پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان جہاں نواب خیر بخش مری (مرحوم ) اور ان کے رفقاءکار کا فکری اور نظریاتی ایندھن چند بلوچ نوجوانوں کواپنی ہی ریاست پاکستان کے ساتھ آمادہ جنگ کیے ہوئے ہے میں سیاست اور حکومت پھولوں کی سیج ہر گز نہیں ہے۔
پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخواہ، گلگت اور آزاد کشمیر میں جہاں حکومت حاصل کرنے کے لیے سیاست دان ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں وہیں بلوچستان میں حکومتی منصب لینا اور دینا مقابلتاً ایک پر امن مشق ہوتی ہے۔ وجہ ہے بلوچستان کے پیچیدہ ترین مسائل اور وسیع ترین رقبہ۔ یہ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں پارٹی پالیٹکس کی اہمیت ہمیشہ سے نسبتاً کم رہی ہے اور بلوچستان کی سیاست میر، نواب، سردار اور خانوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کچھ دوست اسے منفی رنگ بھی دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح فاٹا اور قبائلی علاقوں میں سیاسی پارٹیوں سے شخصیات زیادہ اہم رہی ہیں اسی طرح بلوچستان میں قبائلی طرز زندگی لوگوں کی سیاسی زندگی کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ ہماری سرشت میںسردار وہ ہے جو بلاشرکت غیرے اقتدار اعلیٰ چاہتا ہے ، جو اختلاف برداشت نہیں کرتا ، جو تنقید برداشت نہیں کرتا ، جو اپنے ہوتے ہوئے کسی اور کو اختیار میں ہوتا دیکھنا نہیں چاہتا ، جو اپنے اقتدار اور مفاد کیلئے کسی سے بھی سمجھوتہ کرسکتا ہے۔ لیکن بلوچ معاشرے میں سردار کو باپ کا درجہ حاصل ہے ۔یعنی ”ب“سے برکت وبزرگی والا”الف“ سے اساس واصل اورآبیاری والا اور”پ“سے پیار رومحبت والفت کا مجموعہ ۔ یہی ہے وہ مقام جو بلوچ عوام اپنے سردار ، میر، نواب اور خان کو دیتے ہیں۔ لہذا فاٹا اور قبائلی علاقوں کی طرح بلوچستان کی سیاست کو ان شخصیات سے آزاد کر کے دیکھنا ممکن نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پہلی بار سیاسی بصیرت اور فراخی قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2013کے عام انتخابات کے بعد دو صوبوں میں اپنی حکومتوں کی قربانی دی۔ ان میں ایک خیبر پختونخواہ ہے جہاں جمیعت علما اسلام ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ نواز اپنی حکومت قائم کر سکتی تھی لیکن وسیع تر قومی اتحاد اور سیاسی ہم آہنگی کی خاطر اس نے صوبے میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام کیا اور انہیں حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا تو دوسری جانب بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی زیر قیادت نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی قوم پرست مخلوط حکومت کو معاہدہ مری کے تحت حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کے اس اقدام کی تمام اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ستائش کی کیونکہ پہلی بار کسی نے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر عوامی مینڈیٹ اور ملی یکجہتی کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اعلیٰ مثال قائم کی۔ اسی لیے پنجاب کے پر فضا مقام مری میں 6جون 2013کو طے پانے والے معاہدے جس پر وزیر اعظم نواز شریف، نیشنل پارٹی کے راہنما میر حاصل بزنجو اور میپ کے راہنما محمود خان اچکزئی نے دستخط کیے کے موقع پر میر حاصل بزنجو اور محمود خان اچکزئی نے کہا تھا ”ہمیں پنجاب سے ہمیشہ شکوہ رہا ہے مگر آج پنجاب نے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جمہوری پاکستان کی تشکیل، کرپشن کے خلاف لڑنے اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے ایجنڈا ہے اور ہماری پشتون اور بلوچ قوم اس متحدہ جنگ میں شامل ہیں، اور آج خوشی کی بات ہے کہ پشتون بلوچ اتحاد اور پنجاب کی رہبری کے ساتھ اکٹھے یہ اعلان ہو رہا ہے ۔ ایک جمہوری پاکستان کی تشکیل میں یہ سنگ میل کی حیثیت رکھے گا“اسی معاہدے کی رو سے یہ طے پایا کہ وفاقی حکومت کے کل پانچ سالہ دور حکومت کا نصف عرصہ یعنی ”اڑھائی سال “ حکومت نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی پر مشتمل اتحاد کی ہو گی اور باقی نصف عرصہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی حکومت ہو گی۔بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلوچستان کے وہ واحد وزیر اعلیتھے جن کا تعلق نہ ہی کسی سابق حکمرانوں کے شاہی ریاستی خاندان سے تھا اور نہ ہی وہ کسی قبیلے کے سردار تھے۔ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق ایک مڈل کلاس خاندان سے ہے تاہم وہ پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں۔وہ تربت کے قریب سگنسار گاو¿ں میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم گاو¿ں کے اسکول سے حاصل کی جبکہ انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ کالج تربت سے کیا۔ بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد آنکھوں کی سرجری میں مہارت حاصل کی اور سیاست میں آنے سے قبل ایک طویل عرصہ ایک کلینک چلاکر عوام کی خدمت کی۔ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگینائزیشن (بی ایس او) بنانے میں ڈاکٹر عبدالمالک نے ایک اہم کردار ادا کیا جبکہ 1987ءمیں انہوں نے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی جس کا نام ’بلوچ نیشنل یوتھ موومنٹ‘ ( بی این وائی ایم) رکھا۔بی این وائی ایم کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد وہ ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ کے تعاون سے بلوچستان نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) قیام میں لائے اور ڈاکٹرعبدالحئی کو تنظیم کا چیئرمین منتخب کیا۔ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان اسمبلی کی نشست کے لیے پہلی مرتبہ 1988ءمیں انتخابات میں حصہ لیا جس کا پلیٹ فارم بلوچستان نیشنل اتحاد نے فراہم کیا اور اس کی قیادت نواب اکبر بگٹی اور سردار عطاءاللہ مینگل کر رہے تھے۔نشست حاصل کرنے میں عبدالمالک بلوچ کو کامیابی ملی اور انہیں نواب اکبر بگٹی کی کابینہ میں وزیر صحت بنایا گیا۔2004ءمیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی پارٹی (بی این ایم) اور میر حاصل خان بزنجو کی پارٹی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کا ملاپ ہوا اور اس تنظیم کا نام نیشنل پارٹی (این پی) رکھا گیا۔انہوں نے اپنے اڑھائی سالہ دور حکومت میں ناراض بلوچوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے بہترین کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کالعدم BLAکے قائد اور سابق بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی سے لندن میں ملاقات بھی کی اسی ملاقات کے بعد براہمداغ بگٹی نے نہ صرف مذاکرات کی میز پر آنے میں رضا مندی ظاہر کی بلکہ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں دیگر مسلح گروہوں اور علیحدگی پسند قیادت کو بھی مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنے کو کہا۔ ”بہت سارے معاملات میں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن انھیں کثرت رائے سے حل کیا جاسکتا ہے۔میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)، بی آر ایس او، بی ایس او-اے، نوابزادہ ہربیار مری، نواب مہران مری، سردار بختیار ڈومکی اور میر جاوید مینگل سمیت تمام آزادی کی حامی جماعتوں اور رہنماو¿ں سے درخواست کرتا ہوں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود بلوچ قوم اور شہیدوں کی قربانیوں کی خاطر قومی اتحاد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔میری جماعت بی آر پی ایک سیاسی اور جمہوری تنظیم تھی اور پر امن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ہر تحریک کو کسی نہ کسی نکتے پر مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے اور بی آر پی کو بھی بلوچوں کے مقصد کو پر امن اور سیاسی طریقے سے پیش کرنے کا حق حاصل ہے“ ۔ روزنامہ اوصاف سنڈے میگزین سے خصوصی طور پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک کے ترجمان سینیٹر جان بلیدی کا کہنا تھا کہ ڈھائی سال میں ہم نے فوج اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ سینکڑوں نئے تعلیمی ادارے قائم کیے ۔ پرائمری سکولوں کو مڈل تک اپ گریڈ کیا۔ نئے اساتذہ بھرتی کیے۔ بلوچستان میں جہاں قیام پاکستان سے اب تک صرف ایک یونیورسٹی تھی کو 5نئی یونیورسٹیاں اور 3میڈیکل کالج دیے۔ Skill Developmentکالجز بنائے ۔ مائننگ کے شعبے کو شفاف بنانے کے لیے مائننگ بورڈ تشکیل دیا۔ ا لبتہ انہوں نے شکوہ کیا کہ اندریں حالات بھی سیندک جو بلوچستان کا سب سے بڑا منرل پراجیکٹ ہے سے حاصل ہونے والی آمدنی کا محض 2فیصد بلوچستان کو ملتا ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں اصلاح احوال کا مطالبہ کیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ مالک حکومت ایران بارڈر سے سمگلنگ کی روک تھام ، پینے کے پانی اور نہری نظام کی فعالیت کے مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکی۔ لیکن انہوں نے قلت وقت اور دیگر گھمبیر مسائل کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک وزیر اعظم کے مشیر یا سینئیر صوبائی وزیر جیسا کوئی عہدہ بھی قبول نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ نیشنل پارٹی کے عام کارکن کی حیثیت سے کام کرنا پسند کریں گے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت چاہے اور ذمہ داری دے تو ڈاکٹر مالک علیحدگی پسند براہمداغ بگٹی، خان آف قلات اور ان کے ساتھیوں کو بلوچستان واپس لانے اور سیاسی عمل میں شراکت داری پر آمادہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
دوسری جانب مری معاہدے پر عمل درآمد سے بلوچستان کے سیاسی راہنماﺅں نے جس آئینی پاسداری ، جمہوری رویےاور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہےیہ بحران کے شکار بلوچستان میں قوم پرستوں کی مزاحمانہ جدوجہد، فوجی آپریشنز اور داخلی بدامنی کی پیچیدہ صورتحال میں ایک مثبت پیش رفت ہے جس سے بلوچستان کی مخلوط حکومت کا بدترین مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا۔اور یہ سب کچھ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو اقتدار سونپنے کے باعث ممکن ہوا اور اب اسی اسپرٹ کے تحت صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر وزیر سردار ثنااللہ زہری کو بلوچستان میں قیام امن، بھائی چارے، بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنماو¿ں کی وطن واپسی اور صوبہ کی معاشی ترقی کا بہت صبر آزما ٹاسک دیا گیا ہے۔سردار ثنااللہ زہر ی بلوچستان کے مضبوط قبیلے زہری کے سردار ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ چیف آف جھالاوان بھی ہیں۔ چیف آف جھالاوان بذات خود بلوچستان کا سب سے بڑا قبائلی عہدہ ہے ۔ بلوچ معاشرے میں چیف آف جھالاوان کو 40قبائلی سرداروں کے جرگے میں مشترکہ سردار منتخب کیا جاتا ہے۔ ان کے والد سردار دودا خان زہری پہلے قیوم لیگ اور پھر ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں شامل تھے بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ نواب ثناءاللہ زہری نے کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی سیاست کا آغاز غوث بخش بزنجو کی جماعت نیشنل پارٹی سے کیا۔ ان کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی بنا لی۔ 2010ء میں وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے، دو برس بعد انہیں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کا صدر بنا دیا گیا، وہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی کابینہ میں سینئر وزیر کے عہدے پر فائز تھے۔ نواب زہری نے 1990ء میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتا، انہیں پہلے تاج محمد جمالی کی کابینہ میں وزیر بنا دیا گیا، بعدازاں وہ ذوالفقار علی مگسی کی کابینہ میں بھی وزیر رہے۔ 1998ءمیں وہ بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ وہ 2002ء اور 2008ء میں بھی ایم پی اے منتخب ہوئے، پارلیمانی سیاست میں وہ ایک طویل کیریئر رکھتے ہیں۔ روزنامہ اوصاف سنڈے میگزین سے خصوصی بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے ترجمان علاﺅالدین کاکڑ کا کہنا تھا کہ پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے 29ارکان کی حمایت کے باوجود 14ارکان والی پارٹی کے وزیراعلیٰ کوڈھائی سال تک تسلیم کیا۔انہوں نے کہا وزیراعظم نوازشریف نے وعدہ پورا کرکے بلوچوں کے دل جیت لیے ، پنجاب اوربلوچستان کے درمیان بداعتمادی کی فضا ختم ہونے میں مدد ملے گی ،تمام گلے شکوے دورہوگئے ، وزیراعلیٰ ہاﺅس کے دروازے کارکنوں کیلئے کھل گئے۔ بلوچستان میں قیام امن پہلی ترجیح ہے ،گڈگورننس،کرپشن کا خاتمہ،ناراض فراری کمانڈروں کی واپسی،صوبہ کی تعمیروترقی،عوام کی خوشحالی ترجیحات میں شامل ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال میں مالک بلوچ نے بطور وزیراعلیٰ جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس میں ن لیگ کا بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کا مستقبل ہے ،منصوبہ کی تکمیل کیلئے امن وامان کویقینی بنایا جائیگا۔ انہوں نے کہا بیسیوں فراری کمانڈرز نے سردار ثنا اللہ زہری پر اعتمادکرتے ہوئے ہتھیار ڈالے اور وفاق کو مضبوط کرنیکا عزم کیا۔ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں فوج نے شاندار خدمات انجام دی ہیں، حالات درست سمت پر ڈالنے میں فوج کا نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے سابق مالک حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اتھاتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال بلوچستان کے پاس موجود 17ارب روپے خرچ نہ ہو سکنے کی وجہ سے واپس چلے گئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کوئٹہ میں کارڈیک ہسپتال بنانے کے لیے جو دو ارب روپے دیے تھے وہ بھی اسی طرح پڑے ہیں اور سابق وزیر اعلٰی نے بوجوہ یہ منصوبہ شروع نہیں کیا۔ اپنی حکومت کی ترجیحات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مالک مکران ڈویژن میں امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ آپ ہماری حکومت کے پہلے 6ماہ میں بلوچستان میں واضح تبدیلی دیکھیں گے۔ مسائل کا ادراک ہے اور انہیں حل کرنے کا راستہ بھی جانتے ہیں۔ آئی جی ایف سی اور نئے کور کمانڈر عامر ریاض کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔ ہم تمام اداروں کو ساتھ لے کر بہتر ٹیم ورک سے کام کریں گے۔
علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے سردار ثنائاللہ زہری کا ٹریک ریکارڈ شاندار ہے ۔ وزیر اعلیٰ نہ ہونے کے باوجود پچھلے اڑھائی سال میں انہوں نے اس حوالے سے نہ صرف مخلصانہ کوششیں کیں بلکہ ان کی یقین دھانیوں پر اہم ترین فراری کمانڈروں نے ہتھیار پھینک کر پاکستان کا قومی پرچم لہرایا۔ یاد رہے کہ مشرف دور میں جب 2004میں آپریشن شروع کیا گیا اور خان آف قلات نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تو ثنا اللہ زہری جو اس وقت بلوچستان کے وزیر داخلہ و جیل خانہ جات تھے نے احتجاجاً استعفا دے دیا تھا۔ یہ بات بھی کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ سردار ثنا اللہ زہری بلوچ علیحدگی پسندوں کے مابین اچھی شہرت کے حامل اور قابل احترام شخصیت گردانے جاتے ہیں اور امید کی جانی چاہیے کہ بطور وزیر اعلیٰ ان کی آمد سے بلوچستان میں جاری خونریزی کو روکنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔بطور وزیر اعلیٰ اپنی نامزدگی کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ”علیحدگی پسند بلوچ غیر فطری جنگ لڑ رہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ گوادر بندرگاہ اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کی تکمیل جلد کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اڑھائی سالہ دور میں بلوچستان میں تبدیلی لاﺅنگا۔ تمام چیلنجز کا بہادری سے مقابلہ کروں گا، آواران کے زلزلہ متاثرین سے کئے گئے وعدے پورے کریں گے۔ سرکاری ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم نوازشریف بلوچستان سمیت پورے ملک میں ترقی چاہتے ہیں۔ امن و امان کی بہتر صورتحال سے بلوچستان میں ترقی ہو سکے گی۔ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے بلوچستان کے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ خضدار میں ایسٹرن زون اور خضدار سے ڑوب تک ڈبل روڈ بنایا جا رہا ہے۔ تمام بلوچوں کو قومی دھارے میں لانا پہلی ترجیح ہے۔ گوادر بندرگاہ کی جلد تکمیل چاہتے ہیں۔ کور کمانڈر کوئٹہ میرے بہت قریبی دوست ہیں وہ امن و امان کے معاملات میں مجھ سے تعاون کریں گے“
پچھلے اڑھائی سال میں جہاں ڈاکٹر عبدالمالک حکومت نے تعلیم کے شعبے پر کافی توجہ دی ہے وہاں ثنا اللہ زہری حکومت کے لیے بلوچستان کو منرلز اور رائلٹی پر انحصار کرنے کی بجائے بلوچستان کو ایک صنعتی صوبہ بنانے کی جانب پیش قدمی کرنا ہو گی۔ انہیں یہ سوچنا ہو گا کہ خام مال کی دوسرے صوبوں اور ملکوں کو منتقلی کی بجائے تیار مصنوعات کی برآمد سے بلوچستان میں معاشی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے بے روزگار افراد کو فوری روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے اورصوبے میں تعلیم کی اہمیت کو دو چند کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں ایران کے ساتھ سمگلنگ کا کاروبار بہت وسیع ہے۔ ایران پر پابندیوں کے دور میں یہ زیادہ بڑے پیمانے پر پھیل گیا۔ اب ایران پر پابندیوں کے خاتمے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں ایرانی سرحد کے ساتھ ساتھ ایسی مصنوعات کے کارخانے لگا دئے جائیں جن کی ایران میں مانگ ہے۔ قلیل المدت منصوبہ بندی کے تحت ایسے کارخانے ہنگامی طور پر لگائے جاسکتے ہیں، جس سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ سمگلنگ کا دھندا باقاعدہ قانونی تجارت کی شکل اختیار کرلے گا۔ وفاقی حکومت اپنے وزیراعلیٰ کو کامیاب کرنے کے لئے ایسے چند منصوبے ہی شروع کرا دے تو اس کا بہت مثبت اثر ہوسکتا ہے۔بلوچستان میں سونے اور تانبے جیسی قیمتی دھاتیں موجود ہیں لیکن زیر زمین خزانے اب تک دبے ہوئے ہیں اور انہیں باہر نکالنے کی کوششیں ہمیشہ سازشوں کی نذر ہوتی رہی ہیں، سیندک اور ریکوڈک منصوبے اس کی مثال ہیں۔ صوبے کی اقتصادی ترقی کے ذریعے بلوچستان میں لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں لیکن اس کا اہتمام کرنا ہوگا کہ ترقی کے فوائد عام لوگوں تک پہنچیں۔