pin up casinomostbet1winpin up

دُور دراز علاقوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی فون کی سروسز کو توسیع دینے کی غرض سے 2016-17میں یونیورسل سروسز فنڈ کے تحت چار نئے منصوبے شروع کیے گئے۔
بلوچستان میں خاران، واشک، ڈیرہ بگٹی اور کوہستان کے علاوہ فاٹا میں وزیرستان کے لیے یہ نئے منصوبے کا حصہ ہے۔ 2.43 بلین روپے مالیت کی نئی لائنیں ان علاقوںمیں بچھائی جا رہی ہیں اور پہلے سے جاری منصوبوں کے لیے 9.52بلین روپے پہلے ہی سے مختص کیے گئے ہیں۔ 2016-17کے دوران میں ان دیہاتی علاقوں میں ٹیلی فون سروسز کی فراہمی کے لیے 11.94بلین روپے مختص کیے بگئے ہیں۔
توقع کی جاتی ہے کہ ساﺅدرن ٹیلی کام ریجن میں جاری براڈ بینڈ منصوبے سے مالی سال 2016-17میں غیر مراعات یافتہ علاقوں میں 56,000نئے سب سکرائبرز کو کوریج مہیا کردیا جائے گی۔مزید براں 125تعلیمی براڈ بینڈ مراکز اور 55 کمیونٹی براڈ بینڈ مراکز قائم کیے جائیں گے۔ ان منصوبوں کے تحت 482.5ملین روپے کی امداد دی گئی۔
مالی سال 2016-17میں آپٹک فائبر کیبل پروگرام کے تحت بلوچستان میں جاری منصوبوں کے لیے 63.4ملین روپے مختص کیے گئے ہیں اورتین نئے منصوبوں کے لیے خیبر پختون خوا، بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں 1.9بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پاکستان بیت المال خواتین کو بااختیار بنانے کے مراکز میں بہت سی کمپیوٹر لیبارٹریاں قائم کر رہا ہے۔ وزیرِ اعظم کے انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے وظائف، وزیرِ اعظم کا بلوچستان کے ذہین طلبہ کے لیے وظیفوں کا پروگرام اور وزیرِ اعظم کا قومی انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی انٹرن شپ پروگرام بھی چل رہے ہیں۔ سال 2016-17کے لیے تقریباً ایک بلین روپے مختلف سکیموں کے لیے رکھے گئے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے چین کے ساتھ کراس بارڈر آپٹک فائبر پراجیکٹ کے قیام کا افتتاح کیا ہے ۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے نئے دروازے کھول دے گا۔ پہلے سے جاری سکیموں اور ٹیلی کام اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر میں نئے منصوبے شروع کرنے کے لیے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 1.10بلین روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے 938ملین روپے وفاقی بجٹ سے جب کہ171 ملین روپے غیر ملکی امداد سے دیے جائیں گے۔ جاری منصوبوں کی تکمیل کے لیے 834.02ملین روپے استعمال کیے جائیں گے جب کہ 90ملین روپے آئندہ مالی سال میں شروع کیے جانے والے تین نئے منصوبوں میں لگائے جائیں گے۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے بجٹ کی تقسیم یوں ہے:
پاک چین فائبر آپٹک کیبل کے لیے 230ملین روپے
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمد کے فروغ کے لیے پاکستان سوفٹ بورڈ ایکپورٹ بورڈ کے لیے 50ملین روپے
گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر میں جی ایس ایم نیٹ ورک کی تبدیلی کے لیے 10ملین روپے
قراقرم ہائی وے پر جی ایس ایم کوریج کے لیے 50 ملین روپے
اسلام آباد میں ٹیکنالوجی پارکوں کے لیے 151.23ملین روپے
پاکستان بیت المال کے تحت خواتین کو بااختیار بنانے کے مراکز کے لیے کمپیوٹر لیبارٹریوں کے قیام کے لیے، وزیرِ اعظم کے انفارمیشن اینڈ کمپیوٹر ٹیکنالوجی وظائف اور وزیرِ اعظم کے انفارمیشن اینڈ کمپیوٹر ٹیکنالوجی انٹرن شپ پروگرام کے لیے ایک بلین روپے
وفاقی بجٹ کے مطابق حکومت نے موبائل فون پر دوبارہ ٹیکس بڑھا دیا ہے، ابھی گزشتہ سال یہ ٹیکس دگنے کیے گئے تھے۔ اب صارفین کو موبائل فون پر1500روپے تک کا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ یہ ٹیکس موبائل فون کی قیمت کے لحاظ سے تین سو روپے، ایک ہزار روپے اور پندرہ سو روپے ہو گا۔
اسحاق ڈار نے انکشاف کیا کہ جنوبی ٹیلی کام ریجن میں براڈ بینڈ منصوبے کے تحت پس ماندہ علاقوں میں 56,000سے زائد نئے سب سکرائبرز کو کوریج ملے گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات اور دیگر مصنوعات کی برآمد کے لیے مجوزہ ٹیکس سے استثنیٰ کو توسیع دی گئی ہے۔ یہ استثنیٰ 2019تک جاری رہے گا۔ اس استثنٰی کی وجہ سے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کمپنیاں ٹیکس میں رعایت حاصل کرتی ہیں اور اُنھیں اپنی آمدنی کا 80فی صد پاکستان میں بنک کے ذریعے بھیجا جائے گا جب کہ مالی ضروریات کے لیے 20فی صد آمدنی ملک سے باہر رکھی جا سکے گی۔ صوبائی حکومتوں کی مالیاتی ترجیحات کو سمجھنے کی کوشش کرنا قابلِ قدر ہو سکتا ہے۔
حکومتِ سندھ جدید خطوط پر شعبوں کو اُستوار کرنے کے لیے جغرافیائی معلوماتی نظام پر مبنی سندھ ایجوکیشن انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کو جامع مقام دے رہی ہے۔ اس سے صوبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے مزید ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ حکومتِ سندھ نے صوبائی بجٹ 2016-17کے لیے ہیومن ریسورس مینجمنٹ، لاجسٹک میننجمنٹ سسٹم، ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی، پراونشل ہیلتھ سروسز اکیڈیمی اور ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات کے لیے 2016-17کا بجٹ 370ملین روپے سے بڑھا کر 477.360ملین روپے کر کے نمایاں اضافہ کیا ہے۔ صوبائی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے 698ملین روپے کا بجٹ ہے۔ سندھ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے مختص کیا گیا بجٹ پنجاب میں اسی شعبے کے لیے مختص شدہ بجٹ سے بارہ گنا کم ہے۔ اس قدر کم رقم مختص کر کے صوبائی حکومت کے لیے مالی سال 2016-17 کے لیے سوچے گئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منصوبوںکی طویل فہرست کو مکمل کرنا قریب قریب ناممکن لگتا ہے
جو ذرائع نے حکومت کے کام کرنے کے انداز سے واقف ہیں، اُنھوں نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت ، پنجاب کی حکومت کے شعبہ¿ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بنائے گئے سوفٹ وئر کو اُدھار لے لیتی ہے۔ اس کے پس پردہ سبب یہ ہے کہ سندھ کی حکومت جن منصوبوں کا اعلان کرتی ہے، وہ وہی ہوتے ہیں جنھیںپنجاب میں پہلے ہی سے مکمل کر لیا ہوتا ہے۔
بلوچستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ 6 مئی کو سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعدافسروں کے بڑے پیمانے پر تبادلوں کی وجہ سے حکومتِ بلوچستان نے جب مالی سال 2016-17 کا بجٹ تیار کیا تو وزارتِ خزانہ میں اہلیت کے مسائل کا سامنا تھا۔
اُسے قومی احتساب بیورو (نیب) نے بد عنوانی کے الزامات پر گرفتار کر لیا اور اُس کے گھر سے 630ملین روپے برآمد ہوئے۔ نئے تعینات کیے گئے افسروں کا مالیات کا یا بجٹ بنانے کاپس منظر نہیں تھااور ان تجربہ سے عاری افسروں کے پاس بجٹ سازی کے لیے تین ہفتوں سے کم وقت تھا۔ کسی نہ کسی طرح بلوچستان اسمبلی 18جون کومالی سال 2016-17کا بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ انتہائی غفلت کی بات یہ ہے کہ اس صوبے نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے پر توجہ مرکوز نہیں کی ہے، خصوصاً اُس وقت جب پاکستان اربوں ڈالر کے منصوبے چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے منصوبے کا پلیٹ فارم اور علم بردار ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے معاملات حل کرنے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی معقول افرادی قوت درکار ہے۔صوبائی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور مجرمانہ پالیسیوں کے باعث ہمارے ہاتھ سے یہ سنہری موقع نکل سکتا ہے ۔
پنجاب محفوظ شہر منصوبے (سیف سٹی پراجیکٹ) کے لیے لاہور سمیت صوبے کے چھ شہروں کے لیے 44بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 13.95بلین روپے اختیارات کی نچلی طح تک منتقلی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اسے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور دیگر حکومتی شعبے سپانسر کر رہے ہیں۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے 13.95بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور دیگر حکومتی شعبوں نے سپانسر کیا ہے ۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ سال مختص کی گئی رقم 8.54بلین روپے تھی۔ قبل ازیں ارفع سوفٹ وئر ٹیکنالوجی پارک کے مقام پر پاکستان میں اینٹرپرینر شپ کا ٹیکنالوجی ان کیو بیٹر پلان نہم اور دہم مکمل ہوئے۔ ڈرائیونگ لائسنس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم اور لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم حکومتِ پنجاب کی نیک نامی کا ثبوت ہیں۔
حکومتِ پنجاب کا یہ بھی ارادہ ہے کہ وہ 2016-17میں ایف آئی آر کے کمپیوٹرائزڈ اندراج کا کام شروع کیا جائے، صوبہ خیبر پختون خوا میں پہلے ہی ایسا ہو رہا ہے۔ اسی طرح عدالتِ عالیہ لاہور اورلاہور کی ضلعی عدالت میںمقدمات اور عدالتی انصرام کے خودکار نظام سے عوام الناس کو عدل و انصاف کی فراہمی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ مقامی حکومت کے خودکار مالیاتی انصرام اور نگرانی کے نظام پر بھی کام جاری ہے تاکہ اس میں شفافیت بڑھائی جا سکے۔
خیبر پختون خوا کی حکومت نے ترقیاتی پروگراموں کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بجٹ 63ملین روپے سے بڑھا کر 79ملین روپے کیا اور پھر اس میں مزید اضافہ کر کے اسے 180ملین روپے کر دیا۔خیبر پختون خواکے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے نے اس اہم شعبے کی طرف غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب ہے کہ اس صوبے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے، یہ نوجوانوں کی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے، لیکن اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات اور خیبر پختون خوا میں صنعتی ترقیاتی پالیسی میں ٹیکنالوجی پر ایک لفظ تک نہیں کہتی۔ اس صنعتی پالیسی کا آغاز صوبے کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے 31 دسمبر 2015ءکو کیا تھا۔
اس کے برعکس ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے13فی صد بڑھوتری دکھائی ہے اور2020ءتک اُن کی آمدن225بلین امریکی ڈالر ہونے کی توقع ہے۔ جب MOREنے دہلی یونی ورسٹی کے سوفٹ وئر انجنئیرنگ کے شعبے کے اسسٹنٹ ڈین ایس۔ کوشک سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان میں جس چیز کی کمی ہے وہ ہے اچھی اور معیاری تعلیم۔ ہندوستان نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اور ریجنل انجنئیرنگ کالجزمیں 1950کی دہائی میں جو سرمایہ کاری کی، اب وہ منافع دے رہی ہے۔ یہاں تک کہ جنوبی ہندوستانی ریاستوں نے شمالی ہندوستان کی نسبت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے پاکستان سوفٹ وئر ہاوسز ایسوسی ایشن اور انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی صدر جہاں آرا نے MOREکے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہانفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی نازک صنعت پر ٹیکس لگانے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت کو اس شعبے کی ترقی سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔گزشتہ سال کی آمدن پر8 فی صد ٹیکس لگانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ہم میں سے بہت سوں نے دوردراز اور دیگر ممالک میں یہ کام شروع کردیا ہے۔ اس سے پاکستان کے بجائے دبئی میں روزگار اور کاروبار میں اضافہ ہو گا۔ کمپنیوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے سے کمپنیوں پر یہ پابندی نہ ہونے کے برابر ہو گی کہ وہ پاکستانیوں کو روزگار فراہم کریں۔ اس کے بجائے وہ اپنا سرمایہ دُوسرے ممالک میں لے جائیں گے اور اپنا کام زیادہ تر ہندوستان لے جائیں گے۔ نتیجةً پاکستانی صنعت کو بہت کم یا نہ ہونے کے برابر فائدہ ہو گا۔
ایکس سی لینس ڈیلیورڈ نامی لاہور میں کام کرنے والی ایک عالمی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی کے چیف یگزیکٹو آفیسر سجاد مصطفیٰ نے کہا کہ پاکستان میںانفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کے صحیح سائز کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بہت سے مفادات کی وجہ سے اس صنعت کا سائز کم بتایا جاتا ہے۔ یہ حکومت کو اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کواس صنعت کے مزید فروغ اجازت نہیں دیتے۔ اس شعبے کے ماہر کے طور پر میں پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت پر اعتبار نہیں کرتا۔ اس صنعت کی قیمت 2بلین امریکی ڈالر ہے، اس کے مقابلے میں ہندوستان میں اس صنعت کی قیمت143بلین ڈالر ہے۔ ہم پیچھے ہیں مگر اتنے بھی نہیں ، سید نے کہا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس صنعت کا حقیقی سائزمعلوم کرنے کے لیے باقاعدہ تحقیق کی جائے۔
ایف ۔ بی۔ آر کے اِن لینڈ ممبر رحمت اللہ وزیر نے MOREکو بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں کی خدمات پر ٹیکس کی موجودہ شرح کو 8 فی صد سے کم کر کے 2 فی صد کرنے کی تجویز دی ہے۔
اخبارات کی رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سلیم مانڈی والا نے کہا کہ خدمات پر ٹیکس کے اثر کا حساب کتاب لگایا جائے اور اگر ٹیکس صنعت پراور ٹیکس کی جمع آوری کے اہداف پر منفی اثر ڈال رہا ہو توضروری اقدامات کیے جائیں۔
اُنھوں نے ایف۔بی۔آر کی موجودہ روش پر بھی سوال اُٹھایا اور وضاحت کی کہ کسی صنعت کی اصل طاقت کی پیمائش کیے بغیر ٹیکس لگانا کس قدر غیر صحت مند اور تباہ کن ہو سکتا ہے۔ در حقیقت ایف۔بی۔آر نے اس ٹیکس میں کٹوتی کی تجویز اُس وقت پیش کی جب بہت سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنیاں بیرونی ممالک کا رُخ کر چکی تھیں۔
ایف۔بی۔آر کے کارپوریٹ ٹیکسوں کے ماہر جی۔اے خان ایڈووکیٹ کی رائے یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کمپنیوں کی اکثریت منی لانڈرنگ کے ہتھ کنڈے استعمال کرتی ہے اور یہ کہ کوئی اپریشن دبئی منتقل نہیں کیا گیا کیوں کہ دبئی میںفرادی وسائل کی لاگت پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اُنھوں نے دبئی سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ 8فی صد ٹیکس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر اُنھوں نے آفس کی جگہ، کرائے، ابلاغ اور دیگر قیمتوں کے بارے میں پوچھا ۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کمپنیوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنے دفاتر پاکستان میں رکھتے ہوئے اپنی بلنگ متحدہ عرب امارات میں منتقل کر لیے ہیں ۔ یوں ہماری حکومت کو ٹیکس کی جمع آوری کے اہداف کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات پر چھوٹ 2016 ءمیں ختم ہو گئی تھی ، اس لیے پاکستان سوفٹ وئر ایکسپورٹ بورڈ کی گورننگ باڈی نے پاکستان سوفٹ وئر ایکسپورٹ بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر کو ہدایت کی کہ وہ جون 2016ءکے مابعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی سمری تیار کریں۔
اس کے پس پردہ کیا سبب کارفرما تھا؟
یہ قدم اس لیے اُٹھا یا گیا تاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنی دولت بیرونی ممالک میں رکھنے کے بجائے اپنی رقوم پاکستان بھجوائیں۔
انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کی وفاقی وزارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کے ا یڈیشنل سیکرٹری اورانچارج رضوان بشیر خان نے MOREسے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان سوفٹ وئر ایکسپورٹ بورڈ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کارو ںمیں نووارد وں اور سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز نیز انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گریجوایٹس کے لیے مشاورتی و راہ نمائی کے مراکز قائم کئے ہیں تاکہ اُنھیں آغازِ کاروبار کے سلسلے میں مناسب مشورہ دیا جائے۔ پاکستان سوفٹ وئر ایکسپورٹ بورڈ کی ویب گاہ پر رابطے کی معلومات بھی ڈال دی گئی ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کی تین ہزار انٹرم شپ بھی پیش کر رہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گریجوایٹ این۔ٹی۔ایس کا ٹیسٹ دیں گے اور اُن میں سے سب سے زیادہ نمبر لینے والے پندرہ سو کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ملازمتیں فراہم کی جائیں گی یا ملازمتیں فراہم کرنے کی سفارش کی جائے گی۔ اگلے پندرہ سو انٹرنیز کی خدمات سے دُوسرے مرحلے میں فائدہ اُٹھا یا جائے گا۔ اس کا مقصد اس طرح کی انٹرن شپس کے ذریعے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گریجوایٹس کے لیے ملازمتوں پیدا کرنا ہے۔
اگر سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کی بات کی جائے تو چین پاکستان اقتصادی راہ داری کی بدولت پاکستان تیزی سے ترقی کرسکتا ہے لیکن ان تعمیرات، سڑکوں اور مشینوں سے باہر نکلیں تو ملک کو اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے اپنے افرادی وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہو گی۔ سرمایہ کاری قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ صنعت بننے کے لیے تنِ تنہا کچھ نہیں کر سکتا جب تک ہم اپنے ملک میں ذہین ترین افراد پر دیانت داری سے سرمایہ کاری شروع نہیں کرتے۔ عقل مند اقوام ان کے مستقبل کے لیے کھرے منصوبے بناتی ہیں۔
20 : رضا کارانہ طور پر علیحدگی کی سکیم کے وسیلے سے نج کاری : پاکستان میں فروخت شدہ پی ۔ٹی۔سی۔ایل ملازمین کا کرب
مارگریٹ تھیچر نے حصص مالکان کی قوم بنانے کے لیے نج کاری کی وکالت کرتے ہوئے اس امکان کو چھوڑ دیا کہ ایک دن ایسی تنظیموں میں سرمایہ کاری کی جائے گی جو مال دار افراد کی ملکیت ہوں گی۔ تاجر قومی تنظیموں کو خریدنے لگیں گے ، لوگوں کو نکال باہر کریں گے اور کام میں کوئی جدت لانے یا مصنوعات میں کوئی اضافی خوبی پیدا کرنے کے بجائے انسانی وسائل پر مشتمل سرگرمیوں کو کم کر کے اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ کر لیں گی۔
مارگریٹ تھیچر مستقبل کے امکانات سے واقف نہ تھی ۔ اسے کیا علم تھا کہ چار ہزار میل دُور ایک حکومت اُس کے نقشِ قدم پر الٹے پاﺅں چلے گی۔ وہ حکومت اپنے سب سے زیادہ منافع بخش تنظیموں جیسے پی۔ٹی۔سی۔ایل کو بیچ کر اتصالات جیسی تنظیم میں سرمایہ کاری کرے گی۔ نئی انتظامیہ اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے بیس ہزار ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دے گی اور یہ کام لوہے اور پلاسٹک سے بنی تاروں میں کوئی جدت لائے بغیر اور غیر مستحکم زمینی ٹیلی فون نیٹ ورک کو بہتر بنائے بغیر کیا جائے گا۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ نے اپنے موجودہ ملازمین کے لیے چوتھی بار رضا کارانہ طور پر علیحدگی کی سکیم کا اعلان کیا ہے۔ کمپنی پہلے ہی اپنے سترہ ہزار ملازمین سے ”جان چھڑا“ چکی ہے اور اس کے بقیہ اٹھارہ ہزاراانسانی وسائل کے 50 فی صد کو دس بلین روپے کا فائدہ دے کر چوتھے اپریشن میں نکال دیا جائے گا۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈاور نئے کمپین سیشن پے گروپ کے ملازمین کو چوتھی ضا کارانہ طور پر علیحدگی کی سکیم سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تحریک دی جا رہی ہے۔ اس سکیم سے فائدہ اُٹھانے کا اہلیتی معیار مندرجہ¿ ذیل ہے:
بنیادی پے سکیل ایک تا بیس کے ملازمین
نئے کمپین سیشن پے گروپ کے ملازمین کی عمر58سال سے کم ہو گی۔
پنشن کی عمر بیس سال سے کم کر کے اٹھارہ سال کر دی گئی ہے۔ اگر کوئی ملازم پنشن لینے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے دو سال کی اضافی ملازمت کا فائدہ دیاجائے گا۔ نئے کمپین سیشن پے گروپ کے ملازمین کو پنشن کا انتخاب کرنے کی صورت میں چار گنا گریجویٹی ملے گی۔
ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کرنے پر نئے ملازمین کو چھ جب کہ نئے کمپین سیشن پے گروپ کے ملازمین کو پندرہ ماہ کا اضافی بونس دیا جائے گا۔
سکیم کے اعلان کے پہلے بیس دن کے اندر جو ملازمین ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اُنھیں برڈ الاﺅنس کے طور پر دو لاکھ روپے اضافی دیے جائیں گے۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ کا ہر وہ ریجن جہاں سے تیس فی صد یا زائد ملازمین ملازمت چھوڑتے ہیں ، اُنھیں ہر درخواست پر ڈیڑھ لاکھ روپے اضافی ادا کیے جائیں گے۔
ہر جانے والے ملازم کے لیے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن پنشن ۔
رضا کارانہ طور پر علیحدگی کی سکیم سے فائدہ اُٹھانے والے ،لازم نے اگر گھر کی تعمیرکار موٹر سائیکل کے لیے قرض لے رکھا تھا تو اُسے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ ختم کر دے گی۔
اس پیش کش سے فائدہ اُٹھانے والے ملازمین کو 180دن کی لیو انکیش منٹ دی جائے گی۔
جو ملازم کمپنی چھوڑنے کے بعدکوئی ہنر سیکھ کر اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہوں، اُنھیں مفت پیشہ ورانہ تربیت کے کورس کروائے جائیں گے۔
ملازمت چھوڑنے والے ملازمین چاہیں تو رضا کارانہ طور پر علیحدگی کی سکیم کی رقم اُنھیں یک مشت ادا کر دی جائے گی ۔ اگر وہ چاہیں پنشن کی صورت میں ماہانہ اقساط میں یہ رقم دی جائے گی۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ اپنے جانے والے ملازمین کی مدد کرنے کی ذمہ داری لے گی کہ وہ اپنی رقوم کی سرمایہ کاری مختلف قومی بچت کی سکیموں ، سٹاک مارکیٹ یا بنکوں میں کر سکیں۔
کمپنی چھوڑنے کے بعد نئی طرح کا کاروبار شروع کرنے پر تیسرے فریق کی ہدایات (تھرڈ پارٹی بریفنگ)۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ کے ملازمین سے ”جان چھڑانے“ کی یہ تمام پر کشش پیش کشوں سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ تین لگاتار حکومتیں بشمول موجودہ حکومت اس بات میں ناکام ہو گئی ہے کہ وہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ کے خریدار سے اپریل 2006ءسے واجب الادا 800ملین ڈالر کی غیر معمولی ادائیگی وصول کر سکے۔
متحدہ عرب امارات کی ٹیلی کام کمپنی اتصالات کو 2.59بلین امریکی ڈالر کے عوض پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ کے26فی صد حصص بیچے گئے اور انھیں انتطامی حقوق دیے گئے۔ اس میں سے 1.799بلین امریکی ڈالر ادا کر دیے گئے اور بقیہ 799.34ملین امریکی ڈالر روک لیے گئے کیوں کہ خریدار نے مطالبہ کیا کہ تما م کی تما م 3248جائیدادیں اُس کے نام کر دی جائیں ۔ ان میں سے 43 ابھی تک زیرِ التوا ہیں۔
وقت نے ثابت کیا ہے کہ منافع بخش پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈکو اس کے اثاثوں کی اصل مالیت سے بہت کم میں بیچا گیا۔ اس قومی دولت کو کوڑیوں کے بھاﺅ بیچنے کی ذمہ دار مشرف کی حکومت تھی، حصص کی خرید کے معاہدے کے تحت اسے محفوظ بنایا گیا اور اب یہ تحقیق کرنا ناممکن ہے کہ جب کمپنی پہلے ہی منافع بخش قومی اثاثہ تھی تو اسے اس کی اصل مالیت کی ایک چوتھائی قیمت پر کیوں بیچا گیا۔ یہ بتایا گیا تھا کہ نج کاری کے بعد کمپنی اینالاگ سسٹم میں انقلاب برپا ہو جائے گا، لیکن ایسے وعدے سننے کے دس سال بعد بھی پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ کے صارفین اُسی لوہے اور پلاسٹک کی تاروں میں گزارا کر رہے ہیں جو کوئی مثالی بات نہیں ہے۔
اس کی مصنوعات صارفین کی توقعات پر پورا اُترنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ اس کے وی فون اور چارجی کا کوئی خریدار نہیںاور اس کے چیف مارکیٹنگ آفیسرز نے لینڈ لائن کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ اُنھوں نے اس معروف و مقبول مقولے کی خلاف ورزی کی ہے کہ ”گاہک کسی کمپنی سے اُس وقت تک محبت نہیں کریں گے ، جب تک کہ اُس کے ملازمین اُس کمپنی سے محبت نہیں کرتے۔“ پاکستان میں نج کاری نے بنکوں کی کارگزاری کو نئی زندگی بخشنے میں مدد کی ہے لیکن دیگر شعبوں سے ملے جلے نتائج ملے ہیں۔ خصوصاً جہاں بے دلی سے کوششیں کی گئیں جیسے توانائی، سٹیل، ائرلائن اور مینو فیکچرنگ۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈکے چیف ہومن ریسورس آفیسر جناب سید مظہر حسین نے MOREسے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ نج کاری کے بعد سے کمپنی مارکیٹ می مقابلہ کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔” چوں کہ ہم نے چوتھی رضاکارانہ علیحدگی کی سکیم شروع کی ہے، اس لیے ہم دیگر موبائل کمپنیوں سے مقابلہ نہیں کر رہے ہیں۔ “اُنھوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ انسانی وسائل کی قدر کرتی ہے ۔”ہمارے کاروباری مقامات اور منافع میںبڑی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔“ مظہر حسین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ٹیلی کام کے شعبے میں منافع کا زوال پذیر رُجحان ہے۔” سب سکرائبرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر آمدن میں اضافہ نہیں ہو رہا۔اس شعبے میں اوسط آمدن فی صارف اس ریجن میں سب سے کم ہے اور موبائل ایپلی کیشنز آواز کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔“
لیکن وہ بھول گئے کہ 2014 ءمیں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ کے ذیلی ادارے یو فون کے مقابلے میں زونگ چینی موبائل جو پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے، سب سکرائبرز کی تعداد کے لحاظ سے آگے نکل گیا۔ زونگ کے پاس ملک کے ٹیلی کام صارفین کا 19 فی صد حصہ ہے جب کہ یوفون کے صارفین کی تعداد کم ہو کے 18.97ملین رہ گئی ، یوں اس کا مارکیٹ میں حصہ14فی صد رہ گیا۔
اکتوبر2016ءمیں زونگ نے پانچ بلین روپے کمائے، یہ اس کمپنی کی سب سے زیادہ ماہانہ آمدن تھی۔اکتوبر 2015ءکے مقابلے میں اس ماہ کمپنی کی آمدن میں 23.2فی صد اضافہ ہوا جب کہ ری چارج کی مد میں 26.5 فی صد اضافہ ہوا۔
یوفون کی چوٹی کی مینجمنٹ کے ایک افسرنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط عائد کرکے MOREکوبتایا کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈاور یو فون میں بد انتظامی نیز ٹیلی کمیونی کیشن میں بروقت سرمایہ کاری نہ کر نے کی وجہ سے کم پنی اس نچلی ترین سطح پر آئی ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ کمپنی میں اُن کی ملازمت محفوظ ہے اور یہ کہ یو فون ، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ سے مختلف ہے کیوں کہ ادھر ملازمت کے تحفظ کے حوالے سے کوئی افراتفری نہیں ہے، اُنھوں نے یو فون کے مارکیٹ میں مقابلہ کرنے میںناکامی کی اندرونی کہانی سنائی۔
”موبی لنک، ٹیلی نار اور زونگ مارکیٹ میں تھری جی 10میگا ہرٹز فر یکویئنسی لے کر آئے لیکن ہم یہ سوچ کر 5میگا ہرٹز پر قناعت کیے بیٹھے رہے کہ ہمارا بنیادی ادارہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ 10میگا ہرٹز کا مالک ہے اور یہ کہ بوقتِ ضرورت وہ ہمیں اپنا سسٹم اُدھار دے دیں گے۔ ہم نے سپر کارڈ کی پیش کش کا آغاز کیا جس نے اس کثیر تعداد میں صارفین کو اپنی طرف مائل کیا کہ ہمارے نیٹ ورک ہی کا دم گھٹ گیا۔ ہماری خدمات ڈوب گئیں اور ہماری سروس کی بہتری والی بات بھی جاتی رہی۔
ہمیں اپنی مقبول ترین سپر کارڈ سکیم کو ختم کر کے اسے دُوسری پیش کشوں کے ساتھ نئے سرے سے شروع کرنا پڑا۔ یہ پیش کشیں اس قدر متاثر کن اور مفید نہیں ہیں۔ ہم اس قابل نہیں کہ 4جی کو خرید سکیں۔ اب یا تو بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے یا مالی لحاظ سے یہ قابلِ عمل نہیں۔کمپنی کے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ میں انضمام کے معاملے پر کمپنی میں ہر کوئی خوف زدہ ہے ۔ عرب فروخت کے رُجحان کے مالک ہیں۔ اُنھوں نے وارِد کو موبی لنک میں ضم کر دیا اور اب وہ یو فون کو پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ میں ضم کر دیں گے۔ “
ہمارے ایک ذریعے نے بتایا کہ ماہرین دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈاور یوفون کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز انضمام کے معاملے سے منسلک ہیں۔”ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ کی 4 جی کا بیس مقامات پر آزمائشی طور پر آغاز کریں۔ اس سلسلے میں ٹاور شئیرنگ، لیز لائن، بیک اینڈ شئیراور کور شئیر پر کام جاری ہے۔ انضمام ناگزیر ہے۔
لیکن زونگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر لیو ڈیافینگ کا خیال ہے کہ یہ انضمام نہیں ہو گا بلکہ اُس کی کمپنی پاکستان کے کسی چیف مارکیٹنگ آفیسر کو خرید لے گی۔ اگرچہ اُنھوں نے یو فون کا نام نہیں لیا لین موبی لنک۔وارد کے انضمام کے بعد یو فون کے علاوہ کوئی بھی باقی نہیں بچا جسے وہ خریداری کے لیے اپنی کمپنی کا ہدف بنا سکے۔چند ماہ پہلے اُنھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی مارکیٹ میں منافع کمانا مشکل ہے اور یہ کہ سرمایہ کاری کا معاوضہ مختلف صورتوں میں ملتا ہے۔ ممکن ہے مستقبل میں ہم اپریٹر خریدنے کا سوچیں۔ اگرچہ اتصالات نے ایک سرکاری بیان میں ان تمام افواہوں کی تردید کی لیکن ہر کوئی یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈپھر سے اُوپر جائے گی؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *