pin up casinomostbet1winpin up

پاکستانی باسمتی چاول اپنی منفرد خوشبو اور شاندار ذائقے کی وجہ سے مشہورہے۔اس کی مقبولیت اس قدر ہے کہ صرف برطانیہ میں گزشتہ سال ایک لاکھ نوے ہزار ٹن چاول استعمال کیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کپاس کے بعد پاکستان کی سب سے نقدآور فصل چاول ہے ۔ اس کے علاوہ کپاس کے بعد سب سے زیادہ برآمد کی جانے والی فصل بھی یہی ہے۔اس کی کاشت کا رقبہ تقریبا2.73ملین ایکڑہے جس سے 6.7ملین ٹن چاول کی پیداوار ملتی ہے۔مگر ہمارے ملک کا کاشتکاری نظام مکمل طور پر پرانے طرےقے کی مزدوری، پانی اور کیمیائی کھادوں پر انحصار کرتا ہے۔یہ طریقہ کفایت شعار ہے نہ پیداوری ےا پائیدار ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو اس سے قومی سطح پر کھانے کے تحفظ کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔بڑھتے ہوئے قلیل وسائل کے باوجود زیادہ چاول اگانے کے لےے پیداواری نظام کو بہتر بنانا ہو گا تاکہ وہ جاندار، موثر بہ لاگت اور ماحول دوست بن سکے۔
پہلے دھان کی پنیری اگائی جاتی ہے۔ پھر جب یہ تیس دن کی ہوجائے تو اسے پانی سے بھرے ہوئے کھیتوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ جس میں سطح زمین سے تازہ پانی اورزیرِ زمین پانی کے وسائل کاتیس فی صد استعمال ہوتا ہے۔ اس طرےقے سے ملک کی زرعی بنےاد میں سے سترہ ملین ایکڑ فٹ پانی ختم ہو جاتا ہے ۔ دھان کے کھیتوں کو پانی دینا مہنگا ہے کیوں کہ ٹیوب ویل کے ذریعے پانی دینے پر کافی لاگت آتی ہے۔ یہ خاص طور پر پنجاب کے لےے سچ ہے۔
فارم کی سطح پر دھان کی کم پیداوار کی وجہ یہ ہے کہ کھاد کی ساٹھ فی صد کے قریب مقدار ضائع ہو جاتی ہے جب کہ کھیت میں پودوں کی سفارش کردہ تعداد سے پینتیس فی صد پودے کم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح مزدوری کی بھی قلت ہے۔
اس مس¾لے کے حل کے لیے، ایک منفردتکنیک کی اشد ضرورت ہے جیسا کہ ٹھیکے پر چاول کی کاشت ، ہندوستان، بنگلا دیش اور دنیا بھر میںاس کو آزمایاگیا ہے۔ ان ممالک میں دھان کو براہِ راست کسانوں سے خرید لیا جاتا ہے ،پھر اسے فیکٹریوں کے ذریعے سے پروسیس کیا جاتا ہے تاکہ اچھی کوالٹی والا بین الاقوامی سطح پر قابلِ قبول چاول مل سکے۔اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تکنیکی معادنت اور مالی فوائد کے ساتھ فصل کی پیداوار اور آمدن کو بڑھایا جا سکے۔دنیا بھر میں چاول کی کاشت اور پروسیس کا بہترین طریقہ یہ ہے:
دھکیلنا:اس میں کاشتکاروں ، بالخصوص چھوٹے کاشتکاروں کی علم کی کمی کا حل کیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر عملی مظاہرے اور توسیع کو ظاہر کرتی ہے۔
کھینچنا: یہ فوائد کی کمی کا حل کرتی ہے۔ جو کسان چاول کاشت کرتے ہیں ان کو تحریک دی جاتی ہے کہ وہ پیداوار اور پانی لگانے کے طریقے بدلیںکیوں کہ ان کے خریدار اس تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں جو براہِ راست پریمیئیم یا منظم پروگرام کے فوائد پر مشتمل ہو۔
پالیسی: یہ حصہ پانی کے غلط استعمال کے حل پر زور دیتا ہے۔ جیسا کہ پانی کی تقسیم، نہری نظام کی بحالی اور آب پاشی کے لیے صحیح وقت۔ اس کام میں بہتری کی گنجائش ہے اور کوششیں درکار ہیں۔ یہ باتیں کسی ایک کسان یا نجی شعبہ کے کسی ایک ادارے کے بس سے باہر ہیں۔
کام میں بہتری کی گنجائش ہے اور کوششیں درکار ہیں۔ یہ باتیں کسی ایک کسان یا نجی شعبہ کے کسی ایک ادارے کے بس سے باہر ہیں۔
2013ءسے پنجاب بھر سے کسانوں کو ایک پائلٹ تحقیق میں شامل کیا گیا ہے، اس میں دھان کے شراکت دار، ہیلوی ٹاس انٹر کارپوریشن اور مارس فوڈ یعنی دھان کے تمام حصے دار شامل ہیں۔ عالمی ٹیکنیکوں پر غور کر تے ہوئے یہ مناسب ہے کہ پاکستانی باسمتی چاول کی عالمی سطح پر مقام کو بڑھانے کے لیے مندرجہ¿ ذیل اقدامات کیے جائیں:
باسمتی چاول اُگانے کے لیے پانی کے انتظام کی بہتر روش وضع کریں۔
کسانوں کو تعلیم دی جائے اور ان کی مدد کی جائے خصوصاً پانی بچانے کی جدت پر مبنی ٹیکنالوجی کے سلسلے میں۔
کاشت کے بہترین طریقوں کو عملی طور پر استعمال کر کے دکھایا جائے اور انھیں استعمال کرنے کے لیے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
تما م کسانوں کو ہدف بناتے ہوئے تعلیم اور مدد کا اہتمام کیا جائے۔
مواد اور حکمت عملیوں کو دور دراز تک پہنچایا جائے۔
چاول کے علم پر مشتمل آن لائن ہب بنائی جائے۔
چاول سے متعلقہ موبائل ایپلی کیشن بنائی جائے اور کسان دوست فیصلہ سازی کے آلات بنائے جائیں۔
پائیدار وسائل اور کاروباری کیسوں کو فروغ دیا جائے (فارم، سپلائی اور چین)
مہارتوں ، اشتہار بازی اور ابلاغ کے وسائل میں باہم رابطہ پیدا کیا جائے۔
آگاہی بڑھانے کے لیے سرگرمیاں کی جائیں نیز پالیسی سازوں، باقاعدہ کرنے والوں اور نجی شعبے کو شامل کر کے خطرے سے نمٹنے کی حکمتِ عملی تشکیل دی جائے۔
اہم حصے داروں کو شامل کر کے شہادت پر مبنی پالیسی کی سفارشات تیار کی جائیں جو قومی سطح پر پائیداراور خوش نما کاروبار کی طرف لے کر جس سکیں۔
ایک مالیاتی تصور تشکیل دیں تاکہ اس اہم فصل کی مدد کرنے کے لیے طویل المیعاد حکومتی پروگرام کو فنڈنگ کی جا سکے۔
ہم کہاں سے آغاز کریں گے؟
پہلا مرحلہ: قومی بیس لائن سروے کے تحت ہر کسان خاندان کے بارے میں معلومات جمع کریں۔ ان معلومات میں تعلیم کی سطح، خاندان کا سائز، کھیت مزدوری، ملکیتی رقبہ، پیداوار کی سطح اور کھیت کے علاوہ ہونے والی آمدن شامل ہوں۔
دُوسرا مرحلہ: زمین کو لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے ہموار کیا جائے، تاکہ کھیت میں ہر جگہ یکساں پانی پہنچ سکے۔
تیسرا مرحلہ: پنیری سے چاول کاشت کرنے کے بجائے براہِ راست بیج سے فصل اُگائی جائے۔
کسانوں کے اندر یہ غلط تصور موجود ہے کہ دھان کی فصل کو بہت زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔ پانی کی قلت کے باعث کسان دھان کی فصل کاشت نہیں کرتے یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مہنگا کام ہو گا جس سے اُنھیں مالی مشکلات برداشت کرنی پڑیں گی۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اس فصل کوزیادہ پانی دینے سے چاول کی کوالٹی گر جاتی ہے۔
کچھ ہمسایہ ممالک میں دھان کی فصل کو گندم یا مکئی کی طرح کاشت کیا جاتا ہے کیوں کہ دونوں کو انتہائی کفایتی، پائیدار اور پیداواری سمجھا جاتا ہے۔ پنیری کاشت کرنے اور پھر اسے ہاتھوں سے کھیتوں میں منتقل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دھان کی فصل کوبڑھنے پھولنے کے لیے نمی والی حالت کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ پانی سے لبالب بھرے کھیتوں کی۔ اس احساس اور علم سے کسانوں کے وقت کی بچت ہو گی (اندازاً سات سے دس ایام)۔ اس سے پچاس فی صدکم محنت اورتیس فی صد کم پانی درکار ہو گا جب کہ پیداوار میں پندرہ فی صد اضافہ ہو گا۔ پنیری منتقل کرنے کے روایتی طریقے کے مقابلے میں فی ایکڑ آٹھ ہزار روپے کی بچت ہو گی۔
فلپائن کے دھان کے بین الاقوامی ادارے نے ایک متبادل طریقے کی سفارش کی ہے، اس کا نام ہے گیلا کرنا اور خشک کرنا۔ پلاسٹک کے پائپ جن کے اندر سوراخ ہوں (اٹھارہ انچ لمبے اور نو انچ قطر) ، یہ پائپ صرف اسی وقت آب پاشی کریں گے جب پانی کی سطح دس سے بارہ انچ کی گہرائی تک گر جائے۔ اس سے پانی کی تیس سے چالیس فی صد بچت ہو گی اور اس سے فصل کی پیداوار پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس طریقے سے ماحول پر بھی کوئی برا اثر نہیں پڑتا اور میتھین گیس کا اخراج بھی نہیں دیکھا گیا۔ ادارے نے حکومت پر بھی زور دیا ہے کہ وہ پانی کے کھالوں میںرکاوٹیں دُور کرنے کے لیے کسانوں کی مدد کرے تاکہ پانی کے پہاﺅ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
پاکستان کے دھان سے آنے والی خالص اور منفرد خوشبو جس کا باعث ہمالیہ سے آنے والا پانی ہے، اب ہندوستان اور بنگلا دیش کا کم خوشبودار دھان اُس سے آگے نکل گیا ہے، یہ ایک عالمی فراڈ ہے۔ فوڈ سٹینڈرڈ ایجنسی نے اس معاملے کی تفتیش کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ
برطانیہ کو بیچے گئے سارے باسمتی چاول کا تقریباً نصف گھٹیا قسم کے لمبے چاول پر مشتمل تھا۔ پھولے پھولے نرم باسمتی کے چاولوں کے پیالے کے بجائے چپکنے والی خوراک ہے جو شبہ نہ کرنے والے عوام کو آمیزش کر کے سستی اورزیادہ نشاستے والی ورائیٹیاں بنا کر دی گئی۔ ہمارا باسمتی چاول ہمارا برانڈ ہے جو اپنی قدروقیمت کھونے کے ساتھ ساتھ آمدنی میں بھی کم کاباعث بن رہا ہے۔
آئیے ہم ٹیکنالوجی کو اپنائیں۔ جیسا کہ پنجاب کا محکمہ زراعت گاﺅں کی سطح پر میٹنگیں کر رہا ہے اور کواپریٹو فارمز کے بکثرت دورے بھی کر رہا ہے تاکہ چاول اگانے کی جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی رفتار تیز کی جا سکے۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے باسمتی کی فرحت بخش خوشبو محسوس کر سکیں گے اور ارتقا پاتے ہوئے پاکستان کی برآمدات کو جاری رکھ سکیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *