pin up casinomostbet1winpin up

حفاظت کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں،لیکن کیا ہم زیادہ محفوظ ہیں؟

ایک شان دار تصویر ایک ہزار لفظوں پر بھاری ہو سکتی ہے کیوں کہ بہت سے الفاظ افراتفری اور پوری نہ ہونے والی توقعات پیدا کر دیتے ہیں۔ عوامی تحفظ کے نام پر صوبے کے بڑے شہروں میں پولیس کے لیے مربوط کمانڈ، کنٹرول اور مواصلاتی نظام کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے لاہور محفوظ شہر منصوبہ2015ءکے آرڈیننس کے تحت بنایا گیا ہے۔ اس کے پس پردہ یہ تصور کارفرما ہے کہ ٹیکنالوجی، بنیادی ڈھانچے ، پرسئینل اور پراسیس کے استعمال کے ذریعے سے شہروں کی پیچیدگی کو زندگی کا تحفظ واپس دلایا جائے۔
پہلے پہل یہ منصوبہ کیپیٹل سٹی پویس نے2011ءمیں سوچا۔ اس کانام “محفوظ لاہور منصوبہ“ رکھا گیا۔ یہ خیال کیا گیا کہ یہ ایک سال کے اندر مکمل ہو جائے گا اور اس سے لاہور پولیس ترقی یافتہ مانیٹرنگ اور نگرانی کے نظام سے لیس ہو جائے گی۔چوبیس گھنٹے اپریشن مہیاکرنے کے لیے چھ اعلیٰ کولٹی والے کلوز سرکٹ ٹی وی نصب کیے گئے ۔ ان کی نگرانی راوی کے نئے پل پر کمپیوٹرائزڈ کنٹرول روم میں ہوتی تھی۔ لیکن سابقہ سی سی پی او محمد اسلم ترین ، سابق ڈی آئی جی اپریشنز راﺅ سردار علی خان اور ایس ایس پی اپریشنز محمد فیصل رانا کے تبادلوں کے بعد ہر چیز ساکت و جامد ہو گئی۔ مذکورہ پولیس افسران نے یہ منصوبہ بنایا، عطیات جمع کیے اور پہلے مرحلے کا نفاذ کیا تھا۔ بعد میں آنے والے پولیس حکام اس منصوبے کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہے۔
اسلام آباد محفوظ شہر منصوبے کے بعد لاہور شہر کے محفوظ منصوبے کی شروعات کی گئیں۔ اس کام کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے2009ءمیں کیا۔ اس کی قیادت وزارتِ داخلہ نے کی جس کے سربراہ رحمان ملک تھے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک کمپیوٹر ایڈڈسپیچ، چہرہ شناسی اور وہیکل مینجمنٹ سسٹم سے لیس تھے۔ اس منصوبے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اوررجب اس کی لاگت مشکوک انداز میں گیارہ بلین روپے تک پہنچ گئی تو رحمان ملک نے بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کیا۔ 2012ءمیں تین رکنی بنچ نے اس منصوبے کو کالعدم قرار دے دیا اور قومی احتساب بیورو کو کارروائی کرنے کی ہدایت کی لیکن قومی احتساب بیورو کارروائی کرنے یا تفتیش کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کے بعد اس منصوبے پر چینی کمپنی ہواوے کے ساتھ دوبارہ گفت و شنید ہوئی ۔ وفاقی دارالحکومت میں 1800نگرانی والے کیمرے نصب کیے گئے ۔ یہ کیمرے آج بھی کام کر رہے ہیں۔ اس منصوبے کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر
ایچ۔11میں واقع ایک بم پروف عمارت میں ہے۔ اس سینٹر میں اہم عمارات، داخلے اور اخراج کے مقامات، سڑکوں، تجارتی مراکز اور شہر کے بہت بڑے رہائشی علاقے کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کا کمانڈ سینٹر 2009مربع میٹر سے زیادہ پر پھیلا ہوا ہے اورتما م کیمرے اس سے منسلک ہیں ۔ پانچ سو کلومیٹر فائبر آپٹک کیبلز درکار ہیں اور 4 جی نیٹ ورک کے ذریعے سے یہ کام کرتا ہے۔
اسلام آباد محفوظ شہر منصوبے کی تکمیل کے دوران میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت اس منصوبے کو ایک ترکی کمپنی کو دینے کا سوچ رہی تھی اور وفاقی حکومت کے اس علم اور تجربے کو پنجاب کے دارالحکومت میں بھی آزمانا چاہتی تھی۔ سال کے وسط میں پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی آرڈیننس نافذ العمل ہوا لیکن اس منصوبے کو گزشتہ سال یکم مئی تک روکے رکھا ، جب حکومت نے ہواوے کمپنی کو لاہور میں 8023اعلیٰ ٹیکنالوجی والے آئی پی این وی کیمرے نصب کرنے کا ٹھیکا دیا۔ افتتاحی تقریب میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پنجاب کے
وزیرِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے بولی کا بہت صاف شفاف کام کیا ہے۔ بولی کے عمل میں موٹرولا، زی ٹی ای اور ہواوے کمپنیوں نے حصہ لیا۔ بہت سخت مذاکرات کے بعد ہم نے کم ترین بولی دہندہ ا”ہواوے“ کو اس منصوبے کے لیے منتخب کیا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ پنجاب محفوظ شہر منصوبہ اسلام آباد محفوظ شہر منصوبے سے چار گنا بڑا ہے جب کہ لاہور محفوظ شہر منصوبے کی لاگت چالیس ملین امریکی ڈالر کم ہے۔ دونوں فریقوں نے مفاہمت کی یادداشت پر دست خط کیے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے موقف کے برعکس پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے چیف اپریٹنگ آفیسر اکبر ناصر نے کہا کہ” صرف ایک ہی بولی دہندہ تھا اور اُس نے سولہ بلین روپے کی بولی دی۔ قواعد وضوابط کے مطابق واحد بولی دہندہ ہونے کی صورت میں مذاکرات کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم کمپنی نے خود ہی رضاکارانہ طور پر بولی کی رقم کم کر کے بارہ بلین روپے کر دی۔ یوں ہم نے قومی خزانے سے چار بلین روپے بچا لیے اور یہ ایک بہت بڑا سودا ہے۔ اس منصوبے میں سرکاری ادارے، کلیدی بنیادی ڈھانچا، سڑکیں، وہ مقامات جہاں جرائم زیادہ ہوتے ہیں، بہت اہم شخصیات کے آنے جانے کے راستے، داخل اور خارج ہونے کے راستے اور عوامی مقامات شامل ہیں۔“
اکبر ناصر نے مزید کہا کہ ”لاہور کے داخلی اور بیرونی مقامات پر سکینر نصب کیے جائیں گے اور ہنگامی صورتِ حال میں سیٹلائیٹ امیجری بھی استعمال کی جائے گی۔مرکزی کنٹرول روم کے ذریعے سے تما م اہم مقامات کی مانیٹرنگ کی جائے گی ۔ اس کنٹرول روم نے گزشتہ سال اکتوبر میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔“
یہ نظام اس قابل ہو گا کہ آواز کی صورت میں ہونے والی گفت گو کا تین سال تک ریکارڈ رکھ سکے۔ مزید براں شہادتی ریکارڈ سات سال کے لیے محفوظ کیا جا سکے گا۔ اس پراجیکٹ کے تحت ڈیٹا ریکارڈ تیس سال کے لیے رکھا جا سکے گا۔ پاکستان سول سوسائٹی نیٹ ورک لاہور کے صدر عبداللہ ملک کا کہنا ہے کہ رکاوٹیں ابھی تک موجود ہیں۔ پہلے ہی اس منصوبے کا ایک سال کی تاخیر ہو چکی ہے اور اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ اسے اکتوبر2016ءمیں چالو کر دیں گے جو کہ ایک لطیفہ ہے۔ ملک نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر اسلام آباد محفوظ شہر منصوبہ دو سال میں مکمل ہوتا ہے جہاں 1800 کیمرے نصب کیے گئے ہیں تو دو ہزار مقامات پر 8023اعلیٰ کوالٹی والے آئی پی این وی کیمرے لگانے کا لاہور محفوظ شہر منصوبہ کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟
اس پر کم سے کم تین سال کا عرصہ لگے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ محرم کے جلوس کے راستے پر چند ایک کیمرے نصب کریں گے اور ”چار بلین روپے کی بچت“ کی مشہوری کریں گے۔“اُنھوں نے اضافہ کیا۔
لیکن اتھارٹی اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ مربوط کمانڈ اینڈ کمیونی کیشن سسٹم کے ساتھ قربان لائینز لاہور میں ایک مرکزی کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے ۔یہ پوچھنا بالکل مناسب ہے کہ جناب جب مفاہمت کی یادداشت صرف چند ہفتے قبل دست خط ہوئے ہیں تو اتنی ترقی یافتہ خصوصیات کا حامل کنٹرول روم کیسے ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہ ایک بھی کیمرا نصب نہیں کیا گیا۔
اتھارٹی نے کارکنوں سے زیادہ مینیجر رکھ لیے ہیں اور جہاں تک ٹیکنیکل افرادی وسائل کا تعلق ہے، اس کی شدید کمی ہے۔ یہ منصوبہ نوکر شاہی کی دلدل کے مترادف ہے جہاں فیصلے کرنے میں مہینے اور پھر اُن کا نفاذ کرنے میں سالوں کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

اس کھیل میں تین اہم ادارے ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے اتھارٹی آتی ہے۔ آرڈیننس کے مطابق اس اتھارٹی کا چیئر پرسن وزیرِ اعلیٰ ہو گا جب کہ وائس چئیرپرسن کو وزیرِ اعلیٰ نام زد کرے گا۔ اتھارٹی کے ارکن ہیں:
ایک ایم ۔این۔اے، تین ایم۔پی۔اے (بشمول ایک خاتون ایم۔پی۔اے) ، چیف سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پولیس، محکمہ داخلہ اور خزانہ کے سیکرٹریز، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا چئیر مین، جن شہروں پر اس ایکٹ کا نفاذہو گا،اُن شہروں کی ضلعی پولیس کے سربراہ، تین نمایاں اشخاص ( بشمول عوام میں سے ایک خاتون کے یا علم و فضل کی دُنیا سے تعلق رکھنے والی خاتون جسے قانون یا انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی منصوبوں کا علم ہو) اور اتھارٹی کا مینجنگ ڈائریکٹر۔
دُوسرا اِدارہ ایگزیکٹو کمیٹی ہے۔ اتھارٹی جن منصوبوں کا ذمہ لے گی، اُن منصوبوں کو چلانے، ان کا انتظام کرنے اور دیگر اتھارٹیز کے ساتھ رابطہ رکھنے کے لیے یہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے سربراہ چیف سیکرٹری ہوتے ہیں۔ ارکان میں سیکرٹری داخلہ پنجاب، صوبائی پولیس آفیسر پنجاب، چئیرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب، سیکرٹری خزانہ پنجاب، سیکرٹری کمیونی کیشن اینڈ ورکس، چئیرمین پنجاب آئی ٹی بورڈ، مینجنگ ڈائریکٹر اور چیف اپریٹنگ آفیسر۔
پھر منصوبے پر کامیابی سے عمل درآمد کروانے کے لیے ایک سٹئیرنگ کمیٹی ہے۔ اس کے سربراہ پنجاب کے صوبائی پولیس آفیسر ہیں۔ یہ چیف اپریٹنگ آفیسر، مینجنگ ڈائریکٹر، جن شہروں پر اس ایکٹ کا نفاذہو گا،اُن شہروں کی ضلعی پولیس کے سربراہ، محکمہ داخلہ سے ایک نمائندہ، محکمہ خزانہ سے ایک نمائندہ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے ایک نمائندہ، کمیونی کیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ سے ایک نمائندہ، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے ایک نمائندہ وغیرہ۔
ان اداروں کی پیچیدہ ساخت بظاہر تیز فیصلہ سازی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اتھارٹی میں ایسے اشخاص شامل ہیں جو انتظامی معاملات کو دیکھتے ہیں، عمل درآمد سے متعلقہ ہیں، مالیات، ٹھیکوں، خریداری، اکاﺅنٹس، انسانی تعلقات، لاجسٹک اور مالیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ نومبر2015ءمیں ایک کمیونی کیشن انجنئیر مع ایک ایسوسی ایٹ آفیسر کے تعینات کیا گیا، اس سے مارچ کے مہینے میںچار آفس اسسٹنٹ، سات ڈسپیچ رائیڈرز، دس ڈرائیوروں ، سولہ چوکیداروں اور خاکروبوں کا اضافہ ہوا۔
حال ہی میں 385پولیس کمیونی کیشن سپیشلسٹس اور کمیونی کیشن آفیسرز کی بھرتی مکمل ہوئی ہے۔یہ افسر پولیس کو کی گئی درخواستوں کالز کو وصول کرنے اوراُنھیں پراسیس کرنے کے ذمہ دار ہوں گے اور مواصلات کے برقی ذرائع کے وسیلے سے ہنگامی طور پر جواب بھی دیں گے۔ وہ سوفٹ وئرایپلی کیشنزاورآڈیو ۔ویڈیو مواصلات کے وسیلے سے پولیس سے رابطہ کریں گے، فیصلہ کریں گے ، پولیس کو اور دیگر ہنگامی وسائل کو بھیجیں گے۔
دس بلین روپے کی لاگت سے بلوچستان میں کوئٹہ اور گوادر کے لیے بھی محفوظ شہر منصوبے سوچے گئے ہیں۔سسٹم اور آلات کی خریداری کے لیے صوبائی حکومت پہلے ہی تین بلین روپے کی منظوری دے چکی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق کوئٹہ کے اہم مقامات پر چودہ سو نگرانی والے
کیمرے نصب کیے جائیں گے جب کہ گوادر میں 136 مقامات پر 465 کیمرے نصب ہوں گے۔
وزیرِ اعلیٰ نے بہاول پور کے لیے ڈولفن فورس کا اعلان کیا ہے جب کہ ملتان، گوجراں والا، راول پنڈی اور فیصل آباد کے لیے محفوظ شہر منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ اسلام آباد میں پہلے سے مکمل شدہ محفوظ شہر منصوبہ اور لاہور میں جاری محفوظ شہر منصوبہ مسائل کا باعث ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ محفوظ شہر کا منصوبہ کل پرزوں کی تنصیب سے بہت دور تک جائے گا کیوں کہ کامیابی صرف ثقافت میں تبدیلی کے نتیجے میں آتی ہے۔ اپنی منطق کی حمایت میںکہتے ہیںکہ جب طاہر القادری اور پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران مجمع ریڈ زون میں داخل ہو گیا تو مکمل طور پر فعال کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر ہونے کے باوجود پولیس پیشہ ورانہ طور پر برتاﺅ کرنے میں ناکام ہو گئی ۔
یقیناً کیمروں نے ریڈ زون میں داخل ہونے والے مجمعے کی حرکات و سکنات کو مانیٹر کرنے میں مدد دی ہو گی لیکن محکمہ پولیس کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد میں سرکاری اہل کاروں نے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کا شاذ ہی چکر لگایا ہو گا۔ اس کے بجائے اُنھوں نے اپنے اپنے دفاترسے ٹی وی پر دکھائی جانے والی کوریج پر بھروسا کیا ۔اگر کسی اہل کار نے صورتِ حال کو مانیٹر کرنے کے لیے کنٹرول روم میں آنا تک نہیں تو ایسی ترقی یافتہ آپٹک بے کار ہے۔ان ترقی یافتہ آلات کی مہیا کردہ معلومات کی بنیاد پر ورک فورس کو فیصلہ سازی کی تربیت دینے میں وقت لگتا ہے۔ ایسا کیے بغیر ایک بار پھر اربوں روپے ضائع ہو جائیں گے۔ دو ہزار اہم مقامات پر 8023کیمروں کی تنصیب کا یہ منصوبہ اربوں روپے کی لاگت والا ہے جس میں ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر بھی ہو گا۔ یہ حقیقی وقت کی صورتِ حال میں ہر طرح کی ممکن معلومات مہیا کر سکے گا۔ ایک فرضی منظرنامے میں کیمرانمبر800ایک کار کو کسی راہ گیر سے ٹکراتے دکھاتا ہے۔ لیکن اگر کنٹرول سینٹر میں کوئی اس کا نوٹس نہیں لیتا یا کار کی رجسٹریشن پلیٹ کی شناخت نہیں کرتا تو وہ ڈرائیور جسے جواب دہ ہونا تھا، بھاگ جائے گا۔ ایسے سٹیٹ آف دی آرٹ کمانڈ اینڈ کنٹرول کی چمک دمک یقیناً بے رنگ اور مدھم ہو گی۔
ہانگ کانگ میں اکثر عوامی مظاہرے اور واقعات ہوتے تھے ۔ پولیس کو ان کو مانیٹر کرنا پڑتا تھا۔ 2012ءمیں پولیس کو 7,529عوامی واقعات کو مانیٹر کرنا پڑااور مجمعے کو کنٹرول کرنے کے لیے ویڈیو ٹیکنالوجی استعمال کرنی پڑی۔
ڈی ایس پی مرزا عبدالقدوس کمیونٹی پولیسنگ کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”محفوظ شہروں کی کنجیاں لوگ ہیں۔“ اور ”محفوظ شہروں کا مطلب
ہے سمارٹ لوگ۔اس کے علاوہ جوں جوں عوام سمارٹ فون اور 3جی،4جی تک رسائی حاصل کرتی ہے تو عوام کی طرف سے قانون نافذ کرنے والوں کو زیادہ معلومات ملیں گی۔ حکومتی خدمات اور حفاظت کے حوالے سے لوگوں کی توقعات بڑھ جائیں گی۔“
پاکستان میں بھی ایسی ثقافتی تبدیلی پیدا کی جانی چاہیے۔ محبانِ قادری نے حال ہی میں وفاقی دارالحکومت میں ایک احتجاج کیا اور محفوظ شہر میں اہم شاہراہوں پرنصب سیکیورٹی اور نگرانی والے کیمروں کو نقصان پہنچایا ۔ ان کیمروں اور میٹرو سٹیشنوں کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت پر اربوں روپے کی لاگت آئے گی۔ مستحکم ممالک اپنے شہریوں کی وجہ سے محفوظ بنتے ہیں۔ جب شہری اپنے ملک میں لگی تنصیبات کو عوامی جائیداد سمجھ کر ان کی قدر کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں تو وہ تنصیبات غیر محفوظ نہیں رہتیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں ٹوٹی ہوئی ٹریفک کی بتیاں ایک عام مظہر ہیں۔

جی ہاں، ہم خوب صورت موٹر ویز اور ہوائی اڈے تعمیر کر سکتے ہیں۔ ہم میٹرو اورگرین لائن ٹرینیں استعمال کر رہے ہیںاور ہمارے ہاں سولر اور تفریح طبع کے پارک ہیں لیکن ابھی تک ہم اپنی عادتوں کے غلام ہیں۔ ہم نے اپنی اثاثوں کی ذمہ داری لے کر انھیں محفوظ رکھنا نہیں سیکھا۔ ہم نے اپنے قومی ورثے کو اپنی دولت سمجھنا نہیں سیکھا تو ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ ہمارے بغیر ہمارے شہر محفوظ بن جائیں گے۔ جی ہاں، کیمرے آپ کو دیکھ رہے ہیں مگر وہ آپ کو دیکھیں گے کیسے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *