pin up casinomostbet1winpin up

پشاور کے آرمی پبلک سکول سے 16دسمبر2014کو سفاکیت کی ایک کربناک لہر نے چار دانگ عالم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ طلبہ کی معصوم روحوںکی چیخوں اور آہوں کی آوازوں سے عرش پر موجود نوری اور فرشی خاکی دہل کر رہ گئے۔

دہشت گردوں نے جسبربریت کا مظاہر ہ کیااور پھول جیسے معصوم بچوں اور اساتذہ کا جس طرح خون بہایا اس سے واقعہ کربلا کی لہو رنگ یاد تازہ ہو گئی ۔ چھ ارب انسانوں کی آبادی میں چند سو وحشی درندے ایسی انسانیت دشمن کارروائیوں پر ناز کرتے ہیں جن کے لیے ذات کبریا نے دنیا میں بھی بدترین عذاب اور آخرت میں جہنم کی سلگتی آگ مختص کر رکھی ہے۔ آج ایک سال گزرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ شائد ان پھول جیسے ہونہار طلبہ اور پاکباز اساتذہ کےخون ناحق سے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو غسل دیا گیا اور ان شر پسندوں، امن دشمنوں کے سارے منصوبے پاکستانی قوم کی قوت ایمانی،جرات اظہار، اورصبر و استقامت کے سامنے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب میں افواج پاکستان کی قربانیوں سے ملنے والی کامیابیوں کے بعد ہونہار طلبہ سے یہ انتقام اگرچہ صدیوں تک اپنے پیچھے جو نقش چھوڑ گیا ہے ا±سے کوئی ذی شعور بھلا نہیں سکتا۔ اس کے باوجود ملک کی سلامتی، خوشحالی، دفاع، اتحاد و اتفاق کیلئے یہ سودا گھاٹے کا نہیں ہے۔ اپنا آج آنے والی نسلوں کے تابناک مستقبل پر نچھاور کرنے والے ان شہیدوں کو کرہ ارض میں سلام عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ شہداءکے وارث زندہ ہیں۔ معصوم طلبہ سلام ہو سلام ہو شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے کے فلک شگاف نعرے گونجتے چشم فلک دیکھتی اور ان بدبختوں کی قوت سماعت بھی ان کی قربانیوں پر نازاں ہے۔ یہ قربانیاں کوئی عام قوم نہیں پاکستانی قوم نے دی ہیں ۔ ایک ایسی قوم جس نے 2001سے اب تک ملک بھر میں کم و بیش ایک لاکھ بے گناہ انسانوں کے لاشے اپنے کاندھوں پر اٹھا ئے ہیں۔ جس نے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اس حد تک بربادی کو نہ صرف برداشت کیا ہے بلکہ ظلم کا مقابلہ اپنے ملک کی سرحدوں کے اندر کیا ہے۔ یہ پاکستان ہے۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس نہیں جہاں چند سو افراد کے دہشت گردی سے ہلاک ہو جانے پر پوری دنیا کا امن و سکون تہہ و بالا کر دیا گیا اور ڈیزی کٹر اور نیپام بموں سے قشر ارض کھود کررکھ دی گئی۔ چند سو کے بدلے میں لاکھوں بے گناہ افراد کا قتل عام کیا گیا اور خون کی پیاس ہے کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ بہر حال بات ہو رہی تھی 14دسمبر کی اس گھڑی کی جب پوری قوم کو یہ احساس ہواکہ اب دہشت گردوں کے خلاف فوری اور فیصلہ کن جنگ اس وقت تک لڑی جائے جب تک اس سرزمین سے ان کا صفایا نہیںہو جاتا۔122طلبہ ،2اساتذہ اور عملے کے 20ارکان کو شہید کرنے والے دہشت گردوں نے ایف سی کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ سکول میں پیچھے سے داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کردی۔ بچوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے بھاگنا شروع کردیا،طالبان نامی ان دہشت گردوں نے سکول کے کلاس رومز اور آڈیٹوریم کی دیواریں گولیوں سے چھلنی کر دیں۔ معصوموں کے خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ حملے کے وقت آڈیٹوریم میں میٹرک کے بچوں کے اعزاز میں تقریب ہورہی تھی شہید بچوں کی عمریں 9 سے 16 سال کے درمیان تھیں، سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے بڑی تعداد میں بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا، جوابی کارروائی میں 7 دہشت گرد مارے گئے، فوج کی کوئیک رسپانس فورس نے ساتوں دہشت گردوں کو سکول کے مختلف حصوں میں ہلاک کیا ۔ حملے کے بعد پاکستانی طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے آرمی پبلک سکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ محمد عمر خراسانی نے سکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے چھ حملہ آور سکول میں داخل ہوئے، یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے۔ واقعہ کے بعد ملک سوگ میں ڈوب گیا۔ تمام سڑکیں خالی ہوگئیں اور بڑی تعداد میں لوگ خون کے عطیات دینے کیلئے پشاور کے ہسپتالوں میں پہنچ گئے۔ والدین ہسپتالوں میں اپنے پیارے بچوں کو ڈھونڈتے رہے جبکہ تابوت بھی کم پڑ گئے۔ آرمی پبلک سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئیں۔قربانیوں کی یہ داستان معصوم طلبا ءکی حفاظت کے لیے جان قربان کر دینے والے عظیم اساتذہ کے ذکر سے خالی نہیں رہ سکتی۔ گھر سے باہر جو پہلا رشتہ کسی بھی بچے کا ماں باپ کے بعد قائم ہوتا ہے وہ ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ۔استاد کو روحانی ماں باپ کا درجہ حاصل ہے۔بچہ ماں کی گود سے نکل کر جب درسگاہ آتا ہے تو اس کی شخصیت کو بنانے میں اساتذہ کرام کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔بچہ جب تین سال کی عمر میں اسکول پہنچتا ہے تو روتا ہے مچلتا ہے کہ ماں باپ کے بنا اسے کہیں بھی نہیں رہنا وہ بار بار روتا ہے اور گھر جانے کی ضد کرتا ہے لیکن استاد اس بچے کا ننھا منا ہاتھ پکڑ اسے درسگاہ میں لا تا ہے وہ ایک شفقت بھرا لمس بچے کو غیر مانوس جگہ سے انسیت پیدا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ استاد ہرجگہ بچے کا مددگار ہوتا انہیں لکھنا سکھاتا ہے، پڑھنا دین کی سمجھ دنیوی تعلیم اور معاشرے میں جینے کا طریقہ اور آگے چل کر یہ ہی استاد بچوں کو ترقی کرتا دیکھ کر فخر کرتے ہیں۔ طالبان نے جب ہال کے دو داخلی دروازے توڑ دیے اور موت بن کر بچوں پر گولیاں برسانا شروع کردیںتوہال میں موجود ٹیچرز نے ہمت نا ہاری اور دہشت گردوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔انہوں نے بچوں کو ہال سے بھاگنے کے لیے کہا تاکہ بچے اپنی جان بچاسکیں لیکن ظالم دہشت گردوں نے ہال میں موجود ٹیچر صائمہ طارق پر کیمیکل پھینک کر انہیں زندہ جلا دیا اور سحر افشاں ،سیدہ فرحت کو گولیاں مار کے شہید کیا گیا ،ان خواتین استاتذہ کے آخری الفاظ یہ ہی تھے کہ بچوجاﺅ اپنی جان بچاﺅ متعدد بچے ہال سے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن شہیدٹیچرز صائمہ طارق،شہید سیدہ فرحت اور شہید سحر افشاں کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اساتذہ تو اساتذہ سکول کی سربراہ پرنسپل محترمہ طاہرہ قاضی جن کے پاس موقعہ تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہوجاتیں لیکن انھوں نے اپنے اسکول کے بچوں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور انھوں نے بھی جرات و ہمت سے دھشت گردوں کو للکارتے اور معصوم بچوں کو ان کے چنگل سے چھڑاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔۔ شہدا میں ٹیچر پروفیسر سعید احمد بھی شامل ہیں۔کالعدم تحریک طالبان کے مولانا فضل اللہ گروپ جس نے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پر بھی حملہ کیا تھا، نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپریشن ضرب عضب کا جواب ہے۔
پاکستانی تحقیقاتی ایجنسی (ایف۔آئی۔اے) نے بعد میں ہونے والی تحقیقات کے بعد بتایا کہتمام دہشت گرد غیر ملکی تھے اور ان کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔ ان کی شناخت کچھ یوں ہے ۔
ابو شامل (اسے عبدالرحمان بھی کہا جاتا ہے) — ایک چیچن جنگجو تھا، جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ ان کا سرغنہ تھا۔
نعمان شاہ ہلمند — یہ ایک افغانی تھا جو صوبہ ہلمند سے تعلق رکھتا تھا۔ حکومت امریکہ نے اس کے پر 500,000 امریکی ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔
وسیم عالم ہرات — یہ ایک افغانی جو ہرات سے تھا۔
خطیب الزبیدی — عربی بولنے والا، جو مصری شہری تھا۔
محمد زاہدی — عربی بولنے والا، جو مراکشی شہری تھا۔
جبران السعیدی — ایک عرب جس کی شہریت نامعلوم ہے۔
سم کارڈ جو اس کاروائی میں استعمال کیا گیا، وہ دیہی علاقے حاصل پور، پنجاب کی ایک خاتون کے نام پر تھا۔
اس طرح کے وحشیانہ فعل کی مثال انسانی تاریخ میں تلاش کرنا بھی مشکل ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر د±ھرائیں تو چنگیز اور ہلاکو خان سے لیکر ہٹلر اور سٹالن جیسے آمروں اور ظالموں نے بھی کسی انسانی قدر کا خیال رکھا ہو گا مگر ان درندہ صفت دہشت گردوں نے تو تمام حدود کو عبور کر لیا ۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ایسا کرنیوالے اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار بھی کہتے ہیں جو کہ ہم تمام مسلمانوں کیلئے د±نیا بھر میں شرمندگی اور ہزیمت کا باعث بنتا ہے۔ ہم جتنی چاہے وضاحتیں اور صفائیاں دے لیں د±نیا ماننے کو تیار نہیں کیونکہ طالبان،عسکریت پسندوں، شدت پسندوں اور اب داعش جیسی تنظیموں کی انسانیت ک±ش کارروائیوں کے بعد د±نیا مجموعی طور پر اسلام کو دہشتگردی کیساتھ منسلک کرتی ہے باوجود اسکے کہ اسلام تو نام ہی امن اور سلامتی کا ہے۔ پشاور کے واقعے نے د±نیا بھر کے دل ہلا کر رکھ دیئے ہیں۔جنگ کے دوران بھی کوشش کی جاتی ہے کہ سویلین نقصان کم سے کم ہو اور ٹارگٹ عموماً ملٹری کی حد تک رکھے جاتے ہیں۔ عورتیں اور بچے تو ویسے ہی ایک کمزور ہدف سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں ہدف بنانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ معصوم بچوں کو اس طرح درندگی کا نشانہ بنا کر ان دہشت گردوں نے پاکستانی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ا±ن ماﺅں کا د±کھ تو اتنا گہرا اور شدید ہے کہ زندگی بھر ب±ھلا یانہیں جا سکتا ۔ پاکستان گذشتہ ایک دہائی سے حالتِ جنگ میں ہے اور اس دوران ہم نے بے پناہ جانی اور مالی نقصان ا±ٹھایا ہے۔ دہشتگردی کیخلاف اس جنگ میں ہم سے زیادہ قربانیاں کسی نے نہیں دیں۔ ہر واقعہ کے بعد ک±چھ دیر تک ا±سکا اثر رہا ،تعزیت بھی ہوئی اور مذمت بھی مگر پھر آہستہ آہستہ سب بھول گئے اسکی ایک وجہ ان واقعات کا تواتر کے ساتھ ہونا بھی تھا۔ ان تمام کے بر عکسپشاور واقعے کو بھ±لانا اب کسی کیلئے ممکن نہیں اور ایسا ہوا بھی نہیں۔ اس طرح کے واقعات قوموں کی زندگی میں بڑی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں او ر پاکستان کے سیاست دان، حکومت، میڈیا، سول سوسائٹی اور عوام الناس نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان کی بہادر افواج کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ پاک سر زمین کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کر دیں۔پشاور حملے کے بعد سے پاکستان کے طول و عرض میں جاری آپریشنز نے نہ صرف دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی بلکہ ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔
پشاور آرمی پبلک سکول کے حملہ آوروں کے بارے میں بات کی جائے توہلاک کئے جانے والے9مجرمان کے علاوہ جن مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے ان میں مولوی عبدالسلام، حضرت علی، مجیب الرحمٰن عرف نجیب اللہ اور سبیل عرف یحییٰ شامل ہیں۔ مولوی عبدالسلام سرکاری ملازم اور پشاور میں محکمہ آبپاشی کی مسجد کا پیش امام تھا اور اس نے حملہ آوروں کو رہائش فراہم کی تھی۔بقیہ تینوں مجرموں پر بھی آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والوں کی مدد کا الزام تھا تاہم حکام کی جانب سے مدد کی نوعیت کے بارے میں وضاحت نہیں کی گئی تھی۔خیال رہے کہ پشاور حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کی گئی فوجی عدالتوں نے ان چار افراد سمیت حملے میں ملوث چھ مجرموں کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔ دو مجرم اب بھی اپنی سزا پر عمل درآمد کے منتظر ہیں ان میں تاج محمد عرف رضوان اور عتیق الرحمٰن عرف عثمان شامل ہیں۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والا گروپ 27 ارکان پر مشتمل تھا جس کے نو ارکان مارے گئے جبکہ 12 کو گرفتار کیا گیا تھا۔اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے یہ جانور دراصل اسلام کے آفاقی پیغام امن و محبت نے نا بلد ا ور نا آشنا ہیں ۔ طالبان اپنے نظریات کے فروغ میں خاصے سرگرم عمل رہے ہیں۔ طالبان کے نشر واشاعتی اداروں ”امت” اور ”منبع الجہاد” کی جانب سے ہزاروں ویڈیوز، DVD’s پاکستان اور افغانستان کے بازاروں میں محض واجبی قیمت پر دستیاب ہیں۔ اسی دوران 2007ء سے لے کر آج تک اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر رہنماﺅں کی 151 صوتی اور تصویری وڈیو جاری ہوچکی ہیں۔ صرف 2006ءمیں افغان طالبان نے 85، اساتذہ اور طلباءکو قتل کیا اور 187 اسکولوں کو جلا دیا۔ جبکہ جنوبی افغانستان میں طالبان کے خطرے کے پیشِ نظر 350 اسکول بند کر دیئے گئے۔ 2008ءمیں پاکستانی علاقوں سوات، دیر، پشاور اور کوہاٹ میں واقع لڑکیوں کے 111 سکول 6 مخلوط اسکول اور 2 عدد لڑکوںکے اسکول طالبان کا نشانہ بنے اس کے علاوہ فاٹا میں مہمند، باجوڑ اورکزئی اور خیبر کی قبائلی ایجنسیوں میں واقع درجن اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ تعلیم دشمنی کا یہ عمل دراصل طالبان کی اس سوچ کی نشاندہی کرتا ہے جس کے ذریعے وہ افراد کو ناخواندہ رکھ کر ان کے ناپختہ ذہنوں پر اپنی جہالت کا اثر چھوڑنا اپنی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مگر طالبان کو کیا کوسنا ہماری اپنی حکومتیں اس معاملے میں طالبان سے کہیں زیادہ شقی القلب واقع ہوئی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا مزاج ہی اپنی ذمے داریوں سے جان چھڑانے والا واقع ہوا ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد پوری دنیاکو بتایا گیا کہ طالبان بچوں کی تعلیم کے دشمن ہیں،وہ تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور وہ اسکولوں کو ویران کررہے ہیں،اس وجہ سے پوری دنیا نے بیک جنبش لب طالبان کو اجڈ اور گنوار کہا۔ملالہ بیرون ملک جا کرچین و سکون سے تعلیم حاصل کرنے لگی۔ ہمارے حکمرانوں نے سمجھا شاید اب پورا ملک تعلیم یافتہ ہوگیا۔ اگر ملالہ تعلیم حاصل کررہی ہے تو گویا ملک کے تمام بچے ہی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ہمارے حکمران ملالہ اور تعلیم کی بانسری تو بجاتے رہے لیکن تعلیم کے فروغ کے لیے کوئی مضبوط قدم نہ اٹھا سکے اور طالبان کی آڑ میں پاکستان کے ان لاکھوں بچوں کو بھول گئے جو طالبان کے علاقوں میں نہیں بلکہ پاکستان کے انتہائی پرامن اور محفوظ شہروں میں رہتے ہوئے بھی تعلیم کے حصول سے محروم ہیں۔
جنہوں نے کبھی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا،جن کی زندگی بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک جہالت کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے گزرتی ہے،جویہ تک نہیں جانتے کہ علم کسے کہتے ہیں۔اگرطالبان اس وجہ سے تعلیم دشمن ہیں کہ وہ اسکولوں کو ویران کررہے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر ہماری حکومتیں ان سے بھی بڑی تعلیم دشمن ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے آج بھی لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ طالبان نے سینکڑوں سکولوں کو تباہ کیا جس سے ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہوئے لیکن حکومت کی وجہ سے ہزاروں اسکول ویران اور لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ویسے بھی ہر پاکستانی بچے کو تعلیم سے آراستہ کرنا حکومت کی ذمے داری ہے طالبان کی نہیں۔ہمارے حکمران اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں سے 113 ویں نمبر پر ہے۔ پرائمری کے 65 لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جن میں 30لاکھ سے زائد بچیاں ہیں۔ نائیجیریا اور ایتھوپیا کے بعد پاکستان تیسرا ملک ہے جہاں بچوں کی اکثریت اسکول جانے سے محروم ہے۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم اسپارک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کی تعداد 19.73 ملین ہے، ان میں سے ایک چوتھائی بچے اسکول نہیں جاتے،جس کی وجہ طبقاتی وجوہات اور غربت ہے۔ 2017 ءتک خطے میں سب سے زیادہ اسکول نہ جانے والے بچے پاکستان میں ہوں گے،جو انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے۔ پرائمری تعلیم میں 10 لڑکوں کے مقابلے میں صرف 8 لڑکیاں ہی اسکول کا رخ کرتی ہیں، مگر ان کی حالت بھی نہایت پسماندہ ہے اور .9 38 فی صد بچیاں، .2 30 فیصد بچے بنیادی تعلیم کے لیے کبھی پرائمری اسکول جا ہی نہیں سکے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسکولوں میں داخلے کے بعد پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے سے قبل پڑھائی چھوڑ دینے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو .8 42 فیصد بنتی ہے۔پنجاب میں 61 فیصد، سندھ میں 53 فیصد، خیبر پختونخوا میں 51 فیصد، بلوچستان میں 47 فیصد بچے ہی اسکولوں میں رجسٹرڈ ہیں۔ پنجاب کے 17 فیصد بچے کبھی اسکول نہیں گئے، خیبرپختونخوا میں ایسے بچوں کی شرح 25 فیصد، بلوچستان میں سب سے زیادہ 37 فیصد ہے۔ صوبہ بلوچستان میں 5سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد لگ بھگ 34 لاکھ ہے جن میں سے محض 11 لاکھ بچے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور23 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان تینوں صوبوں میں بچوں کی ایک بڑی تعداد غربت و افلاس، وسائل کی کمی، بنیادی ڈھانچے میں کمزوریوں کی وجہ سے اسکول کی تعلیم سے محروم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ملک کے تعلیمی اداروں کی مجموعی تعداد 216,490 ہے۔ جن میں سے بلوچستان میں 10381، پنجاب 106,435، سندھ 46,862 اور خیبرپختونخوا میں 36,029 تعلیمی ادارے ہیں۔ یوں پنجاب میں 48 فیصد ، سندھ میں 22 اور سرحد میں 17 فیصد تعلیمی ادارے ہیں جب کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی شرح صرف 5 فیصد بنتی ہے۔
پاکستان کے تمام صوبوں میں تعلیمی اداروں کی حالت انتہائی پتلی ہے۔ صوبہ پنجاب میں تقریباً ساڑھے 14 ہزار سرکاری اسکول مناسب عمارتی ڈھانچے سے محروم ہیں ، جہاں طلبا و طالبات درختوں تلے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔پنجاب بھر میں لگ بھگ20 ہزار درسگاہیں پینے کے صاف پانی اور ایسی دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اسی طرح چند ماہ قبل صوبہ سندھ کے بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس صوبے میں 6,721 گورنمنٹ اسکول ایسے ہیں جو اس وقت کام نہیں کر رہے۔جن میں سے 2,181 اسکولوں کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے،متعدد کی صرف برائے نام ہی عمارتیں قائم ہیں اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سات ہزار کے قریب ان اسکولوں کے لیے حکومت کی طرف سے مسلسل بجٹ فراہم کیا جا رہا ہے۔
چند ماہ قبل ملک بھر میں مزید 1200 گھوسٹ اسکولوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جن کی تعداد خیبرپختونخوا میں 345 اور فاٹا کے قبائلی علاقوں میں 305، صوبے پنجاب میں ان گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 276 ، سندھ میں 64، بلوچستان میں 69، پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان میں 89 اسکول اور اسلام آباد میں 57 گھوسٹ اسکول ہیں،ان اسکولوں میں کسی بھی قسم کی تعلیمی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان گھوسٹ اسکولوں میں اربوں روپے کی کرپشن بھی کی جاتی ہے، گھوسٹ اسکولوں میں کرپشن کے بعد پکڑے جانے کے امکانات نسبتاً کم ہوتے ہیں جب کہ اس میں منافع بہت زیادہ ہے۔ گھوسٹ اسکول جو سرکار کی دستاویزات پر موجود ہیں اور ان کا عملہ باقاعدگی سے تنخواہیں بھی وصول کرتا ہے، حکومت کی طرف سے اسکولوں کا فنڈ بھی جاری ہے لیکن زمین پر ان کا کوئی وجود نہیں، نہ ہی حکومت کی ان کی طرف کوئی توجہ ہے۔
پاکستان بھر میں ایسے بے شمار اسکول ہیں جن پر سیاست دانوں، جاگیرداروں،وڈیروں اور بااثر شخصیات کا قبضہ ہے، لیکن حکومت ان سے قبضہ چھڑانے کی کوئی سبیل ہی نہیں نکالتی۔اگر حکومت کو واقعی ملالہ ، تعلیم اورپاکستان کے بچوں سے کچھ دلچسپی ہے تو پاکستان میں تعلیم کے تمام مسائل حل کرکے ملک میں تعلیم سے محروم رہ جانے والے لاکھوں بچوں کو بھی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں۔ تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کو ہر قسم کی کرپشن اور خامیوں سے پاک کرکے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جو ملک و ملت کی ترقی کا سبب بنے۔غریب اور امیر کے بچوں کو ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں تاکہ غریبوں میںاحساس کمتری ختم ہو اور انھیں بھی آگے بڑھنے کا موقع ملے۔یہ سب کچھ کرکے ہی ہم دراصل آرمی پبلک سکول کے ان شہید بچوں اور اساتذہ کی روحوں کے سامنے سرخرو ہو سکیں گے۔ یہی طالبان اور دہشت گردوں کے لیے حقیقی اور مستقل شکست فاش ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *