pin up casinomostbet1winpin up

تحریر و تحقیق ۔ وقاص احمد خان

                5جنوری 1928کو سر شاہنواز بھٹو کے ہاں لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کا شمارپاکستان کے ان عظیم راہنماﺅں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس خطے کے عوام کو خواص ہونے کا احساس دلایا۔ اور پھر تاریخ ساز بھی ایسا کہ تاریخؒ نے اس کا دامنپیدائش کے 88اورمرنے کے 36برسوں بعد بھی نہیں چھوڑا۔ ”بھٹو“ پاکستان کی سیاست کا سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ بھٹو کے سیاست میں آنے کے بعد”بھٹو ازم “ کے حامیوں اور مخالفین کے گردا گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ یہذوالفقار علی بھٹوآج بھی اپنے حامیوں اور دشمنوں کے خون کو گردش دینے کا باعث ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اپنی عظمت ،ذہانت،اعلی کردار اور تمام تر تاریخی کارناموں کے ساتھ ساتھ اپنی غیر طبعی موت کے المیے کے بعد پے درپے المیوں کا شکار چلا آتا ہے۔عجب تماشہ ہے کہ دشمنوں کی بہتان طرازیوں اور حملوں نے ہمیشہ بھٹو کے قد کو بڑھایا ہے تو بھٹو کے نام لیواو

¿ں کی ایک خاطر خواہ تعداد نے ہمیشہ بھٹو کے لفظ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے اس نام اور اسکے نظریات کو تاریخی طور پر غلط پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی معرکتہ آراءکتاب ”اگر مجھے قتل کردیا گیا!!“کے دیباچے میں کچھ اپنی شخصیت کی کچھ یوں وضاحت کی ہے کہ ” میری انسویں سالگرہ کے موقع پرکیلیفورنیا، برکلے میں مجھے ایک پارسل موصول ہوا جس میں میرے والد کی طرف سے مجھے بھیجے گئے تحائف میں دو کتابیں تھیں،ایک نپولین بونا پارٹ کی سوانح عمری اور دوسری کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کا لکھا ہوا ”کیمونسٹ مینی فیسٹو“،میں ساری عمر ان دونوں کتابوں کے سحر سے نہیں نکل سکا۔خاص طور پر جب بھی میرے ذہن میں کیمونسٹ مینی فیسٹو کی آخری سطریں ”تمہارے پاس کھونے کومحض زنجیریں ہیں اور پانے کے لئے پوری دنیا، دنیا بھر کے محنت کشو !ایک ہوجاو

¿“ تو میرے جسم کے تمام رونگٹے فرط جذبات سے کھڑے ہوجاتے ہیں“۔

                 ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلی حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے۔ پاکستان میں آپ کو بابائے آئینِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ءمیں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ”ساو

¿ تھمپئین“ میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ مسلم لاءکالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ءمیں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔

                1958ءتا 1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت ، 1960ء تا 1962ء وزیر اقلیتی امور ، قومی تعمیر نو اور اطلاعات ، 1962ءتا 1965ء وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ رہے۔ دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1970ءکے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ جبکہ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد دسمبر 1971ء میں جنرل یحیٰی خان نے پاکستان کی عنان حکومت مسٹر بھٹو کو سونپ دی۔ وہ دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 صدر مملکت اور چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹرکے عہدے پر فائز رہے۔ 14 اگست 1973ءکو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔

                ذولفقار علی بھٹوکے والد جونا گڑھ کی چھوٹی ریاست کے دیوان یا وزیر اعظم تھے۔ جب وہ آکسفورڈ اور لنکز ان سے پولیٹیکل سائنس کی ڈگریاں لے کر واپس وطن لوٹے اور کراچی میں وکالت شروع کی تو جلد ہی انہیں محسوس ہوا کہ انہیں وکالت سے زیادہ سیاست سے دلچسپی تھی۔ قیام پاکستان اور ابتدائی دور کے جوڑ توڑ پر ذوالفقار بھٹو کی گہری نظر تھی۔ جوانی اور ذہانت جلد سکندر مرزا کی نگاہوں میں آگئی۔گورنر جنرل سکندر مرزا کی بیوی ناہید اور بھٹو کی بیوی نصرت دونوں ایرانی النسل تھیں۔قرائین بتاتے ہیں کہ سکندر مرزا کے ” دربار ” تک بھٹو کی رسائی کا ذریعہ ناہید ثابت ہوئی۔1954ءمیں بھٹو کو بحری قوانین کی بین الاقوامی کانفرس میں پاکستانی وفد کا سربراہ بنا کر بھیجا گیا۔اس کانفرس میں بھٹو کی نامزدگی کو بہت بڑا اعزاز سمجھا گیا اور سکندر مرزا نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ بعد میںیہ جنرل ایوب خان کی کیبنٹ کے وزیر بنے اور پھر بھٹو وزیر خاجہ کے منصب پرپہنچے۔ وہ پاکستان کے بڑے لیڈر کے طور پر حکومت اور عوام میں متعارف ہوئے۔ قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ایک قد آور سوشلسٹ لیڈر کی شکل میں عوام کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ان کے جمہوری سوشلسٹ ایجنڈے میںروٹی کپڑا مکان یعنی عوام کی سچی خوشحالی کی نوید تھی۔ پاکستان کے عوام نے انہیں ایک بڑے عوامی لیڈر کے طور پر قبول کیا۔ اور یقین کر لیا کہ یہ قائداعظم کے تصو ر پاکستان کے خواب کی تعبیر کو حقیقت کا رنگ دے سکیں گے۔

                جنرل ایوب نے جب سکندر مرزا کو معزول کر کے لندن جانے والی پرواز پر سوار کر دیا تو بھٹو نے اپنے محسن سکندر مرزاکی معزولی پر اپنا وقت کف افسوس ملنے میں ضائع نہ کیا بلکہ ایو ب خان سے رابطے بڑھائے اور اس میں وہ کامیاب ہو گئے۔جبکہ ایوب خان نے اس ذہین نوجوان کو 1963ءمیں وزیر خارجہ بنایااس منصب نے بھٹو کو دنیا بھر میں نمایا ںکر دیا۔ بھٹو ایک دور اندیش وزیر خارجہ تھے۔انہوں نے بھانپ لیا کہ پاکستان کے لئے محض امریکی کیمپ میںرہنا کافی نہیں۔اسے اپنے خارجہ امور میں مزید وسعت لانا ہوگی بھٹو نے غیر جانبدار ممالک کی تنظیم میں پاکستان کی جگہ بنانے کی کوشش کی۔بھارت کے خلاف کشمیر کا مسئلہ اتنی شدومد اور جذباتی انداز میں بین الاقوامی سطح پر اچھالا کہ عوام کی داد وتحسین اور حمایت جیت لی۔بھٹو کا خیال تھا کہ چین کے ساتھ تصادم کے بعد بھارت کمزور ہو چکا ہے اور اب اگر پاکستان کشمیر میں مداخلت کی بازی کھیلے تو کشمیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ایک نیم پختہ منصوبہ ”آپریشن جبرالٹر” بھٹو کی نگرانی میں شروع کیا گیا۔

اس منصوبہ کے تحت پاکستان اور آزاد کشمیر کے نیم عسکری جوان بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھیجے گئے بعد میںکشمیر میں پاکستا ن و بھارت کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔6 ستمبر1965 ءکو بھارت نے کشمیر سمیت بین الاقوامی سرحد پر تین مقامات پر پاکستان پر حملہ کر دیا۔سترہ دن تک جاری رہنے والی جنگ جس میں دونوں نے اپنی فتح کا دعوی کیا حقیقتا فیصلہ کن نہ ثابت ہو سکی۔لیکن بھٹو 1965ءکے تصادم میں ایک ستارہ بن کر ابھرے۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میںپاکستان کے موقف کی وکالت کرتے ہوئے انہوں نے جو جذباتی کا رکردگی دکھائی اسے پوری قوم نے بہت سراہا ان کی تقریر عظمت کی کہانیوں اور حب الوطنی سے قوم مغلوب تھی۔بھٹو نے اعلان کیا کہ ” پاکستان بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ کرتا رہے گا”پھر انہوں نے کچھ توقف کیا ، اور اپنی جیب سے ٹیلیگرام نکالی جس میں ایوب خان کی طرف سے بھار ت کے ساتھ جنگ بندی قبول کرنے کیلئے ہدایت موجود تھی۔اسے بلند آواز میں ڈرامائی اندز سے پڑھتے ہوئے انہوں نے اندرون ملک یہ تا ثر دیا کہ یہ صدر مملکت ہی ہے جس نے بھارت کے سامنے ہتھیا ر ڈال دیئے ہیں اگر یہ فیصلہ اسے کرنا ہوتا تو وہ آخر ی فتح تک لڑنے کو ترجیح دیتا۔بھٹو کا زمینی حقائق کے سراسر خلاف یہ جذباتی ڈرامائی اقدام تھا مگر اس اقدام نے پنجاب کے عوام کو ہمیشہ کے لئے بھٹو کا محبوب بنادیا۔ یہ تصادم دونو ں کوبہت مہنگا پڑا اور یہ بے نتیجہ بھی ثابت ہوا۔او ر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں انتہائی اضافہ ہوا۔بھارت نے عالمی سطح پر(پاکستان پر اپنی جارحیت کے باوجود ) پاکستان کو جارح ملک ثابت کیا۔ کشمیر کے مسئلہ پر 65 ءکی جنگ کے بعد دس جنوری 1966 ءکو تاشقند میں ایوب اور شاستری کے درمیان ایک معاہدہ دستخط ہوا۔اس معاہدے کے بعد دونو ں ملک رضامند ہو گئے کہ وہ اپنے تنازعات جنگ کی بجائے پرامن ذرائع سے حل کریں گے۔بھٹو نے محسوس کرلیا کہ یہ سمجھوتہ قومی مفاد کے منافی تصور کیا جائے گا۔انہوں نے دستخطوں کے وقت خود کو الگ کرلیا۔جون 1966ءمیں ایوب نے بھٹو کو برطرف کردیا۔اس کے بعد انہوں نے کھل کر معاہدہ تاشقند کی مذمت کرتے ہوئے عوام میں محاز کھول دیا کہ ایوب خاں کے ذریعہ بھارت سے سمجھوتہ دراصل پاکستان کی شکست اور ہزیمت ہے۔ بھٹو کی ایوب کے خلاف مہم کے دوران عوام سے رابطہ مہم جاری رہی۔اور ایوب خاں کے آٹھ سالہ دور آمریت کا خاتمہ 23 مارچ 1969 ءکو ہوا جب ایوب خاں جنرل یحیٰ خان کے حق میںاقتدار سے دستبر دا ر ہو گئے۔ ( بیشک ایوب دور کی ایک نشانی جناب بھٹو بھی تھے ) مگر آمریت سے تنگ آئے عوام نے نئے بھٹو کا والہانہ خیر مقدم کیا نیا بھٹو عوام کے لئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہو رہا تھا۔ گویا بھٹو ‘طلبا ءاور عوام کے مختلف شعبوں کے لئے ایک نئی ا

±مید اور نئے آغاز کا امکان بن گئے۔بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت کی وجہ سے عوام میں ایک سیاسی بیداری کی لہر دوڑ گئی۔ بھٹو اور اس کے رفقاءکا روں نے پیپلز پارٹی کا تنظیمی خاکا اور پارٹی ایجنڈا تیار کیا ہوا تھا۔ 30 نومبر 1967 ء اس پارٹی کے اعلان کا لاہور میںسٹیج تیارتھا۔لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔یہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے شہروں کے نچلے متوسط طبقے اور ملک بھر کے غریبوں کے چراغ روشن کئے۔ نئی پارٹی کو سندھ کے ساتھ پنجاب میں بھی زبردست حمایت حاصل ہوئی۔

                یحیٰ خان کا فرض تھا کہ مجیب الرحمن کی اکثریتی پارٹی کو نئی حکومت بنانے اور ملک کو نیا آئین بنانے کی دعوت دیتا۔لیکن وہ اقتدار سے الگ ہونا ہی نہیں چاہتا تھا۔مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات کی بنیاد پر الیکشن لڑا تھا۔جن کے مطابق پاکستان کیلئے ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق تجویز کیا گیا تھااور وفاق کے پاس صرف دفاع اور امورخارجہ کے شعبے رہنا تھے یحیٰ خان نے اقتدار کے بڑے حصہ داروں کے درمیان رابطہ بننے کی بجائے ہر وہ کام کیا جو انہیں آپس میں مزید دور کرے۔بعد ازاں پیدا ہونے والی کشمکش میں بھٹو نے یحیٰ خان اور فوج کا ساتھ دیا۔نئی منتخب اسمبلی کا اجلاس کبھی منعقدنہ ہوسکا 25مارچ1971ءکو یحیٰ خان نے مشرقی پاکستان میں وسیع تر فوجی کا روائی کا حکم دے دیا۔عوامی لیگ پر پابندی لگا کر اسکے قائدین اور ان گنت کار کنوں کو گرفتار کرلیاگیا۔اس وقت بھٹو ڈھاکہ میں تھے۔اگلے روز طیارے کے ذریعے کراچی پہنچے اور ایئر پورٹ اترنے پر انہوں نے بیان دیا ”خدا کا شکر ہے پاکستان بچالیا گیا۔” حالانکہ پاکستان نہیں بچا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی تصادم اور بھارتی فوجی مداخلت سے جب قتل و غارت اور صورت حال تیزی سے تباہی کے دہانہ پر اتر گئی۔ پاکستان ایک اور المیہ سے دو چار ہو گیا۔ 4دسمبر1971 کو یحیٰ خان نے ایک پر اسرار اقدام کرتے ہوئے بھارت پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ مغربی پاکستان کی سرحد سے کیا گیا تاکہ مشرقی پاکستان میں محصور فوج پہ اپنا دباو

¿ کم کیا جا سکے مگر محض دوہفتوں میں پاکستان جنگ ہار گیا اور بھارت نے 90ہزار فوجی قیدی بنا لئے۔ فوج کے کچھ افراد نے بھٹو کو سقوط مشرقی پاکستان کا الزام دیا ،ان کے مخالفین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو نے اقتدار سے باہر رہنے کی بجائے پاکستان کو دولخت ہونے پر ترجیح دی۔بقول سردار شوکت حیات خان بھٹو کی واحد وفاداری اپنی ذات سے تھی اور واحد مقصد عروج کا حصول تھا وہ سوائے اپنی ذات کے کسی کا وفا دار نہ تھا۔

                اس نے اقتدار میں رہنے کیلئے سب سے پہلے ایوب خان سے مل کر اپنے محسن سکندر مرزا سے بے وفائی کی۔پھر ا

± س نے فوج کے دوبڑے حمایتوں جنرل گل حسن اورائر مارشل رحیم جنہوں نے بھٹو کو بام اقتدار تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا ا

±ن کی چھٹی کرادی۔اس سے قبل بھٹو پی پی پی کے بانی ممبران جے اے رحیم ‘ معراج محمد خاں ‘ ڈاکٹر مبشر حسن اور محمود علی قصوری کو بھی نہیں بخشا ان کی بھی چھٹی کرادی۔ گویا بانی ممبران اور اپنے قریبی رفقاءکار کو بے بنیاد شک کی بناءپر وہ سب کو ایذا پہنچانے پر کمر بستہ ہوجاتے تھے۔ بھٹو نے پاکستان میں اسلامی کانفرس بلا کر تیل پیدا کرنیوالے ملکوں میں اور عالم اسلام میں خود کو اسلامی لیڈر کے طور پر منوایا مگر جب یہ عوام کی خوشحا لی کے بلند بانگ دعوے پورے نہ کرسکے تو سوشلسٹ لیڈر نے مذہبی لبادہ پہن کر جماعت احمدیہ کے خلاف نعرہ بلند کیا کہ نوے سالہ لا ینحل مسئلہ پارلیمنٹ کے فتوی ٰ کے ذریعہ میں حل کر کے دکھاﺅں گا۔اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کیلئے انہوں عوام کے اصل ( روٹی کپڑا مکان جیسے ) بنیادی مسائل سے عوام کی نظریں پھیرکر پارلیمنٹ میںمذہبی بحث چھیڑ دی۔گویا انہوں نے عوام کے بنیادی حقوق روٹی کپڑا مکا ن جیسے حقوق سے کھلواڑ کیا۔ بے اصولیوں اور ان حرکتوں کی وجہ سے انکی سیاسی بلندی نے زوال پستی کا سفر اختیار کیا۔ ضیاءالحق آمر اس موقعہ کی تلاش میں تھا۔اس نے جمہوریت کی صف لپیٹنے کے لئے بھٹو کی جمہوری حکومت کی صف لپیٹنے کے بعد نفاز اسلام کے نام پر مولویوں سے مل کر بھٹو کو تختہ دار پر پہنچا کر دم لیا۔ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوام کو”نہ خدا ملا اور نہ ہی وصال صنم”۔ بھٹو کی شخصیت متنازعہ بن کر رہ گئی۔ لیکن بھٹو کا بد ترین دشمن بھی ان کی صلاحیتوں اور ملک پاکستان کے لیے کئے گئے ان کارناموں کو فراموش نہیں کر سکتا جن کی وجہ سے پاکستان آج دنیا کے تقشے پر تنا کھڑا ہے۔ ان میں صف اول پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے جسے بھٹو نے شروع کیا۔ ان کا یہ قول آج بھی زبان زد عام ہے کہ ”گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے “۔

                 اسی طرح 1973کا متفقہ آئین جو آج پاکستانی وفاقی اکائیوں میں وحدت کی نشانی ہے بھی بھٹو کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے غریبوں، کسانوں، ہاریوں، ریڑھی والوں ، کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ رشتہ جوڑا۔ انہوں نے انکو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق لینے کا حوصلہ دیا۔ انہوں نے پاکستان کے لوگوں کو حقوق رائے دہی دیا اور سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سڑکوں پر لے آئے۔ اسلامی دنیا کو یکجا کرنے کے لیے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد، پاکستان میں سرکاری سطح پر کشمیر ڈے کا انعقاد اور کشمیر کاز کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا بھٹو کا ہی کارنامہ ہے۔ بھٹو کی لیڈر شپ اور سیاست پر کئی ذخیم کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن اس کی شخصیت کے کئی پہلو ابھی تک سربستہ راز ہی ہیں۔ عام شہری کو شناختی کارڈ دیکر ا

±ن کو قومی پہچان دینا، پاسپورٹ دیکر پاکستانیوں کو بیرونی ممالک تجارت و روزگار حاصل کرنے مواقع ، کسان ومزدور کوسرکاری اداروں کے حصص کا مالک بنانا۔ ملک کی سا لمیت کے لیے نیو کلیئر ایٹامک بورڈ کا قیام ، ریاست کے سرکاری اداروں کا قیام ، بھارت کے ساتھ معاہدہ کے ذریعے 90 ہزار فوجیوں کی بازیابی سمیت بھٹو کے کریڈٹ پر بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن سے اسے بد ترین مخالف بھی ڈس کریڈٹ نہیں کر سکے گا۔

                لیکن موجودہ پیپلز پارٹی بھٹو اور بھٹو ازم کے ساتھ کھلواڑ میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ (2008ءسے 2013ء) حکومت کے دور میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بدترین کرپشن، بدانتظامی، طویل لوڈشیڈنگ ، غربت کےساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ مشرف دور کے اختتام 34 ارب ڈالر کے قرضے پانچ سال میں دگنے ہوگئے، 62 روپے کا ڈالر 100 روپے کاہوگیا، ملک کے تمام ادارے تباہ ہوگئے۔ خود کش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی یلغار نے کوئٹہ اور پشاور جیسے بڑے شہروں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا، کراچی جو پاکستان کا معاشی مرکز ہے وہ لاقانونیت اور لاشوں کا شہر بن گیا۔ آصف زرداری، دو وزرائے اعظم ، وفاقی اور صوبائی وزرا نے مل کر کرپشن اور بدانتظامی کے حوالے سے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑڈالے۔ اربوں روپے کی کرپشن کرکے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا اورملکی معیشت کو مفلوج بناڈالا۔ مگر ”بھٹو کل بھی زندہ تھا ۔ بھٹو آج بھی زندہ ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *