بخاری اور مسلم میں روائت ہے کہ ایک بار صحابہ کرام ؓسے نبی پاک ﷺ نے فرمایاکیا تم جانتے ہو کہ خیرات، روزوں اور نماز سے زیادہ بہتر کیا ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا۔ ”امن اورلوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات “۔ ایک اور حدیث میں مروی ہے، ”تم دوسروں کو معاف کرو۔ اﷲ تمہیں معاف کرے گا“۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا
”سب سے افضل جہاد اپنے نفس سے لڑنا ہے“۔ پھر ارشاد فرمایا ”تم میں سے کوئی اس وقت مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔ ”PEACE “قدیم فرانسیسی زبان کے لفظ PAIS اور لاطینی زبان کے لفظ PAXسے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیںدو مختلف سماجی گروہوں کے درمیان تشدداوردشمنی اور انتقامی جذبات کی عدم موجودگی ۔ دنیائے جدید میں ”امن“ اپنے اندر وسیع معانی سموئے ہوئے ہے۔ امن کے لیے مخلصانہ کوششیں،صحت مند آپسی اور ریاستی تعلقات کی موجودگی ، معاشرتی اور معاشی معاملات کی اصلاح، نظام انصاف وبرابری اور ایسا سیاسی و عمرانی معاہدہ جو تمام انسانوں کے جائز مفادات کی حفاظت کرے سب امن کے وسیع معانی کا حصہ ہے۔ 1981میں اقوام متحدہ نے سرد جنگ اور قوموں کے درمیان عداوت کے خاتمے کے لیے پہلی بار ایک قرارداد منظور کی جس میں ستمبر کے تیسرے منگل (یہ وہ دن ہے جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس شروع ہوتا ہے) کو امن اور جنگ بندی کا عالمی دن قرار دیا گیا۔پہلی بار 1982میں یہ دن منایا گیا۔ ایک مقررہ تاریخ کی بجائے ستمبر کا تیسرا منگل ہر سال مختلف تاریخ کو آتا تھا جس وجہ سے اس کو عوامی پزیرائی حاصل نہ ہو سکی ۔ لہٰذا 2001میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اس دن کو منانے کے لیے 21ستمبر کی تاریخ مقرر کر دی۔ تب سے پوری دنیا میں یہ دن تمام ممالک میں پورے احترام سے منایا جاتا ہے۔
امن کی کئی اقسام ہیں جن میں سے سب سے اہم ”اندرونی امن “ ہے ۔ اندرونی امن سے مراد کسی انسان کے ذہن وروح کا حالت سکون میں ہونا ہے جب اس کے پاس مخالفت اور انگیخت کے مقابلے میں اپنے آپ پر قابو پانے اور اپنے حواس کو مجتمع رکھنے کا حوصلہ موجود ہو۔ دنیا کی تاریخ میں جتنی اموات Inner Peaceکی غیر موجودگی کی وجہ سے ہوئی ہیں اتنی اقوام عالم کے درمیان جنگوں سے نہیں ہوئیں۔ فن لینڈ کے مشہور اینتھروپالوجسٹ ”ڈوگلس فرائی “ اور ”پیٹرک سوڈربرگ“ نے زمانہ قدیم کے انسانوں پر کی جانے والی اپنی تحقیق میں لکھا ۔ ”تاریخی حوالوں میں دستیاب 148پرتشدد واقعات میں سے 55فیصد ذاتی عناد اور عدم برداشت پر مبنی قتل تھے جبکہ باقی ماندہ گروہی یا قبائلی لڑائیوں میںسے 37فیصدخاندانییا انتقامی تھیں۔ صرف 8فیصد واقعات ایسے تھے جن میں سرداری یا تاج پر قبضے کی نیت اور اپنی طاقت منوانے کے لیے جنگ کی گئی “ ۔
دنیا میں امن کے لیے قائم کی گئی مشہور یادگاروں میں اقوام متحدہ بلڈنگ نیو یارک میں ”جاپانی امن گھنٹی “ ، امریکہ اور برطانیہ میں امن کے 100سال مکمل ہونے پر شکاگو میں ”وقت کافوارہ“ ، ڈنمارک، ناروے اور سویڈن میں1720میں طے پانے والے امن معاہدے کی یاد میں بنایا گیا ”فریڈنزبرگ محل “ اور امریکہ اور کینیڈا میں امن کی یادگار ”عالمی باغِ امن “، برسلز میں ”مجسمہ یورپ“شامل ہیں۔ امن کی یہ یادگاریں دراصل ان جنگوں کے بعد وجود میں آئیں جنہوں نے لمحوں، دنوں ، مہینوں اور سالوں میں اربوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اگر دنیا میں ہونے والی مہلک ترین جنگوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ درج ذیل ہیں۔

ان جنگوں نے نہ صرف ان ملکوں کی معیشت کو تباہ کیا بلکہ ماحول اور افراد کے انفرادی طرز عمل پر بھی برے اثرات ڈالے۔ لقمہ اجل بننے والے انسانوں کی اکثریت بے گناہ اور نہتے عوام کی تھی۔جنگ!! یہ لفظ بذات خود کتنا خوفناک ہے؟قدیم زمانے کی تمام جنگیں مل کر بھی جنگ عظیم اول اور دوم کی تباہ کاریوں کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔ چنگیز خان ، ہلاکو خان، سکندر اعظم ، منگول اور نپولین کی فوجوں نے چار دانگ عالم میں مل کر جو تباہی مچائی اس پر دور جدید کے ”تعلیم یافتہ “اور ”مہذب“ انسان بازی لے گئے ہیں۔ تعلیم انسان کو خدا سے روشناس کرواتی ہے اور اسے برادشت، بردباری اور حلم سکھاتی ہے مگر جدید سائنس کا خوفناک استعمال کرنے والا انسان ان قدیم انسانوں سے کہیں آگے نکل گیا ہے جو تیغ زنی کے ذریعے خون بہاتے تھے۔ مشین گنوں، گن شپ ہیلی کاپٹروں، ڈیزی کٹر، نیپام ، ایٹمی اور ہائڈروجن بموں سے لیس دور حاضر کا انسان قدیم انسان سے کہیں زیادہ سفاک، سنگ دل اور ظالم ہے۔ وہ ہتھیار جو نہ صرف دور حاضر کے انسانوں کو لمحوں میں صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں بلکہ مستقبل میں دنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں کے اند ر ایسی جینیائی تبدیلیاں پیدا کر سکتے ہیں جس سے صدیوں تک مفلوج انسان پیدا ہوتے رہیں گے آج کے انسان کی ملکیت ہیں۔ ایسے میں سوائے امن کے کیا راستہ باقی بچتا ہے؟ لیکن آج افغانستان، عراق، افریقن بوکوحرام، شام، اسرائیل و فلسطین، صومالیہ،نائیجیریا، لیبیا، کشمیر، دارفر، یمن، سوڈان اور میانمارمیں پھیلی جنگیں اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ تعلیم اور مذہب نے دور حاضر کے انسان کا کچھ نہیں ”بگاڑا“۔ صدیوں میں جانوروں سے انسان کی شکل اختیار کرنے والا یہ ذی روح آج بھی جانوروں سے بدتر ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ زمانہ قدیم کا انسان آج کے انسان سے کہیں زیادہ باشعور اور بہتر تھا۔ امن معاہدوں کو ہی لی لیجیے۔ میسوپوٹیمیا کے دور کی دو ریاستوں ”لاگاش “ اور ”اوما“ میں دنیا کا پہلا تحریری امن معاہدہ2100 (ق۔م)میں کیا گیا۔ 1283(ق۔م) میں ”کدیش“کی جنگ کے بعد مصر میں فرعون دوم اور”ہتسلی سوم“ کے دمیان ، 493(ق۔م)میں روم اور یونان کے درمیان، 445(ق۔م)میں یونان اور سپارتا کے درمیان، 628عیسوی میں مسلمانوں اور قریش کے درمیان ، 638عیسوی میں مشرقی اور مغربی ترکی میں امن معاہدے کیے گئے۔
دنیا میں اب تک ہونے والے امن معاہدوں کے دستیاب اعدادو شمار سے کی گئی ہماری تحقیق کے مطابق 2100(ق۔م) سے 85(ق۔م) تک اقوام عالم میں جنگوں سے بچنے کے لیے 15امن معاہدے کیے گئے۔ 387عیسوی سے 1192عیسوی تک 47، 1200-1299عیسوی تک44، 1300-1399 عیسوی تک 39 ، 1400-1499تک 59، 1500-1599تک 72،1600-1699تک 126، 1700-1799تک 131، 1800-1899تک 222،1900-1999تک 394 اور 2000سے اب تک 15سالوں میںقوموں کے درمیان 37امن معاہدے کیے جا چکے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی کی نسبت حال میں امن معاہدوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ اس سے دو نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ آج کا انسان ماضی کے انسان کے مقابلے میں امن کا زیادہ خواہشمند اور ضرورتمند ہے۔ دوم یہ کہ زمانہ قدیم کا انسان دور حاضر کے انسان کے مقابلے میں زیادہ امن پسند تھا۔ کم امن معاہدے دنیا میں کم انتشاراور زیادہ امن معاہدے زیادہ انتشار کی نشاندہی کرتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان میں برداشت اور تحمل کی شدید کمی واقع ہوتی گئی۔ امن کی کوششوں کے باوجود شامی خانہ جنگی میں 2013کے 73,444افراد کے مقابلے 2014میں 76,021افراد ہلاک ہوئے۔ افغانستان 2013کے 10,172کے مقابلے میں14,638، نائجیریا 2013کے 4,727کے مقابلے میں11,529، لیبیا 2013کے643کے مقابلے میں2,885 اور عراق میں 2013کے 9,742کے مقابلے میں2014میں21,073افراد ہلاک ہوئے۔ ان اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امن کی شدید خواہش کے باوجود انسان امن حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی امن و سکون سے گزرے ، فساد اور دنگے کی ہوابھی اسے نہ لگے۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی وہ پر امن دیکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی توجہ صرف معاشہ جدو جہد میں صرف کرتا رہے۔ ترقی اور کامیابی اس کے قدم چومے۔ ہر طرف امن کا موضوع چھایا ہوا ہے۔ لیکن امن ہے کہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ہر طرف بے اطمینانی اور پریشانی کا دور دورہ ہے۔ جس کو بھی موقع ملتاہے دوسرے کے حقوق پامال کرنے ، اس پر ظلم و ستم ڈھانے اور دستِ تعدّی دراز کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ کوئی سیاسی، مذہبی یا لسانی گروہ دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ طاقتور ممالک کمزور ممالک پر اپنا حکم چلانے اور دھونس پر مبنی نیو ورلڈ آرڈر دینے میں مصروف ہیں۔ گویا امن کا زبردست شہرہ ہونے کے باوجود وہ کلیتاً مفقود ہے۔ ہر طرف فتنہ و فساد کا دور دورہ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
ظَہَرَال±فَسَاد±فِی ال±بَرِّ وَال±بَحرِ بِمَا کَسَبَت± اَیدَالناَّس الرُوم± : ۱ ؑ
ترجمہ: خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے
تمام مفکرین اور سیاسی مصلحین پریشان ہیں کہ اس فتنہ و فساد کا ازالہ کیسے کیا جائے۔ مختلف ممالک کے سربراہان باہم ملتے ہیں تو امن کا چرچا ہوتا ہے۔ لیکن قیام امن کے لیے کو ئی کارگر نسخہ ان کے ہاتھ نہیں لگ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی تمام کوششیں سطحی ہیں۔ وہ نہ مرض کے اصل اسباب کو جاننے کی سعی کرتے ہیں اور نہ بد امنی اور فساد کو جڑ سے ختم کرنے کی تداببیر اختیار کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی سطح پر امن کو سب سے پہلے اختیار کیا جائے۔ مذہب اس سلسلے میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے ۔ حضرت عیسی ٰ ؑ نے اپنے پیروکاروں کو امن کا درس دیا۔ ”جان 14:27“ بائیبل میں درج ہے ”وہ اس شخص کو امن میں رکھے گا جو تیری (رب) کی طرف رجوع کرے گا۔کیونکہ اس نے تجھ پر بھروسہ کیا“۔ اسی طرح ”پسام 119:165“ میں درج ہے ”وہ لوگ دنیا میں امن سے رہتے ہیں جو خدا کے قانون کی پیروی کرتے ہیں۔ “ اسلام نے امن کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے۔
قرآن پاک (5:32)میں ارشاد ہے۔ ”جس نے ایک بے گناہ انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا“۔سورة النسا میں اﷲ پاک نے غلط خبر (غلط فہمیاں) پھیلانے کو نقص امن کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے ”یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش (اپنے لئے) یا خوفناک خبر (دوسروں کے لیے) سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ تم لوگوں پر اﷲ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھی کہ ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔ “
ہندودھرم کی بات کی جائے تو ”بھگوت گیتا 18.61-62“ میں درج ہے ”اور بھگوان تم میں سے ہر ایک کے دل میں رہتا ہے۔ اسی میں پناہ حاصل کرو۔ اسی کے کرم سے تمہیں ہمیشگی کا سکون ملے گااور وہ امن جس کو زوال نہیں۔ “ سکھ مذہب کے گرو ”نانک صاحب“ کی کتاب ”گرنتھ“ میں لکھا ہے ”اور خدا کو سب سے پیارا وہ ہے جو دوسروں کو امن میں رکھے “۔ دنیا میں کوئی مذھب ایسا نہیں جو دھشت گردی اور فساد فی الارض کا درس دیتا ہو۔ قصور صرف انسانوں کا ہے جو مذہب کی تعلیمات کوبھولے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی مثال ہی لے لیجیے۔ مسلسل حالت جنگ میں موجود اس ملک عزیز کی بنیادوں کو عدم برداشت اور قتل و غارت گری نے کھوکھلا کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ نہ صرف مذہب بلکہ سیاست بھی شعور و نظریات سے عاری، اپنے معنوی اعتبار سے لاچارو بے بس اسی فرقہ واریت کی غلام دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک عزیز میں ہزاروں افراد ہر سال اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔دوسری جانب کشمیر کے عوام اپنی بے بسی اور لاچاری کا رونا رو رہے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ بھارت امن و آشتی کی بجائے دہشت گردی اور بد امنی کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔ کاش ہم سب امن کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور اس کے ثمرات سے مستفیذ ہو سکیں۔
آئیے ہم بھی امن عالم میں اپنا حصہ ڈالیں کیونکہ مسلئہ بندوق چلانے والے کا نہیں بندوق دینے والے کا ہے۔ خطرہ کسی خودکش حملہ آور سے نہیں خطرناک تو حملہ آور سوچ ہے اور اس سوچ پر عمل درآمد کے لیے وسائل اور ماحول مہیا کرنے والے ہیں۔ اگر حملہ آور درس اور سوچ باقی رہی تو چوکیدار، مسجدوں اور درباروں پر کھڑے گارڈ اور عبادت گزار، بموں اور خودکش بموں کا راستہ نہیں روک سکتے۔ اگر روکنا ہے تو اس درس کو روکا جائے اس تحریک کے محرکین کا محاسبہ کیا جائے۔ دعا ہے کہ اﷲ پاک پاکستان اور عالم اسلام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو امن کا گہوارہ بنائے۔
سائیڈ سٹوریز
۱۔ آج دنیا کے نقشے پر موجود ممالک میں سے سب سے لمبے عرصے تک پر امن رہنے والا ملک ”سویڈن“ ہے جس نے نپولین جنگوں کے دوران روس کو اپنا کافی سارا حصہ کھو دیا تھا۔ لیکن 1814میں طے پانے والے امن معاہدے کے بعدآج تک ( 201سال ) میں یہ ملک کسی جنگ کا حصہ نہیں رہا۔
۲۔ دنیا کی تاریخ کے کامیاب ترین امن معاہدوں میں ”صلح حدیبیہ “ اور ”اعلان فتح مکہ“ سر فہرست ہیں۔دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ”اسلام“ انہی امن معاہدوں کی وجہ سے پھیلا۔
۳۔ دنیا میں امن کے طویل ترین ادوار میں 1603-1868تک کاجاپانی ”آئیسولیشنسٹک ایڈو دور“ (250سال) ،جنوب مشرقی ترکی میں 700-950عیسوی کا ”خزاریکہ معاہداتی دور“ (250سال) اور رومن سلطنت کا ”رومانہ معاہداتی “206سالہ دور شامل ہیں۔
۴۔ دنیا میں امن کا سب سے بڑا انعام ”نوبل پیس پرائز “ ہے۔ یہ ایوارڈ نوبل کمیٹی کی جانب سے 1901میں شروع کیا گیا۔ یہ ایوارڈ ہر سال دنیا میں اس ایک شخص کو دیا جاتا ہے جس نے امن عالم کے قیام کے لیے نمایاں خدمات سر انجام دی ہوں۔
۵۔ امن کے قیام کے لیے قائم کیا گیا سب سے بڑا عالمی ادارہ ”اقوام متحدہ “ ہے۔ یہ ادارہ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945میں قائم کیا گیا۔ اس کا مقصد ملکوں کے درمیان جنگوں کا خاتمہ اور مذاکرات کے لیے موزوں پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