اکتوبر26, 2015کو 7.5شدت کے زلزلے نے شمالی افغانستان ، پاکستان اوربھارت کے چند حصوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ زلزلے کا مرکز کوہ ہندوکش 196کلومیٹر گہرائی میں تھا۔

محتاط اندازوں کے مطابق اس زلزلے میں 400افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ قریبا 9000گھر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ خیبرپختونخواہ ہے۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا ایک بڑا حصہ بھی اس زلزلے سے متاثر ہوا لیکن حسب سابق ملکی ادارے نہ صرف زلزلہ زدہ علاقوں میں بروقت پہنچنے میں ناکام رہے بلکہ اگر فوجی اداروں کی بروقت مدد حاصل نہ ہو پاتی تو ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافے کا خدشہ تھا۔ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں قدرتی آفات کے آنے کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ سیلاب ہو یا زلزلہ ، آندھی ہو یا بارش اس کی شدت اور پھیلاﺅ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ہنگامی حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ سال ہا سال سے آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں ہر سال اپنا روپ دکھاتی ہیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ سیلاب کے آنے کے مقام کا پہلے سے اندازہ ہونے کے باوجود ہم عوام کے جانی اور مالی نقصان کے بچاﺅ میں یکسر ناکام رہتے ہیں۔ حالانکہ 2005کے تباہ کن زلزلے کے بعد قومی سطح پر کئی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا لیکن زبانی جمع خرچ کے علاوہ یہ ادارے کسی بھی قسم کی عملی پیش رفت میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کے پاس نہ تو تکنیکی تربیت ہے اور نہ ہی جدید مشینری۔ ابھی حال ہی میں لاہور (سندر) کے مقام پر ایک فیکٹری کے گرنے سے پنجاب کی صوبائی حکومت کی گڈ گورننس بھی کھل کر سامنے آ گئی تھی۔ ایک بار پھر فوجی اداروں کو مدد کے لیے آگے آنا پڑا۔ فوج کو مدد کے لیے پکارنا جرم نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ سول ادارے کہاں ہیں اور ہم ”جمہوری “ دور میں بھی اپنے تمام تر مسائل کا حل فوج کے ہاں تلاش کرنے پر کیوں مجبور ہیں۔
خیبر پختونخواہ جہاں کے عوام نے 2015 میں تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا تھا حالیہ زلزلے میں تبدیلی تلاش کرتے رہے۔ لیکن تبدیلی نہ آنی تھی نہ آئی۔ خاص طور پر لوکل گورنمنٹ ادارے جن کا کام بنیادی سطح پر عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا تھا اس سلسلے میں بالکل بے بس نظر اور بے حس و حرکت نظر آئے ۔ متاثرین تک امداد پہنچانے ، ٹوٹے ہوئے پلوں اور سڑکوں کی ہنگامی مرمت کا تمام تر کام فوج نے انجام دیا جبکہ حکومتیں صرف امداد کے اعلانات تک محدود رہیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے فوت شدگان کے لیے 6لاکھ، زخمیوں کے لیے ایک لاکھ ، معذور افراد کے لیے 2لاکھ ، مکمل تباہ شدہ گھروں کی تعمیرکے لیے 2لاکھ اور جزوی تباہ شدہ گھروں کی مرمت کے لیے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ اعلان شدہ رقوم کی فوری ترسیل شروع کر دی گئی لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ ہمارے ادارے فوج کے لیے اضافی ذمہ داریوں کا بوجھ کب بانٹیں گے۔ فوج جو پہلے ہی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں آپریشن ضرب عضب اور بلوچستان اور کراچی میں فوکسڈ آپریشن میں مصروف ہے کہ لیے ایسی ذمہ داریاں وطن عزیز کی دفاعی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں جبکہ پاک بھارت سرحد اور کنٹرول لائن پر جاری کشیدگی اور آئے روز فائرنگ سے فوج پہلے ہی ہائی الرٹ حالت میں ہے۔ دوسری جانب افغان سرحد سے بھی ٹھنڈی ہوائیں آنا بند ہیں غرضیکہ فوج ملک عزیز کے طول و عرض میں اپنی بنیادی ذمہ داری دفاع پاکستان میں پہلے ہی مصروف ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح پاکستان میں حادثات کا شکار افراد کو فوری مدد کی فراہمی کے لیے ریسکیو 1122 اورموٹر وے پر ٹریفک سہولیات کی فراہمی اور حادثات سے بچاﺅ کے لیے موٹر وے پولیس جیسے مثالی ادارے قائم کیے گئے ہیں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو بھی اسی طرح موثر بنایا جائے۔ کسی بھی قدرتی آفت کے آنے کی صورت میں ذمہ دار اداروں کی ذمہ داریوں میں حادثے سے ہونے والے نقصان کی درست معلومات، تیاری،فوری رد عمل، بحالی اور آئندہ بچاﺅ کے اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان میں تباہ کن زلزلے آتے ہیں تو جانوروں، چارپائیوں، صندوقوںسمیت اجڑے گھروں کے باہر بیٹھے مرد اور عورتیں، ان کے کاندھوں پر سوار بچے، ان میں سے کمزور اور بوڑھے افراد کی مدد کرتے رضاکار اور فوجی، اشیائے خوراک کے پیکٹ گراتے ہیلی کاپٹر، رہنماﺅں کو گمراہ کرتے جعلی ریلیف کیمپ، امداد کے اعلانات کرتے سیاست دان اور متاثرین تک مدد پہنچنے سے پہلے ہی رستے میں کہیں کھو جانے کا شکوہ کرتے زلزلہ زدگان نظر آتے ہیں۔ پاکستان اور جڑواں ملک افغانستان میں تیزی سے بدلتے موسم ان زلزلوں کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ گلوبل کلائمیٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہونے والے دس غیر محفوظ ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ اکتوبر 2005میں آنے والا زلزلہ جس نے 80ہزار سے زائد افراد کو ہلاک اور 33لاکھ کو بے گھر کر دیا تھا کے متاثرین اب بھی موجود ہیں۔ نیو بالا کوٹ سٹی کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے اور امداد کے منتظر افراد اس کا انتظار کرتے کرتے ابدی نیند جا سوئے۔ 24اکتوبر 2013کو بلوچستان میں آنے والے زلزلے میں 270افراد ہلاک ہوئے۔ 1935میں اسی صوبے میں آنے والے زلزلے سے کوئٹہ شہر تباہ ہو گیا تھا اور 60ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
2008میں ایک بار پھر زلزلہ آیا جس سے 300افراد ہلاک ہوئے۔
اقوام متحدہ کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نگران ادارے نے پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر و ترقی پر جدید ڈیزائنز کے مطابق تعمیرات پر فوری توجہ دے ۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل میں پاکستانی معاشرے کو دوبارہ عوامی سطح پر بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان برداشت کرنے کے علاوہ روزگار کے ضائع ہو جانے والے بے تحاشا مواقع کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ 2010میں آنے والے سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت زلزلے سے متاثرہ افراد کی مناسب مدد کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان قدرتی آفات سے زیادہ انسانوں کی غفلت سے آنے والی تباہیوں کا شکار ہے۔ پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ اس شعبے میں آئندہ کے لیے بہتر سرمایہ کاری نہ کر کے اپنے مستقبل اور اپنے عوام کی زندگیوں کوداﺅ پر لگا دے۔ انہوں نے کہا پاکستان کو مشینوں سے زیادہ پختہ سیاسی ارادے کی ضرورت ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ کسی علاقے میں جب زلزلہ آتا ہے تو اس کے قریب 6ہزار کلومیٹر کے علاقوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ریڈ فالٹ ایریا میں موجود پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بھی ان خطرات سے باہر نہیں ہے۔ شمالی پاکستان کے علاوہ ہمالیہ، پامیر اور کوہ ہندوکش میں زلزلے ایک کروڑ سے زیادہ سالوں سے زلزلے آتے رہے ہیں اور یہ آتے رہیں گے۔