سر زمین پاکستان اور قومی زبان اردو سیالکوٹ کے مردم خیز خطے کی ہمیشہ شکر گزار رہے گی کہ اس نے علامہ اقبالؒ ، مولانا ظفر علی خانؒ، اور فیض احمد فیض جیسی ہستیوں کو جنم دیا۔ گیسوئے اردو جو منت پذیر شانہ تھے، ان کی مشاطگی میں فرزندان پنجاب کسی بھی طور اہل زبان سے پیچھے نہ رہے۔ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب و موزوں ہو کہ پنجاب کے شعرائ، ادبا، علماءاور خطباءنے اردو زبان کی خدمت اس والہانہ پن سے کی کہ اہل زبان کی اکثریت اس کی تحسین و ستائش کرتی دکھائی دی یہی وہ شخصیات ہیں جنہوں نے زبانِ اردو پر دبستانِ دہلی و لکھنو

کی اجارہ داریختم کی۔ اسی لیے مولاناظفر علی خانؒ نے کہا :
حاسدان تیرہ باطن کو جلانے کے لیے
تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے
ہشت صفات (صحافی‘ مترجم‘ نثر نگار‘ مقرر‘ سیاستدان) شخصیت کے بارے میں حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کہا کہ ” اس کی عظمت اور اس کے جامع صفات ہونے میں کون شبہ کر سکتا ہے۔ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے“۔
جب 1873میں مولوی سراج الدین کے ہاں سیالکوٹ میںجنم لینے والے بچے کا نام ظفر رکھا گیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ کل یہ دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی نئی مملکت پاکستان کی تحریک کا بڑا راہنما، بلند پایہ مصنف اور مایہ ناز صحافی بنے گا۔ مولانا ظفر علی خاں کی صحافتی اور سیاسی شاعری، ان کی غیر معمولی دماغی صلاحیتوں، تحریک حریت میں ان کے جرات مندانہ کردار، ان کا اردو صحافت میں خود ایک دبستان اور درسگاہ کی حیثیت اختیار کر جانا، جنگ آزادی پاکستان میں ان کا بہادر مجاہد کی طرح انگریز حکمرانوں کو للکارنا اور آزادی تقریر و تحریر کے جرم میں طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنا یہ سب وہ حقائق ہیں جس سے مولانا ظفر علی خاں کا بڑے سے بڑا سیاسی مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا لیکن ہم نے بطور قوم مولانا ظفر علی خاں کو وہ مقام نہیں دیا اور وہ قدر نہیں کی جس کے وہ ہر لحاظ سے حقدار تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم وزیر آباد کے ایک اسکول میں حاصلکی۔ذہین تھے،ہر کلاس میں نمایاں نمبرز لیا کرتے تھے۔انہوں نے پٹیالہ سے میٹرک کا امتحان اعلٰی نمبرز سے پاس کیا اور اور ایف اے میں پہنچے تو داخلے کے لئے علیگڑھ رجوع کیا۔یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کو معاشرے میں نمایاں مقام ملتا تھا ، اسی لئے یہاں گئے ۔1892میں انہوں نے علیگڑھ سے ایف اے پاس کیا اور نوکری کی تلاش میں مشغول ہوگئے۔ جو ان دنوں مشکل کام نہ تھا۔انہیں ریاست جموں کشمیر کے محکمہ ڈاک میں ملازمت مل گئی،مگر انکا یہاں دل نہ لگا۔مزید تعلیم کے لئے علیگڑھ ہی میں بی اے میں داخلہ لیا ۔علی گڑھ کی تعلیم کے دوران انہیں قومی اور بین الاقوامی تہذیبی، تمدنی اور سیاسی حالات کے مطالعے اور تجزیے کا شوق پیدا ہوا تو ان کے شعور کو جس میں سیاست کی پہلی کرن ان کے والدِ گرامی مولوی سراج الدین احمد نے بیدار کی تھی، علی گڑھ کالج کے بانی سرسید احمد خان ؒنے سب سے زیادہ متاثر کیا اور مولانا نے انہیں خراج تحسین ان الفاظ میں ادا کیا:
علی گڑھ میں کیا قائم وہ دارالعلم سید نے ثنا خواں ہیں پرائے جس کے، اپنے جس پہ نازاں ہیں
لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ان کے والد ہفتہ وار زمیندار اخبار نکالا کرتے تھے۔1909میں والد کا سایہ سر سے اٹھا تو ہفت روزہ زمیندار بھی یتیم ہو گیا۔اب ان کی ایک الگ پہچان بن چکی تھی۔ ادب سے بھی شغف تھا اور مذہب سے رجحان بھی قوی تھا۔ دوستوں میں مولانا کے خطاب سے جانے جانے لگے تھے۔انہوں نے ہفت روزہ کو روزنامہ منانے کی سعی کی اور کامیاب رہے۔شہر چھوٹا تھا روزنامے کا اجراءتو کر لیا مگر اشاعت نہیں بڑھ رہی تھی مجبوراً لاہور سے شائع کرنا پڑا میکلو روڈ پر دفتر بنایا اور یہیں بیٹھ کر کام کرتے اسی دوران جنگ طرابلس اور بلقان چھڑ گئی ۔ مسلمانوں کا قتل عام شروع تھا۔آپ نے اس ظلم نا روا کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی۔ قلم میں روانی تھی، جملوں میں کاٹ تھی اور سینے میں درد ، سو جوش ایمانی کے ساتھ وہ قلمی جہاد میں مشغول ہو گئے ۔ مولانا ظفر علی خان کو اپنی زندگی میں ایک فعال قومی راہنما، ایک جرات مند صحافی، اعلی پائے کا بدیہہ گو اور قادرالکلام شاعر، رسولِ عربی کے عاشقِ صادق اور اسلام کے سچے شیدائی کی حیثیت حاصل رہی۔ اس دور میں انگریزی استعمار سے نجات حاصل کرنے کے لئے آل انڈیا کانگرس کو اہمیت حاصل تھی اور ہندو مسلم اتحاد کو نہ صرف فوقیت حاصل تھی بلکہ بیشتر مسلمان سیاستدان اور راہنما بھی آزادی حاصل کرنے کے لئے کانگرس کا ساتھ دے رہے تھے۔ ان میںقائد اعظم محمد علی جناح ؒبھی شامل تھے ۔ ظفر علی خان نے بھی آل انڈیا کانگرس کے سائے میں کچھ عرصے تک ہندو مسلم اتحاد اور انگریز سے آزادی کا الاپ کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 30 دسمبر 1906 کو جب نواب سلیم اللہ نے شاہ باغ ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کی قرارداد پیش کی اور حکیم اجمل خان نے اس کی تائید کی تو اس کی حمایت میں ظفر علی خان نے تقریر کی تھی۔1937 میں آپ کو مرکزی اسمبلی کا رکن بھی منتخب کر لیا گیا۔ لارڈ کرزن نے ایک کتاب لکھی۔ کتاب اتنی دلچسپ تھی کہ آپ نے اس کا ترجمہ کرنا شروع کر دیا یہ کتاب خیابان فارسی کے نام سے ادب نوازوں تک پہنچی۔ کتاب اتنی پسند کی گئی کہ پنجاب یورنیورسٹی نے انہیں 500روپے کا انعام بھی دیا۔صرف یہی نہیں جب کتاب نظام حیدرآباد تک پہنچی تو انہوں نے 3000کا انعام دیا۔ انہیں علی گڑھ یونیورسٹی میں مولانا شبلی نعمانی اور پروفیسر آرنلڈ ایسے عظیم اساتذہ کے دسترخوان علم و فضل سے خوشہ چینی کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ مولانا شبلی نعمانی ہی تھے، جن کی سفارش پر انہیں 21 برس کی عمر میں نواب محسن الملک نے اپنا سیکرٹری بنایا۔ یہ انہیں دنوں کا فیض تھا کہ ان کے قلم میں غضب کی کاٹ آچکی تھی۔ ان کی ایک ایک سطر پسند کی جانے لگی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بابائے صحافت کا وجود چمنستان شعر و ادب اور صحافت کے لیے کسی بھی طرح ابر مروارید بار سے کم نہ تھا۔ وہ شاعری کی جملہ اصناف پر قدرت کاملہ اور مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ غزل، قصیدہ، رباعی، قطعہ، نظم اور نعت کون سی صنف سخن تھی جس پر انہوں نے طبع آزمائی کی ہو اور ارباب فن سے داد وصول نہ کی ہو۔ زمیندار کا مدیر شہیر نظم و نثر دونوں میں یکتا تاز تھا۔ وہ نظم کا رستم تھا تو نثر کا سہراب۔ وہ یقیناًان مشاہیر میں سے تھے جنہوں نے زمین سخن کو آسماں بنایا تھا۔ مولانا خالی خولی صحافی نہیں بلکہ جامع الصفات شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت قادر الکلام اور کامل الفن شاعر، صاحب اسلوب ادیب، بے باک صحافی، جگر دار سیاستدان ، بے مثل اور بے بدل خطیب تھے۔ آپ کوعربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر یکساں عبور تھا۔ اس زمانے میں زمیندار کے علاوہ معرکہ مذہب سائنس ،جنگل میں منگل،غلبہ روم ، سیر روم، سیر ظلمات، فسانہ کندن، سنہری گھونگا جیسی کتب نے دھوم مچا دی تھی۔ وہ مسلمانوں کے اسباب زوال پر ہمہ وقت نوحہ کناں رہتے تھے۔ ان کی تحریروں سے مسلمانوں کو اپنے اندر پھر سے ماضی جیسی شان پیدا کرنے کی تحریک ہوتی۔اسی دور میں مولانا شبلی نعمانی کی شہرہ آفاق کتاب ’الفاروق‘ زیور طباعت سے مرصع ہو کر سامنے آئی تو آپ نے اس کا انگریزی ترجمہ “عمر دی گریٹ“ کے نام سے کیا۔انہیں احساس تھا کہ بر صغیر میں ہندوو
¿ں نے مسلمانوں کو دیوار سے لگا دینے کی سازش جاری رکھی ہے،اس بارے میں وہ نظم و نثر کا سہارا لے کر مسلمانان برصغیر کو آگاہ کرتے رہتے تھے۔ان دنوں ان کی یہ نظم زبان زد عام تھی۔
بھارت میں بلائیں دو ہی ہیں، اک ساورکر اک گاندھی ہے اک جھوٹ کا چلتا ہے جھکڑ اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے
لب پر ہے صدائے آزادی اور دل میں شور غلامی کا اکھڑتی تھی ہوا انگریزوں کی ان دونوں نے ملکر باندھی ہے
مولانا ظفر علی خاں کی بے نظیر اور دل و دماغ پر نقش ہو جانے والی شاعری کو خواجہ حسن نظامی نے الہام کا نام دیا تھا اور مولانا سلیمان ندوی تو ظفر علی خاں کو اردو کے صرف تین کامل الفن شاعروں میں سے ایک تسلیم کرتے تھے۔ داغ دہلوی جیسے استاد اور باکمال شاعر کی یہ رائے تھی کہ پنجاب نے ظفر علی خاں اور اقبال کو پیدا کرکے اپنے ماضی کی تلافی کر دی ہے۔ سرسید، علامہ شبلی اور الطاف حسین حالی نے بھی اپنے اپنے انداز میں ظفر علی خاں کے کام اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ شورش کاشمیری نے صحافت اور شاعری میں اپنے استاد ظفر علی خاں کو اقلیم انشاءکے شہنشاہ اور میدانِ شعر کے شہسوار کا خطاب دیا تھا اور سب سے بڑھ کر خود مولانا ظفر علی خاں کے بے مثال اشعار ان کے کمال سخن کے گواہ ہیں۔ حمد و نعت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب صبحِ ازل ہے تیری تجلی سے فیض یاب
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
ہوتا ہے جن میں نامِ رسولِ خدا بلند ان محفلوں کا مجھ کو نمائندہ کر دیا
زکوٰة اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا اور نماز اچھی مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں ہو سکتا
بحیثیت مسلم سیاسی رہنما وہ ہراہم موقع پر ہراول دستے میں سرگرمِ پیکار دکھائی دیے۔ جب ڈھاکہ کی سلیم منزل میں نواب سلیم اللہ خان نے برصغیر کے مسلم اکابرین کی موجودگی میں 1906ءمیں مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیا تو شرکائے اجلاس کی اکثریت بالائی مسلم طبقہ پر مشتمل تھی۔ اس اجلاس میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی صرف دو شخصیات نمایاں تھیں۔ ان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ مولانا ظفر علی خان اور یو پی سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد علی جوہر نمایاں تھے۔ یوں 1906ءہی سے مولانا ظفر علی خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ میدان صحافت میں زمیندار کی بطور روزنامہ آمد نے مسلم صحافت کو نئے جلال و جمال سے متعارف کرایا۔ زمیندار برصغیر کا پہلا اخبار تھا کہ اس نے عوامی حلقوں میں وہ پذیرائی حاصل کی کہ شہری اس کے شمارے کے شائع ہونے اور بازار میں آنے کا انتہائی بے تابی سے انتظار کرتے۔ ادھر اخبار بازار میں آتا اور دیکھتی آنکھوں اس کی کاپیاں انگریزی محاورے کے مطابق گرم کیک کی قاشوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں۔ اخبار کی مقبولیت اس حد تک بڑھی کہ مولانا کو اس کے صبح اور شام کے الگ الگ ایڈیشن شائع کرنا پڑے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ برسوں تک زمیندار کی روزنامہ اشاعت 30 ہزار رہی۔ یہ اس زمانے کے مطابق ایک لائق رشک اشاعت تھی۔ عوام اس اخبار کو اپنے جذبات و محسوسات کاترجمان جانتے۔ مائیکل ایڈوائر جب پنجاب کا گورنر بنا تو اس کے دور میں مولانا اور اس اخبار کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا طولانی سلسلہ شروع ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار کی اشاعت کے لیے حکومت نے نقد ضمانتیں طلب کیں۔ زمیندار سے اس کے قارئین کی نظریاتی و جذباتی وابستگی کا عالم یہ تھا کہ اخبارکی اشاعت کے لیے حکومت 10 ہزار کا زر ضمانت مانگتی اور شہری سورج غروب ہونے سے قبل یہ خطیر رقم زمیندار کے دفتر پہنچا دیتے۔زمیندار اور ا
±س کے مدیر نے تحریک قیام پاکستان کے دوران بھی گرانقدر خدمات انجام دیں۔ وہ نقیب تحریک قیام پاکستان تھے۔۔۔ قرار دادِ پاکستان کا ترجمہ کرنے کا اعزاز و افتخار بھی مولانا ہی کا مقدر بنا۔ زنجیر و تعزیر کے خارزاروں میں برس ہا برس آبلہ پائی کرنے کے باوجود ظفر علی خان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔ ادھر اخبار کی بندش اور ڈیکلریشن کی ضبطی کے احکامات صادرہوتے اور
ادھر مولانا انگریز حکمرانوں کو للکارتے۔
تم ضبط زمیندار کے نمبر نہیں کرتے کرتے ہو محمد کی غلامی کا نشان ضبط
مولانا نے صحافیانہ زندگی کی شروعات انتہائی دشوار گزار اور ناموافق حالات میں کی۔ اس زمانے میں لاہور اشاعت کا مرکز تھا اور تینوں بڑے اخبار پرتاب ، محراب اور وی بھارت ہندو مالکان کے پاس تھے۔ اسی دور میں مولانا اور زمیندار نے تحریک پاکستان کے لیے بے لوث خدمات انجام دیں۔ 1934ءمیں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو مولانا ظفر علی خان جو اپنی جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے انہوں نے حکومت پر مقدمہ کردیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اگلے دن انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک طویل نظم لکھی جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں
یہ کل عرش اعظم سے تار آگیا زمیندار ہوگا نہ تا حشر بند
سچ کہوں تو یہ ظفر علی خان، اقبال اور فیض کا دریائے اردو تھا جس نے پنجاب کو پاکستان کا واحد صوبہبنایا جس نے اردو کو اپنی زبان کے طور پر اپنایا اور اسے کام کی زبان بنایا باوجود اس کے کہ پنجابی اس صوبے کی مادری زبان ہے اور سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ بعد میں اردو انگریزی کے ساتھ پنجاب کی اہم لکھی جانے والی زبان بن گئی اور دونوں تقریبا ایک جتنی مقدار میں سرکاری اور تعلیمی زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔مولانا ظفر علی خان نے 27 نومبر1956ءکو وزیرآباد کے قریب اپنے آبائی شہر کرم آباد میں وفات پائی۔ ان کی نمازِ جنازہ محمد عبدالغفور ہزاروی نے ادا کی۔خدا ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے ۔ آمین