pin up casinomostbet1winpin up

”سٹیٹ آف نیوز میڈیا“کے بیان کے مطابق مسلسل نویں سال سے پرنٹ میڈیا انحطاط کا شکار ہے اور اخبارات کی آمدن کم ہو کر 16.4 بلین امریکی ڈالر رہ گئی ہے۔ یہ آمدن دس سال پہلے کی نسبت ایک تہائی رہ گئی ہے۔ سٹاف 34۔ سال کی کم شرح پر ہے۔ میگزین کی اشاعت 2.2فی صد کم ہوئی ہے اور 2001ءسے ہر بڑے نیوز میگزین میں اشتہارات کے صفحات آدھے رہ گئے ہیں۔
اخبارات اور رسائل و جرائد دُنیا کی تیسری بڑی ثقافتی اور تخلیقی صنعت ہیں۔ اس صنعت نے 2.9ملین ملازمتیں فراہم کی ہیں۔ وین افرا نے اس صنعت کی آمدن کا اندازہ 8 بلین امریکی ڈالر لگایا ہے۔ اخبارات اور رسائل کی اشاعت کے اعتبار سے پاکستان دُنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔
مستقبل کی ضروریات پوری کرنے اور ممکنہ خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جنگ، نوائے وقت، ایکس پریس، ڈان، پاکستان جیسے اخبارات اور MOREجیسے میگزین پہلے ہی اپنے اخبارات اور رسائل کو ڈیجی ٹل صورت میں پیش کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں۔
2016ءکے آخری تین ماہ میں اور2017ءکے پہلے تین ماہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکا بہت سا ڈراما کر رہی ہے۔دُنیا بھر میں رہنے والے قارئین کے لیے اس سے زیادہ دل چسپ اور مجبور کرنے والی کوئی بات نہیں ہو گی کہ وہ امریکا کی صحافتی تاریخ کے 166 سالہ پرانے معتبر ذریعے دی نیو یارک ٹائمز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پڑھیں۔ اگرچہ اس وجہ سے اخبار کو 275,000نئے سب سکرائبر میسر آئے، لیکن اس میں پرنٹ اخبار ایک چوتھائی سے بھی کم پڑھا گیا۔ اس دفعہ دی ٹائمز کے پرنٹ اشتہارات میں 20 فی صد کمی آئی اور پرنٹ اخبار کوئی نفع کمانے کے بجائے 9فی صد نقصان میں گیا۔ یہ باتیں نیو یارک ٹائمز کی سالانہ رپورٹ 2016ءمیں بتائی گئی ہیں۔ یہ بات پرنٹ میڈیا کی موت اور اس کی ڈیجی ٹل صورت میں تبدیلی کی طرف اہم اشارہ کرتی ہے۔
اس تبدیلی نے آج ریاست ہائے متحدہ امریکا کو متاثر کیا ہے،جب اُس نے سٹاف کم کرنے کے لیے اپنے آزمودہ اور تجربہ کارملازموں کے لیے ایک پیکیج کا اعلان کیا کہ وہ پچاس فی صد سے زیادہ حصص خرید کر کمپنی کا انتظام سنبھال لیں۔ اخبار نے اس پیش کش کی بڑی وجہ قیمتوں میں کمی اور ڈیجی ٹل مصنوعات میں سرمایہ کاری کو قرار دیا۔ اب تک اس نے ان شعبوں میں کام کرنے والے ملازمین کو نکالنے کے لیے اپنے ہفتہ وار رسالے ”یو۔ایس۔اے ویک اینڈ“ اور بہت سی دیگر مطبوعات بند کر دی ہیں ۔
پیو ری سرچ سینٹر ”سٹیٹ آف نیوز میڈیا“ کے مطابق رپورٹ کرتا ہے کہ مسلسل نویں سال سے پرنٹ میڈیا انحطاط کا شکار ہے اورا خبارات کی آمدن کم ہو کر 16.4 بلین امریکی ڈالر رہ گئی ہے۔ یہ آمدن دس سال پہلے کی نسبت ایک تہائی رہ گئی ہے۔ سٹاف 34۔ سال کی کم شرح پر ہے۔ میگزین کی اشاعت 2.2فی صد کم ہوئی ہے اور 2001ءسے ہر بڑے نیوز میگزین میں اشتہارات کے صفحات آدھے رہ گئے ہیں۔
اگرچہ یہ ایک طویل سفر تھا لیکن لگتا یوں ہے کہ 560سال کی کامیابی کے بعد پرنٹ میڈیا ختم ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ آج ا مریکا میں پرنٹ میڈیا سکڑ کر صرف تین قومی اخبارات تک محدود ہو گیا ہے۔ کولمبیا سکول آف جرنلزم کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں ڈیجی ٹل تبادلے میں 2000فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان کا نیا ڈیٹا چار ٹریلین گیگا بائیٹ ہے۔
