڑے ملازموں، سیٹیں بک کرنے والے کلرکوں، گارڈز، پولیس، مکینیکل، الیکٹریکل اور سول انجنئیروں نے کبھی اپنے فرائض انجام دینے سے انکار نہیں کیا۔
ہاں ، جس نے خدمت کرنے سے انکار کیا ہے وہ اٹھارویں صدی کے مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹینیں ہیں جو دُوردراز ریلوے سٹیشنوں کے انسانی ہاتھوں سے چلائے جانے والے سگنلنگ نظام کو روشن کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ سوائے چند ایک بڑے سٹیشنوں کے ابھی تک سگنل کے لیور کو کیبن مین ہی کھینچتا ہے۔
اگرچہ موجودہ حکومت نے ڈیجی ٹائزیشن کے عمل کو مزید بھرپور انداز میں شروع کیا ہے لیکن نقصان تو پہلے ہی سے ہو چکا ہے۔ پاکستان ریلویز کی سالانہ کتاب کے مطابق ابھی تک 123سٹیشن ایسے ہیں جہاں نان انٹر لاکنگ مکینیکل کیروسین سگنلنگ ہے، مکینیکل سگنلنگ کے لحاظ سے 185ریلوے سٹیشنوں پر سٹینڈرڈ 1، بیس ریلوے سٹیشنوں پر سٹینڈرڈ II جب کہ 217ریلوے سٹیشنوں پر سٹینڈرڈ IIIہے۔
کبھی نہ ہونے سے بہتر ہے کہ کوئی کام تاخیر ہی سے ہو جائے۔ چالیس سٹیشن پہلے ہی ریلے انٹر لاکنگ اور نو ریلوے سٹیشن کمپیوٹر بیسڈ انٹرلاکنگ سسٹم سے لیس کیے جا چکے ہیں۔دو سو کلومیٹر ڈبل لائن سیکشنوں لانڈھی تا حیدرآباد، ریاض آباد تا پیراں غائب اور شجاع آباد تا گلاں والاں پر آٹو بلاک سگنلنگ مہیا کر دیا گیا ہے۔ کراچی کینٹ اور لانڈھی سیکشن کے 24کلومیٹر سیکشن پر مرکزی ٹریفک کنٹرول فعال ہو چکا ہے۔ لودھراں تا شاہدرہ سیکشن پر جدید آٹو بلاک سگنلنگ سسٹم کی تنصیب کا پندرہ سو ملین روپے کی لاگت والا منصوبہ جاری ہے۔ 433کلومیٹر میں سے 90 کلومیٹر پر پہلے ہی انٹی لاک بریکنگ سسٹم فعال ہو چکا ہے۔ آزمائش کے بعد اسے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اس انٹی لاک بریکنگ سسٹم کی پشت پر کمپیوٹر بیسڈ انٹرلاکنگ سسٹم بھی ہے۔ کمپیوٹر بیسڈ انٹرلاکنگ سسٹم گاڑی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ ریلوے لائن پر ڈیڑھ کلومیٹر آگے کسی بھی قسم کی رکاوٹ کا سراغ لگا کر ڈرائیور کو بریک لگانے کی ہدایت کرسکے۔
ایکو اِنوکس (پرائیویٹ لمیٹڈ) ایک پیناسئین گروپ کمپنی ہے اور یہ پاکستان میں کینڈا کی فرم بمبارڈئر ٹرانسپورٹیشن کی واحد نمائندہ ہے۔یہ 1960ءکی دہائی سے پاکستان ریلویز کے ساتھ منسلک ہے۔ ان کے کاروبار کی مرکزی توجہ ریلوے سگنلنگ، آلات اور حل ، ماس ٹرانزٹ پراجیکٹس، لوکوموٹو ز کی سروس کی بحالی اور سپورٹ ہے۔
بمبارڈئر کے ساتھ رہ کر کام کرنے والی ایکو اِ نوکس پاکستان ریلویز میں سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی لانے کی ذمہ دار ہے۔ یہی وہ کمپنی ہے جس نے 1960ئ، 1970ء اور 1980ءکی دہائی میں ریلے بیسڈ سنٹرلائزڈ ٹریفک کنٹرول فراہم کیا۔ اس نے پپری مارشلنگ یارڈ اور الیکٹرانک سنٹرلائزڈ ٹریفک کنٹرول بھی فراہم کیا۔
1980ءمیں ہینس چیل لوکو موٹوز میں آئے جب کہ 1990ءمیں ایڈ ٹرانز لوکو موٹو شامل ہوئے۔ اب یہ دونوں برانڈ بمبارڈئر کی ملکیت ہیں۔ ایکو اِنوکس اِن دنوں پاکستان کا پہلا کمپیوٹر بیسڈ انٹرلاکنگ سسٹم اور کیب سگنلنگ سسٹم لگا رہی ہے۔
مین لائن ۔1کی اپ گریڈیشن، نقل و حمل اور مواصلات (ایم۔ایل ون) ، ڈرائی پورٹ کی تعمیراور کارگو کی سہولت، چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے تحت ارلی ہارویسٹ پراجیکٹس، ایم۔ایل ٹواور ایم۔ایل تھری کی اپ گریڈیشن نیز گوادر اور خنجراب کو ملانے کے لیے نئی لائنوں کا قیام بھی شروع ہو چکا ہے۔ اسی طرح ایم۔ایل تھری کوئٹہ۔تفتان ریلوے لائن بھی جاری ہے۔ یہ ایران اور ترکی کے راستے خطے کی یورپ کے ساتھ ملاپ کے تناظر میں ریلوے نیٹ ورک کا ایک اہم سیکشن ہے۔ صوبہ¿ بلوچستان کے معدنیاتی ذخائر کو تلاش کرنے کا کام بھی عمل پذیری کے مرحلے میں ہے۔ اس کے علاوہ ایم۔ایل تھری منصوبے کی توسیع (کوئٹہ ۔ بوستان ۔ژوب ۔ڈیرہ اسماعیل خان۔ کوٹلہ جام سیکشن) سے توقع ہے کہ ملک کے شمالی اور جنوبی حصے کے درمیان مسافروں اور سامان کی نقل و حمل میں ایک اہم رابطہ ہو گالیکن ان تمام بھاری منصوبوں نے پاکستان ریلویز کے بارے میں ایک عام آدمی کی رائے تبدیل نہیں کی۔ 7,791کلومیٹر لمبی ریلوے لائن ، 455لوکوموٹوز، 1,732مسافر کوچز اور 15,164سامان بردار ویگنیں رکھنے والا پاکستان ریلوے بھاری خسارے میں جا رہا ہے اور روز بروز اس کے اِحیا کی امید کم ہوتی جا رہی ہے۔ مالی سال 2015-16ءمیں اسے 28بلین روپے کا خسارہ ہوا۔ وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت کے تحت رقم دے رہی ہے لیکن ابھی تک خسارہ ہر سال 12.64 فی صد بڑھ رہا ہے۔ اس کے اکراجات 64.23بلین روپے تک پہنچ گئے جب کہ مجموعی کمائی 35.97بلین روپے تھی۔
اتنا کچھ خرچ کرنے کے بعد بھی ایک عام آدمی کے لیے کوئی امید افزا پہلو نظر نہیں آیا۔ قبل ازیں جولائی2016ءمیں اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان ریلویز نے لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم اختیار کر لیا ہے۔
یہ منصوبہ بنایا گیا کہ پاکستان ریلویز کی ملکیتی زمین کا تمام ریکارڈ چھ مہینوں کے اندر اندر کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان ریلویز نے حکومتِ پنجاب کے اربن یونٹ کے ساتھ ایک معاہدے پر دست خط کیے۔ اس منصوبے کا آغاز یکم اپریل 2015ءکو ہوا اورتوقع تھی کہ یہ دسمبر2016ءمیں مکمل ہو جائے گا۔ گوگل ارتھ پر ریلوے لینڈ کا عنوان بھی آ جائے گا مگر تاحال یہ مکمل نہیں ہو سکا۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان ریلویز کی اپریشنل اور ڈیجی ٹائزیشن کی سرگرمیاں پہلے جیسے سرخ فیتے کا شکار ہیں۔
پاکستان ریلویز کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس کی زمینوں پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ کچی آبادی کے مکینوں نے اس زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اوریلوے کو ر بغیر ایک پائی ادا کیے اس زمین پر رہ رہے ہیں۔ بے شمار تجاوزات کرنے والے بغیر مالکانہ حقوق کے پلازے، فارم ہاﺅس اور پارکنگ کے مقامات بنا کر ریلوے کی زمین استعمال کر رہے ہیں۔ سوائے خیبر پختون خوا کے ریلوے ”ٹائٹل آف دی لیند“ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خیبر پختون خوا میں ریلوے کی زمین مکمل طور پر اس کے نام منتقل کر دی گئی ہے۔
اولین ریلوے لائن 13مئی1861ءکو عوام کی سروس کے لیے کھولی گئی۔ یہ پہلی ریجنل ریلوے لائن تھی جو کراچی شہر سے کوٹری تک تھی۔ اُس دن سے آج تک اس لائن پر اپریشن کبھی رُکا نہیں۔ پاکستان کے 80 فی صد ریلوے سٹیشنوں پر آج بھی گاڑی نہیں رکتی۔ ریلویز کے لیے کوئی کاروبار اور ایندھن کی بچت نہیں ہے۔ یہ عام آدمی کا انتخاب نہیں رہا۔ ایسا کیوں ہے؟ چھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل ریلوے سٹیشنوں پر گاڑی نہیں روکی جا سکتی۔ یہ سٹیشن بھوتوں کے گھر بن چکے ہیں اور ان کا قیمتی سامان چرا لیا گیا ہے۔ یہ سٹیشن ویران اورغیر آباد ہیں، یہاں کا بے کار ریلوے کا عملہ سائے میں بیٹھ کر تمباکو نوشی کرتا رہتا ہے۔
نئی عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں لیکن ان کے ڈیزائن پرانی وضع کے ہیں اور اُن میں کوئی جدت نہیں۔ ریلوے کے کئی شعبے جدید ترین کوڈز اور سٹینڈردز ( جیسے اریما، آشتو اور اے۔سی۔ آئی) کے محض سرٹیفکیٹ دینے میںمصروف ہیں۔ اُن کی کارگزاری 1861ءسے مختلف نہیں ہے۔
دی سٹیٹ آف دی آرٹ سوفٹ ویر جیسے STAAD Pro., SAP-2000, ETABS, SAFE, 28PCACOL, CONCAD & AUTOCAD ریلویز ڈیزائن سسٹم میں ڈالے گئے ہیں لیکن استعمال کیے گئے ڈیزائن اٹھارویں صدی کی زنگ آلود ڈیزائن فائلوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کا حاضری کا نظام ”مٹی کے تیل“ سے جڑا ہوا ہے اور ریلوے پولیس پرانی طرز کی ہے۔
اس کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے پر مزید خرچ کرنے کے بجائے ریلوے کو بند سیٹ اپ شروع کرنے پر سرمایہ لگانا چاہیے۔ نئے ریلوے سٹیشن تعمیر کرنے کے بجائے ریلوے کو ترجیحی بنیادوں پر خراب سٹیشنوں کی تجدید کرنی چاہیے۔ لوکو موٹو موجود نہیں اور ہم ریل کا نیٹ ورک وسیع کرنے پر سرمایہ خرچ کر رہے ہیں؟
ہمارے لوگوں کو موجودہ سیٹ اپ ہی میں سامان اور مسافروں کے نقل و حمل کے لیے بوگیاں درکار ہیں۔ سیاسی مہربانی کے باعث ریلوے کے کرائے ہمیشہ اس معیار کے رہے جن سے اخراجات کبھی پورے نہ کیے جا سکے۔ اس سے پہلے کہ ہم اربوں روپے کا سرمایہ مزید ضائع کریں ، انتظامی نالائقیوں کی وجہ سے غیر حقیقی کرایوں کا ڈھانچا، آمدن اکٹھی کرنے میں ہونے والا ضیاع بند ہونا چاہیے۔ ناکام ادارے کا دھبا بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے کیوں مسلسل خسارے، بدنامی اور خود بیگانگی کے باعث اس ادارے کے ملازم دُور دُور تک پھیلی ہوئی بددلی اور کم حوصلگی کا شکار ہیں۔ بد دلی اور تحریک دو ایسی خصوصیات ہیں جو خود مسلسل پروان چڑھنے والی اور خود کو برقرار رکھنے والی ہیں۔ مایوسی اپنی انتہائی سطح کو چھو رہی ہے ۔ یہاں تک کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت بلٹ ٹرین کے اپنے کیے ہوئے وعدے سے منحرف ہو گئی ہے۔ ایک بریفنگ میں خواجہ سعد رفیق نے کہا : ” جب ہم نے چینیوں سے اس کی بابت پوچھا تو وہ ہم پر ہنس دیے۔ ہمیں چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے تحت ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹا چلنے والی ٹرین کو بلٹ ٹرین ہی سمجھنا چاہیے۔ ہم اصلی بلٹ ٹرین کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہاں اُس کی کوئی مارکیٹ نہیں ہے۔“
جب تک پاکستان ریلویز کے اسی ہزار ملازمین کو اس بات کا یقین نہیں ہو گا کہ اُن کا ادارہ پھلے پھولے گا، ریلوے کا محکمہ ڈیجی ٹائزیشن اور جدید افعال کے حوالے سے ایک ناکام کیس رہے گا