ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نشوونماکے ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب ہر روزبہت سے متن پر مبنی پیغامات بھیجے اور وصول کیے جا سکتے ہیں۔ ان پیغامات کی تعداد اس سیارے پر موجود مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ہر مہینے گوگل پر 2.7بلین سرچز ہوتی ہیں۔ ہر سال 47ملین لیپ تاپ، 1.5بلین سمارٹ فون اور 40منفرد معلومات کی حامل ایکسابائٹ انٹرنیٹ پر ڈال دیے جاتے ہیں۔
معلومات پر کنٹرول کی ذمہ داری حکومت سے عوام پر منتقل ہو گئی ہے۔ میڈیا ایک انسان بن گیا ہے، ہر کوئی فن کار ہے، معلومات میں دُوسروں کو شریک کرنا معلومات پھیلانے کا کلچر بن چکا ہے، یورپ میں شادی کرنے والے آٹھ میں سے ایک جوڑا پہلی بار آن لائن ملتے ہیں۔ روزانہ1.8بلین فعال صارفین سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم مثلاً فیس بک پر موجود ہوتے ہیں، اس تعداد میں سالانہ سترہ فی صد اضافہ ہو رہا ہے۔
کسی اخبار یا سیٹلائیٹ اور مقامی ٹی۔وی چینل کے سامعین کی تعداد اتنی نہیں ہے جس قدر سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد ہے۔ اخبارات اور ٹی۔وی چینلز کے بر عکس سوشل میڈیا کی ایک اضافی خوبی ایسی ہے جس کے حامل ہونے کا کوئی اور دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ یہ خوبی ہے ہر ملک اور ہر پڑھنے والے تک بیک وقت یکساں ترسیل۔ بین الاقوامی اخبارات کی تقسیم و ترسیل کا معاملہ دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس ملک میں یہ اخبارات شائع ہوتے ہیں، اُس سے باہر کے ممالک میں ان اخبارات کی ترسیل اپنے ملک میں تقسیمِ اخبارات کے مقابلے میںپانچ فی صد بھی نہیں ہے۔ممکن ہے ایک ملک کا انتہائی مشہور ٹی۔وی چینل کسی دُوسرے ملک کے شہری کے کیبل پر نہ آتا ہو۔ یہی بات آج سوشل میڈیا کومعلومات کی تشہیر کرنے والا سب سے طاقت ور،موثر، غالب، مضبوط اور وزنی وسیلہ بناتی ہے اور اس پر حکومتوں کی کوئی گرفت نہیں ہے۔
جب کہ کاروباری نسل، ٹیکس کی جمع آوری اور مصنوعات کی فروخت پر سوشل میڈیا کے اثرات پر ایک الگ مضمون میں بحث کی جا سکتی ہے، آج کا اہم مسئلہ مذہبی حوالے سے سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرکو دیکھنا ہے۔ گستاخانہ نعرے یا خدا، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اسلام میں کسی بھی مقدس سمجھی جانے والی شے کے خلاف عمل کو توہینِ رسالت کہا جاتا ہے۔ یہی بات دیگر مذاہب پر بھی صادق آتی ہے، لیکن اسلام میں گستاخی کرنے والوں کے لیے زیادہ سخت سزائیں مقرر ہیں۔ اگرچہ قرآنِ پاک توہینِ رسالت کرنے والوں کو ملامت کرتا ہے، لیکن اس عمل پرمخصوص سزائیں مختلف احادیث ِ مبارکہ میں دی گئی ہیں۔ فقہ میں مسلمانوں، غیر مسلموں، مردوں اور خواتین کے لیے مختلف سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں جرمانہ، قید، کوڑے، جسمانی اعضاکاٹنے، پھانسی دینے یا سر قلم کرنے کی سزائیں شامل ہیں۔ کسی سند یافتہ عالمِ دین سے فتویٰ ایک اضافی ذریعہ ہے لیکن دُنیا بھر میں مسلم حکومتوں کی طرف سے اعلان کردہ یہ تمام سزائیں سوشل میڈیا کے لیے کسی طرح کے خوف کا باعث نہیں بنیں۔”آزادیِ اظہار“ کا مغربی تصور مسلمانوں کے توہینِ رسالت کے تصورسے متضاد و مختلف ہے۔ مغرب آزادی کے نام پر ہر بات بشمول توہینِ رسالت کی اجازت دیتا ہے اگرچہ اُن کے عوام اس بات کی تائید نہیں کرتے۔ مشرق اورخصوصاً مسلمان ممالک اس کے برعکس سوچتے ہیں۔ اس سے مغربی دُنیا اور عالمِ اسلام کے مابین تعلقات میں کھنچاﺅ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ مسلم ممالک کے ہاں توہینِ رسالت کے خلاف مخصوص قوانین موجود ہیں اور ان میں سے بہت سے قوانین کے مطابق اس توہین کی سزا، سزائے موت ہے، وہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ توہینِ رسالت کے خلاف ایسے قوانین معاشرتی اور بین المذاہبی ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم مخالفین کی رائے میں توہینِ رسالت کے خلاف ان قوانین کو مسلم ممالک میں اقلیتوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔دونوں دلائل میںوزن ہے۔ مسلم ممالک خصوصاً پاکستان میں توہینِ رسالت کے قوانین 295)اے۔بی۔سی، 298اے۔بی۔سی )کئی بار اقلیتوں کو دبانے اور مارنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ کئی مواقع پر یہ قوانین اپنی رُوح کے بالکل خلاف استعمال ہوئے ہیں۔سب سے زیادہ خوف ناک استعمال 2014میں دیکھا گیا جب سجاد مسیح اور اسکی حاملہ عیسائی پاکستانی بیوی شمع بی بی کومبینہ توہینِ رسالت کرنے پر ہلاک کر دیا گیا ، بعد ازاں ثابت ہوا کہ یہ مخصوص مدت کے لیے کام کرنے کے ایک اقرار نامے کا معاملہ تھا، اُن کے آقا نے اُنھیں قرض ادا کیے بغیر بھاگ جانے پر سزا دینے کے لیے بربریت والا یہ فعل کیا ۔
لیکن کہانی کا ایک اور رُخ بھی ہے اور وہ ہے آزادیِ اظہار کے نام پر توہینِ رسالت کرنے والوں سے مغرب کی محبت ۔ نہ صرف یہ کہ توہینِ رسالت والی کتابیں جیسے ”شیطانی آیات“ ، ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہونے والے کارٹون اور”مسلمانوں کی معصومیت“ نامی آن لائن وڈیوکے ساتھ شاہی سلوک کیا گیا اور مغرب نے اس کا تحفظ کیابلکہ ان کے مصنفین کو آزادیِ اظہار کے علم بردار کے روپ میں پیش کیا۔ یوں مشرق اور مغرب میں نفرت کے بیج بوئے گئے اور مذاہبِ عالم کے مابین نفرت انگیز اشتعال پیدا کر دیا۔
سوشل میڈیا پر توہینِ رسالت نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا ہے ۔ فیس بک پر بھینسا، روشنی، اور موچی جیسے صفحات کے علاوہ فری تھنکرز(آزاد خیال) جیسے گروپ سوشل میڈیا کودُنیا کے دُوسرے بڑے مذہب اسلام کے مقدس ترین مذہبی اکابرین کی تضحیک و تذلیل اور گالم گلوچ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر کافی عرصے سے کام جاری تھا ، یہ شکایات وفاقی تحقیقاتی ادارے تک پہنچیں اوراس پر ردِ عمل دینے کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا۔ ان کے خلاف پہلا ایکشن اُس وقت کیا گیا جب سلمان حیدر، وقاص گورایا، عاصم سعید، احمد رضا نصیر اور ثمر عباس نامی بلاگرز کو پر اسرار طریقے سے اُٹھا لیا گیا۔ اُن کی گرفتاری کے بعدتوہینِ رسالت والے چند صفحات کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں آ گیا جس نے نہ صرف توہینِ رسالت پر مشتمل مواد حذف کر دیا بلکہ اس کی جگہ آیاتِ قرآنی لگا دیں۔
اس سے پہلے2010ءمیںفیس بک نے خود توہینِ رسالت والی ڈرائنگ کا مقابلہ کرایا اور اس شرم ناک فعل سے اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی۔ اس زمانے میں پاکستا ن میں انٹرنیٹ کا اثر و نفوذ نظر انداز کیے جانے کے لائق تھا اور 3جی4جی کی سہولت حاصل نہ تھی۔ پاکستان میں رہنے والے فیس بک صارفین کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور آن لائن کاروبار بھی چنداں اہم نہ تھا۔ لیکن اس وقت 2017ءمیں
صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ آج پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 124ملین ہے۔ ان میں سے 37ملین انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ بیس ملین صارفین 3جی4جی کی وساطت سے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ تیس ملین افراد فیس بک کے فعال صارف ہیں۔ یہ انٹرنیٹ کے صارفین تک اپنی مصنوعات کی خریدوفروخت ، پیسے کمانے اور اشتہارات بازی کا مقبول ترین وسیلہ ہے۔ ان کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے فیس بک ٹھیک ٹھاک پیسے بھی کما رہی ہے۔ اس وجہ سے جب سول سوسائٹی نے پاکستان کے دارالحکومت میں ایک درخواست دائر کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ چوں کہ فیس بک نے توہینِ رسالت پر مبنی مواد کا راستہ نہیں روکا، اس لیے پاکستان میں فیس بک پر پابندی عائد کی جائے اور اسلام آباد کی عدالتِ عالیہ کے جسٹس شوکت صدیقی نے حکام کو واضح ہدایت دی کہ اگر توہینِ رسالت والا مواد نہیں روکا جاتا تو فیس بک کو روک دیا جائے۔ اس بار حکومتِ پاکستان کی آواز پر فیس بک نے فوری طور پر ردِ عمل کا اظہار کیا۔ نہ صرف یہ کہ اس نے پاکستانی حکام سے گفت و شنید کے لیے ایک مرکزی شخص (فوکل پرسن) مقرر کر دیا بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے عزم کے اظہار کے لیے بیان بھی جاری کیا۔
اس سے پہلے اس مہینے وزارتِ داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ فیس بک نے اس طرح کا 85فی صد مواد روک دیا ہے اور بقیہ15فی صد کو ہٹانے کا کام جاری ہے۔ جب کہ مواد کو ہٹانے کا کام جاری ہے، اس نے ہماری انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کے لیے ایک زبردست چیلنج بھی لا کھڑا کیا ہے۔ اگر یہ توہینِ رسالت والے مواد کو روکنے میں ناکام رہتی ہے تو عوامی غم و غصہ نہ صرف یہ کہ سیاسی استحکام کو تہ و بالا کر سکتا ہے بلکہ موجودہ حکومت کو کافی حد تک بدنام بھی کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول بہت محدود ہے اور یہ فیس بک ، ٹوٹر، یو ٹیوب اور انسٹا گرام کی انتظامیہ کی مکمل طور پر مرہونِ منت ہے۔ مذکورہ سائٹس پر پاکستانی ٹریفک انتہائی زیادہ ہے اور اس سال جنوری میں ان سائٹس پر پاکستانیوں کے اکاﺅنٹس کی تعداد 44ملین تھی۔ شماریات بتاتے ہیں کہ تیس ملین فیس بک صارفین کے علاوہ پاکستان میں 7.1ملین لائن ، 3.9ملین انسٹا گرام، 3.1 ملین ٹوٹر اور 0.4ملین سنیپ چیٹ کے فعال صارفین ہیں۔
جب اٹینشنوسا ڈاٹ کام نامی گلوبل مارکیٹنگ ایجنسی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کروٹس ہوگلینڈ نے کہا اور بجا طور پر کہا کہ آج کا سوشل میڈیا دُنیا کو آپس میں جوڑنے میں بے پناہ معاونت فراہم کر رہا ہے لیکن ایسا ریاست اور دُنیا کے استحکام کی قیمت پر ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے ظاہر کیا ہے کہ وہ کس طرح تشدد، نفرت، خوف و دہشت ، فرقہ پرستی اور لاقانونیت پھیلا تا ہے۔ اس نے عراق میں فرقہ پرستی کو ہوا دی۔ افغانستان میں قبائلی تقسیم کو بڑھاوا دیا۔ ،یوکرائن، لیبیا اور شام میں قومی مفادات پر سمجھوتا کیا اور غزیٰ کے نئے جغرافیے کے لیے کام کیا۔
فارن پالیسی میگزین کا جاری کردہ شہری احتجاج توثیق کرتا ہے کہ مذکورہ بالا بے چینی کوسوشل میڈیا کی وساطت سے اشتعال دیا گیا اور اس کی شدت میں اضافہ ہوا ۔ عراق اور شام کی اسلامی ریاست کی طرف سے چلائی گئی سب سے بڑی بھرتی کی مہم بھی سوشل میڈیا پر چلائی گئی اور اسی دہشت گرد تنظیم کی سر قلم کرنے کی ویڈیوز بھی اسی سوشل میڈیا کے وسیلے سے دُنیا تک پہنچیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان سوشل میڈیا سائٹس کے مالکان کے پاس بہت محدود اہلیت ہوتی ہے کہ وہ ان سائٹس پر ڈالے گئے مواد کوجانچ کر منظور یا نامنظور کر سکیں۔
باقاعدہ میڈیا (اخبارات، ٹی۔وی چینل اور رسالوں )پر جو ادارتی چیک ہوتا ہے، ، وہ سوشل میڈیا پر کہیں نظر نہیں آتا۔ چند لمحوں میںانٹرنیٹ پر موجود دو ارب افراد تک پہنچنے کا یہ ایک کھلا وسیلہ ہے، اور وہ بھی بغیر کسی ادارتی روک ٹوک کے۔ اس وجہ سے بہت سے ممالک نے اپنے گھروں میں امن و سکون رکھنے کے لیے سوشل میڈیا کی رسائی ختم کر دی ہے۔ ان ممالک میں ایران، چین اور شمالی کوریا شامل ہیں۔بنگلہ دیش میں پائی جانے والی بے چینی نے اس کی حکومت کو 2009 سے2017تک کئی بارفیس بک کو بند کرنا پڑا۔ مصر نے بھی ایسا ہی کیااور جرمنی نے پناہ گزینوں کے بحران کے دوران میں فیس بک کو مجبور کیا کہ وہ پناہ گزینوں کے خلاف نفرت انگیز مواد مٹا دے۔یہ پناہ گزین اپنے ملک میں پائی جانے والی کشمکش سے بچنے کے لیے جرمنی کی سرحد تک پہنچ رہے تھے۔ مواد ہٹانے کا مقصد ان بے یارومددگار پناہ گزینوں کوکسی ایسے حملے سے بچانا تھا جس کی بنیاد نفرت ہو۔
اس طرح کی فہرست طویل ہے۔ ملائشیا، موریطانیہ، مراکو ، شام، تاجکستان اور ویت نام نے بھی خود کوسوشل میڈیا کے ان حملوں کے سامنے بے بس پایا۔20111ءمیں خود انگلستان نے شہزادہ ولیم اور کیتھرائن مڈلٹن کی شادی سے پہلے فیس بک کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ کئی ایسے صفحات ہٹا دے جو مخالفانہ آواز بلند کر رہے تھے۔ حکومت نے بہت سے معروف انقلابی کارکنوں کو گرفتار بھی کر لیا، جنھوں نے 2010انگلستان کے طلبہ کے احتجاج کے تسلسل کے طور پر جلوس نکالنے کی کوشش کی۔
پاکستان کو سوشل میڈیا پر پائی جانے والی بے چینی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ملک پہلے ہی فرقہ پرستی جیسے قبائلی، صوبائی، لسانی ، دہشت اور سیاسی بے چینی میں گھری ہوئی ہے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام مہلک ہو گا۔ یہ موزوں وقت ہے کہ نئے میڈیا کو روکنے کے لیے حکمتِ عملی لائی جائے، کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ نئی صدی تک سوشل میڈیا بہت سی بڑی قوموں کو توڑ کر اُنھیں چھوٹی اقوام میں تبدیل کر دے گا۔
بلقان کاری یعنی تقسیم ہو گی، کیا ہم حکومت کر سکیں گے؟