انگلستان میں سب سے طاقت ور ”ڈیلی میل“ نے 2016ءمیں اپنے سرمایہ کاروں کو اُس وقت تنبیہ جاری کی جب اس کے نیوز پیپر ڈویژن نے اپنے نفع میں 29فی صد کمی کی رپورٹ کی۔ اخبارات کے علاوہ امریکا اور انگلستان میں کوئی صنعت نہیں جس نے ڈیجی ٹائزیشن کی مداخلت کے بعد اتنی تیزی سے زوال دیکھا ہے۔ انٹری پِڈ ویب 1.0کے بعد سے بلاگرز نے سرچ انجن اپٹی مائزیشن پر شہ سرخیوں کے ساتھ خبریں لکھنی شروع کیں۔ دُنیا بھر کے لوگ اس پیش رفت پر بحث کر رہے ہیں اور پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ اگرچہ ”دی انڈی پینڈنٹ“ جیسے اخبارات نے مادی صورت میں اخبار چھاپنا بند کر دیے ہیں، پھر بھی کسی نہ کسی طرح اخبارات نیوز سٹینڈ ز پر ابھی تک موجود ہیں۔ اگرچہ ایسے لگتا ہے جیسے خطرناک لہروں والے سمندر کے اندر کوئی مکڑی اپنے جالے سے چمٹی ہوئی ہے، لیکن جو ابھی تک زندہ ہیں، وہ ڈیجی ٹل انقلاب کے سامنے مزاحمت کرنے اور اسے منسوخ کرنے کا فن سیکھ رہے ہیں۔
عالمی پریس کے رُجحانات کے ڈیٹا کے مطابق 2015ءمیں دُنیا بھر کے اخبارات 168بلین امریکی ڈالرکماتے تھے۔ اس میں اخبارات کی فروخت اور اشتہارات کی مد سے حاصل ہونے والی رقم شامل ہے۔ اس میں سے 53فی (90 بلین امریکی ڈالر )پرنٹ ڈیجی ٹل اشاعت سے حاصل ہوتے تھے جب کہ بقیہ 78بلین امریکی ڈالر اشتہارات سے ملتے تھے۔ اخبارات اور رسائل و جرائد دُنیا کی تیسری بڑی ثقافتی اور تخلیقی صنعت ہیں۔ اس صنعت نے 2.9ملین ملازمتیں فراہم کی ہیں۔ وین افرا نے اس صنعت کی آمدن کا اندازہ 8 بلین امریکی ڈالر لگایا ہے۔دُنیا بھر میں 2.7بلین بالغ افراد کاغذ پر چھپا ہوا اخبار پڑھ رہے ہیں لیکن اسی ڈیٹا کے مطابق یہ شرح کم ہو رہی ہے ۔ دُنیا بھر میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والے 40فی صد افراد آن لائن اخبار پڑھ رہے ہیں اور بہت سے ممالک میں آن لائن اخبار پڑھنے والوں کی تعداد کاغذ پر چھپے ہوئے اخبار پڑھنے والوں سے آگے بڑھ گئی ہے۔
آج کے بڑے بڑے سوالات یہ ہیں:
کیا یہ کہیں رُکے گا بھی؟
کیا پرنٹ میڈیا کبھی اس قابل ہو گا کہ وہ ڈیجی ٹل میڈیا کے ساتھ توازن میں آ جائے؟
اگر ایسا ہوتا ہے تو توازن کس نقطے پر ہو گا، موجودہ اشاعت کا نصف یا ایک چوتھائی؟
کیا ڈیجی ٹل میڈیا ، پرنٹ میڈیا کو مکمل طور پر نگل جائے گا؟
اگرچہ ابھی کچھ پیشین گوئی کرنا قبل از وقت ہے لیکن پاکستان، ہندوستان، چین اور یورپ کے بعض حصوں سے امید کی کرنیں نظر آ رہی ہیں۔
”سٹیسٹا“ کاغذی اخبارات کی دُنیا بھر میں اشاعت کے بارے میں اعداد و شمار مہیا کرتا ہے، اس کے مطابق پاکستان میں 2010ءمیں روزناموں کی اشاعت 589ملین تھی جو 2016ءمیں بڑھ کر 800ملین ہو گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاغذ ی اخبارات کی اشاعت سے 2015ءمیں حاصل ہونے والے301ملین امریکی ڈالر 2020ءتک 333ملین امریکی ڈالر ہو جائیں گے۔
اخبارات اور رسائل کی اشاعت کے لحاظ سے پاکستان دُنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔
چین 96, 704,000
ہندوستان79,243,139
جاپان 70,446,000
امریکا57,357,000
جرمنی22,100,000
انگلستان17,375,000
روس13,280,000
فرانس9,890,365
اٹلی8,017,000
پاکستان7,817,958
پرنٹ میڈیا کی اشاعت کے لحاظ سے مذکورہ بالا ممالک دُنیا بھر میں سب سے اُوپر ہیں۔
لیکن صرف اخبارات کی اشاعت سے کسی ملک کے اخبارات کے قارئین کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔مثال کے طور پر ایک گھر میں آٹھ سے دس افراد ایک ہی اخبار یا رسالہ خریدتے ہیں اور سارا گھر وہ اخبار یا رسالہ پڑھتا ہے۔ اس طرح کسی ملک میں اخبارپڑھنے والوں کی تعداد اخبار کی اشاعت سے کئی گنا بڑھ جائے گی۔
ہندوستان کے اخبارات کے رجسٹرار نے فعال اخبارات کی فہرست میں 16,000اخبارات اور 94,700رسائل کا ذکر کیا ہے۔2015-16ءمیں اس تعداد میں 5400نئی مطبوعات کا اضافہ ہوا۔ چھپے ہوئے اخبارات اور رسائل کی تقسیم کی گئی مجموعی کاپیوں کی تعداد 610ملین تھی۔ بنگالی زبان کا اخبارانند بازار پیتریکا سنگل ایڈیشن والے کثیر الاشاعت اخبار کی صورت میں اُبھرا جس کی تقسیم شدہ کاپیوں کی تعداد 1.15ملین ہے۔ جن اخبارات کے ایک سے زیادہ ایڈیشن نکلتے ہیں، اُن میں ہندی اخبار ڈینک بھاسکر سرِ فہرست ہے۔ اس کی تقسیم شدہ کاپیوں کی تعداد 6.6ملین ہے۔ ہندوستان میں سنگل ایڈیشن والا کثیر الاشاعت اخبار ”دی ہندوستان ٹائمز“ہے، اس کی اشاعت 992,000کاپیاں ہے۔ ایک سے زیادہ ایڈیشن والا اخبار ”دی ٹائمز آف انڈیا“ 4.4ملین کاپیوں کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔
اب سوال یہ اُبھرتا ہے کہ جب کہ دُنیا میں پرنٹ میڈیا دُنیا کے دیگر ممالک میں انحطاط کا شکار ہے، بر صغیر میں یہ کیوں پھل پھول رہا ہے۔
”پاکستان ٹو ڈے“ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر شہاب جعفری کے مطابق اس کا سب سے پہلا اور بڑا سبب اس خطے میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ پاکستان کی63فی صد آبادی پچیس سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ باوجود اس کے کہ ہندوستان کی آبادی چین کی آبادی سے کم ہے، ہندوستان میں جوانوں کی آبادی دُنیا بھر میں سب سے زیاد ہ ہے یعنی ہندوستان کی 356ملین آبادی دس سال سے چوبیس سال کی عمر تک کے افراد پر مشتمل ہے۔
چین سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان اور ہندوستان دونوں بدعنوانی، بے روزگاری، دہشت گردی، غیر یقینی اور معاشی چیلنج درپیش ہیں۔ اقوام کے مابین دُشمنی ، افغانستان میں جنگ اور دیگر علاقائی عوامل نوجوانوں کو معلومات کے منبع کے طور پر اخبار پڑھنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ ان ممالک کے نوجوان انتہائی جوشیلے، متحرک، تیز طرار اور چوکنا ہیں۔ یہ نوجوان اُن اخباری کہانیوں کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں جو اُن کے مستقبل کی آرزوﺅں اور مقاصد پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
”دی نیشن“ کے مقامی ڈیسک کے ایڈیٹر سلیم خان جدون کا خیال ہے کہ چھپے ہوئے اخبارات کے مطالعے کی ایک اور وجہ پاکستان میں انٹرنیٹ کا بہت کم نفوذ ہے۔ ”آبادی کے لحاظ سے ہم دُنیا کا چھٹا بڑا ملک ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ کا نفوذ 17.8 فی صد ہے جو دُنیا کے انٹرنیٹ صارفین کی مجموعی تعداد 3,424,971,237 کا صرف ایک فی صد ہے۔ ہندوستان میں صورتِ حال قدرے بہتر ہے لیکن تاحال ملک میں انٹرنیٹ کا نفوذ 26فی صد ہے۔ امریکا، انگلستان، جاپان اور آسٹریلیا جیسے ممالک جہاں پرنٹ میڈیا کو مسائل کا سامنا ہے،وہاں انٹرنیٹ کا نفوذ بالترتیب 74فی صد، 92فی صد، 93فی صد اور 84فی صد ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں انٹرنیٹ کے نفوذ کی کمی کے باعث ان ممالک میں پرنٹ میڈیا کو کوئی خطرہ نہیں۔ تاہم یہ توقع کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ کے نفوذ کی سطح بلند ہونے کے ساتھ ان ملکوں میں بھی اسی طرح کا خطرہ درپیش ہے۔“
تیسرا اہم سبب اشتہارات کی آمدن ہے۔ جب کہ امریکا، انگلستان، جاپان اور آسٹریلیا میں کاغذ پر چھپنے والے اخبارات کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے، ان ممالک میں اشتہارات کی آمدن بھی کم ہو رہی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں صورت اس کے برعکس ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ترقی کا مطلب قارئین کی تعداد میں اضافہ ہے۔ یہ بات اشتہارات کو کشش کرتی ہے، یوں آمدن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سی آن لائن ویب گاہیں کو شش کر رہی ہیں کہ وہ مطبوعہ صورت میں بھی مصنوعات پیش کریں۔
مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اور ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اخبارات جیسے جنگ، نوائے وقت، ایکس پریس، ڈان، پاکستان اور MORE جیسے رسائل نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ دُوسری طرف صرف ڈیجی ٹل ویب گاہیں پرنٹ ماڈل کو اپنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ”پاک وھیلز“ اور آٹو موبائل خریدو فروخت کی ویب گاہیں اور ”زمین ڈاٹ کام“ نے اپنا سہ ماہی رسالہ م”سی نیٹ“ اور دوماہی رسالہ ” نیٹ او پورٹٹرز“ جاری کیے ہیں۔
خبروں والی ویب گاہیں جیسے ”پروپاکستانی“ بھی مطبوعہ صورت میں اشاعت کا سوچ رہے ہیں۔ ویب سے پرنٹ میڈیا کی طرف آنے کی وجہ اشتہارات کی مد سے حاصل ہونے والی آمدن ہے۔ یہ آمدن پاکستان اور ہندوستان جیسے ملکوں میں بہت زیادہ ہے۔ ڈیجی ٹل اشتہارات اور طلب کی حالت بہت خستہ ہے۔ اس کی وجہ ملک میں انٹرنیٹ کے نفوذ میں کمی ہے۔
جب کہ ترقی یافتہ دُنیا کا میڈیا ڈیجی ٹل ہو رہا ہے، ہم اپنی سہولت اور آسانی کے لیے پرنٹ میڈیا پر بھروسا کرتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اس سے قرات آسان ہوتی ہے، معلومات بہتر طور پر محفوظ رہتی ہیں، تیرتے ہوئے مطالعے کی عادت پختہ ہوتی ہے، اسے ہم چھو سکتے ہیں، اعتباریت، صحت دوست اور پائیداری بھی اس کی وجوہات ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز، ڈسٹرکٹ کوارڈی نیشن آفیسرز، ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسرز، کلرک اور ہیڈماسٹرز سب اپنے دفتروں میں کاغذی اخباروں سے محبت کرتے ہیں۔ چوں کہ پرانی نوکر شاہی نے خود کو ڈیجی ٹائز نہیں کیا اورڈسٹرکٹ انفارمیشن آفسز میں کوئی قابلِ اعتماد مخزن نہیں جہاں ڈیجی ٹل تراشوں کو محفوظ رکھا جا سکے، اس لیے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور دائریکٹر جنرل تعلقاتِ عامہ ابھی تک کاغذی اخباروں کے تراشوں پر بھروسا کرتے ہیں۔ہمارے دفاتر میں پرنٹ میڈیا کا یہ کلچر ڈیجی ٹل میڈیا کی ترقی کے راستے میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک بلاگ جس کو روزانہ دس ہزار لوگ روزانہ دیکھتے ہوں، اُس کی نسبت ایک مقامی اخبار جس کی اشاعت ایک ہزار کاپی ہو، زیادہ باوقار سمجھا جاتا ہے۔ اخباری تراشوں سے بھرے ہوئے فائلوں کے انبار وقت سے پہلے متنبہ کرتے ہیں۔یہاں صرف ڈیجی ٹل یتیم خانہ ہے، اس لیے ہم اس سے انکار کر رہے ہیں اور پرنٹ میڈیا پاکستان میں فروغ پا رہا ہے۔
تعلیم پر ہماری سرمایہ کاری کا صلہ کہاں ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *