pin up casinomostbet1winpin up

فوجی اور خاندانی پس منظر۔


نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کاتعلق فوجی پس منظر رکھنے والے خاندان سے ہے۔ راحیل شریف 16 جون 1956ءکو کوئٹہ کے ایک ممتاز فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میجر محمد شریف ہے۔ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف 1971 کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہوئے اور انہیں نشان حیدر ملا۔ وہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کے دوسرے بھائی، ممتاز شریف، فوج میں کیپٹن تھے۔جنرل راحیل شریف، میجر راجہ عزیز بھٹی، جنہوں نے 1965 ءکی بھارت پاکستان جنگ میں شہید ہو کر نشان حیدر وصول کیا ،کے بھانجے ہیں۔وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے۔جنرل راحیل پی ایم اے کے 54ویں لانگ کورس کے فارغ التحصیل ہیں۔ 1976 ء میں گریجویشن کے بعد، انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ، کی 6th بٹالین میں کمیشن حاصل کیا۔ نوجوان افسر کی حیثیت سے انہوں نے انفنٹری بریگیڈ میں گلگت میں فرائض سرانجام دئیے۔ ایک بریگیڈیئر کے طور پر، انہوں نے دو انفنٹری بریگیڈز کی کمانڈ کی جن میں کشمیر میں چھ فرنٹیئر فورس رجمنٹ اور سیالکوٹ بارڈر پر 26 فرنٹیئر فورس رجمنٹ شامل ہیں۔ ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید نے بھی اس بٹالین میں رہتے ہوئے شہادت پائی اور نشان حیدر حاصل کیا۔انہوں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ایڈجوٹینٹ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ جرمنی سے انہوں نے کمپنی کمانڈر کورس کیا اور معتبر ادارے اسکول آف انفینٹری اینڈ ٹیکٹکس میں انسٹرکٹر کے طور پر فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کینیڈا سے امتیازی حیثیت میں گریجویشن کیا۔ جنرل راحیل شریف کو کمانڈ ، اسٹاف اور انسٹرکشنل عہدوں پر کام کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کی فیکلٹی میں بھی رہے اور 1998 میں نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی اسلام آباد سے آرمڈ فورسز وار کورس کیا۔ بریگیڈیئر کے طور پر انہوں نے دو انفنٹری بریگیڈ کی کمانڈ کی جبکہ انہیں دو کور کا چیف آف اسٹاف رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ جنرل راحیل شریف رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز برطانیہ کے بھی گریجویٹ ہیں۔ وہ ایک انفنٹری ڈویڑن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ بھی رہے۔ لیفٹننٹ جنرل کے طور پر انہوں نے دو سال تک 30 کور کے کور کمانڈر کے طور پر فرائض انجام دیئے جس کے بعد انہیں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ evaluation تعینات کردیا گیا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں میجر جنرل راحیل شریف کو گیارہویں انفنٹری بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ راحیل شریف ایک انفنٹری ڈویڑن کے جنرل کمانڈنگ افسر اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ راحیل شریف نے اکتوبر 2010 سے اکتوبر 2012 تک گوجرانوالہ کور کی قیادت کی۔انہیں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انسپکٹر جنرل تربیت اور تشخیص رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جنرل راحیل شریف اور ان کی اہلیہ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ راحیل شریف افواج پاکستان کے 15ویں اور موجودہ سربراہ ہیں۔
اعزازات
27 نومبر 2013 کو وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں پاکستانی فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا-ذرائع کے مطابق راحیل شریف سیاست میں عدم دلچسپی رکھتے ہیں- انہیں دو سینئر جرنیلوں، لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود پر فوقیت دی گئی- ایک سینئر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم نے اسی وجہ سے فوج سے استعفی دیا- ایک اور سینئر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو بعد ازاں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیا گیا-انہیں20 دسمبر 2013 کو راحیل شریف کو نشان امتیاز(ملٹری) سے نوازا گیا-ان کے دیگر اعزازات درج ذیل ہیں۔


اعزازات برائے خدمت:
اعزاز برائے 10 سال خدمت اعزاز برائے 20 سال خدمت
اعزاز برائے 30 سال خدمت کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج سنچری اعزاز


غیر آپریشنل اعزازات
نشان امتیاز ہلال امتیاز


یادگاری اعزازات
قرارداد پاکستان تمغا
تمغا استقلال
ہجری تمغا
تمغا جمہوریت
یوم آزادی سنہرہ اعزاز
تمغا بقا


خارجہ اعزازات
آرڈر آف عبدالعزیز آل سعود
اعزاز برائے فوج میں میرٹ (ریاستہائے متحدہ امریکہ)
بوبی
راحیل شریف کو گھر والے پیار سے بوبی کہہ کر پکارتے ہیں۔پاکستان میں غیر معمولی عوامی پذیرائی کے حامل جنرل راحیل شریف پاکستان آرمی کے سپہ سالا ر کی حیثیت سے اس وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ 27نومبر2013کو پاکستانی فوج کے سپہ سالار کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف نے وطن عزیز کو درپیش مسائل خصوصاً دہشتگری کے ناسور سے چھٹکارا دلانے کیلئے بہادری سے وہ فیصلے کیے ہیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ، عسکریت پسندوں کے خلاف جاری ضرب عضب آپریشن کی کامیابی کا سہرا پاک فوج کے کمانڈر جنرل راحیل شریف کے سر جاتا ہے ، ہر پاکستانی اس بہادر سپوت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ان کا ان کے بھائی سے موازنہ کیا جائے تو ان کا چہرہ شبیر شریف سے مشابہت رکھتا ہے لیکن رنگوں اور طبیعت میں اختلاف ہے۔ شبیر کا رنگ سانولاا تھا،بوبی کا چہرہ گندمی ہے، کھلتا ہوا‘ سفیدی کی طرف مائل‘ شبیر کی طبیعت میں جارحیت تھی، بے چینی، اضطراب، قہقہے فلک شگاف ہوتے تھے۔ راحیل ٹھہری ٹھہری طبیعت کا مالک ہے۔ کم گو، کم سخن، کشادہ پیشانی، عزم و استقلال کی لو دیتی ہوئی۔ روشن روشن آنکھیں‘ گہری سوچ میں ڈوبی ڈوبی‘ کھلتے ہوئے سفید دانت اور ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹیں۔
شبیر اور راحیل
باپ اور بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے بھی فوج ہی کا انتخاب کیا اور اسی یونٹ میں کمیشن پایا ہے جس میں شبیر شریف نے سروس کی تھی۔ 6 ایف ایف کے ایڈجوٹنٹ Adjutant رہے ہیں۔ شبیر شریف بھی ایڈجوٹنٹ رہے تھے۔ یونٹ کے موجودہ اپوائنٹ منٹ بورڈ پر سرفہرست کیپٹن شبیر شریف کا نام ہے۔ نچلی سطروں میں راحیل کا۔ شبیر یکم جون 1966ء سے 11 اکتوبر 1967ء تک قریباً سوا دو سال ایڈجوٹنٹ رہے۔ راحیل یہ مدت پوری کرنے لگے تو ایک دن کمانڈنگ آفیسر سے ذکر کیا کہ وہ بھائی جان کا ریکارڈ توڑنے کو ہیں۔دوسرے دن ہی کمانڈنگ آفیسر نے انہیں اس عہدے سے ہٹا کر ایک کمپنی میں بھیج دیا۔ شاید وہ راحیل میں جذبہ مسابقت باقی رکھنا چاہتے ہوں، بھائی کی بلندیوں کو چھولینے کی خواہش، انہی عظمتوں کو حاصل کرنے کی تمنا وہ راحیل میں زندہ دیکھنا چاہتے ہوں، ادھوری تمناﺅں کی خلش بھی تو انسان کو نئی رفعتوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔
شبیر راحیل سے پندرہ برس بڑے تھے۔ شبیر نے غیر محسوس طریقے سے انہیں سخت جان بننے کی تربیت دی۔ راحیل دو مرتبہ دو دو مہینے کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں بھائی کے پاس آکر ٹھہرے۔ اس دوران میجر شبیر انہیں ساتھ لے کر گیارہ گیارہ میل پیدل چلا کرتے۔ ایک دفعہ کاغان گئے تو وہاں سے ناران تک پیدل ہی گئے کچھ تو بھائی کی تربیت، دوسرے کیڈٹوں کی چاق و چوبند زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ان میں خود ہی فوج میں آنے کا اشتیاق پیدا ہوگیا۔ شبیر شریف، راحیل کے لیے ایک گھنے درخت کی طرح تھے۔ جس کے سایے میں دھوپ کی تپش محسوس ہوتی تھی نہ سفر کی کلفت۔ ان کی صحبت میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے زندگی میں کوئی دکھ آہی نہیں سکتا۔ لیکن شبیر کا نقطہ نظر مختلف تھا۔ انہوں نے بھر پور شفقت تو دی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی جتایا کہ ہر شخص کو اپنی جنگ آپ ہی لڑنی چاہیے۔ بچپن میں وہ خود جھگڑالو تھے، آئے دن ان کی کسی نہ کسی سے لڑائی رہتی۔ مارتے بھی تھے مار پڑتی بھی تھی لیکن گھر آکر کبھی شکایت نہیں کی کہ فلاں نے مجھے مارا ہے۔ یہی تلقین شبیر شریف نے راحیل کوکی تھی۔ گھر خط لکھتے تو سب کے نام الگ الگ پرچے ہوتے، بڑی بہن خالدہ اور بوبی کو بڑے اہتمام سے لکھتے تھے۔ شبیر شریف کی جانب سے بوبی کے نام انگریزی میں لکھے گئے ایک خط کا ترجمہملاحظہ ہو
( کتاب ”فاتح سبونہ“ سے)
”ہیلو ینگ مین!
تو تم نے امتحان پاس کرلیا۔ اچھی لگی یہ بات۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم نے تیراکی سیکھنا شروع کردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اچھے تیراک بنو، اچھے تیراک ہی نہیں۔ زندگی میں جو بھی کرنا چاہو، ہر جگہ تمہاری کارکردگی بہترین ہونی چاہیے۔ یہی (احساس) تمہیں زندگی میں دوسروں سے آگے بڑھائے گا اگر تیرنا ہی ٹھہرا تو اپنے دوستوں میں تمہیں بہترین پیراک ہونا چاہیے۔ پوری دل جمعی سے صحیح سٹروک سیکھو، ڈائیونگ کا صحیح سٹائل اور ہاں کبھی ڈرنا مت۔بوبی! اب تم بڑے ہوگئے ہو، کردار کی خوبیوں کی طرف بھی توجہ دو۔ اگر تم سچائی پر ہو تو تمہارے منہ سے کچھ اور نہیں نکلنا چاہیے۔ کبھی پیچھے نہ ہٹنا۔ اصول کی بات ہو تو آخر وقت تک اس پر ڈٹے رہنا۔ مضبوط بنو اور خیال رکھو کہ تم دوستوں کیساتھ مخلص ہو۔ ان کے دکھ درد میں شریک رہو‘ سچ کہو‘ سچ سنو، اگر سچ کی قیمت نفرت یا تھپڑوں کی صورت میں بھی ملے تو قبول کرو لیکن جھوٹ سے دور رہو۔ سمجھ گئے نا؟ یہ بہت ہی ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی لڑائی آپ لڑنا سیکھو۔ کبھی منہ بسورتے گھر نہ آنا یہ بتانے کہ تم مار کھا کر آئے ہو۔ خود ہی بدلہ چکاﺅ۔ اگر مارنے والا طاقتور ہو تو تب بھی کمزوری نہ دکھاﺅ۔ اصل بات یہ ہے کہ تم مرد بن کر لڑو۔ اس بات کی کوئی قیمت نہیں کہ کسے زیادہ مار پڑی۔ میرا مطلب ہے بزدلی کبھی نہ دکھانا۔ کوئی تم سے زیادتی کرے تو حساب ضرور بے باق کرنا۔ اگر پتھر سے اس کا سر پھاڑنا پڑے تو کر گزرنا۔ جب مقابلہ زبردست سے ہو تو بھی مقابلہ تمہی کو کرنا ہے۔ میں اور تاج یقین کریں گے کہ ”کمک“ میں تاخیر نہ ہو۔
خط کے لیے بہت بہت شکریہ۔ لکھتے رہنا۔ امی اور ڈیڈی کو پیار۔“
راحیل نے اپنے بھائی کے احکامات بجا لاتے ہوئے نہ صرف پاکستان میں تعلیمی اور عسکری میدان میں شاندار کارکردگی دکھائی بلکہ جرمنی میں ملٹری ٹریننگ کے کورس میں بھی اول پوزیشن حاصل کی، جبکہ کینیڈا کے سٹاف کالج سے ملٹری ایجوکیشن میں بھی اعلیٰ سند حاصل کی۔ان کی والدہ نہایت نیک سیرت خاتون تھیں۔ وہ لاہور کینٹ میں اپنے گھر میں لگے پودوں سے بھی اتنی محبت کرتی تھیں اور ان کا ایسے خیال رکھتی تھیں گویا کہ وہ پودے نہیں بلکہ ننھے منے بچے ہوں۔ جب جنرل راحیل شریف 2014ءمیں امریکا کے دورے پر گئے تو قومی خزانے کی بچت کے لئے سیکیورٹی سٹاف کو ساتھ نہ لے گئے۔ واشنگٹن میں اہم میٹنگز کے بعد جب وہ اپنے دوست کے گھر پہنچے تو اپنا سامان خود ہی اٹھا کر سیڑھیاں چڑھنے لگے لیکن ان کے اے ڈی سی نے بصد اصرار دیگر اہتمام کیا۔جنرل راحیل شریف کا خاندان اپنی مذہبی، مشرقی اور حب الوطنی کی روایات کی وجہ سے بھی خاص پہچان رکھتا ہے۔
نمبر” ون“
امریکی ادارے ”اے بی سی“ کی رپورٹ کے مطابق جنرل راحیل سے پہلے پاک فوج کی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں ساکھ کافی کمزور ہو چکی تھی اور ملک دہشت و وحشت کے گرداب میں گھرا ہوا تھا۔ ایسے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک مسیحا بن کر آئے اور قوم کو امن و آشتی کی نوید سنائی۔ انھوں نے نہ صرف پاک فوج کی گرتی ہوئی ساکھ کو پھر سے اوجِ کمال بخشا بلکہ کچھ اس انداز میں دہشت کے سوداگروں کے مقابل صف آرا ہوئے کہ قوم کے ہیرو قرار پائے۔ دہشت گردوں کی سرکوبی اور پاکستان کی ہر آفت و مصیبت میں خدمت کے باعث آج جہاں وہ قوم کی آنکھوں کا تارہ ہیں وہیں عالمی برادری میں بھی ایک معتبر مقام پا چکے ہیں، انھوں نے ایک ایسا اعزاز اپنے نام کر لیا جس سے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہو گئے۔اے بی سی نیوز کے مطابق جنرل راحیل شریف کو ملک کے اندر اور باہر موجود دشمنوں سے انتہائی موثر انداز میں نمٹنے اور دہشت گردی کی جنگ میں اعلیٰ کارکردگی پر دنیا کا بہترین کمانڈر قرار دیا گیا، انھوں نے دہشت گردوں کے خاتمے میں حیران کن کامیابیاں حاصل کیں، انھوں نے افواج پاکستان کو سنگل آرڈر سے کنٹرول کیا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے دس بہترین جنرلز میں سے دوسرے نمبر پر امریکا کے چیف آف آرمی سٹاف مارٹن ڈمپسی، تیسرے نمبر پر چین کے فینگ فنگ ہوئی، چوتھے نمبر پر روس کے والرے گراسیموف، پانچویں نمبر پر ترکی کے ہولوسی اکار، چھٹے نمبر پر برطانیہ کے نک ہوفٹن، ساتویں نمبر پر جنوبی کوریا کے چون یون ہی آئے، بھارتی جنرل دلبیر سنگھ 8نمبر پر دکھائی دیے، جاپان کے کاتسوتوشی کاوانو اور جرمنی کے وولکر ویکر نویں اور دسویں نمبر پر موجود رہے۔


نشان امتیاز ہلال امتیاز
یادگاری اعزازات
قرارداد پاکستان تمغا
تمغا استقلال
ہجری تمغا
تمغا جمہوریت
یوم آزادی سنہرہ اعزاز
تمغا بقا
خارجہ اعزازات
آرڈر آف عبدالعزیز آل سعود
اعزاز برائے فوج میں میرٹ (ریاستہائے متحدہ امریکہ)
بوبی
راحیل شریف کو گھر والے پیار سے بوبی کہہ کر پکارتے ہیں۔پاکستان میں غیر معمولی عوامی پذیرائی کے حامل جنرل راحیل شریف پاکستان آرمی کے سپہ سالا ر کی حیثیت سے اس وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ 27نومبر2013کو پاکستانی فوج کے سپہ سالار کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف نے وطن عزیز کو درپیش مسائل خصوصاً دہشتگری کے ناسور سے چھٹکارا دلانے کیلئے بہادری سے وہ فیصلے کیے ہیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ، عسکریت پسندوں کے خلاف جاری ضرب عضب آپریشن کی کامیابی کا سہرا پاک فوج کے کمانڈر جنرل راحیل شریف کے سر جاتا ہے ، ہر پاکستانی اس بہادر سپوت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ان کا ان کے بھائی سے موازنہ کیا جائے تو ان کا چہرہ شبیر شریف سے مشابہت رکھتا ہے لیکن رنگوں اور طبیعت میں اختلاف ہے۔ شبیر کا رنگ سانولاا تھا،بوبی کا چہرہ گندمی ہے، کھلتا ہوا‘ سفیدی کی طرف مائل‘ شبیر کی طبیعت میں جارحیت تھی، بے چینی، اضطراب، قہقہے فلک شگاف ہوتے تھے۔ راحیل ٹھہری ٹھہری طبیعت کا مالک ہے۔ کم گو، کم سخن، کشادہ پیشانی، عزم و استقلال کی لو دیتی ہوئی۔ روشن روشن آنکھیں‘ گہری سوچ میں ڈوبی ڈوبی‘ کھلتے ہوئے سفید دانت اور ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹیں۔
شبیر اور راحیل
باپ اور بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے بھی فوج ہی کا انتخاب کیا اور اسی یونٹ میں کمیشن پایا ہے جس میں شبیر شریف نے سروس کی تھی۔ 6 ایف ایف کے ایڈجوٹنٹ Adjutant رہے ہیں۔ شبیر شریف بھی ایڈجوٹنٹ رہے تھے۔ یونٹ کے موجودہ اپوائنٹ منٹ بورڈ پر سرفہرست کیپٹن شبیر شریف کا نام ہے۔ نچلی سطروں میں راحیل کا۔ شبیر یکم جون 1966ء سے 11 اکتوبر 1967ء تک قریباً سوا دو سال ایڈجوٹنٹ رہے۔ راحیل یہ مدت پوری کرنے لگے تو ایک دن کمانڈنگ آفیسر سے ذکر کیا کہ وہ بھائی جان کا ریکارڈ توڑنے کو ہیں۔دوسرے دن ہی کمانڈنگ آفیسر نے انہیں اس عہدے سے ہٹا کر ایک کمپنی میں بھیج دیا۔ شاید وہ راحیل میں جذبہ مسابقت باقی رکھنا چاہتے ہوں، بھائی کی بلندیوں کو چھولینے کی خواہش، انہی عظمتوں کو حاصل کرنے کی تمنا وہ راحیل میں زندہ دیکھنا چاہتے ہوں، ادھوری تمناﺅں کی خلش بھی تو انسان کو نئی رفعتوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔
شبیر راحیل سے پندرہ برس بڑے تھے۔ شبیر نے غیر محسوس طریقے سے انہیں سخت جان بننے کی تربیت دی۔ راحیل دو مرتبہ دو دو مہینے کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں بھائی کے پاس آکر ٹھہرے۔ اس دوران میجر شبیر انہیں ساتھ لے کر گیارہ گیارہ میل پیدل چلا کرتے۔ ایک دفعہ کاغان گئے تو وہاں سے ناران تک پیدل ہی گئے کچھ تو بھائی کی تربیت، دوسرے کیڈٹوں کی چاق و چوبند زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ان میں خود ہی فوج میں آنے کا اشتیاق پیدا ہوگیا۔ شبیر شریف، راحیل کے لیے ایک گھنے درخت کی طرح تھے۔ جس کے سایے میں دھوپ کی تپش محسوس ہوتی تھی نہ سفر کی کلفت۔ ان کی صحبت میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے زندگی میں کوئی دکھ آہی نہیں سکتا۔ لیکن شبیر کا نقطہ نظر مختلف تھا۔ انہوں نے بھر پور شفقت تو دی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی جتایا کہ ہر شخص کو اپنی جنگ آپ ہی لڑنی چاہیے۔ بچپن میں وہ خود جھگڑالو تھے، آئے دن ان کی کسی نہ کسی سے لڑائی رہتی۔ مارتے بھی تھے مار پڑتی بھی تھی لیکن گھر آکر کبھی شکایت نہیں کی کہ فلاں نے مجھے مارا ہے۔ یہی تلقین شبیر شریف نے راحیل کوکی تھی۔ گھر خط لکھتے تو سب کے نام الگ الگ پرچے ہوتے، بڑی بہن خالدہ اور بوبی کو بڑے اہتمام سے لکھتے تھے۔ شبیر شریف کی جانب سے بوبی کے نام انگریزی میں لکھے گئے ایک خط کا ترجمہملاحظہ ہو
( کتاب ”فاتح سبونہ“ سے)
”ہیلو ینگ مین!
تو تم نے امتحان پاس کرلیا۔ اچھی لگی یہ بات۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم نے تیراکی سیکھنا شروع کردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اچھے تیراک بنو، اچھے تیراک ہی نہیں۔ زندگی میں جو بھی کرنا چاہو، ہر جگہ تمہاری کارکردگی بہترین ہونی چاہیے۔ یہی (احساس) تمہیں زندگی میں دوسروں سے آگے بڑھائے گا اگر تیرنا ہی ٹھہرا تو اپنے دوستوں میں تمہیں بہترین پیراک ہونا چاہیے۔ پوری دل جمعی سے صحیح سٹروک سیکھو، ڈائیونگ کا صحیح سٹائل اور ہاں کبھی ڈرنا مت۔بوبی! اب تم بڑے ہوگئے ہو، کردار کی خوبیوں کی طرف بھی توجہ دو۔ اگر تم سچائی پر ہو تو تمہارے منہ سے کچھ اور نہیں نکلنا چاہیے۔ کبھی پیچھے نہ ہٹنا۔ اصول کی بات ہو تو آخر وقت تک اس پر ڈٹے رہنا۔ مضبوط بنو اور خیال رکھو کہ تم دوستوں کیساتھ مخلص ہو۔ ان کے دکھ درد میں شریک رہو‘ سچ کہو‘ سچ سنو، اگر سچ کی قیمت نفرت یا تھپڑوں کی صورت میں بھی ملے تو قبول کرو لیکن جھوٹ سے دور رہو۔ سمجھ گئے نا؟ یہ بہت ہی ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی لڑائی آپ لڑنا سیکھو۔ کبھی منہ بسورتے گھر نہ آنا یہ بتانے کہ تم مار کھا کر آئے ہو۔ خود ہی بدلہ چکاﺅ۔ اگر مارنے والا طاقتور ہو تو تب بھی کمزوری نہ دکھاﺅ۔ اصل بات یہ ہے کہ تم مرد بن کر لڑو۔ اس بات کی کوئی قیمت نہیں کہ کسے زیادہ مار پڑی۔ میرا مطلب ہے بزدلی کبھی نہ دکھانا۔ کوئی تم سے زیادتی کرے تو حساب ضرور بے باق کرنا۔ اگر پتھر سے اس کا سر پھاڑنا پڑے تو کر گزرنا۔ جب مقابلہ زبردست سے ہو تو بھی مقابلہ تمہی کو کرنا ہے۔ میں اور تاج یقین کریں گے کہ ”کمک“ میں تاخیر نہ ہو۔
خط کے لیے بہت بہت شکریہ۔ لکھتے رہنا۔ امی اور ڈیڈی کو پیار۔“
راحیل نے اپنے بھائی کے احکامات بجا لاتے ہوئے نہ صرف پاکستان میں تعلیمی اور عسکری میدان میں شاندار کارکردگی دکھائی بلکہ جرمنی میں ملٹری ٹریننگ کے کورس میں بھی اول پوزیشن حاصل کی، جبکہ کینیڈا کے سٹاف کالج سے ملٹری ایجوکیشن میں بھی اعلیٰ سند حاصل کی۔ان کی والدہ نہایت نیک سیرت خاتون تھیں۔ وہ لاہور کینٹ میں اپنے گھر میں لگے پودوں سے بھی اتنی محبت کرتی تھیں اور ان کا ایسے خیال رکھتی تھیں گویا کہ وہ پودے نہیں بلکہ ننھے منے بچے ہوں۔ جب جنرل راحیل شریف 2014ءمیں امریکا کے دورے پر گئے تو قومی خزانے کی بچت کے لئے سیکیورٹی سٹاف کو ساتھ نہ لے گئے۔ واشنگٹن میں اہم میٹنگز کے بعد جب وہ اپنے دوست کے گھر پہنچے تو اپنا سامان خود ہی اٹھا کر سیڑھیاں چڑھنے لگے لیکن ان کے اے ڈی سی نے بصد اصرار دیگر اہتمام کیا۔جنرل راحیل شریف کا خاندان اپنی مذہبی، مشرقی اور حب الوطنی کی روایات کی وجہ سے بھی خاص پہچان رکھتا ہے۔
نمبر” ون“
امریکی ادارے ”اے بی سی“ کی رپورٹ کے مطابق جنرل راحیل سے پہلے پاک فوج کی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں ساکھ کافی کمزور ہو چکی تھی اور ملک دہشت و وحشت کے گرداب میں گھرا ہوا تھا۔ ایسے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک مسیحا بن کر آئے اور قوم کو امن و آشتی کی نوید سنائی۔ انھوں نے نہ صرف پاک فوج کی گرتی ہوئی ساکھ کو پھر سے اوجِ کمال بخشا بلکہ کچھ اس انداز میں دہشت کے سوداگروں کے مقابل صف آرا ہوئے کہ قوم کے ہیرو قرار پائے۔ دہشت گردوں کی سرکوبی اور پاکستان کی ہر آفت و مصیبت میں خدمت کے باعث آج جہاں وہ قوم کی آنکھوں کا تارہ ہیں وہیں عالمی برادری میں بھی ایک معتبر مقام پا چکے ہیں، انھوں نے ایک ایسا اعزاز اپنے نام کر لیا جس سے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہو گئے۔اے بی سی نیوز کے مطابق جنرل راحیل شریف کو ملک کے اندر اور باہر موجود دشمنوں سے انتہائی موثر انداز میں نمٹنے اور دہشت گردی کی جنگ میں اعلیٰ کارکردگی پر دنیا کا بہترین کمانڈر قرار دیا گیا، انھوں نے دہشت گردوں کے خاتمے میں حیران کن کامیابیاں حاصل کیں، انھوں نے افواج پاکستان کو سنگل آرڈر سے کنٹرول کیا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے دس بہترین جنرلز میں سے دوسرے نمبر پر امریکا کے چیف آف آرمی سٹاف مارٹن ڈمپسی، تیسرے نمبر پر چین کے فینگ فنگ ہوئی، چوتھے نمبر پر روس کے والرے گراسیموف، پانچویں نمبر پر ترکی کے ہولوسی اکار، چھٹے نمبر پر برطانیہ کے نک ہوفٹن، ساتویں نمبر پر جنوبی کوریا کے چون یون ہی آئے، بھارتی جنرل دلبیر سنگھ 8نمبر پر دکھائی دیے، جاپان کے کاتسوتوشی کاوانو اور جرمنی کے وولکر ویکر نویں اور دسویں نمبر پر موجود رہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *