pin up casinomostbet1winpin up

روزگار کی متلاشی آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا کے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر موجود ہیں جو انٹرنیٹ سے کٹے ہوئے (آف لائن) ہیں۔ ہم نامیبیا (Namibia)، گھانا (Ghana)، منگولیا (Magnolia) اور پیرو (Peru) ان ممالک میں ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔
اگرچہ گزشتہ چند برس میں پاکستان میں براڈبینڈ کی رسائی 3فی صد سے بڑھ کر 17فی صد تک پہنچ چکی ہے مگر اسے تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ اگرچہ ٹیلی کام اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے ساتھ اس شعبہ سے حاصل ہونے والی آمدن بڑھ چکی ہے مگر ہمارے تعلیم نظام میں اس شعبے کی شمولیت اور انضمام نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہمارے تعلیمی نظام میں آئی سی ٹی (معلومات اور ترسیل کی ٹیکنالوجی) کو ایک معیاری سطح پر لانے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہےہیں جس سے کالجوں اور جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کی صلاحیت میں یکسانیت پیدا ہو سکے؟
ہماری حکومت پاکستان میں آئی سی ٹی کی تعلیم کو کس طرح معیاری کرے گی، جو کچھ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہوسکتی ہے، اس کے بعد کسی مخصوص کورس کی صلاحیتیں اسی سطح پر ہوتی ہیں؟
پاکستان میں کسی کو رسوا کرنے یا کسی کی دانشورانہ ملکیت کے حوالے سے مقدمات ہی درج نہیں ہو پاتے اور اگر کسی طریقے سے درج ہو بھی جائیں تو ان پر فیصلے ہی نہیں کیے جاتے۔ ان کے متعلق ضابطہ دیوانی اور قوانین میں سزائیں بھی موجود ہیں لیکن ان پر عمل پیرا نہیں کیا جاتا۔
ایک بار جب ابراہیم لنکن نے کہا تھا کہ ”اگر میرے پاس ایک درخت کاٹنے کے لئے 60 منٹ ہوں تو میں 40 منٹ کلہاڑے کو تیز کرنے اور باقی 20 منٹ درخت کو کاٹنے کے لیے خرچ کروں گا”۔ یہ بات پاکستان میں ہونے والی پالیسی سازی کے لیے بھی بالکل درست ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی ”کلہاڑے کو تیز” کیا جا رہا اور 50 منٹ کلہاڑے کو تیز کرنے میں گزر گئے ہیں اور ڈر اس بات کا ہے کہ باقی 10 بھی جلد ہی گزر جائیں گے۔
اس کی وجہ کچھ یوں ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں قدرتی طور پر ترقی ہو رہی ہے۔ جب کہ حکومت اور اس کے ماتحت وزارتیں بغیر کسی محنت کے نیک نامی کمانے کی کوشش میں ہیں۔ مزید یہ کہ ہر تین چار سال کے بعد پالیسی سازی کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اس عمل سے باقی دنیا کا دل بہلایا جاتا ہے مگر سچ تو یہ کہ اس سے زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
ان پرکشش پالیسیوں میں پاکستان کو ایک ایسا ملک دکھایاجاتا ہے کہ جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ آسمان کو چھو رہا ہے اور نفع بخش کاروبار کے مواقع لامحدود ہیں۔ یہاں آئی۔ٹی کے شعبے کا حال غربت اور تعلیم میدان کے اعداد و شمار سے کچھ مختلف نہ ہیں۔ دنیا کی کل 7.4ارب کی آبادی میں سے 7ارب کے پاس موبائل سروسز کی سہولت موجود ہے جب کہ 5.2ارب افراد موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی موبائل سروسز کے دستیاب ہوتے ہوئے بھی 1.8ارب افراد تاحال موبائل فون خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
موبائل استعمال کرنے والے صارفین کے پاس اب موبائل پر انٹرنیٹ جیسی دیگر اضافی سہولیات بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی موبائل ر انٹرنیت استعمال کرنے والے کل صارفین کی تعداد 3.2ارب ہیں۔ یوں 2ارب موبائل صارفین یہ سہولیت استعمال نہیں کر رہے۔ مزید یہ کہ موبائئل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 3.2ارب صارفین میں سے صرف 1.1ارب کے پاس تیز اور بہتر انٹرنیت کی سہولت دستیاب ہے۔ باقی صارفین صرف 2Gٹیکنالوجی کے ذریعے سست رفتار انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں جس سے ان کی زندگی میں کوئی بہتر تبدیلی ممکن نہیں۔
عالمی ترقی کی رپورٹ برائے سال 2015میں پاکستان میں موبائل سے حاصل ہونے والی 75فی صد آمدن پر صرف دو کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ اس سے قبل بد انتظامی اور اس سے متعلقہ امور میں بہتری لانے کے لیے آئی۔ٹی کا سہارا لیا جاتا رہا ہے مگر اس سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہوا۔ اس کی بڑی وجہ آئی۔ٹی کی مدد سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو استعمال میں لاتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کا کوئی لائحہ عمل موجود نہ تھا۔
مثال کے طور پر کسی ایک دن میں غیر حاضر اساتذہ کے اعداد کو جان لینا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک کہ اس کے ساتھ سزا و جزا کی پالیسی موجود نہ ہو۔ سال 2000سے ہماری آئی۔ٹی سے متعلقہ حکمت عملی میں اتار چڑھاﺅ دیکھا گیا ہے۔ یہاں حاصل کی جانے والی معلومات کو عملی طور ہر استعمال ہی نہیں کیا گیا یا غیر قانونی طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ سیکنڈری اور انٹر کے بورڈ میں طلبہ کی معلومات کو پرائیویٹ کالج اور جامعات کو اشتہار بازی کے لیے فروخت کیا گیا۔ مگر پنجاب آئی۔ ٹی بورڈ کی جانب سے غیر حاضر اساتذہ اورٹیب (Tabs) کی مدد سے تیسری جماعت کے طلبہ کے نتائج کے حوالے سے حاصل ہونے والی معلومات پر کوئی جانچ پڑتال نہ کئی گئی۔
ان دنوں آئی۔ ٹی سے متعلق دو اہم پالیسیاں تیار کی جا رہی ہیں. پہلی پالیسی کا تعلق وزارت انفارمین و ٹیکنالوجی سے ہے جب کہ دوسری اہم پالیسی پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ مرتب کر رہا ہے۔ نیشنل آئی ٹی پالیسی کے مسودے میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں آئی۔ٹی کے شعبہ کو بیشتر مشکلات کا سامنا ہے۔ ان میں چند ایک کا زکر نیچے کیا جا رہا ہے:
براڈبینڈ انٹرنیٹ کی رسائی:
اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں براڈبینڈ کی فراہمی میں بہتری پیدا ہوئی ہے اور صارفین کی تعداد 3فی صد سے بڑھ کر 17فی صد ہو چکی ہے۔ لیکن اس شرح کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملک پہلے ہی مذہبی، سیاسی، نسلی، صوبائی، تعلیمی، مالیاتی اور سماجی مسائل سے عہدہ برا ہو رہا ہے۔ تاہم 17اور 83فی صد کے درمیان موجود خلا ہماری معیشت کے لیے مہلک ہے۔ ملکی ترقی اور نت نئی ایجادات کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے ہر فرد کو براڈبینڈ کی بنیادی سہولت دستیاب ہو۔ ملکی سطح پر اور پنجاب میں آئی۔ٹی کے حوالے سے تیار کردہ مسودے میں اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ اس شعبے کو ٹیکس فری قرار دیا جائے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ خیبر پختوںخواہ میں براڈبینڈ پر 17فی صد ٹیکس موجود ہے۔ پنجاب کے حوالے سے پالیسی کے مسودے میں انٹرنیٹ اور براڈبینڈ کو بجلی، پانی، صحت کی طرح بنیادی سہولت قرار دیا گیا ہے۔ اس سے امید رکھی جا سکتی ہے کہ پنجاب میں سستی اور تیز ترین براڈبینڈ کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔
تعلیمی نظام میں آئی۔ سی۔ ٹی:
ٹیلی کام اور ٹیکنالوجی کے شعبے سے حاصل ہونے والی آمدن اور ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں اس شعبے کے شمولیت اور انضمام نہ ہے۔ ورچول یونی ورسٹی (Virtual University) کو ایک حد تک کامیاب تو کہا جا سکتا ہے مگر اس کے ثمرات محدود طبقے تک پہنچ سکے۔ہمارے ہاں عوام الناس کی بڑی اکثریت کو کمپیوٹر دسیاب نہیں اور اکثر پرائیویٹ سکولوں میں کمپیوٹر کی لیب ہی موجود نہیں۔ پاکستان کے صرف 8فی صد سکولوں میں آئی۔سی۔ٹی سے مربوط کلاس روم موجود ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کی جانب سے فاصلاتی نظام تعلیم تو موجود ہے لیکن پرانے طریق کار جن میں کتابوں کی ڈاک کے ذریعے ترسیل، اسائینمنٹس اور پرچوں دستی جانچ پڑتال کی وجہ سے عوامی فلاح و بہبور کے پیسے کا ضیاع ہو رہا ہے۔ ملکی اور پنجاب کے تیارہ کردہ مسودوں میں اس مسئلے پر سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ملکی سطح پر تیار کی گئی پالیسی میں اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ بنیادی اور ثانوی سطح کے سکولوں میں قدرتی صلاحیت کو فروض دیتے ہوئے طلبہ میں تعمیری سوچ، تجزیہ اور دریافت کرنے کی جستجو، تجربہ کرنے، تشخیص، منطقی سوچ کو پروان چڑھانے، مسائل کو حل کرنے کا عزم، سوچ میں استحکام اور تعاون کو فروغ دیا جائے گا تاکہ نئی نسل میں کمپیوٹنگ اور تجزیاتی کورس کی طرف رجحان کو فروغ دیا جا سکے۔ اس سے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نیٹ ورک کی فراہمی اور ان منصصوبوں کو شروع کرنے میں ایک بہتر کردار دا کرے گا۔
پاکستان میں موجود پرائمری سطح سے لے کر ہائی سکول اور اگلی سطحوں پرکمپیوٹنگ اور کوڈنگ سے متعلقہ کورسز کو نصاب کا حصہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیمی نظام میں غیر موجودگی اور روزمرہ زندگی میں کم استعمال کی وجہ سے ہم دنیا کے بیشتر ممالک سے پیچھے ہیں۔ مقابلہ بازی 2015کی فہرست ممیں شامل 143ممالک میں پاکستان 112ویں نمبر پر موجود تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے میں کس قدر بہتری کی ضرورت ہے۔ پنجاب کی آئی۔ٹی پالیسی کے مسودے میں تعلیم کو سر فہرست رکھا گیا ہے، جب کہ اس کے بعد معیشت، بااختیار بنانے، ملازمت، انٹراپرینیورشپ (نئے کاروبار بنانے کی صلاحیت) اور لوگوں کی شمولیت کو شامل کیا گیا ہے۔
آئی۔ سی۔ ٹی گریجویٹ کی مہارت اور صنعت کی ضروریات کا فرق:
گزشتہ دہائی میں پاکستان بھر میں نجی اور سرکاری سطح پرآئی۔ ٹی کے فروغ کے لیے بے پناہ تعلیمی ادارے کھولے گئے۔ یہ ادارے اتنی تیزے سےبنتے گئے کہ تعلیم کے معیار کو نظر انداز ہوتا گیا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے کسی کلاس میں شریک ہوئے بغیر کمپیوٹرسائنس کے مضمون میں گریجوایشن یا مسٹرز کی ڈگری کا حصول ناممکن نہیں۔ ایسی ڈگریاں نہ صرف ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق بھی ہوتی ہیں بلکہ ان گریجویٹس کو پاکستان کے ان پڑھے لکھے بے روزگار افراد کی فہرست میں بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ ملکی اور پنجاب کی سطح پر بننے والی آئی۔سی۔ ٹی پالیسی کے مسودے اس فرق کو کم کرنے کا عودہ تو ضرور کرتے ہیں مگر کوئی عملی لائحہ عمل پیش کرنے میں خاموش ہیں۔ پنجاب کی جانب سے پالیسی مسودے سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے درمیان خلا کو پر کر کے، نصاب میں اصلاحات، انٹرنشپس کی فراہمی اور فنی تربیت کے مواقع پیدا کر کے اس فرق کو کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کیا حکومت آئی۔ ٹی سے متعلقہ تعلیمی نظام میں یکسانیت پیدا کر پائے گی؟ کالجوں اور جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کی مہارت میں کوئی خاص فرق پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایک بہت بڑی خامی ہے جسے آئی۔ ٹی پالیسی کے مسودے میں موجود ہے لیکن حتمی مسودے جاری ہونے کے بعد مزید غور کیا جائے گا۔
کمزور عدالتی نظام اور حقوق اشاعت:
پاکستان میں کسی کا شائع شدہ مواد کو نقل کر لینا ایک عام سی بات ہے۔ جس طرح پاکستان میں کسی شخص کو بدنام کرنے پر بھی شکایات کو داخل دفتر کر دا جاتا ہےبالکل ایسے ہی صورت حال دانشورانہ ملکیت کی چوری کو درپیش ہے جن کو نہ تو درج کیا جاتا ہے اور نہ ہی درج ہونے پر کوئی فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ آئین پاکستان اور قانون کی کتابوں میں سزائیں لکھی ہوئی ہیں مگر ان پر کبھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
اس کی بڑی وجہ قوانین نافذ کرنے اداروں کی نا اہلی اور کمزور عدالتی نظام ہے۔ ہمارےملک میں ایجادات کا مستقبل تابناک نہیں ہے۔ یہاں کسی فرد کے کام کے حقوق رجسٹر تو ہو جاتےہیں مگر کوئی اور اس کو نقل کر کے مارکیٹ میں بیچتا ہے۔ انسانی ذہن کی دانش اور تخلیق کی ہمارے معاشرے اور عدالتی نظام میں کوئی قدر نہ ہے۔ ایسی صورت حال میں انفارمیشن اور کمیونیکشن ٹیکنالوجی اور اس شعبہ میں تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایسی صورت حال میں ہم صرف دوسروں کی جانب کیگئی ایجادات کے خریدار ہی رہیں گے۔ جس سے ہمارا بین الاقوامی قد کاٹھ اونچا نہیں ہو سکے گا اور برآمد کے مواقع محدود رہیں گے۔ حکومت پنجاب کے خیال میں دانشورانہ ملکیت کے حقوق کا تحفظ وفاق کی ذمہ داری ہے۔ جب کہ وفاقی سطح پر بنائی گئی آئی۔ ٹی پالیسی کے مسودے میں ایجادات کا تحفظ، سافٹ وئیر، ٹریڈ مارک، ڈیزائن، ادبی کام، تجارتی راز وغیرہ کے بارے میں یہ تصور دیا گیا ہے کہ یہ کام کسی اور کے کرنے والے ہیں۔ جو ملکی اور بین الاقوامی تجارت اور ان سے متعلقہ حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی اور ان کے نفاذ کے لیے اقدامات، صارفین کے حقوق اور ثالثی کے لیے اقدامات کرے۔ ملکی پالیسی کے مسودے کے مطابق سافٹ وئیرز کی پائیریسی کو روکنے اور دانشورانہ ملکیت کے حقوق کی حفاظت کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
مجھے امید ہے آئی۔ٹی کے ماہرین کی جانب سے گئی آراءکو پالیسی سازی میں شامل عہدیدارزیرِ غور لائیں گے تاکہ مستقبل میں آئی۔ٹی کے بھرپور استعمال کے حوالے سے ایک مستند اور کارآمد حکمت عملی تیار کر پائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *