pin up casinomostbet1winpin up

دیہاتی خواتین دنیا میں ترقی کا زینہ بے مثل ہیں۔ دنیا میں آنے والی مثبت معاشی، ماحولیاتی اور معاشرتی تبدیلیاں جو قابل بھروسہ ترقی کے لیے ضروری ہیں میں یہ خواتین ایک عمل انگیز کا کردار ادا کرتی ہیں ۔یہ ہفتہ ”بین الاقوامی دن برائے دیہاتی خواتین 15اکتوبر “ ، ”بین الاقوامی دن برائے خوراک 16اکتوبر“، ”بین الاقوامی دن برائے انسداد غربت17اکتوبر“کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر دنیا کی خاموش و محنتی ترین اکثریت ”دیہاتی خواتین“ کا ہفتہ جانا جاتا ہے۔ دنیا میں غربت اور خوراک کی قلت جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے کئے جانے والے تمام بین الاقوامی حکومتی اقدامات سے کہیں بہتر اور موثر کردار دیہاتی خواتین کا ہے۔ جو ستائش و اقبال محنت سے بے پرواہ اپنے روز شب زمین کا سینہ چیرنے میں گزار دیتی ہیں۔ 1995میںبیجنگ میں ہونے والی ”اقوام متحدہ کانفرنس برائے خواتین “ کے موقع پر دنیا بھر کی سرکردہ خواتین نے اکتوبر کے تین مسلسل دن دیہاتی خواتین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر گزارنے کا فیصلہ کیا۔ بشمول پاکستان دنیا کے 34ترقی پزیر ممالک جن کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے کی زرعی لیبر کا 43فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ لیکن دولت، صحت اور تعلیم تک محدود رسائی نے ان خواتین کو معاشرے کا پسماندہ ترین طبقہ بنا دیاہے۔ اگر ان خواتین کو مناسب سہولیات میسر آ جائیںتو نہ صرف ان کی ذاتی، خاندانی اور دیہاتی زندگی میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے بلکہ ان ممالک کی مجموعی معاشی پیداوارمیں بھی ڈرامائی طور پر بہتر ی آسکتی ہے کیونکہ دنیا بھر میں خواتین کی اکثریت دیہاتی اور زرعی شعبے سے منسلک ہے۔ اقوام متحدہ کی 2014کی رپورٹ کے مطابق دیہاتی خواتین کی دولت ، صحت اور تعلیم تک رسائی میں بہتری لانے سے دنیا کی زرعی پیداوار میں 4فیصدبڑھوتری اور خوارک کی کمی کا شکار انسانوں میں 17فیصد کمی لائی جا سکتی ہے یعنی حال کے مقابلے میں دنیا کے 150ملین انسان خوارک کی کمی کا شکار نہیں رہیں گے۔
2010-12کے ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا کے 870ملین انسان یعنی ہر آٹھ میں سے ایک انسان اپنی ضرورت کے مطاق مناسب خوارک استعمال نہیں کر پاتا۔ غربت کا شکار انسانوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے اور دنیا کی کل آبادی کا 80فیصد 10ڈالر روزانہ سے کم پر زندگی گزارتا ہے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس 80فیصد اور باقی 20فیصد کے درمیان آمدن کا فرق دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ دنیا کی کل آبادی کے40فیصدکو دنیا کی کل دولت کا صرف 5فیصد ہی مل پاتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین 20فیصدانسان دنیا کی تین چوتھائی دولت پر قابض ہیں۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق 22,000 بچے ہر سال خواراک کی کمی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اور یہ زیادہ تر دنیا کے دور دراز دیہاتوں میں عالمی ضمیر سے بہت پرے مر جاتے ہیں۔ ایسے میں دنیا میں غربت کے ناسور پر قابو پانے کے لیے دیہاتی خواتین کے احوال کار میں فوری بہتری لانا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ ترقی پزیر ممالک کے بچوں کا 27-28فیصد جسمانی یا ہڈیوں کی کمزوری سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہے۔ 72ملین بچے غربت کی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے اور ان کا 57فیصد بچیوں پر مشتمل ہے۔ 21ویں صدی میں داخل ہونے والے انسانوں میں سے ایک ارب ایسے ہیں جو دستخط کرنے اور اپنا نام لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دنیا بھر میں ہتھیاروں پر خرچ ہونے والی رقم کے محض ایک فیصد سے تمام ان بچوں کو سکول میں بھیجا جا سکتا ہے جو سکول نہیں جا پاتے لیکن اب تک ایسا نہیں ہو پایا۔ دنیا میں 750ملین لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور ہر سال ہیضہ کی وجہ سے دنیا بھر میںبچوں سمیت قریباً 2ملین لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
موذی بیماریوں سے بچاﺅ کے لیے لگائے جانے والے مفت حفاظتی ٹیکوں تک دنیا کے 21ملین بچوں کو رسائی نہیں ۔ دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔ دنیا میں بھوک کی شدت کے لحاظ سے براعظم ایشیا سر فہرست ہے جس کے 526ملین لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ دوسرے نمبر پر افریقہ 214ملین اور تیسرے نمبر پر لاطینی امریکہ 37ملین لوگوں کے ساتھ موجود ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بھوک کا شکار افراد میں 60فیصد خواتین ہیں۔ ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کی 50فیصد خواتین دوران حمل متوازن خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور ہر سال قریباً 240,000خواتین دوران زچگی مناسب طبی سہولیات کی عدم موجودگی میں انتقال کر جاتی ہیں۔ اور ہر دس سیکنڈ بعد دنیا میں ایک بچہ خوارک کی کمی کی وجہ سے انتقال کر جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں انتہائی غربت کا شکار انسانوں کا 75فیصد جن میں 1.4ارب خواتین ، بچے اور مرد شامل ہیں دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کا انحصار زراعت پر ہے۔ اگر وسائل کے غیر مناسب استعمال کو دیکھا جائے تو دنیا میں موبائل فون کا استعمال کرنے والوں کی تعداد ٹوایئلٹ تک رسائی رکھنے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ دنیا کے طاقتور ممالک کی کمپنیاں جو ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک سے خام مال لے کر اپنے ملکوں کی صنعتیں چلاتی ہیں قریباً ایک کھرب ڈالرکا ٹیکس اور خام مال چوری کرتی ہیں ۔ اگر یہ رقم ان پسماندہ و ترقی پزیر ممالک کو میسر آجائے تو ان کی حالت بدل سکتی ہے۔ غربت سے لڑنے کے لیے دنیا کے امیر ممالک اپنے بجٹ کا نہ ہونے کے برابر حصہ مختص کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ غربت کو کم کرنے کے اقدامات کے لیے اپنے مجموعی بجٹ کا صرف 1فیصد ہی مختص کرتا ہے۔
پاکستان کو لیا جائے تو 200ملین کی آبادی کے اس ملک میں 58ملین افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کی کل آبادی کا نصف، سندھ، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی بالترتیب 33،32 اور 19فیصد آبادی خط غربت کے نیچے ہے۔ ایسے میں غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔ ۱) صنعتوں کا فروغ اور بحالی ۲) زراعت کے قدیم اور پسماندہ طریقوں سے نجات اور جدید زراعت اور زرعی آلات کا استعمال تاکہ فی ایکڑ پیداوار کو بڑھایا جا سکے ۳) انصاف کی فراہمی ۴) وسائل کی منصفانہ تقسیم ۵) امتیازی قوانین کا فوری خاتمہ ۶) افراط زر پر کنٹرول ۷) غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ ۸) شدت پسندی اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ۹) معاشرے میں ہنر مند افراد کی تعداد میں تسلی بخش اضافے کے لیے اداروں کا قیام ۰۱) عوامی نوعیت کے منصوبہ جات میں سرمایہ کاری۔ دیہاتی خواتین کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے فصل سے منڈی تک مڈل مین کا کردار ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 37غربت کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم واقعی غربت ختم کرنے اور عوام کے حالات زندگی بدلنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟دنیا کے 187ممالک میں پاکستان کا ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس آج بھی 146ویں نمبر پر ہے۔ ہمیں انسانوں پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ایسی سرمایہ کاری جس سے غربت اور پسماندگی کے اندھیرے چھٹ جائیں اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *